پاکستان ایک نظر میں اپنا اپنا چاند

ہر کوئی اپنا اپنا چاند اپنی اپنی مرضی سے چڑھاتا ہے اورپھر دوسروں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کے چاند کے پیچھے پیچھے چلیں


شاہد اقبال June 30, 2014
ہر کوئی اپنا اپنا چاند اپنی اپنی مرضی سے چڑھاتا ہے اورپھر دوسروں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کے چاند کے پیچھے پیچھے چلیں. فوٹو فائل

KARACHI: رویت ہلال کمیٹی حسبِ روایت اس سال بھی اسلام کے قلعے میں متنازع رہا ۔ پشاور کی مسجد قاسم خان میں بیٹھے مفتی شہاب الدین پاپولزئی کو چاند نظر آ گیا کراچی میں بیٹھے مفتی منیب الر حمن اس سعادت سے محروم رہے ۔ اختلاف کرنے کی عادت ہمارے خون میں یوں رچ بس گئی ہے کہ ہم چاہیں بھی تو اس سے دامن نہیں بچا سکتے۔ ایک طرف مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے چئیر مین کو خیبر پختونخواہ سے ملنے والی شہادتیں قبول نہیں ، دوسری جانب مفتی پاپولزئی سرکاری کمیٹی کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔

ہر سال رویتِ ہلال ہمارے لیے جگ ہنسائی کا سامان لے کر آتا ہے۔ دنیا ہنستی ہے کہ مسلم امہ کے عالمی اتحاد کی ان تھک راگنی گانے والا ملک اپنے رمضان اور اپنی عیدیں بھی ایک ساتھ نہیں کر سکتا۔ ساری دنیا کے مسلمانوں کو حرم کی پاسبانی کے لیے ایک کرنے کا خواب دیکھنے والے پاکستانی مسلمان خود ایک ہونے کے لیے تیار نہیں۔ دنیا بھر میں مذہبی تہوار اور رسومات مختلف مذاہب کے پیرو کاروں کو اکٹھا کرتے ہیں ہمارے تہوار نفاق کی خلیج کو کچھ اور گہرا کر کے ہمیں ایک دوسرے سے دور لے جاتے ہیں ۔

یہ بحث علمی اور سائنسی نوعیت کی ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں اور ان سے منسلک خیبر پختونخواہ کے علاقوں میں چاند کو جلدی نظر آنے کی کیا پڑی ہوتی ہے اور کراچی میںیہ بے چارہ نکلتے ہوئے کیوں ہچکچاتا ہے لیکن اتنا واضح ہے کہ ہم چاند میں ساجھے داری برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہر کوئی اپنا اپنا چاند اپنی اپنی مرضی سے چڑھاتا ہے اور پھر دوسروں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کے چاند کے پیچھے پیچھے چلیں۔ خیبر پختونخواہ والے جغرافیائی لحاظ سے کراچی سے زیادہ افغانستان کے قریب ہیں اس لیے انہیں اگر چاند جلدی نظر آ جائے تو یہ زیادہ حیرانی کی بات نہیں کیونکہ چاند ڈیورنڈ لائن کی تفریق سمجھنے سے قاصرہے، لیکن باقی مانندہ پاکستان نا خواندہ قبائلیوں کی شہادتوں پر اپنے روزے اور عیدیں کیوں برباد کریں۔

جب اسلام کے اس انوکھے قلعے کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو مخالفوں نے لاکھ سمجھایا تھا کہ ملک مذہب کی بنیاد پر نہیں بنا کرتے لیکن ہمارے اکابرین دنیا کو کچھ نیا کر کے دکھانے پر بضد تھے ۔ وہ صدیوں سے قائم وطنی نظریہ قومیت کے مقابلے میں مذہبی نظریہ قومیت پیش کر کے دنیا کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ مذہب کی طاقت سے بھی قوم وجود میں آ سکتی ہے۔لیکن کیا ہمارے اکابرین کانظریہ قومیت اتنا ہی پھسپھسا تھا کہ وہ اس نام نہاد قوم کو اکھٹے عیدیں منانے اور ایک ساتھ روزے رکھنے پہ بھی قائل نہ کر سکا ؟ یا پھر ان کے بعد آنے والوں نے اپنے اپنے ذاتی اور فروعی مفادات کی چھریوں سے اس کے تانے بانے یوں ادھیڑ کر رکھ دیے کہ اب قوم کے نام پر افراد کا ایک بے سمت ہجوم ہے جسے آئینِ پاکستان ایک قوم بنانے پر بضد ہے۔

اخلافات کا زہر پھیلانے والوں کو اتحاد کی لاٹھی سے کچلے بغیر پاکستانی قوم اجتماعیت سے ہمیشہ محروم رہے گی۔ اور ہرکوئی اپنی اپنی بغل میں اپنا اپنا چاند لیے اپنا اپنا راگ گاتا رہے گا۔ نغموں کی حد تک ہم جھوم جھوم کر 100 سال بھی اس پرچم کے سائے تلے ایک ہیں کے نعرے لگاتے رہیں لیکن جب تک ہماری خوشیاں اور غم مشترک نہیں ہوتے ہم ایک نہیں ہو سکتے!

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں