سپریم کورٹ کا فیصلہ اور ردعمل

اگر مسلم لیگ ن نے کسی کے اشاروں پر چلنے کا راستہ اختیار کیا تو اس کا حشرق لیگ سے بھی براہوگا


[email protected]

مجھے اچھی طرح یاد ہے چند سال پہلے جب قومی اسمبلی کے دو ممبران نے مجھے فون پر کہا تھا کہ ہم نے آپ کا کالم پڑھا ہے جس میں آپ نے آئین کی اس شِق پر تنقید کی ہے جس میں تحریر کیا گیا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر صرف سپریم کورٹ کے سرونگ یا ریٹائرڈ جج کو ہی تعینات کیا جاسکتا ہے، دونوں نے میرے دلائل سے اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے درست لکھا ہے کہ '' الیکشن کرانا ایک سراسر انتظامی نوعیت کا عمل (Administrative exercise) ہے جس کے لیے جج صاحبان کی نہ تربیت ہوتی ہے اور نہ ہی تجربہ۔ لہٰذا اس شِق میں ترمیم کی جائے اور اس عہدے پر عدالتی افسر کے بجائے کسی ریٹائرڈ ایڈمنسٹریٹر کو تعینات کیا جائے'' میں نے تسلسل کے ساتھ کالموں میں اس اشو کو اجاگر کیا تھا اور کچھ اہم افراد اور ارکانِ پارلیمنٹ کو بھی دلائل سے قائل کیا تھا۔


اس ساری جدوجہد کے نتیجے میں آئین میں ترمیم ہوئی اور ایک ریٹائرڈ جج کی جگہ ایک ریٹائرڈ سول سرونٹ کو پہلی بار چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا۔ جس ریٹائرڈ افسر کو تعینات کیا گیا اگرچہ اس کا نام بطور وزیراعظم عمران خان نے ہی تجویز کیا تھا، مگر بہت جلد خان صاحب نے اپنے ہی انتخاب پر یہ کہہ کر تنقید کرنا شروع کردی کہ مجھے تو اُس کا نام اسٹیبلشمنٹ نے دیا تھا۔ موصوف کا یہی اعتراف اس کے طرزِ سیاست کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ عمران خان صاحب اگر منصفانہ الیکشن کرانے میں مخلص تھے تو وہ کسی کے تھوپے گئے نام کو مسترد کردیتے اور جس سول سرونٹ کو وہ خود باضمیر اور جراتمند سمجھتے ، اس کا انتخاب کرتے مگر وہ ایسا کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔


موجودہ سی ای سی کیڈٹ کالج حسن ابدال میں مجھ سے پانچ سال جونیئر تھے۔ سروس میں بھی مجھ سے چند سال جونیئر ہیں۔ 2013میں جب محکمہ پاسپورٹ کے بحران پر قابو پالیا گیا اور مجھے وہاں سے ہٹا کر آئی جی موٹرویز پولیس تعینات کردیا گیا تو میرے بعد انھیں ڈائریکٹر جنرل پاسپورٹ لگایا گیا۔


اُن سے اچھا سماجی تعلق ہونے کے باوجود مجھے اِس بات کا دکھ ہے کہ بڑی تگ ودو کے بعد آئین میں ترمیم کے نتیجے میں پہلی بار ہماری برادری کا فرد اس اہم عہدے پر تعینات ہوا تھا۔ مگر بدقسمتی سے وہ بھی اس عہدے کا تقدس اور غیر جانبداری برقرار نہ رکھ سکنے جیسے الزامات سے بچ نہ پایا، آج حکومتی پارٹیوں کے علاوہ باقی تمام پارٹیاں اس کے استعفے کا مطالبہ کررہی ہیں۔


