حکومت کا قمارِ عشق
اندازے مگر یہی ہیں کہ نون لیگ کی اُمیدیں بھر نہیں آئیں گی۔
جب سے سپریم کورٹ نے خصوصی نشستیں پی ٹی آئی کی جھولی میں (بِن مانگے) ڈالی ہیں ، مقتدر نون لیگ انگاروں پر لَوٹ رہی ہے ۔ اقتدار و اختیار نون لیگ کے ہاتھوں سے یوں کھسکتا محسوس ہورہا ہے جیسے ریت مُٹھی سے کھسک جاتی ہے ۔ اب جب کہ سانپ نکل چکا ہے، نون لیگی قیادت لکیر پیٹنے کی کوشش کررہی ہے ۔ نون لیگ ( بمعنی جناب شہباز شریف) نے پی ڈی ایم کی16ماہانہ حکومت میں بھی لاتعداد غلطیوں کا ارتکاب کیا ، کئی سستیاں کیں اور اب مرکزمیں حکومت تشکیل دے کر، پچھلے 6ماہ کے دوران، کئی سستیوں ، نااہلیوں اور غلطیوں کا پھر ارتکاب کیا ہے ۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ نون لیگ کی جوہری اور بڑی غلطی کیا رہی ہے تو اِس کا جواب فقط یہ ہے : پی ٹی آئی کی طاقت ، کمٹمنٹ اور ہتھکنڈوں کا بروقت ادراک نہ کرنا ۔ اب جب کہ غفلتوں کا بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے، نون لیگ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھی ہے ۔ ڈپریشن ، پریشانی اور کنفیوژن میں مبتلا ہے ۔ اور اِنہی عناصر کے اثرات تلے ایسے فیصلے کرنے پر تُل گئی ہے جس کی وسیع پیمانے پر مخالفت نظر آرہی ہے ۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز ۔
ابھی اِس تجویز کو عملی فیصلے کی صورت گری نہیں ملی ہے۔ غلغلہ مگر اِس کا بہت ہے ۔اِسی دوران نون لیگ نے عدالتِ عظمیٰ کے دروازے پر دستک دی ہے: پی ٹی آئی کو خصوصی نشستیں دینے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست۔ اس درخواست یا عرضداشت کا نتیجہ کیا نکلے گا، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ معاملہ اب Sub Judiceہے ۔
اندازے مگر یہی ہیں کہ نون لیگ کی اُمیدیں بھر نہیں آئیں گی۔ اُنہوں نے بقول منیر نیازی:ہر معاملے میں دیر کر دیتا ہوں، کے مصداق اہم سیاسی و عدالتی معاملات میں بھی اتنی دیر اور تاخیر (بلکہ لاپرواہی) کر دی ہے کہ اب منزل اور مقاصد ان سے بہت دُور جا چکے ہیں ۔ کتنی دیر کر دی ہے، اِس کی مثال(خصوصی نشستوں بارے)سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے اور نون لیگ کے ردِ عمل سے پیش کی جا سکتی ہے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فیصلے کے فوری بعد مرکزی حکومت کی جانب سے نون لیگ، جیسا بھی مناسب سمجھتی، ردِ عمل دیتی ۔
پنجاب کی صوبائی وزیر اطلاعات ، محترمہ عظمیٰ بخاری، میڈیا کے رُوبرو آئیں ۔ اُنہوں نے ایک زبردست پریس کانفرنس میں دھڑلّے سے پارٹی اور وفاقی حکومت کا نقطہ نظر قوم کے سامنے رکھا ۔ عظمیٰ بخاری صاحبہ کے لہجے کی تلخی اور کڑتّن واضح محسوس کی گئی ۔اُنہوں نے مگر واضح ، غیر مبہم الفاظ اور اسلوب میں اخبار نویسوں کے سخت سوالات کے بھی خوشدلی سے جوابات دیے ۔
ہم اُن کے الفاظ کو نون لیگ کے صدر، جناب نواز شریف، اور نون لیگی وزیر اعظم جناب شہباز شریف کے دل و دماغ کی آواز کہہ سکتے ہیں ۔ عظمیٰ بخاری صاحبہ کے بعد ، دوسرے روز، وفاقی وزیر اطلاعات ، جناب عطاء اللہ تارڑ، میڈیا کے رُوبرو آئے۔ خصوصی نشستوں کے فیصلے بارے نون لیگ کی صوبائی اور مرکزی حکومت کے وزرائے اطلاعات نے جو کچھ کہا، ان میں مشترکہ بات یہ سامنے آئی کہ ''ہم (نون لیگ) پاگل ہی تھے کہ مقدمات میں شریف بچوں کی طرح عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے رہے اور کوئی احتجاج نہ کیا ۔ اور یہ کہ اب پی ٹی آئی کی کوئی زیادتی اور جارحیت برداشت نہ ہوگی ۔''
وفاقی وزیر اطلاعات ، جناب عطا تارڑ ، نے البتہ دو باتیں نئی کہیں ۔ ایک تو یہ کہ نون لیگ خصوصی نشستوں بارے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کے لیے عدالت جا رہی ہے ( جس پر اب عمل بھی کیا جا چکا ہے )اور دوسری یہ کہ ہم پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی مقتدر نون لیگی تجویز کو آج پانچواں دن ہے مگر اِس کی مخالفت میں اب تک بیانات آ رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی نے تو ظاہر ہے ترنت اور سخت ردِ عمل دینا ہی تھا، دیگر کئی جماعتیں بھی خاموش نہیں رہیں ۔ مثال کے طور پر جے یو آئی ایف ، اے این پی، جماعتِ اسلامی، بلوچستان عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی نے کھل کر وفاقی حکومت کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔
پیپلز پارٹی، کے کچھ رہنما مخالفت کررہے ہیں اور کچھ خاموش ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ سندھ، مراد علی شاہ صاحب، نے بھی مخالفت کی ہے۔ حکومت کی ساتھی اور ساجھی تیسری پارٹی ، ایم کیو ایم، شکوہ کررہی ہے کہ اِس فیصلے میں ہم سے مشورہ ہی نہیں کیا گیا ۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے کہا ہے :'' پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ غیر آئینی ہوگا ۔ اِس اقدام سے جمہوری اقدار اور اصولوں کو بھی بڑا دھچکا پہنچے گا۔'' امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ، میتھیو ملر، نے کہا:'' پاکستان میں سیاسی جماعت پر پابندی کی تجویز پر امریکہ اظہارِ تشویش کرتا ہے ۔''
ساتھ ہی وزیر اطلاعات نے یہ بھی اعلان کیا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان ، سابق صدرِ مملکت عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا ۔ اعلان توکر دیے گئے ہیں لیکن کہا جارہا ہے کہ سیاسی و معاشی حالات اتنے دگرگوں اور خطرناک ہیں کہ حکومت اپنے دونوں اعلانات پر عمل کرنے کی ہمت نہیں پا سکے گی ؛ چنانچہ جب وفاقی حکومت کے فیصلے کی مخالفتوں کا طوفان اُٹھا تو نائب وزیر اعظم، جناب اسحاق ڈار، اور وزیر قانون ، جناب اعظم نذیر تارڑ، نے کہہ دیا:''پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ نہیں ہُوا ۔ پہلے اتحادیوں سے مشاورت کریں گے۔''بھئی فیصلے کے اعلان سے قبل مشاورت کر لی جاتی ۔
واقعہ یہ ہے کہ نون لیگی قیادت پر گبھراہٹ اور ڈپریشن طاری ہے ۔پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلہ کی خبر جس روز ( 16جولائی) کو شائع ہُوئی ، اُسی روز حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 10روپے فی لٹر کا اضافہ کر دیا ۔ اِس ایک مہینے میں شہباز حکومت پٹرول کی قیمت میں 17روپے فی لٹر کا اضافہ کر چکی ہے ۔ اور بجلی کی قیمت 90روپے فی یونٹ تک جا پہنچی ہے۔یہ سلسلہ کہاں جا کررُکے گا؟ 16جولائی ہی کو بنوں اور ڈی آئی خان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے 15 سیکیورٹی فورسز کے جوان اور شہری شہید کر ڈالے ۔
