غریب نہیں غربت کو پکڑیں
حکمران اور مال دار لوگ تو ملک کے اسپتالوں کو اپنے علاج کے قابل ہی نہیں سمجھتے
نوشہرو فیروز میں 15 دن کی بیمار بیٹی کو زندہ دفن کرنے والے غریب باپ کو بے رحم قرار دے کر گرفتار کرلیا گیا جو غربت کے باعث اپنی اس معصوم سی بچی کا علاج نہ کرا سکا تھا۔ یہ واقعہ سندھ کے علاقے ٹھاروشاہ کے گاؤں پہوٹوراجپر میں پیش آیا۔
جہاں 15 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو مسلسل دعوے کرتی آ رہی ہے کہ سندھ میں لوگوں کے علاج معالجے کی صورت حال دیگر صوبوں سے بہتر ہے جو خدمت کو اپنا ایمان قرار دے کر میڈیا میں اپنی تشہیر کر رہی ہے کہ سندھ حکومت کی صحت کے شعبے میں جدید ترین خدمات کا نہ صرف پورا سندھ بلکہ پورا پاکستان معترف ہے جس کی وجہ سے سندھ کے ان اسپتالوں میں ملک بھر کے مریض علاج کرانے آتے ہیں۔ سندھ حکومت کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ سندھ میں جدید ترین سہولیات بالکل مفت اور بلا تفریق میسر کی جاتی ہیں۔
ٹھاروشاہ پولیس کے ہاتھوں گرفتار اپنی بچی کو زندہ دفن کرنے والے سندھ کے اس شخص کو علم نہیں ہوگا کہ ان پر 15 سال سے حکومت کرنے والوں نے انھیں اتنی زیادہ طبی سہولتیں دے دی ہیں جو کسی صوبے میں نہیں صرف سندھ میں مفت دستیاب ہیں۔ یہ غریب میڈیا سے دور ہونے کی وجہ سے اپنی سندھ حکومت کی طبی سہولیات میں اپنی بچی کا علاج نہ کرا سکا اور اس کے علاج کے وسائل نہ ہونے کے سبب اپنی بچی کا وہاں علاج کرانے کی بجائے بچی کو زندہ دفن کرنا بہتر سمجھا۔ معصوم بچی کی بیماری کی خبر تو اس کے گاؤں والوں کو نہیں تھی بچی زندہ دفن کرنے کی خبر گاؤں والوں کو مل گئی۔
جنھوں نے پولیس کو اطلاع دے کر علاج نہ کرا سکنے والے باپ کو گرفتار کرا دیا اور پولیس نے ملزم باپ کی نشان دہی پر قبر کشائی کرکے بچی کی لاش برآمد کرلی اور میڈیا پر اس بے رحم غریب باپ کی خوب تشہیر ہوگئی مگر غربت کے باعث علاج سے محروم بچی اپنی جان سے چلی گئی اور یہ واقعہ کوئی نیا نہیں بلکہ ملک بھر میں یہ واقعات ہورہے ہیں۔ جہاں غربت کے باعث روزانہ ہی نہ جانے کتنے مریض مر رہے ہیں جس کے بعد انھیں دفنا دیا جاتا ہے۔
اپنی نوعیت کا یہ منفرد واقعہ ہے جو منظر عام پر آگیا ورنہ سندھ حکومت کے نزدیک اس نے کسر نہیں چھوڑی اور حقیقت میں کراچی سے باہر صوبے کے بعض شہروں میں خاص طور پر امراض قلب، جگر کی پیوند کاری اور پانچ اقسام کے انسانی اعضا کی ٹرانسپلانٹیشن کی سہولیات فراہم کی ہیں جن سے ملک کے مریض فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر شہروں کے علاوہ سندھ کے گاؤں معمولی طبی سہولیات سے بھی محروم ہیں جہاں کہیں کہیں صحت کے بنیادی مراکز تو موجود ہیں جہاں تک پہنچنا ہر دیہاتی کے لیے ممکن نہیں۔ یہ سینٹر بند ہوتے ہیں یا کھلتے ہیں تو وہاں ڈاکٹر ہوتے ہیں نہ دوائیں۔ ہلکی بے فائدہ دوائیں بھی اکثر کمپاؤڈروں کے ذریعے ملتی ہیں۔شہروں کے سرکاری اسپتالوں میں کچھ ڈاکٹر بھی مل جاتے ہیں کچھ دوائیں بھی مگر یہ سہولیات ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں۔ ان اسپتالوں میں فوت ہو جانے والے مریضوں کے غریب ورثا کو میت لے جانے کے لیے مفت ایمبولینس نہیں ملتی تو کرائے کی سکت نہ رکھنے والے گدھا گاڑیوں پر میت گھر لے جاتے ہیں۔
کوئی نجی فلاحی ادارہ یا سرکاری اسپتال پٹرول مہنگا ہونے کے بعد یہ سروس مفت فراہم نہیں کرتا۔ یہ شکایات بھی عام ہیں کہ سرکاری ایمبولینسوں کی سہولت مریضوں کی بجائے ڈاکٹروں کو زیادہ ملتی ہیں یا ایمبولینس خراب ملتی ہیں جب کہ بنیادی مراکز صحت میں سرکاری ایمبولینس ہوتی ہی نہیں کہ مریضوں کو ان کے گاؤں سے قریبی سرکاری اسپتال پہنچایا جاسکے۔ملک بھر میں سرکاری طور پر لوگوں کو علاج کی سہولتیں سرکاری اسپتالوں میں ممکن نہیں یا محدود ہیں۔
سرکاری ڈاکٹر دیہاتی طبی مراکز میں ڈیوٹی دینا ہی نہیں چاہتے۔ ملک بھر میں علاج آسان یا سستا نہیں نہایت مہنگا ہے۔ مہلک امراض کا علاج سرکاری اسپتالوں سے زیادہ نجی اسپتالوں میں لاکھوں روپے میں امیر ہی کرا سکتے ہیں وہاں غریبوں کا تو داخلہ بھی ممکن نہیں۔ بڑے نجی اسپتال کمرشل نہیں لوٹ کھسوٹ کا مرکز ہیں جن کے لیے مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اب پیسہ بچاتا ہے زندگی۔ وہاں پیسے کی قدر و اہمیت ہے، معمولی علاج کے لیے سرکاری اسپتال باقی رہ گئے ہیں۔ملک میں شدید غربت، ناقابل برداشت مہنگائی، بے پناہ بے روزگاری نے بھی بیماریوں میں اضافہ کر رکھا ہے۔ ڈپریشن، بلڈ پریشر، شوگر، امراض قلب اور دیگر بیماریاں گھر گھر پہنچ چکی ہیں۔
حکمران اور مال دار لوگ تو ملک کے اسپتالوں کو اپنے علاج کے قابل ہی نہیں سمجھتے اور غربت و مہنگائی نے غریبوں کو علاج کے قابل نہیں چھوڑا۔ حکومت کو غریبوں کے جینے کی فکر ہے نہ مرنے کی تو وہ ان کے علاج پر کیوں توجہ دے۔ وفاقی حکومت نے غریبوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے اور دوائیں اتنی مہنگی کر دی ہیں کہ وہ غریب خرید ہی نہیں سکتا اس لیے مولویوں، پیروں، تعویذوں سے مفت میں علاج چاہتا ہے۔ اتائیوں کی بھرمار ہے جو کچھ سستے اور غریبوں کا واحد سہارا رہ گئے ہیں۔
غربت نے انھیں جینے کے قابل نہیں چھوڑا تو وہ مہنگا علاج کیسے کرائیں اس لیے انھوں نے اپنے مریضوں کو اللہ کے سہارے پر چھوڑ دیا ہے۔ وہی شفا بھی دیتا ہے اور زندگی بھی۔ غریبوں کو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں مگر حکمرانوں کو کوئی فکر نہیں کہ وہ جئیں یا مریں مگر ٹیکس ضرور دیں۔ حکومت کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری ختم کرنے کی کوئی فکر نہیں انھیں اپنے اللے تللے کے لیے پیسہ چاہیے۔ غریب و بے روزگار خودکشیاں کر رہے ہیں، حکومت ٹیکس لے کر بھی غریبوں کا مفت علاج نہیں کرا سکتی تو غربت کے خاتمے پر ہی کچھ توجہ دے لے ورنہ زندہ بھی دفن کر دینے کی نوبت آ چکی ہے۔