اگر پی ٹی آئی نے فارن فنڈنگ میں قانون کی خلاف ورزی کی تھی تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہیے تھی، لیکن اگر اس نے انٹرا پارٹی الیکشن میں تمام قواعد وضوابط پر عمل نہیں کیا تھا تو اے این پی کی طرح اُس پر بھی کچھ جرمانہ عائد کیا جاسکتا تھا۔ بدقسمتی سے تمام پارٹیوں پر خاندانی آمریت مسلط ہے، اس لیے پارٹی کے اُس ''حکمران خاندان'' سے باہر کے کسی فرد کو پارٹی کی صدارت مل جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، یہ چیز جمہوریت کی روح کے ہی خلاف ہے، مگر یہاں جمہوریت کے ساتھ نہ کوئی مخلص ہے اور نہ ہی کوئی جمہوریت کو مضبوط دیکھنا چاہتا ہے، یہاں تو ہر بڑا سیاستدان سیاست کو ایک منافع آور کاروبار سمجھتا ہے اور جمہوریت کا راگ الاپ کر سیاست کے ذریعے پیسہ اور پاور حاصل کرتا ہے۔ لہٰذا معمولی فرق تو ہوسکتا ہے مگر کسی پارٹی کے انٹرا پارٹی الیکشن بھی قواعد وضوابط کی اسپرٹ کے مطابق نہیں ہوتے، مگر صرف ایک پارٹی کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنا اور اس کے الیکشن کو بنیاد بنا کر اس کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کردینا زیادتی اور ناانصافی تھی جس کا میں تسلسل کے ساتھ ذکر کرتارہا ہوں۔


ایک بڑی پارٹی سے اس کا انتخابی نشان چھین لینے کا فیصلہ چیخ چیخ کو کہہ رہا تھا کہ یہ فیصلہ آزادی سے نہیں کسی دباؤ کے تحت کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کی سب سے بڑی اور بنیادی ذمے داری ہی یہ ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ انتخابات منصفانہ ہوں، یعنی جو چیز بھی منصفانہ الیکشن کی راہ میں رکاوٹ بنے اسے ہٹا دے، مگر ایک پارٹی کا انتخابی نشان چھین کر اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔ اس کے علاوہ پنجاب کی نگران حکومت نے چن چن کو فیلڈ سے اچھے افسر ہٹا دیے اور بہت سی جگہوں پر بدنام تعینات کردیے۔ اپوزیشن کے گھروں پر مسلسل ریڈ ہوتے رہے، ان کی گرفتاریاں ہوتی رہیں اور وہ انتخابی مہم نہیں چلا سکے ۔


میڈیا اور اپوزیشن یہ تمام حقائق متعلقہ حکام کے نوٹس میں لاتے رہے مگر کوئی ایکشن نہ ہوا۔ اس کے باوجود ووٹرز کی اکثریت نے اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ دے دیے تو ان کے فیصلے کا احترام ہونا چاہیے تھا۔ بیلٹ کا تقدس پامال کرنے سے ملکوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی پالیسیوں اور فیصلوں پر میں سخت تنقید کرتا رہا ہوں۔ میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ وہ پاکستان کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس کے علاوہ ان میں اچھی گورننس دینے کی نہ نیت ہے اور نہ اخلاص۔ مگر میں ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو غلط اور نامناسب سمجھتا ہوں۔ میںاس ایشو پر کئی بار لکھ چکا ہوں کہ پی ٹی آئی سے الیکشن سمبل چھین لینا اور اسے اس کی اسپیشل سیٹوں (اگرچہ یہ جنرل مشرف کی بے فائدہ ایجاد ہے) سے محروم کرنا سراسر زیادتی ہے اور اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بڑا عدالتی فورم ہی اس کا ازالہ کرسکتا تھا، لہٰذا سپریم کورٹ نے اس کا ازالہ کردیا جو خوش آیند ہے۔