جب ملک میں مہنگائی ، بے روزگاری اور دہشت گردی کی خونی وارداتیں اس انتہا کو پہنچ چکی ہوں ، حکومت نا مقبول فیصلوں کے نئے جھنڈے گاڑ رہی ہو اور آپ ایسے حالات میں کسی بڑی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرکے کونسی قومی خدمت انجام دینے جا رہے ہیں؟ کیا ماضی میں سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کرکے سیاست و معیشت کو مستحکم کر لیا گیا تھا؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تھا تو ایسا اِس بار بھی نہ ہو سکے گا ۔ ویسے شہباز حکومت اپنا رانجھا راضی کر سکتی ہے ۔
اگر یہ سوال کیا جائے کہ نون لیگ کی جوہری اور بڑی غلطی کیا رہی ہے تو اِس کا جواب فقط یہ ہے : پی ٹی آئی کی طاقت ، کمٹمنٹ اور ہتھکنڈوں کا بروقت ادراک نہ کرنا ۔ اب جب کہ غفلتوں کا بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے، نون لیگ ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھی ہے ۔ ڈپریشن ، پریشانی اور کنفیوژن میں مبتلا ہے ۔ اور اِنہی عناصر کے اثرات تلے ایسے فیصلے کرنے پر تُل گئی ہے جس کی وسیع پیمانے پر مخالفت نظر آرہی ہے ۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز ۔
ابھی اِس تجویز کو عملی فیصلے کی صورت گری نہیں ملی ہے۔ غلغلہ مگر اِس کا بہت ہے ۔اِسی دوران نون لیگ نے عدالتِ عظمیٰ کے دروازے پر دستک دی ہے: پی ٹی آئی کو خصوصی نشستیں دینے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست۔ اس درخواست یا عرضداشت کا نتیجہ کیا نکلے گا، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ معاملہ اب Sub Judiceہے ۔
اندازے مگر یہی ہیں کہ نون لیگ کی اُمیدیں بھر نہیں آئیں گی۔ اُنہوں نے بقول منیر نیازی:ہر معاملے میں دیر کر دیتا ہوں، کے مصداق اہم سیاسی و عدالتی معاملات میں بھی اتنی دیر اور تاخیر (بلکہ لاپرواہی) کر دی ہے کہ اب منزل اور مقاصد ان سے بہت دُور جا چکے ہیں ۔ کتنی دیر کر دی ہے، اِس کی مثال(خصوصی نشستوں بارے)سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے اور نون لیگ کے ردِ عمل سے پیش کی جا سکتی ہے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فیصلے کے فوری بعد مرکزی حکومت کی جانب سے نون لیگ، جیسا بھی مناسب سمجھتی، ردِ عمل دیتی ۔
پنجاب کی صوبائی وزیر اطلاعات ، محترمہ عظمیٰ بخاری، میڈیا کے رُوبرو آئیں ۔ اُنہوں نے ایک زبردست پریس کانفرنس میں دھڑلّے سے پارٹی اور وفاقی حکومت کا نقطہ نظر قوم کے سامنے رکھا ۔ عظمیٰ بخاری صاحبہ کے لہجے کی تلخی اور کڑتّن واضح محسوس کی گئی ۔اُنہوں نے مگر واضح ، غیر مبہم الفاظ اور اسلوب میں اخبار نویسوں کے سخت سوالات کے بھی خوشدلی سے جوابات دیے ۔
ہم اُن کے الفاظ کو نون لیگ کے صدر، جناب نواز شریف، اور نون لیگی وزیر اعظم جناب شہباز شریف کے دل و دماغ کی آواز کہہ سکتے ہیں ۔ عظمیٰ بخاری صاحبہ کے بعد ، دوسرے روز، وفاقی وزیر اطلاعات ، جناب عطاء اللہ تارڑ، میڈیا کے رُوبرو آئے۔ خصوصی نشستوں کے فیصلے بارے نون لیگ کی صوبائی اور مرکزی حکومت کے وزرائے اطلاعات نے جو کچھ کہا، ان میں مشترکہ بات یہ سامنے آئی کہ ''ہم (نون لیگ) پاگل ہی تھے کہ مقدمات میں شریف بچوں کی طرح عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے رہے اور کوئی احتجاج نہ کیا ۔ اور یہ کہ اب پی ٹی آئی کی کوئی زیادتی اور جارحیت برداشت نہ ہوگی ۔''
