بے مثل و بے مثال ہے سیرت حسینؓ کی
اِن جری اور سرفروش مردانِ خدا کو ہمارا سلام ہو، جنہوں نے اپنے چراغِ زندگی کو گُل کرکے قندیلِ اسلام کو فروزاں رکھا
مولانا محمد مصطفیٰ جوہر نے کیا خوب کہا ہے:
حسین ابنِ علیؓ کا غم دلِ مضطر میں رہتا ہے
سُنے گا پوچھنے والے طہارت دیدۂ تر کی
یہ آنسو سیّدہ ؓ کے گوشۂ چادر میں رہتا ہے
آج یومِ عاشورا ہے۔ جانِ رسولِ مقبولؐ، سبطِ اصغر، جگر گوشۂ علیؓ و بُتولؓ، سیّد و سردارِ جوانانِ اہلِ جنّت، سیّد الشہداء، شاہِ شہیدانِ کربلا حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادتِ عظمیٰ کا دن۔ آج کائنات کے اِس سب سے بڑے غم کے موقع پر ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم واقعۂ کربلا کے تناظر میں مقصدِ حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو افکار و آثار یعنی کلامِ امامِ عالی مقامؓ ہی کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں، تاکہ نہ صرف دائمی راہ نمائی ہمارا مقدّر ہو، بل کہ ہم دُنیا اور آخرت میں فوز و فلاح اور پروانۂ نجات حاصل کرکے سُرخ رو ہوسکیں۔
حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جس وقت مدینۂ منوّرہ سے مکّۂ معظمہ روانہ ہوئے، اُنہوں نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہؓ جو امیرالمومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ کے فرزند ہیں، کے نام ایک وصیّت نامہ لکھا، جو معروف بُزرگ عالمِ دین سیّد ابن طاؤسؒ نے نقل کیا ہے۔ اِس خط میں حضرت امام حسینؓ نے اپنے قیام کا محرّک بیان کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ آپؓ مختلف حالات میں کیا طریقِ کار اپنائیں گے۔ علاوہ ازیں امامِ عالی مقامؓ نے ان باطل محرّکات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے جو انسان کو اُکساتے ہیں اور شہوات اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے جنگ پر آمادہ کرتے ہیں، لیکن مردانِ حق ہمیشہ ایسے محرّکات سے پاک ہوتے ہیں۔ نیز یہ بھی بتایا ہے کہ مردانِ حق کی تحریک بھی حسبِ دستور نفسانیت سے ہمیشہ پاک ہوتی ہے۔ آئیے! یہاں آپ ؓکے وصیّت نامے کے چند اقتباسات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
''بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔ یہ وصیّت ہے حسین بن علیؓ کی محمد ابنِ حنفیہؓ کے نام۔ میں حسین گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ ایک ہے۔ کوئی اُس کا شریک نہیں اور آنحضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اﷲ کے بندے اور رسول ہیں، جو حق تعالیٰ کی طرف سے پیغامِ حق لے کر آئے۔ جنت حق ہے، جہنم حق ہے اور اِس میں شک نہیں کہ قیامت آنے والی ہے۔ اُس دن اﷲ مُردوں کو زندہ کرے گا۔ ''
