ناکوں چنے چبوا کر بھی مطمئن نہیں
نیٹو ممالک اور خود امریکا کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن ہمارا مستقبل یقیناً تاریک ہوگیا۔
وطن عزیز اور اس میں بسنے والے کروڑوں لوگوں کی بدنصیبی ہے کہ 77 برسوں میں انھوں نے ایک دن بھی خوشحالی کا نہیں دیکھا۔ جب سے یہ ملک معرض وجود میں آیا ہے ہمیشہ بحرانوں میں ہی مبتلا رہا ہے۔ ''ملک اس وقت شدید بحران میں مبتلا ہے'' یہ سنتے سنتے ہمارے کئی بزرگ دار فانی سے کوچ بھی کر گئے اور جو ابھی زندہ اور بقید حیات ہیں وہ بھی شاید اچھے دنوں کی حسرت لیے ہی رخصت ہوجائیں گے۔
ہمیں اس حال میں پہنچانے کا سہرا ہماری سمجھ میں نہیں آتا کس کے سر باندھیں۔ جتنا قصور سیاستدانوں کا ہے اس سے کہیں زیادہ اُن قوتوں کا ہے جو ہر چند سال بعد سیاسی اتھل پتھل کر کے اس ملک میں عدم استحکام پیدا کرتی رہی ہیں۔ قوم صرف سیاستدانوں ہی کو موردِ الزام کرتی رہی ہے۔ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کر کے جو سیاسی ابتری پیدا کی گئی تھی وہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔یکے بعد دیگرے وزرائے اعظم تبدیل کیے جاتے رہے تا وقتیکہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان برسر اقتدار نہیں آگئے۔ اس ملک میں اگر کچھ سکون اور ٹہراؤ آیا ہے تو وہ بھی ہمیشہ صرف مارشل لاء ادوار ہی میں آیا ہے۔
ایوب خان کے دس سال، محمد ضیا الحق کے گیارہ سال اور جنرل مشرف کے نو سال ایسے گزرے ہیں جس میں عوام نے سکون و اطمینان سے کچھ دن گزارے ہیں،کیونکہ ہمارے یہاں سازشیں ہمیشہ سول حکمرانوں کے خلاف کی جاتی رہی ہیں۔غیر سول حکمرانوں کو بلاوجہ تنگ نہیں کیا جاتا ہے۔
اس میں پس پردہ جوکردار رہے ہیں ان میں مرکزی کردار امریکا بہادرکا بھی رہا ہے۔ اس نے ہمارے ملک میں کبھی استحکام دیکھنا ہی نہیں چاہا۔ عدم استحکام پیدا کر کے ہماری ترقی وخوشحالی کا راستہ روکنا اور ہمیں اپنا محتاج اور غلام بنائے رکھنا ہی اس کا اصل مقصد اور ایجنڈا ہے، وہ کبھی بھی ہمیں خود مختار اور خود کفیل ہونے نہیں دے گا۔ ہمارا ایٹمی پروگرام اور سی پیک منصوبہ اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ہمارے یہاں جس جس سول حکمراں نے ایسے منصوبے دیے، اس نے انھیں نشان عبرت بنادیا، وہ ہمارا دوست نما دشمن ہے۔ افغانستان کی لڑائی میں اس نے ہمیں ملوث کر کے ہمارے تیس سال برباد کردیے۔
پہلے ہمیں روس کے خلاف بڑھکا کر اور جہاد کا جذبہ جگا کر افغانستان میں براہ راست اور بلواسطہ لڑائی میں جھونک دیا اور جب روس وہاں سے نکل گیا تو نائن الیون کروا کے دہشت گردی کی عالمی جنگ میں ہمیں ہراول دستہ کے کردار ادا کرنے پر زبردستی مجبورکردیا۔ رچرڈ آرمٹیج کے ذریعے پیغامات دے کر ہمیں اپنا تن من دھن سب قربان کرنے پر آمادہ کر لیا۔ ہم نے چند ہزار ڈالروں کی خاطر اپنا مستقبل داؤ پر لگا دیا۔ یہ اسی جنگ کا شاخسانہ ہے کہ ہم آج تک اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔
نیٹو ممالک اور خود امریکا کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن ہمارا مستقبل یقیناً تاریک ہوگیا۔ ہم نے دہشت گردی کی جنگ اپنے یہاں منتقل کردی اورآج تک اس سے نبرد آزما ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ دوسروں کی اس لڑائی میں ہم نے اپنی تمام سرحدیں غیر محفوظ بھی کردیں۔ پہلے صرف ہماری مشرقی سرحدیںغیر محفوظ تھیں لیکن اب ہماری مغربی سرحدیں بھی ہمارے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ ہم نے جن افغانیوں کے لیے قربانیاں دیں، وہی آج ہم سے ناراض اور خفا ہیں۔ ہم انھیں اپنی بے گناہی کا یقین بھی نہیں دلا پا رہے اور طالبان کے ایشو کو لے کر اُن سے براہ راست جنگ پر آمادہ ہیں۔ امریکا جس کے کہنے پر ہم نے یہ سب کچھ کیا وہ آج آرام و اطمینان سے بیٹھا ہوا ہے اور ہمیں اس لڑائی میں اکیلا چھوڑ دیا۔
دوسری جانب 2011سے یہاں جو ایک فیکٹر پروان چڑھایا گیا، وہ آج تیرا سال گزر جانے کے باوجود امن وامان اور سیاسی استحکام کے لیے بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ وہ جب آزاد تھا تو بھی روزانہ کے احتجاج اور لانگ مارچوں کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا باعث بنا ہوا تھا لیکن آج قید میں ہونے کے بعد بھی وہ ملکی استحکام کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ جنھوں نے اسے پروان چڑھایا تھا وہی آج اس سے پریشان ہیں۔ دیکھا جائے تو ہماری معیشت کا یہ حال بھی اسی سیاسی ابتری کی وجہ سے ہے۔
جب تک اس ملک میں استحکام پیدا نہیں ہوگا، یہ ملک ترقی نہیں کر پائے گا۔ ہم چاہے کتنے قرضے لے لیں لیکن سرمایہ کاری تبھی ہی ممکن ہوگی جب یہاں کے حالات کسی کروٹ بیٹھیں گے۔ دنیا ہم سے کتنے ہی MOU سائن کر لے لیکن اصل پروجیکٹ اسی وقت لگیں گے جب یہاں امن وسکون ہوگا۔ IMF سے سات ارب ڈالر کے نئے معاہدے کی نوید سنائی جا رہی ہے، لیکن اس معاہدے پر سائن کرنے سے پہلے IMF نے ہم سے جو شرائط منوا لی ہیں اس نے اس ملک کے لوگوں کو جیتے جی مار ڈالا ہے۔ یہ معاہدہ پہلے کی نسبت کچھ آسانی سے اور کم وقت میں ممکن ہو پایا ہے لیکن اس معاہدے کے لیے قوم پر مہنگائی کا جو بوجھ ڈالا گیا ہے، وہ عوام میں اشتعال کا سبب بن رہا ہے۔
