''یہ میری زندگی کا مشکل اور اذیت ناک مرحلہ چل رہا ہے جب میں تقریباً روزانہ ہراساں کی جاتی اور ارد گرد کھڑے لوگ صرف تماشا ہی دیکھتے، اور جب مزاحمت کرتی، تب مجھے ہی عجیب نظروں سے دیکھتے جیسے گناہ مجھ سے سرزد ہوا ہو۔''
آپ کو یہ پڑھ کر حیران ضرور ہوئے ہوں گے۔ مگر اس لڑکی کی کیفیت اور خوف کا اندازہ لگائیے جو روزانہ اپنے گھر سے بس اسٹاپ تک پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے لوگوں کی گھٹیا نظروں اور زبان سے نکلے نیچ الفاظ کا سامنا کرتی ہے اور پھر ہمارے سامنے آکر روتی چلاتی۔ اس چند منٹ کے سفر میں جو وہ قریب اپنی سانسیں روک کر ہی گزارتی، اس کا غصہ نکالتی ہے۔
ہم روز ایک نئی داستان سنتے کہ آج یہ ہوا، فلاں نے یہ کہا اور وغیرہ وغیرہ... اور اپنی اس دوست کو ہم ہر بار ایک ہی مشورہ دیتے کہ اپنے بابا کو بتاؤ، وہ کچھ کریں گے۔ مگر وہ یہ کہہ کر ہمیں بھی خاموش کروا دیتی کہ وہ آگے پڑھنا چاہتی ہے، اپنی منزل کو پہنچنا چاہتی ہے۔
یہ صرف ایک ایسی بے بس لڑکی کی مختصر داستان ہے جس کی شاہد میں خود ہوں، نجانے ایسی کتنی بے بس لڑکیوں کی داستانیں ہیں جو روزانہ ہراساں ہوتی ہیں اور پھر مزاحمت کرنے پر اس بے حس معاشرے کی عجیب نظروں اور باتوں سے خاموش رہنا ہی بہتر جانتی ہیں۔
حصول علم، کام کی غرض سے نکلنے والی لڑکی ہو یا پھر ہماری عام خواتین ہی کیوں نہ ہوں، سب ہی کسی نہ کسی صورت میں کہیں نہ کہیں ہراساں ہوتی ہیں اور سب سے بڑی تباہی یہ ہوتی کہ وہ اپنی ہی عزت کی خاطر خاموش ہوجاتی ہیں اور ان کی خاموشی معاشرے میں پھلنے والے ان ناسوروں کو شہ دیتی ہے۔
روز ایک نئی اندوہناک داستان شہ سرخی بنتی ہے، سوشل میڈیا پر دھڑا دھڑ شیئر ہوتی ہے۔ مگر آج تک کتنوں کو انصاف ملا؟ کتنی لڑکیاں ہیں جنھوں نے یہ ٹھانی ہو کہ ایسے واقعات کو ہم اپنی کمزوری نہیں بنائیں گے؟ ڈٹ کر ایک مرد نہیں بلکہ ایک مضبوط عورت بن کر مقابلہ کریں گے۔ کیونکہ اگر سارے مرد واقعتاً مضبوط اور غیرت مند ہوتے تو ایسے واقعات ناممکن ہوتے۔
ہمارے معاشرے میں سب سے بڑی خامی ہے کہ اپنی بیٹی کو یہ کہتے، سکھاتے بڑا کیا جاتا ہے کہ باہر جاؤ تو مرد بن کر بات کرو۔ یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ تمھارا بحیثیت عورت ہی بہت مقام ہے، ایک مضبوط عورت بن کر بات کرو، کام کرو۔ یہ تو نظر آتا ہے لباس نہ سہی، رہن سہن بہت ماڈرن ہے، زبان بہت چلتی ہے، اور لگے ہاتھوں کافر کا فتویٰ بھی جھاڑ دیتے ہیں۔ اگر انھیں واقعتاً سارا اسلام پتہ ہوتا تو یہ قرآن کی سورة النسا بھی خوب جانتے ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں عورتوں کو رہن سہن کا سلیقہ بتلایا ہے وہیں ان کے حقوق بھی مردوں پر واضح کردیے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے کہ:
''اے لوگوں عورتوں کے معاملے میں اللہ کا خوف رکھو''۔