''میری تحریک کا مقصد نہ زیادتی ہے نہ سرکشی اور نہ ہی یہ نفسانیت پہ مبنی ہے۔ میرا یہ مقصد نہیں کہ فساد پھیلاؤں یا کسی پر ظلم کروں۔ میں تو اپنے نانا کی اُمّت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں اور اپنے نانا اور اپنے والد کی سیرت کی پیروی کررہا ہوں۔ اگر لوگ میری دعوت قبول کرتے اور حق کو تسلیم کرتے ہیں تو خیر اور اگر قبول نہیں کرتے تو میں صبر کروں گا۔''
''میرے بھائی، یہ میری وصیت ہے تمہارے لیے۔ میں صرف اﷲ سے توفیق کا طلب گار ہوں۔ اُسی پر میرا بھروسا ہے اور اُسی کے پاس ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔''
اِن مطالب پر ہمیں واقعتاً غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اِن میں امامِ عالی مقام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مقصد، مِشن اور ہدف واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اِن جری اور سرفروش مردانِ خدا کو ہمارا سلام ہو، جنہوں نے ساحلِ فرات پر اپنے چراغِ زندگی کو گُل کرکے قندیلِ اسلام کو فروزاں رکھا، تاکہ اِس کی تابانی سے بزمِ کائنات منوّر رہے۔ شمعِ شہادت کے ان پروانوں نے احیائے اسلام اور وِلائے اہلِ بیتؓ کی خاطر اپنے خون میں ڈوب کر تاریخِ اسلام کا وہ رنگین باب رقم کِیا، جس کا چرچا، چار دانگ عالم میں یوں بلند ہوا کہ ظلم و استبداد سے پُر ملوکیت کے چہرے کو داغ داغ کرگیا۔
ڈوب کر پار اُتر گیا اسلام
آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے
حضرت امام حسینؓ نے ساحلِ فرات پر لشکرِ یزید سے خطاب میں اپنے اِس دائمی منشور کا اعلان فرمایا، جس پہ عمل کی صورت میں تاقیامت سب کے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے :
''اﷲ کے بندو! اﷲ سے ڈرو۔ اور دُنیا سے ہوشیار ہوجاؤ۔ اگر دُنیا کسی کے لیے ہمیشہ باقی رہنے والی ہوتی اور کوئی دُنیا میں ہمیشہ باقی رہتا تو انبیائے کرامؑ ہمیشہ باقی رہنے کے زیادہ مستحق تھے۔ وہ رضائے الٰہی (پر چلنے) کے زیادہ حق دار تھے، مگر یہ کہ خدا نے دُنیا کو مصیبتوں کے لیے اور دُنیا والوں کو مر جانے کے لیے پیدا کیا ہے۔ دُنیا کی ہر نئی چیز کہنہ ہوجانے والی اور ہر نعمت زائل ہوجانے والی ہے۔ دُنیا کی خوشیاں ناپائیدار ہیں۔ یہ ایک وقتی منزل اور عارضی گھر ہے۔ لہٰذا اِس دُنیا سے زادِ راہ (آخرت کے لیے) جمع کرلو۔ اور بہترین زادِ راہ اﷲ کا خوف ہے۔اﷲ سے ڈرو۔ شاید فلاح پاجاؤ۔'' ( بہ حوالہ: بحارالانوار۔ علّامہ مجلسیؒ)
علم و حکمت کے سمندر کو دو سطروں کے کُوزے میں امامِ عالی مقام کس طرح بند فرماتے ہیں، استفادہ کیجیے:
''اے اﷲ! جس نے تجھے کھو دیا ، اُس کو کیا ملا ؟ اور جس نے تجھ کو پالیا، کون سی چیز ہے جس کو اُس نے نہیں حاصل کیا ؟ جو بھی تیرے بدلے میں جس پر بھی راضی ہوا، وہ تمام چیزوں سے محروم ہوگیا۔''
سورۂ آلِ عمران میں اﷲ رحمن و رحیم ، پیغمبر اکرم ﷺ سے ارشاد فرما رہا ہے، مفہوم:
''پھر جب تمہارے پاس علم (قرآن) آچکا اِس کے بعد بھی اگر تم سے کوئی (نصرانی) عیسیٰ کے بارے میں حجّت کرے تو کہو کہ (اچھا میدان میں) آؤ، ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو ( بلائیں) اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنی جانوں کو (بلائیں) اور تم اپنی جانوں کو، اِس کے بعد ہم سب مِل کر اﷲ کی بارگاہ میں گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت کریں۔''
اِس الٰہی پیغام میں قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ جب کسی بچے کو گود میں لیا جاتا ہے، تو چہرے کے ساتھ چہرہ آجاتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم بنی نجران (نصرانیوں) سے مباہلے کے موقع پر اپنے اہلِ بیت حسنینِ کریمینؓ، حضرتِ بی بی فاطمہ زہر ا ؓ اور حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ کو اپنے ساتھ لے کر جا رہے ہیں، آگے پیغمبر اکرم ؐ ہیں، آپؐ کے پیچھے حضرتِ فاطمہ زہراؓ ہیں، حسنؓ کا ہاتھ پیغمبر اکرمؐ تھامے ہوئے ہیں، آخر میں حضرت علی مرتضیٰؓ آرہے ہیں، لیکن حسینؓ کیوں کہ کم سن ہیں، اِس لیے پیغمبر اکرمؐ انہیں اپنی گود میں لے کر جارہے ہیں۔
گویا پیغامِ نبویؐ یہ ہے کہ اگر مجھے دیکھنا ہے، تو میرے حسینؓ کو دیکھ لو۔ یہ درحقیقت میری سیرت کا عکاس ہے ۔ میری زندگی کا نمائندہ ہے۔ جو یہ کرے گا، وہی آخری بات ہے اور وہی حتمی فیصلہ ہوگا۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے مباہلے میں حسینؓ کو گود میں لے کر اُمّت کو بھی اور اقوامِ عالم کو بھی دِکھا دیا۔ مباہلے میں مسلمانوں کو دِکھانا مطلوب تھا، عظمتِ اہلِ بیتؓ ہے، لیکن اقوامِ عالم کو بھی دِکھانا تھا۔
مستقبل اسلام کا ہے۔ اِس لیے کہ یہ امام حسینؓ سے جُڑا ہُوا ہے۔ آئندہ قرآن کا ہے۔ کل آنے والا دن مسلمانوں کی بہتری کا ہے۔ اِس لیے کہ یہ امام حسینؓ سے جُڑا ہوا ہے، اور جو امامِ عالی مقامؓ سے جُڑا ہو، وہ کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔ جو امام حسین ؓ سے وابستہ ہو، وہ کبھی شکست خوردہ نہیں ہوسکتا۔ سیّد الشہداء امامِ عالی مقامؓ اور آپؓ کے تمام تر جاں نثاروں پر ہم سب کا سلام ہو۔ آپ ؓ ہمیں کیا عمدہ ترین نصائح سے نوازتے ہیں:
''میں تم کو پانچ باتوں کی وصیّت کرتا ہوں۔
اگر تم پر ظلم کیا جائے تو تم ظلم نہ کرو۔ اگر تم سے خیانت کی جائے تو تم خیانت نہ کرو۔ اگر تم کو جھٹلایا جائے تو غصّے میں نہ آؤ۔ اگر تمہاری مدح کی جائے تو خوش نہ ہو۔ اگر تمہاری مذمّت کی جائے تو ناراض نہ ہو، جو بات تمہارے بارے میں کہی گئی ہے، اُس کے بارے میں غور کرو، اگر وہ بات تمہارے اندر ہے تو حق بات کی وجہ سے اﷲ کی نظروں سے گِر جانا کہیں بڑی مصیبت ہے بہ نسبت اِس کے کہ تم لوگوں کی نظروں سے گِر جاؤ۔ اور اگر وہ بات تمہارے اندر نہیں ہے تو بغیر کسی تعب و زحمت کے تم نے ثواب کما لیا۔'' ( بہ حوالہ: تحفۃ العقول)
یہی یومِ عاشورہ کا تقاضا اور حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پیغام کا خلاصہ ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ ہمیں تمام تر تعلیماتِ اہلِ بیتؓ پہ خلوصِ دل سے حتی الامکان عمل کرنے کی توفیق کرامت فرمائے تاکہ ہمارا شمار روزِ قیامت سیدھے ہاتھ میں نامۂ اعمال لینے والوں میں ہو۔ آمین
