آپ کا کیا ہوگا

کب تک قابل ترین ذہنوں کو مستعمل جان کر اپنی کامیابی کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہے گا؟


’’ہم تو غریب لوگ ہیں، سبزی کی ریڑھی لگا کر بھی گھر چلا لیں گے‘‘۔ : (فوٹو: فائل)

پاکستان کے صوبۂ پنجاب کے مشہور شہر میانوالی کے علاقے عیسٰی خیل کے نیازی خاندان سے تعلق رکھنے والے 73 سالہ نامور فوک گلوکار عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی جنہیں پیار سے ''لالہ'' بھی کہا جاتا ہے، جنہوں نے سرائیکی، پنجابی اور اردو سمیت تقریباً سات مختلف زبانوں میں پچاس ہزار سے زائد گیت گائے ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اُن کےلیے سب سے زیادہ گیت لکھنے والے شاعر افضل عاجز تھے۔


افضل عاجز ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ اس کا ثبوت ایک طویل عرصہ اِن کا کالم نگار ہونا بھی ہے۔ کُندیاں میں پیدا ہونے والے شاعر افضل عاجز جن کا اک مزدور گھرانے میں جنم ہوا۔ اہل علم اور باشعور لوگوں کی صحبت نے اُنہیں یہاں تک پہنچا دیا۔ شروعات گیت نگاری اور شاعری سے کی،ریڈیو، ٹیلی ویژن کےلیے کافی کچھ لکھا۔ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی سمیت کئی لوک گلوکار شاعر افضل عاجزکے لکھے گئے گیت گا کر شہرت کی بلندیوں تک پہنچے، جبکہ افضل عاجز اپنی روایتی عاجزی و انکساری کی بدولت ہمیشہ گمنام ہی رہے۔


مشہور گلوکار عطاء اللہ عیسٰی خیلوی کے ساتھ افضل عاجز نے سب سے زیادہ کام کیا۔ 1988 سے لے کر 2006 تک مسلسل ان کےلیے شاعری لکھتے رہے۔ بقول راوی، ایک وقت ایسا بھی آیا کے عطاء اللہ عیسٰی خیلوی اپنی آواز کے زعم میں آکر افضل عاجز کو کم تر ثابت کرتے دکھائی دینے لگے۔ نامور فوک گلوکار اُن کو یہ جتانے لگے کہ آپ کی شاعری میری آواز کی محتاج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن ایسا آیا کہ افضل عاجز کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ایک روزآپس میں سخت 'تو تو، میں میں' ہوگئی۔ جب برسوں کا ساتھ لمحوں میں اختتام پذیر ہونے لگا تو عطاء اللہ نے کہا ''افضل... میرے بعد کیا کرو گے؟''


افضل نے اپنی روایتی عاجزی کے ساتھ مسکراتے ہوئے جواب دیا ''لالہ! ہم تو غریب لوگ ہیں، سبزی کی ریڑھی لگا کر بھی گھر چلا لیں گے، لیکن میں تو یہ سوچ رہا ہوں، میرے بعد آپ کا کیا ہوگا؟''


خیر بات آئی گئی ہوگئی اور وقت گزرتا چلا گیا۔ سامعین شاہد ہیں کہ اس جھگڑے کے بعد سے تاحال عطاء اللہ عیسٰی خیلوی کا کوئی نیا گانا کسی کو سننے کو نہیں ملا ہوگا جو مشہور ہوا ہو۔ (سوائے ایک سیاسی گانے کے) لیکن افضل عاجز نے اُس کے بعد دیگر گلوکاروں کےلیے متعدد گیت لکھے اور وہ زبانِ زد عام بھی ہوئے۔


راقم الحروف کو یہ واقعہ اس لیے بھی یاد آیا کہ ہمارے صحافتی اداروں میں نجانے کتنے ہی ڈی این، نیوز کاسٹر، اینکر، پروڈیوسر وغیرہ موجود ہیں جن کی نام نہاد کامیابی کے پیچھے تحقیق سے تحریر تک کا کام کرنے والے نجانے کتنے ہی ایسے ہی ہاتھ ہوتے ہیں جن کے ساتھ افضل عاجز کی طرح کا ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ جن کی قدر و قمیت کے اندازہ شاید اُن کے جانے کے بعد کسی نے لگایا ہوگا۔ وہ ہاتھ جو کسی خبر کی انتہائی باریک بینی سے جانچ پڑتال، متعدد ذرائع سے اُس کی تحقیق کرنے کے بعد اُس پر اپنے قلم کی سیاہی خرچ کرتے ہیں، الفاظ کے سمندر میں ڈوب کر انگنت نایاب موتیوں کا چُنائو کرکے اُسے خوبصورت تحریر کے سانچے میں ڈھال کر موصوف کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، اور وہ اداکار صفت شخصیت اُن سے دادرسی حاصل کرتے ہیں۔


عرصۂ دراز سے افضل عاجز اور فقیر سمیت نجانے کتنے ہی ایسے قابل ترین ذہنوں کو مستعمل جان کر اپنی کامیابی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ سیڑھی کی طرح استعمال کیے جانے والے ان پوشیدہ ہاتھوں کی قدر آخر کب کی جائے گی؟ آخر کب وہ دن آئے گا جب اِن کی تنخواہیں بھی اِن کی قابلیت کے معیار کے مطابق طے کی جائیں گی؟ کسی کی قابلیت کو محض اے پی، کاپی ایڈیٹر، ریسرچر جیسے کھوکھلے کوزوں میں بند کی جانے والی اِس غلامانہ سوچ کو آخر کب تک پروان چڑھایا جائے گا؟


میڈیا ہاؤسز میں مالکان کے غیر ضروری چمچوں کو تقریباً ہم سب نے کہیں نہ کہیں یہ جملہ کہتے ہوئے سنا ہی ہوگا کہ ''اگر یہاں سے گئے تو تمہارا کیا ہوگا؟'' ڈریئے اُس وقت سے جب ان پوشیدہ ہاتھوں نے مل کر آپ کو یہ جواب دے دیا کہ ''ہم تو غریب لوگ ہیں، سبزی کی ریڑھی لگا کر بھی گھر چلا لیں گے، لیکن ہم تو یہ سوچ رہے ہیں کہ ہمارے بعد آپ کا کیا ہوگا؟''


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں