مہنگائی پر قابو پا کر عوام کو ریلیف دیں
وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں9.99 روپے فی لیٹر جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 6.18روپے فی لیٹر اضافہ کیا ہے۔ پٹرول ،بجلی اورگیس ان میں سے کسی ایک کی قیمت میں اضافہ ہو جائے تو مہنگائی کا گراف بھی اوپر چلا جاتا ہے۔ اب تو توانائی کے تینوں ذرایع کی قیمت میں بیک وقت اضافہ کردیا گیا ہے۔
اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ ہر15 روز بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں رد و بدل کیا جاتا ہے، ایک ہفتے بعد سے ہی قیمتوں میں کمی بیشی کے حوالے سے چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ پٹرول پمپس پر رش بڑھ جاتا ہے، جب کہ بعض پٹرول پمپ مالکان قیمتوں کی پیشگی اطلاع ملنے پر پمپ بند کردیتے ہیں، تاکہ کم قیمت پر خریدا ہوا پٹرول رات بارہ بجے کے بعد مہنگا فروخت کیا جائے،اس عمل پر باز پرس کرنے والا کوئی حکومتی ادارہ حرکت میں نہیں آتا، بس من مانی کا چلن عام ہے۔
گزشتہ مہینوں کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاصی کمی کی گئی، یہ حکومت کو کریڈٹ جاتا ہے مگر اس کا ریلیف عوام کو بہت کم ملا ہے کیونکہ دیگر اشیاء کی مہنگائی میں کمی کا کوئی میکنزم سامنے نہیں لایا گیا، جس کے باعث صارفین تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات پوری طرح منتقل نہ ہو سکے۔ خراب معاشی حالات کے باعث پاکستان میں مزدور پیشہ افراد کی آمدن کئی برسوں سے یا توکم ہوئی ہے یا وہیں کی وہیں ہے جب کہ مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
حکومت نے رواں سال بجٹ میں مہنگائی کی زیادہ سے زیادہ شرح 21 فی صد تک رکھنے کا ہدف طے کر رکھا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے نتیجے میں رواں مہینے میں مہنگائی کی شرح بڑھ سکتی ہے۔بعض مبصرین اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام کے معاہدے کے بعد پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی مزید بڑھے گی جو اس وقت بھی 60 روپے ہے۔ پٹرولیم لیوی میں ممکنہ اضافے نتیجے میں پٹرولیم مصنوعات کی مجموعی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔
پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی، ٹیکسز میں اضافے، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ہونے والی زیادتی سے آج کل پاکستان مہنگائی کی شدید لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ مہنگائی کی اس شدت نے نہ صرف عام آدمی کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے بلکہ مڈل کلاس طبقے کے لیے بھی سفید پوشی قائم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں گراس روٹ لیول پر اشیاء خورونوش کی مہنگائی کی بڑی وجہ آڑھت کا یکطرفہ نظام بھی ہے۔ مال فیکٹری سے آڑھتیوں اور تھوک مارکیٹ میں جاتا ہے۔
وہاں سے دکانداروں کے پا س آتا ہے۔ جیسے ہی مارکیٹ میں کسی چیزکی طلب بڑھتی ہے،آڑھتی مال روک لیتا ہے، اس لیے اس جنس کی قیمت اگر دس روپے بڑھنی چاہیے تو وہ 20 روپے بڑھ جاتی ہے۔ سبزیوں اور پھلوں پر تو آڑھتیوں کی اجارہ داری ہے۔ مثال کے طور پر منڈی میں ایک کسان سے آلو 20 روپے کلو خریدا جاتا ہے ،آڑھتی اپنا دس روپے منافع رکھ کر منڈی میں ہی بیٹھے ہوئے بڑے بیوپاری کو تیس روپے فی کلوگرام فروخت کردیتا ہے ۔
یہ بیوپاری اپنا دس روپے منافع رکھ کر آلو شہر سے آنے والے دکان داروں کو چالیس روپے فی کلوگرام کے حساب سے فروخت کردیتا ہے۔ دکاندار اس میں ٹرانسپورٹ کا کرایہڈالتا، چھانٹی کرتا ہے اور خراب مال کی قمیت ڈال کر آخری صارف کو آلو ساٹھ روپے سے ستر روپے فی کلوگرام بیچتا ہے۔ جس کسان نے آلوکی فصل کاشت کی ، دن رات محنت کی، اسے صرف بیس روپے فی کلو گرام ملا جب کہ درمیان کا 50 روپے منافع سپلائر،آڑھتی اور دکاندار میں تقیسم ہوگیا۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کسان اور آخری صارف کے درمیان والے طبقے نے ایک کلو گرام پر 50 روپے کمائے، مارکیٹ کمیٹیوں کے ارکان نے الگ جیب گرمی کی جب کہ حکومت کو ایک روپے کا ٹیکس بھی نہیں ملا۔ پاکستان میں سبزیوں اور پھلوں کی بے جا مہنگائی کم کرنے کے لیے حکومت کو منڈی کے نظام میں تبدیلی کرنا پڑے گی۔
ماہرین اقتصادیات کے مطابق بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے صارفین کو خواہشات اور ضروریات میں فرق سامنے رکھنا ہوگا۔ خریداری کلچر اور نفسیات میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔حکومت کو بھی معاون و مدگار کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔اگر سرکاری تعلیم ادارے فعال ہوں، فیسیں کم ہوں، تعلیمی معیار بہتر ہو تو کم آمدنی والے طبقے کے تعلیمی اخراجات کم ہوسکتے ہیں جو ایک بڑا ریلیف ہوسکتا ہے۔سرکاری اسپتالوں اور میونسپل ڈسپنسریوں کے ذریعے کم آمدنی والے طبقے کے طبی اخراجات میں کمی لا جاسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق کسی بھی گھر میں عام طور پر جو ضروری اخراجات کیے جاتے ہیں، ان میں مکان کا کرایہ، ماہانہ یوٹیلٹی بلز، روزانہ کی بنیاد پرخریدا جانے والا سودا سلف، تعلیمی اور طبی اخراجات اور ٹرانسپورٹ وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ ان اگر تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کی مد میں سرکار اپنا معاون و مددگار کا کردار ادا کرے تو عوام کو اچھا خاصا ریلیف مل سکتا جب کہ حکومت کو بھی مالی خسارے کا سامنا نہیں ہوگا۔ عوام سادہ طرز زندگی اپنائیںاور ریاست مدد گار و معاون کا کردار ادا کرے تو معیشت بھی بہتر ہوگی،مہنگائی کا گراف بھی کم ہوگا جب کہ معاشرہ بھی پرسکون رہے گا۔
دنیا بھر میں اس وقت مہنگائی کی ایک بڑی لہر چل رہی ہے، اشیائے خورو و نوش اور انرجی کی قیمتیں 35 سے 45 فیصد تک بڑھ چکی ہیں۔اس کی وجہ عالمی معیشت کی سست روی،ارب پتی افراد کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ،سرمائے کو آزاد چھوڑ دینا، کاروباری اجارہ داریوں کا مستحکم ہونا ہے ۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بھی سرمایہ چند گروپوں تک محدود ہوگیا ہے ،عالمی معیشت سے سرمایہ نکل کر چند ہاتھوں میں جمع ہورہا ہے لیکن عالمی معیشت میں اس حساب سے سرمایہ کاری نہیں ہورہی ۔ دنیا بھر میں پراکسی جنگیں، خانہ جنگیاں، دہشت گردی نے غریب ملکوں کی معیشت اور ریاستی نظام کو کمزور کردیا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔
