نیا پنڈورا باکس

نیا پنڈورا باکس ملک میں مزید انتشار، افراتفری، سیاسی و معاشی عدم استحکام کو جنم دے گا

mjgoher@yahoo.com

پاکستان کی قومی سیاسی زندگی نے گزشتہ سات دہائیوں کے دوران بے شمار کروٹیں بدلیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے سیاست دانوں اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان افہام و تفہیم کے فقدان، تلخیوں کی خلیج اور عدم برداشت کے بودے رویوں کے باعث ہر دو فریق کے درمیان نفرتیں، عداوتیں، بغض اور کینہ پروری نے جنم لیا۔ افراتفری، انتشار، بدنظمی اور سیاسی عدم استحکام کی فضا پروان چڑھتی رہی اور غیر جمہوری قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کے آسان مواقع ملتے رہے جو جمہوریت پر شب خون مارنے کا سبب بنے۔


اس صورت حال کے باعث ہی جمہوریت کی کشتی سنگین بحرانوں اور بلاخیز طوفانوں سے ٹکراتی رہی۔ عدلیہ کی آزادی سلب ہوگئی اور نظریہ ضرورت نے جنم لے لیا۔ آئین معطل اور بازیچہ اطفال بنا رہا، ملک دولخت ہوگیا، اس کے باوجود ہمارے ارباب سیاست اور فیصلہ سازوں نے ماضی کی تلخیوں، حادثوں اور رنجشوں کے نتائج سے سبق حاصل نہ کیا۔ یہ بدقسمتی آج بھی ہمارے پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہے۔


یہ ایک طے شدہ مسلمہ امر ہے کہ کاروبار مملکت چلانے کے لیے آئین ہی سب سے مستند اور مقدس دستاویز ہوتی ہے۔ آئین میں عوام سے لے کر خواص تک، سیاست سے لے کر معاشرت تک اور عدالت سے لے کر قیادت تک سب کے حقوق و فرائض کا تحفظ موجود ہوتا ہے۔ ہر ادارے اور افراد کے دائرہ کارکا تعین کیا جاتا ہے۔ آئین و قانون کی حکمرانی ہی سے ریاستی اداروں کے درمیان توازن پیدا ہوتا ہے، دنیا بھرکے مہذب اور عادلانہ جمہوری معاشروں میں آئین و قانون کی پاسداری پہلا رہنما اصول ہوتی ہے۔



انصاف ہی معاشرے کی تعمیروترقی اور استحکام میں صحت مند اور بنیادی عامل کا کردار ادا کرتا ہے، جب کہ ناانصافی، حق تلفی، ظلم و زیادتی، اناپرستی، ذاتی عناد، باہمی رنجشیں اور شخصی تضادات سے نہ صرف قومی سطح پر لاتعداد مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ یہ معاشرے کے انحطاط، انتشار اور زوال کا بھی سبب بنتے ہیں اور ملک میں سیاسی و معاشی عدم استحکام پیدا ہوتا اور ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جہاں طاقت، ضد اور آمرانہ طرز عمل کے ذریعے اپنی ہی بات بودے اورکمزور دلائل سے سچ ثابت کرنے اور منوانے کا سودا سر میں سما جائے اور رہنما آئینی اصولوں اور قوانین کو پامال کرنے کی روایت پختہ ہوتی چلی جائے وہاں عادلانہ معاشرتی و جمہوری نظام کے قیام، معیشت کے استحکام، ریاستی اداروں کے وقار اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے سوالات کا کوہ ہمالیہ کھڑا ہو جاتا ہے اور جواب تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔


افسوس کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ریاست کے تمام آئینی ادارے ایک طویل عرصے سے ایک دوسرے کے مقابل اور برتری کی دوڑ میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کبھی پارلیمنٹ کی بالادستی،کبھی عسکری آمریت، کبھی عدلیہ کا رعب داب، کبھی میڈیا کی حاکمیت اور کبھی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان صف آرائی کے مناظر وطن عزیز کا جمہوری چہرہ داغ داغ کرتے نظر آتے ہیں۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ معاشرہ ظلم پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ناانصافی سے نہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل سے ایک اخباری رپورٹر نے یہ پوچھا کہ ''مسٹر چرچل! تم جنگ کیسے جیتو گے؟ تو اس کا جواب تھا کہ ''اگر ملک میں عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں تو ہم جنگ لازمی جیتیں گے۔'' ذرا سوچیے! کہ ملک میں انصاف کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ جب کہ ہمارے عدالتی فیصلوں کا حال سب کے سامنے ہے ۔


تازہ مثال مخصوص نشتوں کے حوالے سیعدالت عظمیٰ کا اکثریتی فیصلہ ہے ۔ تیرہ ججز پر مشتمل فل کورٹ کے آٹھ ججز نے مخصوص نشتیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ سنایا جب کہ پانچ ججز کی رائے مختلف تھی۔ حکومت اور الیکشن کمیشن اس فیصلے پر تنقید کررہے ہیں، فیصلے کو سیاسی قرار دیا جا رہا ہے اورکہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کو وہ ریلیف دیا گیا جو اس نے مانگا نہیں، (ن) لیگ نے عدالت میں فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائرکرتے ہوئے حکم امتناع کی درخواست کی ہے۔ اس پہ مستزاد حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی اور عمران خان، سابق صدر عارف علوی اور ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے ریفرنس سپریم کورٹ بھیجنے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے۔ پی ٹی آئی نے حکومتی فیصلے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مقابلہ کرنے عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔


پاکستان کے صاحب دانش اور عوامی حلقے پریشان ہیں۔ محاذ آرائی کا جو نیا پنڈورا باکس کھولا گیا ہے وہ ملک میں مزید انتشار، افراتفری، سیاسی و معاشی عدم استحکام کو جنم دے گا۔

Load Next Story