مشکل فیصلے اور عوام کی حالت زار
تجزیہ کاروں کے تجزیے سو فیصد درست ہیں اور اب حالات یہ ہوچکے ہیں کہ بے روزگار مہنگائی کا سامنا نہیں کر پا رہے
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ اس ملک میں جو جتنا طاقتور ہے وہی تباہی و بربادی کا ذمے دار ہے۔ حکمرانوں کے دلوں میں جو درد ہے وہ ڈسکو درد ہے اس لیے وہ سب عوام کو سہولیات دینے کے بجائے صرف اپنی مراعات بڑھانے میں مصروف ہیں اور وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے سخت اقدامات نہ کیے تو قیامت تک آئی ایم ایف سے جان نہیں چھڑا سکیں گے۔ تجزیہ کار کے مطابق وہ کون سی قیامت ہوتی ہے کہ جو ابھی نہیں آئی۔
عوام کے لیے موجودہ حالات قیامت سے کم نہیں کہ اب ان بچوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں، علاج کے لیے پیسے، تعلیم کے لیے فیسیں نہ ہوں اور گھر جاتے ہوئے آپ ڈرتے ہوں کہ بچے کھانے کے لیے کچھ مانگیں گے اس سے بڑی قیامت کیا ہوگی؟
تجزیہ کاروں کے تجزیے سو فیصد درست ہیں اور اب حالات یہ ہوچکے ہیں کہ بے روزگار مہنگائی کا سامنا نہیں کر پا رہے اور خودکشیاں کر رہے ہیں۔ ماں باپ اتنے مجبور ہو گئے ہیں کہ اپنے بچوں کو پال نہیں پا رہے، کہیں بچوں کو نہروں میں پھینکا جا رہا ہے، کہیں بچوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے، غریبوں کے گھروں میں فاقے ہو رہے ہیں، لوگوں کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل میسر آ رہی ہے۔ لوگ اپنے بیماروں کا علاج نہیں کرا پا رہے اور اپنے بچوں کو مہنگی تعلیم کے باعث سرکاری اسکولوں میں بھی تعلیم دلانے کی پوزیشن میں نہیں اور اپنے چھوٹے بچوں کو کہیں کام پر لگا کر چاہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے گھر کے خرچ میں سہارا مل جائے۔
لوگ مجبوری میں بڑی مساجد میں امام صاحب کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہوکر اپنے دکھڑے اور مجبوریاں بیان کر کے راشن اور دواؤں کے لیے مدد مانگ رہے ہیں۔ مساجد میں اپنی ضروریات بیان کرنے والوں میں ضعیف بزرگ بے روزگار نوجوان اور وہ سفید پوش شامل ہیں جو خود لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے مگر آج حالات اور حکومت نے ایسے لوگوں کو بھی ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا ہے جس کا انھوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ شرم کے مارے یہ لوگ منہ پر ماسک پہن لیتے ہیں اور مختلف مساجد میں جا کر نمازیوں سے مدد مانگ رہے ہیں اور اللہ کو گواہ بنا کر حالات بیان کرتے ہیں۔ مساجد کے امام ان مانگنے والوں کو منع بھی کرتے ہیں کہ مساجد میں مانگنا شرعی طور پر منع ہے مگر لوگ بھی اپنی حاجت روائی پر مجبور ہو چکے ہیں۔
حکمران عوام کا بالکل نہیں سوچ رہے کہ وہ کن حالات سے گزر رہے ہیں اور ان پر قیامت گزر رہی ہے اور حکمرانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے اب جھوٹی امیدیں بھی باقی نہیں ہیں کیونکہ ہر حکمران نے سالوں سے عوام سے جھوٹ ہی بولا ہے کسی نے سچ نہیں بولا اور آئی ایم ایف سے مسلسل ڈرایا جاتا رہا ہے کہ معیشت کی بہتری کے لیے قرض لینے پر مجبور ہیں اور مشکل فیصلے بھی ملک و قوم کی بہتری میں کر رہے ہیں۔