پاکستان میں بلیک اکانومی کے بینفشری وائٹ کالر کریمنلز اور دہشت گرد گروہوں کے درمیان مفادات کی یکسانیت کی وجہ سے پورا نظام مفلوج ہوچکا ہے۔ آئین کے آرٹیکلز، قوانین اور محکمانہ ضوابط آپس میں ایسے گڈمڈ ہوچکے ہیں، انھیں واپس اپنی اپنی جگہ پر لانا ممکن نہیں رہا۔ قانونی موشگافیوں، غیرمحتاط آئینی تشریحات ، سطحی قانون سازی اور ترامیم نے ریاست کے پورے ڈھانچے کو ہلا دیا ہے ۔ کس کا اختیار کہاں سے شروع ہوتا اور کہاں ختم ہوتا ہے، ملک کا آئین و قانون واضح لائن کھینچنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ قیمتیں بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی کمزور ریاستی و حکومتی ڈھانچہ ہے۔
تحصیل لیول پر اسسٹنٹ کمشنرز بھی موجود ہیں، پرائس کنٹرول کمیٹیاں بھی قائم ہیں، مارکیٹ کمیٹیاں بھی موجود ہیں، میونسپل کارپویشن اور اس کے ادارے بھی ہیں، لاکھوں سرکاری ملازم ہیں، اربوں روپے سرکاری خزانے سے انھیں ادائیگی بھی ہورہی ہے ۔ لیکن اوور چارجنگ ، تجاوزات کے خلاف کس نیکاروائی کرنی ہے ، کلیئر نہیں ہے۔پولیس والے بھی دکانیں بند کرادیتے ہیں اور کھلوا دیتے ہیں، مجسٹریٹ صاحبان بھی قید و جرمانہ کرسکتے ہیں، میونسپل والے بھی کارروائی کرسکتے ہیں، ڈپٹی کمشنر بھی کارروائی کرسکتا ہے، ٹریفک پولیس والے بھی گاڑیوں کے کاغذات چیک کرسکتے ہیں، تھانے کی پولیس بھی یہ کام کرسکتی ہے، ایکسائز ڈیپارٹمنٹ بھی ایسا کرسکتا ہے، یہ منشیات پکڑ بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی پکڑ سکتے۔
ایسے نظام کے تحت حکومت چلانا اور ریاست مستحکم کرنا کیسے ممکن ہوگا۔ ایک ہی ضلع میں ہر دوکلومیٹر کے بعد چیزوں کے ریٹ بدل جاتے ہیں، ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں قانون بدل جاتے ہیں۔ جس کا جتنا جی چاہے وہ مانگ لے، چھین لے، آئین و قانون کی رٹ ماننے سے انکار کردے، اسے پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ مہنگائی کی وجوہات داخلی ہوں تو اسے کنٹرول کرنے کے دو ہی طریقے رائج ہیں۔ ایک یہ ہے کہ مارکیٹ کے اندر مسابقت کا رجحان ہو جیسے کہ جدید دنیا کے اندر ہے۔ وہاں کی بڑی بڑی سپر مارکیٹوں کے درمیان ہمیشہ مقابلے کی فضا رہتی ہے کہ کون اپنے صارفین کو سستی سے سستی اشیا مہیا کرے گا، لیکن ہمارے ہاں ایسی کوئی مارکیٹ موجود نہیں ہے، جو اس عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہو۔ ہمارے ہاں مقامی سطح کی چھوٹی چھوٹی مارکیٹیں ہیں جو مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے بجائے اس میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔
جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو انھیں اپنا منافع کئی گنا کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور لوگوں کے پاس چونکہ کوئی آپشن نہیں ہوتا، اس لیے وہ انھی مارکیٹوں سے خریداری پر مجبور ہوتے ہیں۔ باہرکی دنیا میں قیمتوں کے کنٹرول کا کوئی طریقہ کار نہیں ہوتا۔ حکومت صرف مقابلے کی فضا قائم کرتی ہے اور یہ یقینی بناتی ہے کہ کسی کی اجارہ داری قائم نہ ہو۔ پاکستان میں مناپلی کنٹرول اتھارٹی تو موجود ہے لیکن وہ کیا کرتی ہے کچھ پتہ نہیں۔ پاکستان میں مہنگائی کنٹرول نہ ہونے کی وجہ بد انتظامی بھی ہے۔
موجودہ حالات کو ہی دیکھ لیں تو چیزوں کی اتنی کمی نہیں تھی لیکن ذخیرہ اندوزوں نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے من مانے ریٹس وصول کیے اور لوگوں نے ادا کیے۔ چونکہ اس سال پاکستان کے گروتھ ریٹ کو دیکھتے ہوئے مہنگائی کی شرح کم ہونے کی توقع نہیں ہے اس لیے حکومت کو چاہیے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیٹھے۔ پٹرول اور انرجی پر عائد ٹیکسوں میں دس فیصد کمی کرائے۔