بجلی کے خوفناک بل اور سولر انرجی
پاکستان میں2013 میں سولر پینلز لگانے کا رواج شروع ہوا۔
بجلی کے خوفناک بھاری بھر کم بلوں نے آخر کار عوام کو سولر انرجی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سولر انرجی کا سب سے پہلا استعمال امریکا کے شہر نیویارک میں ہوا۔ یہ بات ہے1883کی۔ یعنی تقریباً ڈھائی سو برس پہلے۔ اندازہ کریں۔اس وقت مسلم دنیا کیا کر رہی تھی۔ سب تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔
ایسے ہی انھوں نے پوری دنیا کو اپنا غلام نہیں بنا لیا۔ 1960کی دہائی میں امریکا میں سولر پلیٹس انتہائی مہنگی تھیں آج یہ حال ہے کہ سولر پلیٹ ایک ڈالر سے کم پر دستیاب ہے۔لیکن فرانس میں اس سے قبل ہی سولر انرجی پر کام شروع ہو چکا تھا جہاں ایک نوجوان ماہر طبعیات سورج کی روشنی کو پہلی بار بجلی کے کرنٹ میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ گزشتہ 80سالوں میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے حیرت انگیز مظاہر سامنے آئے جب خلائی اسٹیشن اور ہوائی جہازوں سے لے کر کچن تک میں الیکٹرک آلات کی ہر حرکت کے پس پردہ یہی توانائی کار فرما نظر آئی۔ چین میں ابھی حال ہی میں دنیا کے سب سے بڑے سولر پلانٹ کا افتتاح ہوا ہے جو نیویارک جتنے بڑے شہر کو شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی فراہم کر سکتا ہے۔
سورج ہماری زمین سے 9کروڑ میل دور توانائی کا ایک ایسا خزانہ ہے جسے اعداد و شمار کی گرفت میں نہیں لایا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اگر ایک الیکٹرک پاور پلانٹ ایک ارب واٹ بجلی پیدا کرے اور ہم ایسے 5کروڑ پاور پلانٹس لگائیں تب بھی پیدا ہونے والی سورج کی توانائی اس سے کہیں زیادہ ہوگی لیکن حضرت انسان نے سورج کی توانائی سے فائدہ حاصل کرنے کا آغاز ساتویں صدی قبل مسیح سے شروع کر دیا تھا یعنی آج سے تقریباً تین ہزار سال پہلے۔ یہ سورج کا جلال اور طاقت ہی تھی کہ انسان نے اسی کو سورج دیوتا کہہ کر اس کی طویل مدت تک پوجا کی۔ خاص طور پر مکمل سورج گرہن میں جب دن میں ہر طرف اندھیرا چھا جاتا تھا تو انسانوں کے دل خوف و دہشت سے ڈوب جاتے تھے۔ہائے بے چارہ انسان۔ کیوں کہ علم کی کمی تھی۔
پاکستان میں2013 میں سولر پینلز لگانے کا رواج شروع ہوا۔ بعد میں 2014اور2015 میں پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی حکومتوں نے سولر انرجی کے حوالے سے عوام کو سنہرے خواب دکھائے جو خواب ہی رہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان شمسی توانائی کے ذریعے ڈیمز سے زیادہ بجلی بنا سکتا ہے۔ اس طرح سیکڑوں ارب روپے بچائے جا سکتے ہیں ۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان 44گیگاواٹ شمسی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں سورج سال میں 315دن چمکتا ہے۔ عوام تو کیا خواص کو بھی اس بارے میں کم ہی علم ہے کہ ایک میگاواٹ میں 10لاکھ واٹ ہوتے ہیں اور ایک گیگا واٹ میں ایک ارب واٹ ہوتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کاشمسی توانائی پیدا کرنے والے ملکوں میں 44 واںنمبر ہے جب کہ جغرافیائی لوکیشن کے مطابق اس کا 10واں نمبر ہونا چاہیے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ پانچ چھ برسوں میں شمسی توانائی پر منتقل ہونے والوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس رحجان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف دو سال میں سولر انرجی صارفین کی تعداد 50ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ ہو گئی ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری سیکٹر اس وقت دو ہزار میگا واٹ شمسی توانائی استعمال کر رہے ہیں۔اس وقت 8000میگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کیے جا چکے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق2030میں یہ مقدار 10ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب لوگ سڑک کنارے پینلز بنانا شروع کر دیں گے یہاں تک کہ ریڑھیوں پر بھی سولر پینلز بکتے نظر آئیں گے۔ اگر ملک میں سولر پینلز سستے ہوئے ہیں تو اس میں حکومت کا کوئی کمال نہیں ہوا یوں کہ جب یورپ میں چین کا مال نہیں بک سکا اور بھارت سمیت بہت سے ممالک نے خود سولر پینلز بنانے شروع کر انھیں تو چین نے اپنا مال پاکستانی مارکیٹ میں پھینک دیا جس سے قیمتوں میں کمی آگئی۔ اگرچہ سولر پینلز کی قیمتیں گر گئی ہیں لیکن بیٹریز اور دیگر سامان بہت مہنگا ہے جس کی وجہ سے ان کی تنصیب میں لاکھوں روپے خرچ آتا ہے۔