اور صرف اسلام نہیں بلکہ آئین پاکستان بھی عورت کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہے۔ تعزیرات پاکستان میں پینل کوڈ کی دفعہ 509 کے مطابق اگر کوئی شخص کسی بھی خاتون کی الفاظ سے، یا اپنے رویے سے بے توقیری کرتا ہے تو اسے تین سال قید کی سزا، یا جرمانہ، یا پھر دونوں ہوسکتے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے قانون کی دفعہ 496 سی کے تحت اگر کوئی شحض کسی عورت پر جھوٹا الزام یا تہمت لگاتا ہے تو جرمانہ اور پانج سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ قانون کی دفعہ 354 اے کے تحت اگر کوئی شحض کوئی ایسی حرکت کرتا یے جو نامناسب ہو، یا کوئی ایسا گانا گائے جس کے الفاظ نازیبا ہوں تو اسے تین ماہ تک سزا ہوسکتی ہے۔ اسی طرح 2010 میں خواتین کے تحفظ کےلیے ہی اداروں میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں قائم کی گئیں تھیں تاکہ ان واقعات کو کم کیا جاسکے، مگر بدقسمتی سے اب تک ایسا ممکن ہی نہیں ہوسکا۔
ہم نے صرف گزشتہ چند دنوں میں وہ بدقسمت منظر بھی دیکھا جب پاکستان کی مایہ ناز اینکر عائشہ جہانزیب کو، جو خودمختار ہے، اپنا دفاع، اپنے حقوق سب جانتی ہے، اس کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سوچیے اگر ایک مضبوط عورت اس ظلم کا شکار ہے تو ہماری ہر دوسری گھریلو عورت جو نہ اپنے حقوق جانتی ہے نہ اپنا دفاع کرنا، غرض کہ اس کی برداشت اور کمزوری صرف اس کی اولاد ہوتی ہے۔ ایک جانب کوٹ سلطان کی پروین بی بی، جس کو صرف کھانا دیر سے بنانے پر قتل کیا گیا اور ایک جانب ملتان کی معصوم ثانیہ زہرا جس پر سفاکیت کی انتہا ہوگئی۔ صرف 20 سالہ پانچ ماہ کی حاملہ اور 2 بچوں کی ماں ثانیہ زہرا کو اس کے سفاک شوہر نے جائیداد کے نام پر دانت توڑ کر، زبان کاٹ کر، چھریوں سے وار کرکے، گلے میں پھندا ڈال کر قتل کردیا۔
اس درندگي کی تو اجازت نہ دین اسلام دیتا ہے نہ آئین پاکستان، حتیٰ کہ انسانیت بھی اس کو ہرگز قبول نہ کرے۔ مگر بدقسمتی یہ کہ جہاں ہمارا نظام بے حس ہے، وہیں ہمارے معاشرے میں والدین کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ بالغ عمر میں شادی کا حکم اگر ہمارا دین دیتا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جہاں بہت پیسہ دیکھا وہیں اپنی بیٹی اس کی خوشی کے نام پر بیاہ دی، بعد ازاں یہی پیسہ اس نازوں سے پلی بیٹی کے گلے کا پھندا بنتا ہے۔
اس سب سے کم از کم یہ تو واضح ہے کہ ہم اپنے ماضی سے سبق نہیں سیکھتے۔ نور مقدم، سارہ انعام جیسے کیس اس معاشرے کو جھنجھوڑ نہیں سکے، نظام عدل قائم نہ کرسکے تبھی آج ایک اور حوا کی بیٹی اس درندگی کا نشانہ بنی ہے۔
ثانیہ سمیت ہر بیٹی انصاف چاہتی ہے اپنے ماں باپ سے اور اپنے نظام سے۔ ہر بیٹی اس حق کی مکمل حق دار ہے جو اسے اسلام اور آئین پاکستان دیتا ہے۔ پاکستانی قانون کے تحت گھریلو تشدد ایک مجرمانہ فعل ہے۔ گھریلو تشدد کی سزائیں جرم کی شدت پر منحصر ہیں اور جرمانے سے لے کر قید تک ہوسکتی ہیں۔ اور اس کی کم از کم سزا ایک لاکھ قید، 2 سال سزا ہوسکتی ہے اور یقیناً قتل کی دفعات تو ہم سب پر ہی واضح ہیں۔ ہر حوا کی بیٹی انصاف چاہتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