دشمن کی تاک اور سیاستدانوں کی ٹیڑھی ناک
ایک ریسرچ آرٹیکل کی تیاری کے دوران 2013 کے اخبارات میں چھپے ایک جملے نے میرے رونگٹے کھڑے کردیے۔ افضل گورو کو بھارتی پارلیمان حملے کے فرضی کیس میں پھانسی کی سزا سنائی گئی، جس میں بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ حملے میں افضل گورو کے ملوث ہونے کی ثبوت تو نہیں ملے مگر عوام کے ضمیر کی تسکین کےلیے افضل کو پھانسی دینا ضروری ہے۔
عوام کے ضمیر کی خاطر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان کو قربانی کا بکرا بنادیا گیا۔ اسی خبر کے دوران جیپ کے آگے بندھا کشمیری نوجوان بھی نظر آیا۔ میرے تصور میں مقبوضہ کشمیر میں جعلی مقابلے میں مارا جانے والا بزرگ شہری اور اس کی لاش پر بیٹھا تین برس کا نواسہ بھی آگیا۔ ان دونوں واقعات میں بھارتی میڈیا اور عوام کا کردار بھی میرے سامنے آیا۔ کیسے انہوں نے انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی کا دنیا بھر میں دفاع کیا اور اپنی فوج کا دفاع کیا۔
میں اس حیرت کے عالم میں دفتر پہنچتا ہوں، جہاں ٹی وی اسکرینز پر سیاستدانوں کے تبصرے، فیس بک پر تبرے سے بھری پوسٹیں اور ایکس پر بھانت بھانت کی بولیوں کے بیچ میری نگاہیں ایک خوبصورت جوان کی تصویر دیکھ کر ٹھہر سی گئیں۔ یہ تصویر 24 برس کے محمد اسامہ شہید کی تھی، جو ارض مقدس کے تحفظ کی خاطر اپنی مٹی پر قربان ہوگیا۔ 24 سال کی عمر میں ایک عظیم ماں کا بیٹا سبز ہلالی پرچم میں لپٹا منوں مٹی تلے ابدی نیند سوگیا۔ شہید کی ماں ریاست سے شکوہ کرتی رہی کہ کب تک مائیں اپنے بیٹوں کو اس وطن پر قربان کرتی رہیں گی۔ یہ دہشتگردی آپ ختم کیوں نہیں کرتے؟ یہ صرف کیپٹن اسامہ کی ماں کا سوال نہیں بلکہ دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہونے والے ہر نوجوان کی ماں کا سوال ہے۔ وہ ماں جوکہ اپنے بیٹے کو سہرے میں دیکھنا چاہتی تھی، اس ماں کا لخت جگر سبز ہلالی پرچم میں لپٹا گھر آتا ہے۔
اس تصویر اور ماں کے جذبات کو دیکھ کر مجھے صبح کے وقت اخبارات کے تراشوں میں انڈیا سے متعلق خبریں پھر سے ذہن میں آگئیں۔ یہ دہشت گرد ہمارے نوجوانوں کو چن چن کر ما رہے ہیں، یہ دہشت گرد ماؤں سے ان کے خواب چھیننے پر متفق ہیں مگر ہم ہیں کہ اپنے بچوں کے تحفظ پر بھی اختلافات کا شکار ہیں۔
یہ پہلا نوجوان شہید نہیں ہوا بلکہ آج سے ٹھیک ایک ماہ قبل 10 جون خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت میں دہشت گردوں کے حملے میں 25 سالہ کیپٹن محمد فراز الیاس شہید ہوئے۔ شہید کیپٹن فراز الیاس کے نکاح کی تیاریاں مکمل تھیں لیکن بارات جانے سے ایک ہفتہ قبل شہید کی میت گھر آگئی۔ شہید کا 19 جون کو نکاح طے تھا۔ کارڈ بھی چھپ چکے تھے۔ 26 مئی کو پشاور کے علاقے حسن خیل میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے 25 برس کے کیپٹن حسین جہانگیر نے جام شہادت نوش کیا۔ حسین جہانگیر شہید کے والد کا کہنا تھا کہ میرے بیٹے کو اپنے وطن سے محبت اور پیار تھا۔ اگر میرے ہزار بیٹے بھی ہوتے تو میں وطن اور اللہ کی راہ میں انہیں قربان کردیتا۔ مجھے اپنے بیٹے کی شہادت پر مجھے فخر ہے۔ رواں برس 16 مارچ کو میر علی میں 23 سال کا کیپٹن احمد بدر دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرگیا۔ تلہ گنگ میں شہید بیٹے کی لاش پہنچی تو صبر و استقامت کے پہاڑ باپ نے الحمدللہ کہہ کر اپنے لخت جگر کا استقبال کیا۔
