ہدف و فلسفۂ قیام امام حسینؓ
قیام نواسۂ رسولؐ حضرت امام حسینؓ اور واقعۂ کربلا کے بعد سے اب تک بہت کچھ لکھا گیا اور ہر کسی نے اس میں فہم انسانی کو بہ روئے کار لا کر تجزیہ و تحلیل کرنے کی سعی کی ہے۔ لیکن فلسفۂ قیام امام حسینؓ اور کربلا و عاشورہ کو ان کے فرمودات کی روشنی میں ہی بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے۔
نواسۂ رسولؐ حضرت امام حسینؓ کا وصیت نامہ محمد حنفیہؓ کے نام :
نواسۂ رسولؐ نے مدینہ سے مکہ روانگی کے وقت ایک وصیت نامہ تحریر فرمایا:
''یہ حسین ابن علی کی وصیت ہے اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام۔ حسین گواہی دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے اور محمدؐ، اﷲ کے بندے ا ور اس کے رسول ہیں جو اس کی طرف سے دین حق لے کر آئے ہیں اور حسین یہ گواہی بھی دیتا ہے کہ جنّت اور دوزخ حق ہیں اور روز جزاء کے آنے میں کوئی شک نہیں ہے اور یقیناً اﷲ اس روز تمام اہل قبور کو زندہ کرے گا۔''
(بہ حوالہ: حسین ابن علیؓ مدینہ تا کربلا )
تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ اس وصیت نامے پر نواسۂ رسولؐ نے اپنی مہر ثبت کی اور محمد حنفیہؓ کے حوالہ کیا۔
ہدف و فلسفۂ قیام بہ زبان نواسۂ رسولؐ :
نواسۂ رسولؐ کے قیام کا مقصد و ہدف کسی اور سے سننے کے بہ جائے خود امام حسینؓ کے فرمودات کی روشنی میں ملاحظہ کیجیے اور غور فرمائیے۔ وصیت نامہ تحریر کرنے کے بعد اب فلسفہ و ہدف قیام بیان فرماتے ہیں: '' مدینہ سے میرا نکلنا نہ خود پسندی اور تفریح کی غرض سے ہے اور نہ فساد اور ظلم و ستم میرا مقصد ہے۔ میں تو صرف اس لیے نکلا ہوں اپنے ناناؐ کی امت کی اصلاح کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انجام دوں اور یوں اپنے ناناؐ اور اپنے والد گرامیؓ کی سیرت کی پیروی کروں۔ اب اگر کوئی میری دعوت کو حق سمجھ کے قبول کرے تو اس نے اﷲ کا راستہ اختیار کیا ہے اور اگر میری دعوت کو مسترد کردے تو میں صبر کروں گا، یہاں تک کہ اﷲ میرے اور ان افراد کے درمیان فیصلہ کرے اور اﷲ ہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔''
اس کے بعد اک بار پھر محمد حنفیہؓ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں:
''اے بھائی! یہی آپ کے لیے میری وصیت ہے اور میری توفیقات تو صرف اﷲ کی جانب سے ہیں، اسی پر میرا بھروسا ہے اور اسی کی جانب مجھے پلٹنا ہے۔''
نواسۂ رسولؐ نے اپنے قیام کا بنیادی ہدف امت محمدیؐ کی اصلاح قرار دیا۔ یعنی مدینہ سے روانگی کے وقت ہی بتا دیا کہ قیام کا مقصد نہ تو حصول حکومت ہے، نہ ہی مال و دولت کی لالچ، نہ کسی اور وجہ سے ہے بل کہ قیام کا مقصد سیرت نبویؐ و اسلام کا احیاء ہے۔ یعنی جو حکم قرآنی ہے کہ محمدؐ نے جس چیز کو حرام کیا وہ قیامت تک حرام اور محمدؐ نے جس چیز کو حلال کیا وہ تاقیامت حلال ہے۔ لیکن آج یہ خلط ملط کر دیا گیا ہے، الٰہی قوانین کو روندا اور تبدیل کیا جا رہا ہے۔
معاشرے میں عدل و انصاف کو پامال کیا جا رہا ہے اور جو سیرت رسول مکرمؐ تھی اسے پس پشت ڈالا جا رہا ہے اور اس کی جگہ غیر انسانی طرز معاشرت، حقوق کی پامالی اور دین اسلام کی نابودی پر ظالم حکومت تْلی ہوئی ہے اور جن امور کی خاطر اﷲ نے انبیائؑ کو مبعوث فرمایا اور انہوں نے زحمتیں برداشت کی تھیں، پیام الہی کو معاشرے میں عام کرنے کے لیے جو منشورِ انبیائؑ تھا کہ میری نماز، میرا ہر عمل، میری موت، میری حیات صرف اور صرف اﷲ کے لیے یعنی دین خدا کی بقاء کے لیے مگر سولہ ہجری میں اسی دین خدا کو پامال کیا اور الہی راہ بروں کے منشور ہدایت کو پس پشت ڈال کر ہر عمل خوش نودی خدا کے بہ جائے حرص دنیا و نفسانی خواہشات کی پیروی کے لیے انجام دیا او ر یہ مقصد یعنی جاہ و جلال اور حصول دنیا دین الہی کے ہوتے ہوئے، حدود شرعی کے ہوتے ہوئے کبھی انجام پانا نہیں تھا اسی لیے ظالم حکومت نے سب سے پہلے الہی نمائندوں اور الہی قوانین کی حرمت کو پامال کرنے اور انھیں ختم کر نے کی منصوبہ بندی شروع کی اور ظلم و استبداد ی حکومت کے نمائندوں نے اندھیرے میں، رات کی تاریکی میں نواسۂ رسولؐ سے بیعت کا مطالبہ کیا۔