جہاں 15 سال سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے جو مسلسل دعوے کرتی آ رہی ہے کہ سندھ میں لوگوں کے علاج معالجے کی صورت حال دیگر صوبوں سے بہتر ہے جو خدمت کو اپنا ایمان قرار دے کر میڈیا میں اپنی تشہیر کر رہی ہے کہ سندھ حکومت کی صحت کے شعبے میں جدید ترین خدمات کا نہ صرف پورا سندھ بلکہ پورا پاکستان معترف ہے جس کی وجہ سے سندھ کے ان اسپتالوں میں ملک بھر کے مریض علاج کرانے آتے ہیں۔ سندھ حکومت کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ سندھ میں جدید ترین سہولیات بالکل مفت اور بلا تفریق میسر کی جاتی ہیں۔
ٹھاروشاہ پولیس کے ہاتھوں گرفتار اپنی بچی کو زندہ دفن کرنے والے سندھ کے اس شخص کو علم نہیں ہوگا کہ ان پر 15 سال سے حکومت کرنے والوں نے انھیں اتنی زیادہ طبی سہولتیں دے دی ہیں جو کسی صوبے میں نہیں صرف سندھ میں مفت دستیاب ہیں۔ یہ غریب میڈیا سے دور ہونے کی وجہ سے اپنی سندھ حکومت کی طبی سہولیات میں اپنی بچی کا علاج نہ کرا سکا اور اس کے علاج کے وسائل نہ ہونے کے سبب اپنی بچی کا وہاں علاج کرانے کی بجائے بچی کو زندہ دفن کرنا بہتر سمجھا۔ معصوم بچی کی بیماری کی خبر تو اس کے گاؤں والوں کو نہیں تھی بچی زندہ دفن کرنے کی خبر گاؤں والوں کو مل گئی۔
جنھوں نے پولیس کو اطلاع دے کر علاج نہ کرا سکنے والے باپ کو گرفتار کرا دیا اور پولیس نے ملزم باپ کی نشان دہی پر قبر کشائی کرکے بچی کی لاش برآمد کرلی اور میڈیا پر اس بے رحم غریب باپ کی خوب تشہیر ہوگئی مگر غربت کے باعث علاج سے محروم بچی اپنی جان سے چلی گئی اور یہ واقعہ کوئی نیا نہیں بلکہ ملک بھر میں یہ واقعات ہورہے ہیں۔ جہاں غربت کے باعث روزانہ ہی نہ جانے کتنے مریض مر رہے ہیں جس کے بعد انھیں دفنا دیا جاتا ہے۔
اپنی نوعیت کا یہ منفرد واقعہ ہے جو منظر عام پر آگیا ورنہ سندھ حکومت کے نزدیک اس نے کسر نہیں چھوڑی اور حقیقت میں کراچی سے باہر صوبے کے بعض شہروں میں خاص طور پر امراض قلب، جگر کی پیوند کاری اور پانچ اقسام کے انسانی اعضا کی ٹرانسپلانٹیشن کی سہولیات فراہم کی ہیں جن سے ملک کے مریض فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر شہروں کے علاوہ سندھ کے گاؤں معمولی طبی سہولیات سے بھی محروم ہیں جہاں کہیں کہیں صحت کے بنیادی مراکز تو موجود ہیں جہاں تک پہنچنا ہر دیہاتی کے لیے ممکن نہیں۔ یہ سینٹر بند ہوتے ہیں یا کھلتے ہیں تو وہاں ڈاکٹر ہوتے ہیں نہ دوائیں۔ ہلکی بے فائدہ دوائیں بھی اکثر کمپاؤڈروں کے ذریعے ملتی ہیں۔شہروں کے سرکاری اسپتالوں میں کچھ ڈاکٹر بھی مل جاتے ہیں کچھ دوائیں بھی مگر یہ سہولیات ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں۔ ان اسپتالوں میں فوت ہو جانے والے مریضوں کے غریب ورثا کو میت لے جانے کے لیے مفت ایمبولینس نہیں ملتی تو کرائے کی سکت نہ رکھنے والے گدھا گاڑیوں پر میت گھر لے جاتے ہیں۔