جسے ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا۔ بھارت میں حکومت متوسط طبقے میں شمسی توانائی کو فروغ دینے کے لیے ایک لاکھ روپے سے زائد تک کی سبسڈی دے رہی ہے ۔پاکستان میں ایک لاکھ سے زائد گھرانوں نے سولر سسٹم لگوا رکھے ہیں۔ جو3ہزار سے زائد میگاواٹ بجلی بنا سکتے ہیں۔ عوام کو سستے غیر معیاری سولر پینلز ہرگز نہیں خریدنے چاہیں کیونکہ یہ صرف سال چھ مہینے ہی چل سکتے ہیں اس طرح ان کی سرمایہ کاری یقینی طور پر ضایع ہو سکتی ہے۔ برانڈڈ پینلز کی گارنٹی 20سال کی ہوتی ہے۔ لیکن یہ اور ان کا سامان بہت مہنگا ہے ایک طرف سستے پینلز دوسری طرف ان کے لگانے والے اناڑی۔ یہ غیر ہنر مند بھی سینکٹروں کی تعداد میں میدان میں آگئے ہیں۔ یعنی عوام کا نقصان ہی نقصان۔
شمسی توانائی کے استعمال سے پہلے عوام کو نیٹ میٹرنگ اور گراس میٹرنگ کے گورکھ دھندے سے آگاہی ضروری ہے۔ نیٹ میٹرنگ عوام کے فائدے میں ہے کہ عوام سولر پینلز سے پیدا کردہ فالتو بجلی واپڈا کو بیچ سکتے ہیں۔ اس طرح ان کا بل زیرو یا بہت کم آتا ہے۔ صارفین کی بڑھتی ہوئے تعداد کے پیش نظر اب گراس میٹرنگ کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ اس کے تحت صارفین اپنی بنائی ہوئی بجلی خود استعمال نہیں کر سکیں گے۔ بلکہ ساری بجلی گرڈ کو چلی جائے گی۔ یعنی گراس میٹرنگ میں حکومت صارفین سے سستے داموں بجلی خرید کر کئی گنا مہنگے داموں صارفین کو بیچے گی۔
ذرا غور فرمائیں! گراس میٹرنگ کا پھندہ عوام کے لیے تیار ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت اس بارے میں شفاف پالیسی اپنائے ورنہ اس شعبے میں لگی 200ارب روپے کی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
ایسے ہی انھوں نے پوری دنیا کو اپنا غلام نہیں بنا لیا۔ 1960کی دہائی میں امریکا میں سولر پلیٹس انتہائی مہنگی تھیں آج یہ حال ہے کہ سولر پلیٹ ایک ڈالر سے کم پر دستیاب ہے۔لیکن فرانس میں اس سے قبل ہی سولر انرجی پر کام شروع ہو چکا تھا جہاں ایک نوجوان ماہر طبعیات سورج کی روشنی کو پہلی بار بجلی کے کرنٹ میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ گزشتہ 80سالوں میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے حیرت انگیز مظاہر سامنے آئے جب خلائی اسٹیشن اور ہوائی جہازوں سے لے کر کچن تک میں الیکٹرک آلات کی ہر حرکت کے پس پردہ یہی توانائی کار فرما نظر آئی۔ چین میں ابھی حال ہی میں دنیا کے سب سے بڑے سولر پلانٹ کا افتتاح ہوا ہے جو نیویارک جتنے بڑے شہر کو شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی فراہم کر سکتا ہے۔
سورج ہماری زمین سے 9کروڑ میل دور توانائی کا ایک ایسا خزانہ ہے جسے اعداد و شمار کی گرفت میں نہیں لایا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اگر ایک الیکٹرک پاور پلانٹ ایک ارب واٹ بجلی پیدا کرے اور ہم ایسے 5کروڑ پاور پلانٹس لگائیں تب بھی پیدا ہونے والی سورج کی توانائی اس سے کہیں زیادہ ہوگی لیکن حضرت انسان نے سورج کی توانائی سے فائدہ حاصل کرنے کا آغاز ساتویں صدی قبل مسیح سے شروع کر دیا تھا یعنی آج سے تقریباً تین ہزار سال پہلے۔ یہ سورج کا جلال اور طاقت ہی تھی کہ انسان نے اسی کو سورج دیوتا کہہ کر اس کی طویل مدت تک پوجا کی۔ خاص طور پر مکمل سورج گرہن میں جب دن میں ہر طرف اندھیرا چھا جاتا تھا تو انسانوں کے دل خوف و دہشت سے ڈوب جاتے تھے۔ہائے بے چارہ انسان۔ کیوں کہ علم کی کمی تھی۔