وفاقی وزیر اطلاعات ، جناب عطا تارڑ ، نے البتہ دو باتیں نئی کہیں ۔ ایک تو یہ کہ نون لیگ خصوصی نشستوں بارے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کے لیے عدالت جا رہی ہے ( جس پر اب عمل بھی کیا جا چکا ہے )اور دوسری یہ کہ ہم پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی مقتدر نون لیگی تجویز کو آج پانچواں دن ہے مگر اِس کی مخالفت میں اب تک بیانات آ رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی نے تو ظاہر ہے ترنت اور سخت ردِ عمل دینا ہی تھا، دیگر کئی جماعتیں بھی خاموش نہیں رہیں ۔ مثال کے طور پر جے یو آئی ایف ، اے این پی، جماعتِ اسلامی، بلوچستان عوامی پارٹی اور قومی وطن پارٹی نے کھل کر وفاقی حکومت کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔
پیپلز پارٹی، کے کچھ رہنما مخالفت کررہے ہیں اور کچھ خاموش ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ سندھ، مراد علی شاہ صاحب، نے بھی مخالفت کی ہے۔ حکومت کی ساتھی اور ساجھی تیسری پارٹی ، ایم کیو ایم، شکوہ کررہی ہے کہ اِس فیصلے میں ہم سے مشورہ ہی نہیں کیا گیا ۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے کہا ہے :'' پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ غیر آئینی ہوگا ۔ اِس اقدام سے جمہوری اقدار اور اصولوں کو بھی بڑا دھچکا پہنچے گا۔'' امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ، میتھیو ملر، نے کہا:'' پاکستان میں سیاسی جماعت پر پابندی کی تجویز پر امریکہ اظہارِ تشویش کرتا ہے ۔''
ساتھ ہی وزیر اطلاعات نے یہ بھی اعلان کیا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان ، سابق صدرِ مملکت عارف علوی اور سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا ۔ اعلان توکر دیے گئے ہیں لیکن کہا جارہا ہے کہ سیاسی و معاشی حالات اتنے دگرگوں اور خطرناک ہیں کہ حکومت اپنے دونوں اعلانات پر عمل کرنے کی ہمت نہیں پا سکے گی ؛ چنانچہ جب وفاقی حکومت کے فیصلے کی مخالفتوں کا طوفان اُٹھا تو نائب وزیر اعظم، جناب اسحاق ڈار، اور وزیر قانون ، جناب اعظم نذیر تارڑ، نے کہہ دیا:''پی ٹی آئی پر پابندی کا فیصلہ نہیں ہُوا ۔ پہلے اتحادیوں سے مشاورت کریں گے۔''بھئی فیصلے کے اعلان سے قبل مشاورت کر لی جاتی ۔
واقعہ یہ ہے کہ نون لیگی قیادت پر گبھراہٹ اور ڈپریشن طاری ہے ۔پی ٹی آئی پر پابندی کے فیصلہ کی خبر جس روز ( 16جولائی) کو شائع ہُوئی ، اُسی روز حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 10روپے فی لٹر کا اضافہ کر دیا ۔ اِس ایک مہینے میں شہباز حکومت پٹرول کی قیمت میں 17روپے فی لٹر کا اضافہ کر چکی ہے ۔ اور بجلی کی قیمت 90روپے فی یونٹ تک جا پہنچی ہے۔یہ سلسلہ کہاں جا کررُکے گا؟ 16جولائی ہی کو بنوں اور ڈی آئی خان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے 15 سیکیورٹی فورسز کے جوان اور شہری شہید کر ڈالے ۔
جب ملک میں مہنگائی ، بے روزگاری اور دہشت گردی کی خونی وارداتیں اس انتہا کو پہنچ چکی ہوں ، حکومت نا مقبول فیصلوں کے نئے جھنڈے گاڑ رہی ہو اور آپ ایسے حالات میں کسی بڑی سیاسی جماعت پر پابندی عائد کرکے کونسی قومی خدمت انجام دینے جا رہے ہیں؟ کیا ماضی میں سیاسی جماعتوں پر پابندیاں عائد کرکے سیاست و معیشت کو مستحکم کر لیا گیا تھا؟ اگر ایسا نہیں ہو سکا تھا تو ایسا اِس بار بھی نہ ہو سکے گا ۔ ویسے شہباز حکومت اپنا رانجھا راضی کر سکتی ہے ۔