حسین ابنِ علیؓ کا غم دلِ مضطر میں رہتا ہے
بہر عنوان جیسے گھر کا مالک گھر میں رہتا ہے
سُنے گا پوچھنے والے طہارت دیدۂ تر کی
یہ آنسو سیّدہ ؓ کے گوشۂ چادر میں رہتا ہے
آج یومِ عاشورا ہے۔ جانِ رسولِ مقبولؐ، سبطِ اصغر، جگر گوشۂ علیؓ و بُتولؓ، سیّد و سردارِ جوانانِ اہلِ جنّت، سیّد الشہداء، شاہِ شہیدانِ کربلا حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادتِ عظمیٰ کا دن۔ آج کائنات کے اِس سب سے بڑے غم کے موقع پر ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم واقعۂ کربلا کے تناظر میں مقصدِ حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو افکار و آثار یعنی کلامِ امامِ عالی مقامؓ ہی کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں، تاکہ نہ صرف دائمی راہ نمائی ہمارا مقدّر ہو، بل کہ ہم دُنیا اور آخرت میں فوز و فلاح اور پروانۂ نجات حاصل کرکے سُرخ رو ہوسکیں۔
حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جس وقت مدینۂ منوّرہ سے مکّۂ معظمہ روانہ ہوئے، اُنہوں نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہؓ جو امیرالمومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ کے فرزند ہیں، کے نام ایک وصیّت نامہ لکھا، جو معروف بُزرگ عالمِ دین سیّد ابن طاؤسؒ نے نقل کیا ہے۔ اِس خط میں حضرت امام حسینؓ نے اپنے قیام کا محرّک بیان کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ آپؓ مختلف حالات میں کیا طریقِ کار اپنائیں گے۔ علاوہ ازیں امامِ عالی مقامؓ نے ان باطل محرّکات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے جو انسان کو اُکساتے ہیں اور شہوات اور نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے جنگ پر آمادہ کرتے ہیں، لیکن مردانِ حق ہمیشہ ایسے محرّکات سے پاک ہوتے ہیں۔ نیز یہ بھی بتایا ہے کہ مردانِ حق کی تحریک بھی حسبِ دستور نفسانیت سے ہمیشہ پاک ہوتی ہے۔ آئیے! یہاں آپ ؓکے وصیّت نامے کے چند اقتباسات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔
''بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔ یہ وصیّت ہے حسین بن علیؓ کی محمد ابنِ حنفیہؓ کے نام۔ میں حسین گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ ایک ہے۔ کوئی اُس کا شریک نہیں اور آنحضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم اﷲ کے بندے اور رسول ہیں، جو حق تعالیٰ کی طرف سے پیغامِ حق لے کر آئے۔ جنت حق ہے، جہنم حق ہے اور اِس میں شک نہیں کہ قیامت آنے والی ہے۔ اُس دن اﷲ مُردوں کو زندہ کرے گا۔ ''