23 بار آئی ایم ایف سے بھاری قرضے لے کر حکمرانوں کا پیٹ نہیں بھر رہا اور وہ عوام کا مزید پیٹ کاٹ رہے ہیں اور عوام سے ہی مزید مشکل برداشت کرنے کا درس دے رہے ہیں مگر خود کوئی مشکل برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ سب بوجھ غریبوں پر لادا جاتا رہا ہے جس سے عوام کی کمریں جھک گئیں مگر سالوں سے حکمرانی کرنے والوں کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ خراب معاشی حالات کا بار بار ذکر کرکے عوام سے قربانی پہ قربانی مانگنے والے خود کوئی قربانی نہیں دے رہے بلکہ اپنی مراعات اور تنخواہوں میں خود ہی اضافہ کر لیتے ہیں۔
یہ اپنے حکومتی اخراجات کم کرنے کے بجائے بڑھاتے آ رہے ہیں۔ حالیہ سخت بجٹ میں بھی ایوان صدر اور پرائم منسٹر سیکریٹریٹ کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ مفت خوروں کو اربوں روپے ماہانہ کی بجلی، گیس، پٹرول و مراعات کے حصول کا حق حاصل ہے جب کہ عوام کے تمام حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔ عوام کو ٹیکسوں میں نچوڑ کر بھی حکمران مطمئن نہیں اور ٹیکس لے کر حقوق دینے کے بجائے عوام پر ہی الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس نہیں دیتے اور سہولتیں مانگتے ہیں۔
سالوں سے چلا آ رہا ہے کہ عوام جسے ووٹ دیں اقتدار کسی کو مل جاتا ہے۔ حکومت اور اشرافیہ کو یقین ہو چکا ہے کہ وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں نہ انھیں عوام کے ووٹوں کی کوئی ضرورت ہے تو وہ عوام کی فکر کیوں کریں اس لیے نظام میں عوام کا عمل دخل باقی نہیں رہا۔تجزیہ کار درست کہتے ہیں کہ ہماری ایلیٹ کلاس نے صرف اپنا اسٹیٹس برقرار رکھنا ہے۔ ملک یا معاشی بہتری ان کا مقصد ہے ہی نہیں۔ ان کا مقصد مراعات بڑھانا اور پھر اپنی ان مراعات کا دفاع کرنا رہ گیا ہے جو یہ کر رہے ہیں اور اپنے مقصد میں مکمل طور کامیاب بھی ہیں۔
بھٹو کیس کی تفصیلات میں عدلیہ کا کہنا ہے کہ غیر شفافیت، غیر قانونی اور غیر آئینی خامیاں، پارلیمنٹ میں کی جانے والی تقاریر سے عدالت کا واسطہ نہیں۔ پارلیمنٹ اپنے فیصلوں میں مکمل آزاد ہے جن میں عدلیہ مداخلت نہیں کر سکتی۔ اربوں، کھربوں پتی ارکان پارلیمنٹ عوام پر مزید قیامت ڈھانے کے لیے آزاد ہیں۔ عدلیہ انھیں صرف غیر آئینی فیصلوں سے روک سکتی ہے۔ مہنگائی و بے روزگاری بڑھانے کے لیے سخت سے سخت فیصلے کرنا غیر آئینی نہیں حکومت کا اختیار ہے اس لیے ملک میں عوام کا جینا ناممکن بنا دیا گیا ہے اور عام آدمی کو صرف قبر میں اتارنا باقی رہ گیا ہے۔
عدلیہ حکومت سے یہ تو پوچھ سکتی ہے کہ لوگ کیوں خودکشیاں کر رہے ہیں، آئی ایم ایف کے قرضے اور عوام سے وصول ہونے والے ٹیکس کہاں خرچ ہوئے، ان کے بدلے عوام کو آئینی حقوق کیوں نہیں ملے، بے تحاشا ٹیکس کیوں لاد دیے گئے خزانہ خالی کیوں ہے،شاید اس طرح عوام کا بھلا ہو جائے۔