معاہدہ ابھی فائنل اسٹیج پر بھی نہیں پہنچا ہے لیکن ہم نے حفظ ماتقدم کے طور پر بجلی اتنی مہنگی کردی ہے جس کا تقاضہ IMF نے شاید کیا بھی نہیں تھا۔ ستر اور اسی روپے فی یونٹ کر کے ہم نے اپنے تیئں IMF کو خوش کردیا ہے لیکن وہ پھر بھی مطمئن نہیں ہے اورکہہ رہا ہے کہ یہ معاہدہ تین برسوں کی قسطوں پر مشتمل ہے ۔ یعنی جیسے جیسے قسطیں جاری ہوں گی، ویسے ویسے مزید شرائط بھی سامنے آتی رہیںگی۔ قوم سمجھ رہی تھی کہ بجلی کی قیمت اب شاید مزید نہیں بڑھے گی، لیکن اب پتا چلا ہے یہ تو ابتدا ہے انجام نجانے کیا ہوگا۔ ناکوں چنے چبوا کے بھی IMF مزید شرائط کا سوچ رہا ہے۔ وہ جب تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک عوام سڑکوں پر نکل نہیں آتے۔ کینیا کے عوام نے اپنی اس حکومت کا جو IMF کی شرائط پر مہنگائی کے بم برسا رہی تھی جو حال کیا ہے ہمارے یہاں بھی جب تک ایسا نہیںہوجاتا، یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔
میاں نوازشریف جو اس حکومت کے اصل روح رواں ہیں انھیں ہی اب کچھ کرنا ہوگا۔ عوام کے بگڑتے تیورکو اگر وقت سے پہلے سمجھ لیا جائے تو سب کے لیے بہتر ہے، صرف زبانی بیانوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کچھ دنوں قبل میاں صاحب کی طرف سے ایک بیان آیا تھا کہ بجلی مزید مہنگی نہ کی جائے۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ یہ بیان کس حکومت کو دے رہے تھے۔ اپنی حکومت کو یا علی امین گنڈا پور کی حکومت کو۔ انھیں چاہیے تھا کہ جس طرح انھوں نے اس بار حکومت سنبھالنے کا یہ بارگراں اپنے سر نہیں لیا تھا تو پھر اپنے بھائی شہباز شریف کو بھی سمجھا دیں کہ اگر مہنگائی روک نہیں سکتے تو مستعفی ہوجائیں ۔ نظریں چرائی نہیں جاسکتی ہیں۔ ہمارے عوام اس وقت شدید مہنگائی کا شکار ہیں اور اس حکومت سے بہت مایوس اور نالاں ہیں۔ خدارا نوشتہ دیوار پڑھ لیں اور باعزت طریقے سے ایوان اقتدار سے رخصت ہوجائیں، اگر عوام کو راحت اور ریلیف نہیں پہنچا سکتے تو کم ازکم اُن پر مزید ظلم و ستم بھی نہ کریں۔
ہمیں اس حال میں پہنچانے کا سہرا ہماری سمجھ میں نہیں آتا کس کے سر باندھیں۔ جتنا قصور سیاستدانوں کا ہے اس سے کہیں زیادہ اُن قوتوں کا ہے جو ہر چند سال بعد سیاسی اتھل پتھل کر کے اس ملک میں عدم استحکام پیدا کرتی رہی ہیں۔ قوم صرف سیاستدانوں ہی کو موردِ الزام کرتی رہی ہے۔ ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو قتل کر کے جو سیاسی ابتری پیدا کی گئی تھی وہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔یکے بعد دیگرے وزرائے اعظم تبدیل کیے جاتے رہے تا وقتیکہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان برسر اقتدار نہیں آگئے۔ اس ملک میں اگر کچھ سکون اور ٹہراؤ آیا ہے تو وہ بھی ہمیشہ صرف مارشل لاء ادوار ہی میں آیا ہے۔
ایوب خان کے دس سال، محمد ضیا الحق کے گیارہ سال اور جنرل مشرف کے نو سال ایسے گزرے ہیں جس میں عوام نے سکون و اطمینان سے کچھ دن گزارے ہیں،کیونکہ ہمارے یہاں سازشیں ہمیشہ سول حکمرانوں کے خلاف کی جاتی رہی ہیں۔غیر سول حکمرانوں کو بلاوجہ تنگ نہیں کیا جاتا ہے۔
