شہادت امام حسینؓ کے سنہری سبق
کربلا کے حق و باطل کے معرکے نے تاریخ کے دھارے کا رخ بدل دیا۔ نوجوان رہنما اور عظیم سپہ سالار حضرت امام حسینؓ نے انمٹ نقوش چھوڑے۔ آج پستی اور زبوں حالی کا شکار امت اور خصوصاً مایوس نوجوانوں کےلیے اس امام عالی مقام کی ہستی میں ہزاروں سبق موجود ہیں۔
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کےلیے
یہ شعر شاید حضرت امام حسینؓ کے جذبہ فولاد کےلیے ہی لکھا گیا تھا۔ آپ مرد آہن تھے۔ آپ ہمت پامردی جرأت ولولے اور مردانگی کا ایک مینار تھے۔ نہتے اہل بیت کے ساتھ شر اور باطل کی قوت کا مقابلہ کیا اور عصمت رسول پر قربان ہوگئے۔ یہی اولین سبق ہے۔ حق کی راہ میں سختیاں اور تکالیف امر ہیں۔ ان کو جھیلنا پڑتا ہے۔ گردش ایام کا رخ موڑنے کےلیے ابلیسی قوتوں سے ٹکرانا پڑتا ہے۔
دوسرا سب سے اہم سبق یہ ہے کہ خاندان اور خونی رشتے مقصد سے زیادہ اہم نہیں ہوتے۔ حق اور راستی کا موٹو زیادہ مقدم حیثیت رکھتا ہے۔ روحانی رشتے دنیاوی رشتوں پر مقدم ہیں۔ اللہ اور اس کے رسولؐ سے محبت کی خاطر تمام رشتے قربان۔ آج فلسطین میں بھی کربلا برپا ہے اور اہل فلسطین یہود کا مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں اور شہادت امام حسینؓ کا فیضان جاری ہے۔ یقیناً یہود بھی نیست و نابود ہوں گے۔
تیسرا سب سے سنہری اصول جو کربلا سے چنا ہوا گوہر ہے، وہ مقصد سے روگردانی نہ کرنا۔ امام حسینؓ دنیاوی جاہ و جلال قبول کرکے گورنر شپ حاصل کرکے یا یزید کی بیعت کرکے عارضی خوشی حاصل کرسکتے تھے، مگر انہوں نے اخروی زندگی کو ترجیح دی اور حق کے علمبردار بن کر میدان عمل میں کھڑے ہوئے اور امر ہوئے۔ آپ نے مقصد سے رخ نہ موڑا۔
چوتھا اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت امام حسینؓ کی زندگی بطور نوجوان قابل تقلید ہے اور گمراہی، گناہوں اور آلودگی سے پاک تھی اور مشعل راہ تھی۔ قیادت کا یہی سنہرا اصول ہے۔
پانچواں اہم نکتہ جو برآمد ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ تائیدِ ایزدی مقصد میں کامیابی کےلیے لازم و ملزوم ہے۔ امام حسین کی قربانی کو مثال بنا کر کائنات کے آگے پیش کیا گیا اور آپ کے نام کو دوام بخشا گیا اور مخالفوں کو نفرت اور معدومیت سے نوازا گیا۔ یقیناً باطل مٹنے کی ہی چیز ہے۔
چھٹا اہم نکتہ یہ ہے کہ موت سے صرف بزدل ڈرتے ہیں۔ بہادر موت کو گلے لگاتے ہیں۔
ساتواں اہم نکتہ یہ ہے کہ وسائل کی عدم دستیابی مقصد کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہوا کرتی۔ اللہ کے شیر قوت ایمان پر بھروسہ کرتے ہیں۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
آٹھواں اہم نکتہ یہ ہے کہ جارحیت مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔ حربی میدانوں میں قتل و غارت اور دہشت گردی مسلمان لیڈروں نے کبھی نہیں کی۔ یہ کافروں کا شیوہ ہے۔ حضرت امام حسینؓ رحمت اللعالمینؐ کے نواسے تھے۔ آپ جارح نہیں تھے۔ آپ دفاع وطن اور دفاع دین اور دفاع حق و راستی کے پیامبر تھے اور اسی خاطر شہید ہوگئے۔
نواں اصول ہے کہ ملوکیت، شہنشاہیت، ناجائز حکمرانی کو تسلیم نہ کرنا۔ غاصب اور شاطر حکومتیں بالآخر اپنے انجام کو پہنچتی ہیں۔
دسویں بات یہ ہے کہ دنیاوی باطل جاہ و جلال پر شہادت کی موت کو ترجیح دینا خاندان رسول کی روایت قرار پائی۔
گیارہویں حکمت یہ ہے کہ
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی
بارہویں حکمت یہ تھی کہ قرون اولیٰ اور قرون وسطیٰ کے مسلمان نوجوان دنیاوی لذتوں اور دنیاوی توجہ ہٹانے والی چیزوں سے کبھی گمراہ نہ ہوئے تھے بلکہ دنیاوی امور ان پر غالب آ ہی نہ سکتے تھے۔
تیرہویں حکمت یہ تھی کہ مردانگی حسین ایک مثل بن گئی۔ آپ مظلوم قوتوں کا استعارہ قرار پائے۔
چودہویں حکمت یہ تھی کہ تربیت رسولؐ کا عملی مظاہرہ نواسے نے کربلا کے میدان میں کیا۔ بہادری کرار جیسی، راست بازی فاطمہ جیسی اور استقلال نانا جیسا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