پاکستان میں2013 میں سولر پینلز لگانے کا رواج شروع ہوا۔ بعد میں 2014اور2015 میں پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی حکومتوں نے سولر انرجی کے حوالے سے عوام کو سنہرے خواب دکھائے جو خواب ہی رہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان شمسی توانائی کے ذریعے ڈیمز سے زیادہ بجلی بنا سکتا ہے۔ اس طرح سیکڑوں ارب روپے بچائے جا سکتے ہیں ۔
عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان 44گیگاواٹ شمسی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں سورج سال میں 315دن چمکتا ہے۔ عوام تو کیا خواص کو بھی اس بارے میں کم ہی علم ہے کہ ایک میگاواٹ میں 10لاکھ واٹ ہوتے ہیں اور ایک گیگا واٹ میں ایک ارب واٹ ہوتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کاشمسی توانائی پیدا کرنے والے ملکوں میں 44 واںنمبر ہے جب کہ جغرافیائی لوکیشن کے مطابق اس کا 10واں نمبر ہونا چاہیے۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ پانچ چھ برسوں میں شمسی توانائی پر منتقل ہونے والوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس رحجان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف دو سال میں سولر انرجی صارفین کی تعداد 50ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ ہو گئی ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری سیکٹر اس وقت دو ہزار میگا واٹ شمسی توانائی استعمال کر رہے ہیں۔اس وقت 8000میگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کیے جا چکے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق2030میں یہ مقدار 10ہزار میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب لوگ سڑک کنارے پینلز بنانا شروع کر دیں گے یہاں تک کہ ریڑھیوں پر بھی سولر پینلز بکتے نظر آئیں گے۔ اگر ملک میں سولر پینلز سستے ہوئے ہیں تو اس میں حکومت کا کوئی کمال نہیں ہوا یوں کہ جب یورپ میں چین کا مال نہیں بک سکا اور بھارت سمیت بہت سے ممالک نے خود سولر پینلز بنانے شروع کر انھیں تو چین نے اپنا مال پاکستانی مارکیٹ میں پھینک دیا جس سے قیمتوں میں کمی آگئی۔ اگرچہ سولر پینلز کی قیمتیں گر گئی ہیں لیکن بیٹریز اور دیگر سامان بہت مہنگا ہے جس کی وجہ سے ان کی تنصیب میں لاکھوں روپے خرچ آتا ہے۔
جسے ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا۔ بھارت میں حکومت متوسط طبقے میں شمسی توانائی کو فروغ دینے کے لیے ایک لاکھ روپے سے زائد تک کی سبسڈی دے رہی ہے ۔پاکستان میں ایک لاکھ سے زائد گھرانوں نے سولر سسٹم لگوا رکھے ہیں۔ جو3ہزار سے زائد میگاواٹ بجلی بنا سکتے ہیں۔ عوام کو سستے غیر معیاری سولر پینلز ہرگز نہیں خریدنے چاہیں کیونکہ یہ صرف سال چھ مہینے ہی چل سکتے ہیں اس طرح ان کی سرمایہ کاری یقینی طور پر ضایع ہو سکتی ہے۔ برانڈڈ پینلز کی گارنٹی 20سال کی ہوتی ہے۔ لیکن یہ اور ان کا سامان بہت مہنگا ہے ایک طرف سستے پینلز دوسری طرف ان کے لگانے والے اناڑی۔ یہ غیر ہنر مند بھی سینکٹروں کی تعداد میں میدان میں آگئے ہیں۔ یعنی عوام کا نقصان ہی نقصان۔
شمسی توانائی کے استعمال سے پہلے عوام کو نیٹ میٹرنگ اور گراس میٹرنگ کے گورکھ دھندے سے آگاہی ضروری ہے۔ نیٹ میٹرنگ عوام کے فائدے میں ہے کہ عوام سولر پینلز سے پیدا کردہ فالتو بجلی واپڈا کو بیچ سکتے ہیں۔ اس طرح ان کا بل زیرو یا بہت کم آتا ہے۔ صارفین کی بڑھتی ہوئے تعداد کے پیش نظر اب گراس میٹرنگ کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ اس کے تحت صارفین اپنی بنائی ہوئی بجلی خود استعمال نہیں کر سکیں گے۔ بلکہ ساری بجلی گرڈ کو چلی جائے گی۔ یعنی گراس میٹرنگ میں حکومت صارفین سے سستے داموں بجلی خرید کر کئی گنا مہنگے داموں صارفین کو بیچے گی۔
ذرا غور فرمائیں! گراس میٹرنگ کا پھندہ عوام کے لیے تیار ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت اس بارے میں شفاف پالیسی اپنائے ورنہ اس شعبے میں لگی 200ارب روپے کی سرمایہ کاری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