اس میں پس پردہ جوکردار رہے ہیں ان میں مرکزی کردار امریکا بہادرکا بھی رہا ہے۔ اس نے ہمارے ملک میں کبھی استحکام دیکھنا ہی نہیں چاہا۔ عدم استحکام پیدا کر کے ہماری ترقی وخوشحالی کا راستہ روکنا اور ہمیں اپنا محتاج اور غلام بنائے رکھنا ہی اس کا اصل مقصد اور ایجنڈا ہے، وہ کبھی بھی ہمیں خود مختار اور خود کفیل ہونے نہیں دے گا۔ ہمارا ایٹمی پروگرام اور سی پیک منصوبہ اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ہمارے یہاں جس جس سول حکمراں نے ایسے منصوبے دیے، اس نے انھیں نشان عبرت بنادیا، وہ ہمارا دوست نما دشمن ہے۔ افغانستان کی لڑائی میں اس نے ہمیں ملوث کر کے ہمارے تیس سال برباد کردیے۔
پہلے ہمیں روس کے خلاف بڑھکا کر اور جہاد کا جذبہ جگا کر افغانستان میں براہ راست اور بلواسطہ لڑائی میں جھونک دیا اور جب روس وہاں سے نکل گیا تو نائن الیون کروا کے دہشت گردی کی عالمی جنگ میں ہمیں ہراول دستہ کے کردار ادا کرنے پر زبردستی مجبورکردیا۔ رچرڈ آرمٹیج کے ذریعے پیغامات دے کر ہمیں اپنا تن من دھن سب قربان کرنے پر آمادہ کر لیا۔ ہم نے چند ہزار ڈالروں کی خاطر اپنا مستقبل داؤ پر لگا دیا۔ یہ اسی جنگ کا شاخسانہ ہے کہ ہم آج تک اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔
نیٹو ممالک اور خود امریکا کا تو کچھ نہیں بگڑا لیکن ہمارا مستقبل یقیناً تاریک ہوگیا۔ ہم نے دہشت گردی کی جنگ اپنے یہاں منتقل کردی اورآج تک اس سے نبرد آزما ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ دوسروں کی اس لڑائی میں ہم نے اپنی تمام سرحدیں غیر محفوظ بھی کردیں۔ پہلے صرف ہماری مشرقی سرحدیںغیر محفوظ تھیں لیکن اب ہماری مغربی سرحدیں بھی ہمارے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔ ہم نے جن افغانیوں کے لیے قربانیاں دیں، وہی آج ہم سے ناراض اور خفا ہیں۔ ہم انھیں اپنی بے گناہی کا یقین بھی نہیں دلا پا رہے اور طالبان کے ایشو کو لے کر اُن سے براہ راست جنگ پر آمادہ ہیں۔ امریکا جس کے کہنے پر ہم نے یہ سب کچھ کیا وہ آج آرام و اطمینان سے بیٹھا ہوا ہے اور ہمیں اس لڑائی میں اکیلا چھوڑ دیا۔
دوسری جانب 2011سے یہاں جو ایک فیکٹر پروان چڑھایا گیا، وہ آج تیرا سال گزر جانے کے باوجود امن وامان اور سیاسی استحکام کے لیے بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ وہ جب آزاد تھا تو بھی روزانہ کے احتجاج اور لانگ مارچوں کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کا باعث بنا ہوا تھا لیکن آج قید میں ہونے کے بعد بھی وہ ملکی استحکام کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ جنھوں نے اسے پروان چڑھایا تھا وہی آج اس سے پریشان ہیں۔ دیکھا جائے تو ہماری معیشت کا یہ حال بھی اسی سیاسی ابتری کی وجہ سے ہے۔