''میری تحریک کا مقصد نہ زیادتی ہے نہ سرکشی اور نہ ہی یہ نفسانیت پہ مبنی ہے۔ میرا یہ مقصد نہیں کہ فساد پھیلاؤں یا کسی پر ظلم کروں۔ میں تو اپنے نانا کی اُمّت کی اصلاح کے لیے نکلا ہوں اور اپنے نانا اور اپنے والد کی سیرت کی پیروی کررہا ہوں۔ اگر لوگ میری دعوت قبول کرتے اور حق کو تسلیم کرتے ہیں تو خیر اور اگر قبول نہیں کرتے تو میں صبر کروں گا۔''
''میرے بھائی، یہ میری وصیت ہے تمہارے لیے۔ میں صرف اﷲ سے توفیق کا طلب گار ہوں۔ اُسی پر میرا بھروسا ہے اور اُسی کے پاس ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔''
اِن مطالب پر ہمیں واقعتاً غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اِن میں امامِ عالی مقام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مقصد، مِشن اور ہدف واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اِن جری اور سرفروش مردانِ خدا کو ہمارا سلام ہو، جنہوں نے ساحلِ فرات پر اپنے چراغِ زندگی کو گُل کرکے قندیلِ اسلام کو فروزاں رکھا، تاکہ اِس کی تابانی سے بزمِ کائنات منوّر رہے۔ شمعِ شہادت کے ان پروانوں نے احیائے اسلام اور وِلائے اہلِ بیتؓ کی خاطر اپنے خون میں ڈوب کر تاریخِ اسلام کا وہ رنگین باب رقم کِیا، جس کا چرچا، چار دانگ عالم میں یوں بلند ہوا کہ ظلم و استبداد سے پُر ملوکیت کے چہرے کو داغ داغ کرگیا۔
ڈوب کر پار اُتر گیا اسلام
آپ کیا جانیں کربلا کیا ہے
حضرت امام حسینؓ نے ساحلِ فرات پر لشکرِ یزید سے خطاب میں اپنے اِس دائمی منشور کا اعلان فرمایا، جس پہ عمل کی صورت میں تاقیامت سب کے لیے بھلائی ہی بھلائی ہے :
''اﷲ کے بندو! اﷲ سے ڈرو۔ اور دُنیا سے ہوشیار ہوجاؤ۔ اگر دُنیا کسی کے لیے ہمیشہ باقی رہنے والی ہوتی اور کوئی دُنیا میں ہمیشہ باقی رہتا تو انبیائے کرامؑ ہمیشہ باقی رہنے کے زیادہ مستحق تھے۔ وہ رضائے الٰہی (پر چلنے) کے زیادہ حق دار تھے، مگر یہ کہ خدا نے دُنیا کو مصیبتوں کے لیے اور دُنیا والوں کو مر جانے کے لیے پیدا کیا ہے۔ دُنیا کی ہر نئی چیز کہنہ ہوجانے والی اور ہر نعمت زائل ہوجانے والی ہے۔ دُنیا کی خوشیاں ناپائیدار ہیں۔ یہ ایک وقتی منزل اور عارضی گھر ہے۔ لہٰذا اِس دُنیا سے زادِ راہ (آخرت کے لیے) جمع کرلو۔ اور بہترین زادِ راہ اﷲ کا خوف ہے۔اﷲ سے ڈرو۔ شاید فلاح پاجاؤ۔'' ( بہ حوالہ: بحارالانوار۔ علّامہ مجلسیؒ)
علم و حکمت کے سمندر کو دو سطروں کے کُوزے میں امامِ عالی مقام کس طرح بند فرماتے ہیں، استفادہ کیجیے:
''اے اﷲ! جس نے تجھے کھو دیا ، اُس کو کیا ملا ؟ اور جس نے تجھ کو پالیا، کون سی چیز ہے جس کو اُس نے نہیں حاصل کیا ؟ جو بھی تیرے بدلے میں جس پر بھی راضی ہوا، وہ تمام چیزوں سے محروم ہوگیا۔''
سورۂ آلِ عمران میں اﷲ رحمن و رحیم ، پیغمبر اکرم ﷺ سے ارشاد فرما رہا ہے، مفہوم:
''پھر جب تمہارے پاس علم (قرآن) آچکا اِس کے بعد بھی اگر تم سے کوئی (نصرانی) عیسیٰ کے بارے میں حجّت کرے تو کہو کہ (اچھا میدان میں) آؤ، ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو ( بلائیں) اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنی جانوں کو (بلائیں) اور تم اپنی جانوں کو، اِس کے بعد ہم سب مِل کر اﷲ کی بارگاہ میں گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت کریں۔''
اِس الٰہی پیغام میں قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ جب کسی بچے کو گود میں لیا جاتا ہے، تو چہرے کے ساتھ چہرہ آجاتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم بنی نجران (نصرانیوں) سے مباہلے کے موقع پر اپنے اہلِ بیت حسنینِ کریمینؓ، حضرتِ بی بی فاطمہ زہر ا ؓ اور حضرت علی مرتضیٰ کرم اﷲ وجہہٗ کو اپنے ساتھ لے کر جا رہے ہیں، آگے پیغمبر اکرم ؐ ہیں، آپؐ کے پیچھے حضرتِ فاطمہ زہراؓ ہیں، حسنؓ کا ہاتھ پیغمبر اکرمؐ تھامے ہوئے ہیں، آخر میں حضرت علی مرتضیٰؓ آرہے ہیں، لیکن حسینؓ کیوں کہ کم سن ہیں، اِس لیے پیغمبر اکرمؐ انہیں اپنی گود میں لے کر جارہے ہیں۔
گویا پیغامِ نبویؐ یہ ہے کہ اگر مجھے دیکھنا ہے، تو میرے حسینؓ کو دیکھ لو۔ یہ درحقیقت میری سیرت کا عکاس ہے ۔ میری زندگی کا نمائندہ ہے۔ جو یہ کرے گا، وہی آخری بات ہے اور وہی حتمی فیصلہ ہوگا۔ پیغمبر اکرم ﷺ نے مباہلے میں حسینؓ کو گود میں لے کر اُمّت کو بھی اور اقوامِ عالم کو بھی دِکھا دیا۔ مباہلے میں مسلمانوں کو دِکھانا مطلوب تھا، عظمتِ اہلِ بیتؓ ہے، لیکن اقوامِ عالم کو بھی دِکھانا تھا۔
مستقبل اسلام کا ہے۔ اِس لیے کہ یہ امام حسینؓ سے جُڑا ہُوا ہے۔ آئندہ قرآن کا ہے۔ کل آنے والا دن مسلمانوں کی بہتری کا ہے۔ اِس لیے کہ یہ امام حسینؓ سے جُڑا ہوا ہے، اور جو امامِ عالی مقامؓ سے جُڑا ہو، وہ کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔ جو امام حسین ؓ سے وابستہ ہو، وہ کبھی شکست خوردہ نہیں ہوسکتا۔ سیّد الشہداء امامِ عالی مقامؓ اور آپؓ کے تمام تر جاں نثاروں پر ہم سب کا سلام ہو۔ آپ ؓ ہمیں کیا عمدہ ترین نصائح سے نوازتے ہیں:
''میں تم کو پانچ باتوں کی وصیّت کرتا ہوں۔
اگر تم پر ظلم کیا جائے تو تم ظلم نہ کرو۔ اگر تم سے خیانت کی جائے تو تم خیانت نہ کرو۔ اگر تم کو جھٹلایا جائے تو غصّے میں نہ آؤ۔ اگر تمہاری مدح کی جائے تو خوش نہ ہو۔ اگر تمہاری مذمّت کی جائے تو ناراض نہ ہو، جو بات تمہارے بارے میں کہی گئی ہے، اُس کے بارے میں غور کرو، اگر وہ بات تمہارے اندر ہے تو حق بات کی وجہ سے اﷲ کی نظروں سے گِر جانا کہیں بڑی مصیبت ہے بہ نسبت اِس کے کہ تم لوگوں کی نظروں سے گِر جاؤ۔ اور اگر وہ بات تمہارے اندر نہیں ہے تو بغیر کسی تعب و زحمت کے تم نے ثواب کما لیا۔'' ( بہ حوالہ: تحفۃ العقول)
یہی یومِ عاشورہ کا تقاضا اور حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پیغام کا خلاصہ ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ ہمیں تمام تر تعلیماتِ اہلِ بیتؓ پہ خلوصِ دل سے حتی الامکان عمل کرنے کی توفیق کرامت فرمائے تاکہ ہمارا شمار روزِ قیامت سیدھے ہاتھ میں نامۂ اعمال لینے والوں میں ہو۔ آمین