کوئی نجی فلاحی ادارہ یا سرکاری اسپتال پٹرول مہنگا ہونے کے بعد یہ سروس مفت فراہم نہیں کرتا۔ یہ شکایات بھی عام ہیں کہ سرکاری ایمبولینسوں کی سہولت مریضوں کی بجائے ڈاکٹروں کو زیادہ ملتی ہیں یا ایمبولینس خراب ملتی ہیں جب کہ بنیادی مراکز صحت میں سرکاری ایمبولینس ہوتی ہی نہیں کہ مریضوں کو ان کے گاؤں سے قریبی سرکاری اسپتال پہنچایا جاسکے۔ملک بھر میں سرکاری طور پر لوگوں کو علاج کی سہولتیں سرکاری اسپتالوں میں ممکن نہیں یا محدود ہیں۔
سرکاری ڈاکٹر دیہاتی طبی مراکز میں ڈیوٹی دینا ہی نہیں چاہتے۔ ملک بھر میں علاج آسان یا سستا نہیں نہایت مہنگا ہے۔ مہلک امراض کا علاج سرکاری اسپتالوں سے زیادہ نجی اسپتالوں میں لاکھوں روپے میں امیر ہی کرا سکتے ہیں وہاں غریبوں کا تو داخلہ بھی ممکن نہیں۔ بڑے نجی اسپتال کمرشل نہیں لوٹ کھسوٹ کا مرکز ہیں جن کے لیے مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اب پیسہ بچاتا ہے زندگی۔ وہاں پیسے کی قدر و اہمیت ہے، معمولی علاج کے لیے سرکاری اسپتال باقی رہ گئے ہیں۔ملک میں شدید غربت، ناقابل برداشت مہنگائی، بے پناہ بے روزگاری نے بھی بیماریوں میں اضافہ کر رکھا ہے۔ ڈپریشن، بلڈ پریشر، شوگر، امراض قلب اور دیگر بیماریاں گھر گھر پہنچ چکی ہیں۔
حکمران اور مال دار لوگ تو ملک کے اسپتالوں کو اپنے علاج کے قابل ہی نہیں سمجھتے اور غربت و مہنگائی نے غریبوں کو علاج کے قابل نہیں چھوڑا۔ حکومت کو غریبوں کے جینے کی فکر ہے نہ مرنے کی تو وہ ان کے علاج پر کیوں توجہ دے۔ وفاقی حکومت نے غریبوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے اور دوائیں اتنی مہنگی کر دی ہیں کہ وہ غریب خرید ہی نہیں سکتا اس لیے مولویوں، پیروں، تعویذوں سے مفت میں علاج چاہتا ہے۔ اتائیوں کی بھرمار ہے جو کچھ سستے اور غریبوں کا واحد سہارا رہ گئے ہیں۔
غربت نے انھیں جینے کے قابل نہیں چھوڑا تو وہ مہنگا علاج کیسے کرائیں اس لیے انھوں نے اپنے مریضوں کو اللہ کے سہارے پر چھوڑ دیا ہے۔ وہی شفا بھی دیتا ہے اور زندگی بھی۔ غریبوں کو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں مگر حکمرانوں کو کوئی فکر نہیں کہ وہ جئیں یا مریں مگر ٹیکس ضرور دیں۔ حکومت کو غربت، مہنگائی، بے روزگاری ختم کرنے کی کوئی فکر نہیں انھیں اپنے اللے تللے کے لیے پیسہ چاہیے۔ غریب و بے روزگار خودکشیاں کر رہے ہیں، حکومت ٹیکس لے کر بھی غریبوں کا مفت علاج نہیں کرا سکتی تو غربت کے خاتمے پر ہی کچھ توجہ دے لے ورنہ زندہ بھی دفن کر دینے کی نوبت آ چکی ہے۔