جب تک اس ملک میں استحکام پیدا نہیں ہوگا، یہ ملک ترقی نہیں کر پائے گا۔ ہم چاہے کتنے قرضے لے لیں لیکن سرمایہ کاری تبھی ہی ممکن ہوگی جب یہاں کے حالات کسی کروٹ بیٹھیں گے۔ دنیا ہم سے کتنے ہی MOU سائن کر لے لیکن اصل پروجیکٹ اسی وقت لگیں گے جب یہاں امن وسکون ہوگا۔ IMF سے سات ارب ڈالر کے نئے معاہدے کی نوید سنائی جا رہی ہے، لیکن اس معاہدے پر سائن کرنے سے پہلے IMF نے ہم سے جو شرائط منوا لی ہیں اس نے اس ملک کے لوگوں کو جیتے جی مار ڈالا ہے۔ یہ معاہدہ پہلے کی نسبت کچھ آسانی سے اور کم وقت میں ممکن ہو پایا ہے لیکن اس معاہدے کے لیے قوم پر مہنگائی کا جو بوجھ ڈالا گیا ہے، وہ عوام میں اشتعال کا سبب بن رہا ہے۔
معاہدہ ابھی فائنل اسٹیج پر بھی نہیں پہنچا ہے لیکن ہم نے حفظ ماتقدم کے طور پر بجلی اتنی مہنگی کردی ہے جس کا تقاضہ IMF نے شاید کیا بھی نہیں تھا۔ ستر اور اسی روپے فی یونٹ کر کے ہم نے اپنے تیئں IMF کو خوش کردیا ہے لیکن وہ پھر بھی مطمئن نہیں ہے اورکہہ رہا ہے کہ یہ معاہدہ تین برسوں کی قسطوں پر مشتمل ہے ۔ یعنی جیسے جیسے قسطیں جاری ہوں گی، ویسے ویسے مزید شرائط بھی سامنے آتی رہیںگی۔ قوم سمجھ رہی تھی کہ بجلی کی قیمت اب شاید مزید نہیں بڑھے گی، لیکن اب پتا چلا ہے یہ تو ابتدا ہے انجام نجانے کیا ہوگا۔ ناکوں چنے چبوا کے بھی IMF مزید شرائط کا سوچ رہا ہے۔ وہ جب تک چین سے نہیں بیٹھے گا جب تک عوام سڑکوں پر نکل نہیں آتے۔ کینیا کے عوام نے اپنی اس حکومت کا جو IMF کی شرائط پر مہنگائی کے بم برسا رہی تھی جو حال کیا ہے ہمارے یہاں بھی جب تک ایسا نہیںہوجاتا، یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔
میاں نوازشریف جو اس حکومت کے اصل روح رواں ہیں انھیں ہی اب کچھ کرنا ہوگا۔ عوام کے بگڑتے تیورکو اگر وقت سے پہلے سمجھ لیا جائے تو سب کے لیے بہتر ہے، صرف زبانی بیانوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کچھ دنوں قبل میاں صاحب کی طرف سے ایک بیان آیا تھا کہ بجلی مزید مہنگی نہ کی جائے۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ یہ بیان کس حکومت کو دے رہے تھے۔ اپنی حکومت کو یا علی امین گنڈا پور کی حکومت کو۔ انھیں چاہیے تھا کہ جس طرح انھوں نے اس بار حکومت سنبھالنے کا یہ بارگراں اپنے سر نہیں لیا تھا تو پھر اپنے بھائی شہباز شریف کو بھی سمجھا دیں کہ اگر مہنگائی روک نہیں سکتے تو مستعفی ہوجائیں ۔ نظریں چرائی نہیں جاسکتی ہیں۔ ہمارے عوام اس وقت شدید مہنگائی کا شکار ہیں اور اس حکومت سے بہت مایوس اور نالاں ہیں۔ خدارا نوشتہ دیوار پڑھ لیں اور باعزت طریقے سے ایوان اقتدار سے رخصت ہوجائیں، اگر عوام کو راحت اور ریلیف نہیں پہنچا سکتے تو کم ازکم اُن پر مزید ظلم و ستم بھی نہ کریں۔