یہ داستان اتنی طویل ہے کہ شاید اسے بیان کرتے ہوئے میری زبان گنگ ہوجائے، اور انہیں پڑھتے ہوئے آپ کی نگاہیں دھندلا جائیں۔ 21 فروری 2022 کو بلوچستان کے ضلع کوہلو میں کلیئرنس آپریشن کے دوران 26 سالہ کیپٹن سید حیدر عباس جعفری نے جام شہادت نوش کیا۔ ''میرا حیدر شیر ہے، شیروں کی طرح لڑا ہے میرا بیٹا۔'' جب کیپٹن سید حیدر عباس جعفری کو قبر میں اتارا جارہا تھا تو یہ وہ الفاظ تھے جو شہید کی ماں کے لبوں پر تھے۔ کیپٹن حیدر کی ماں کی آنکھوں میں آنسو تو تھے لیکن ان آنسوؤں میں دکھ اور غم سے کہیں زیادہ فخر جھلکتا دکھائی دیتا تھا۔ اس ماں کے چہرے پر دکھ و کرب کے اثرات تو صاف نظر آتے تھے لیکن ان کے پیچھے ایک سکون و طمانیت کا بھی احساس تھا۔ ماں کی جھکی کمر میں اردگرد کھڑے لوگوں کو ایک تفاخر نظر آرہا تھا، جو شہیدوں کی ماؤں کا خاصہ ہوتا ہے۔
شہدا کے والدین تو اپنے بیٹوں کی شہادت پر فخر کرتے ہیں، مگر کیا ہم نے بحیثیت قوم کبھی خود سے سوال کیا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم پنجابی، بلوچی، سندھی، کشمیری اور پشتون کی بحثوں میں الجھے ہیں مگر ہمارے دشمن دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں۔ ہم سیاسی اختلافات میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ قومی سلامتی کے معاملات کو بھی متنازعہ بنا دیتے ہیں۔ ابھی آپریشن عزم استحکام کا فیصلہ ہوا تو ہم نے اسے چینی آپریشن کہہ کر کنفیوز کرنے کی کوشش کی۔
مولانا فضل الرحمان کو خیبرپختونخوا میں 40 ہزار دہشت گردوں کی موجودگی تو دکھائی دے رہی ہے مگر وہ آپریشن کی مخالفت کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنما غیرت و حمیت کے نعرے تو بلند کر رہے ہیں مگر انہیں وطن عزیز کے شہید ہوتے نوجوان دکھائی نہیں دیتے۔ اے این پی کی مرکزی قیادت کے گھروں سے لاشیں اٹھیں، سب سے زیادہ نشانہ اے این پی بنی، مگر یہ بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ناقد ہے۔ دہشت گرد ہمیں مارنے پر متفق ہیں مگر ہم اس پر لب کیوں سیئے ہوئے ہیں۔
دہشت گردوں کو فوجی عدالتوں سے سزا ہوتی ہے مگر وہ سپریم کورٹ میں اپیل کردیتے ہیں۔ اس وقت بھی 300 سے زائد سزا یافتہ دہشت گردوں کی اپیلیں سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔ دہشت گردوں کو سزاؤں کے حوالے سے قانون سازی کی باتیں تو ہوتی ہیں مگر ہمارے نمائندے اس پر بھی پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔ ہمارے بچے ہم سے چھینے جارہے ہیں مگر ہم صوبائیت اور لسانیت کی بحثوں سے نہیں نکلتے۔ صرف گزشتہ ماہ ہی وطن عزیز میں 27 دہشت گرد حملے ریکارڈ کیے گئے، ان حملوں میں سے 21 خیبرپختونخوا اور 6 بلوچستان میں رپورٹ ہوئے، جب کہ پچھلے ماہ ان حملوں کی تعداد 36 تھی۔ ان 21 حملوں میں اس وطن کے 32 بیٹے شہید ہوئے۔
سیاستدانوں کے اختلافات محض عزم استحکام پر نہیں بلکہ ہر آپریشن کو متنازعہ بنایا گیا۔ لال مسجد سے سوات آپریشن تک، ضرب عضب سے عزم استحکام تلک ہر بار قوم میں اتفاق رائے نہ ہوسکا ۔ہمارے پڑوس بھارت میں چھتیس گڑھ سے خالصتان تک، منی پور سے لے کر کشمیری مجاہدین تک، بھارت کی سیکڑوں سیاسی جماعتیں، عدالتیں اور فوج سبھی میں اتفاق رائے پایا جاتا رہا۔ کشمیری مجاہد افضل گورو کو سزائے موت کےلیے قانون موجود نہیں تھا مگر بھارتی عدالت نے پھر بھی حکومت کا ساتھ دیا۔ قومی سلامتی کے معاملے پر کانگریس بی جے پی اور بی جے پی کانگریس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مگر ہم ہیں کہ قومی سلامتی کے معاملے کو بھی الجھا دیتے ہیں۔
آخر کب تک ہم دہشتگردوں کے مقابلے میں اختلافات کا شکار رہیں گے؟ کب تک اس دیس کی مائیں جواں سال اموات کا نوحہ پڑھتی رہیں گی؟ آخر کب تک اس قوم کی بیٹیاں جوانی میں بیوہ ہوتی رہیں گی؟ ہم کب اس ملک میں امن کےلیے اکٹھے ہوں گے؟ آخر کب ایک دوسرے کی دستار اتارنے کا سلسلہ بند ہوگا؟ قوم کے بیٹوں کے قاتلوں کو عدالتوں سے سزائیں کب ملیں گی؟ دہشت سے ملک کو محفوظ رکھنے کےلیے سیاستدان کب اپنے سیاسی اختلافات پس پشت ڈال کر اکٹھا ہوں گے؟ آج یہ سوالات قوم کی ہر ماں، بیٹی اور باپ ہم سب سے پوچھ رہے ہیں۔ کیا آپ کے پاس ان کے سوالوں کا جواب ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