اِس وقت پی ٹی آئی کی اصل قیادت جیل میں ہے جب کہ مصنوعی اور عارضی قیادت بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے وکیلوں کے ہتھے چڑھی ہوئی ہے جو کوئی متفقہ اور مربوط حکمتِ عملی تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں، پی ٹی آئی کے مختلف الخیال وکیلوں کے متضاد بیانات سے ان کی سیاسی کے علاوہ قانونی حکمتِ عملی بھی کنفیوژن اور انتشار کا شکار ہوئی ہے۔ اُسی کا نتیجہ ہے کہ اس کے ارکان قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے طور پر اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے اور اپنی بڑی پارٹی کو ایک چھوٹی سی پارٹی میں ضم کرنے کا احمقانہ فیصلہ کربیٹھے۔ اسی کنفیوژن میں وہ سپریم کورٹ میں نہ پارٹی بن سکے اور نہ ہی اپنا کیس پیش کرسکے۔


وہ تو عدالتِ عظمیٰ سے اِس قسم کے ریلیف کی توقع ہی نہیں رکھتے تھے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لیڈر فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو وہ ریلیف دیا ہے جو انھوں نے مانگا ہی نہیںتھا۔ یہ دلیل انتہائی بے وزن ہے اس لیے کہ عدالتِ عظمیٰ کسی سول جج کی عدالت نہیں ہے کہ پیش کردہ استدعا تک محدود رہے۔ عدالتِ عظمیٰ کو آئین نے لامحدود اختیار دیے ہیں۔


سو موٹو کا اختیار اسی اسپرٹ کے تحت دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی زیادتی کا خود نوٹس لے اور اس بات کا انتظار نہ کرے کہ victim آکر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے، بلکہ مظلوم کے زنجیرِ عدل کھینچنے سے پہلے ہی عدالت خود معاملے کو دیکھے، حقدار کو اس کا حق دلائے اور victim کو بلائے بغیر انصاف فراہم کر دے۔ بہت سے قابل ججوں کے فیصلے موجود ہیں کہ عدالتِ عظمیٰ کو تکنیکی رکاوٹوں کو ہرگز خاطر میں نہیں لانا چاہیے اور ان رکاوٹوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انصاف فراہم کرنا چاہیے۔ یہ کام عدالتِ عظمیٰ ہی کرسکتی تھی جو اس نے کردیا، لہٰذا اس کی ستائش کرنی چاہیے۔ نہ جانے کس کے کہنے پر نون لیگ اس فیصلے کے خلاف جلوس نکال رہی ہے اور اب پی ٹی آئی کے خلاف ریفرینس دائر کرنے کی باتیں ہورہی ہیںجو انتہائی نامناسب ہیں ۔ اگر ن لیگ استعمال ہوگی تواسے ناقابلِ تلاقی نقصان پہنچے گا۔ ن لیگ کی قیادت کو پھر ایک بڑے ٹیسٹ کا سامنا ہے۔


اگر قائدین ذاتی مفاد سے بالاتر ہوکر سوچیں تو انھیں چاہیے کہ فوری طور پر اعلان کردیںکہ چونکہ پی ٹی آئی اب قومی اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی ہے، لہٰذا حکومت بنانے کا حق ان کا ہے اس سلسلے میں وزارتوں کے مزے لوٹنے والوں کی رائے کو نظرانداز کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو چاہیے کہ سیاسی پارٹی پر پابندی جیسے غیر جمہوری اور ناپسندیدہ فیصلے کو رکوائیں اور ایک گرینڈ ڈائیلاگ کے لیے فوری طور پر تمام سیاسی قائدین کی نیشنل کانفرنس بلائیں۔ تین بار وزیراعظم رہنے والے سب سے سینئر سیاستدان نے قومی مفاد کے مطابق اپنا کردار ادا کیا تو اُن کا قد بھی بڑھے گا، پارٹی بھی بچ جائے گی اور ملک میں سیاسی استحکام بھی آئے گا۔ لیکن اگر مسلم لیگ ن نے کسی کے اشاروں پر چلنے کا راستہ اختیار کیا تو اس کا حشرق لیگ سے بھی براہوگا اور ملک کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