یہاں تک کہ اس مادی فکر نے کسی کو حکومت کی خاطر تو کسی کو دولت کی خاطر کسی نہ کسی دنیاوی لالچ کی وجہ سے نواسۂ رسولؐ سے جنگ کے لیے آمادہ کیا، لیکن اسلام کا ایک قانون ہے کہ دشمن ہمیشہ اپنی چال چلتا ہے اور خدا اپنی تدبیر کرتا ہے مگر بہترین تدبیر اﷲ ہی کی ہوتی ہے۔
رسول مکرمؐ کو بھی جب قتل کرنا چاہا تو اﷲ نے اپنے حبیبؐ کو بچالیا، جب کہ دشمن قتل کے درپے تھا۔ سولہ ھجری میں بھی لشکر کفر اکٹھا ہوا حق اور شریعت محمدیؐ جو خالص اسلام ہے، اس کو مٹانا چاہا مگر نواسۂ رسولؐ حسین ابن علیؓ نے انصاران و اصحاب حسینیؓ کے ساتھ قیام کیا او ر اپنے چھے ماہ کے علی اصغرؓ تک کی قربانی سے دین مبین اسلام کو بچانے کے لیے پیش کیا جس کو مورخ نے قرطاس و قلم سے محفوظ فرمایا، یوں اپنی اور خانوادہ رسولؐ کی عظیم قربانیاں پیش فرما کر تاابد دین اسلام کو محفوظ بنایا اور حق اور باطل کے درمیان خط کھینچ دیا اور اپنے خون سے حسین ابن علیؓ نے دین کی آبیاری کی اور اب ہر زمانہ، ہر نسل اور انسانیت کے لیے حق و باطل میں تفاوت کرنے کے لیے پیمانہ، کربلا بن گیا۔
اس قیام کا مقصد بھی ازخود بیان فرمایا تاکہ مفاد پرست تحریف نہ کرسکیں، امام عالی مقامؓ نے فرمایا: '' میں اپنے ناناؐ کی امت کی اصلاح کے لیے جا رہا ہوں۔'' حسین ابن علیؓ یعنی محافظ اسلام و سنّت نبویؐ جنہوں نے دین کو بچایا اقدار اسلامی و انسانی کو پامال ہونے نہیں دیا بل کہ احیاء کیا۔ آقاؐ کے دین پر خود کو اور اپنی آل کو قربان کیا۔ اس کے لیے فکر حسین ابن علیؓ کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ یہ کسی گروہ کے امام نہیں، کسی خاص مسلک کے امام نہیں بل کہ یہ امامِ امت ہیں۔ وہی امت جو امت محمدیؐ ہے۔ یہ ہر حریت پسند انسان کے امام ہیں، ہر مظلوم کے امام ہیں، ہر غیرت مند کے امام ہیں۔ حسینؓ انسانیت کے امام ہیں۔ کربلا کا ہر کردار ایک کامل درس ہے مگر تدبر و تفکر کے بعد درک کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریک کربلا کو محدود نہ کیجیے۔ اس تحریک کو کسی گروہ سے مخصوص نہ کیجیے۔ کربلا، دراصل بقائے دین و احیائے اسلام ہے۔ دانش وران و مفکرین ملت اسلامیہ، علمائے کرام، دانش گاہوں کے طلباء و طالبات اس نہضت ( تحریک) کربلا کے مختلف پہلوؤں پر غور کیجیے، تدبر، تفکر اور عمیق گہری نگاہ کے ساتھ نہضت کربلا کو دیکھیے اور تجزیہ و تحلیل کیجیے اور عوام تک پہنچائیے۔ کیوں؟ اس لیے تاکہ امت مسلمہ ظالم حکومتوں کے خلاف اور مخالفین اسلام کے ساتھ نبرد آزما ہونے کا سلیقہ سیکھ سکے۔ نواسۂ رسولؐؐ ظلم و استبداد کے خلاف تاابد ایک مثالی اور کامل کردار ہیں۔
آج ہمارے معاشرے کو پھر کردار حسین ابن علیؓ کی ضرورت ہے۔ آج پھر سے لشکر کفر، اسلام کے مقابل ہے۔ مقدسات اسلامی کی توہین و شعائر الہی کی توہین ہو رہی ہے۔ یزید وقت الہی حدوں کو پامال کررہا ہے۔ تشخص اسلامی و محمدیؐ پھر پامال کیا جا رہا ہے۔ اسلام کے نام پر ہی تعلیمات اسلامی کو نابود کیا جا رہا ہے۔
اﷲ اکبر کی صداؤں کے ساتھ ظلم کا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔ آج فلسطین، کشمیر اور متعدد ممالک میں بے گناہ انسانیت پر ظلم ہو رہا ہے۔ کربلا ہمیں یہی درس دیتی ہے کہ ہر ظالم کے خلاف ہر مظلوم کا ساتھ دو۔ یعنی مسلک نہ دیکھو، مذہب نہ دیکھو ، رنگ و نسل و زبان نہ دیکھو بل کہ مظلومیت دیکھو، یہ دیکھو کہ کون ظالم اور کون مظلوم ہے۔ اس لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے اصلاح امت رسول اﷲ ﷺ کی خاطر قیام حسینی تھا، ظلم و جور کے خلاف کربلا و عاشورہ برپا کیا۔
اب انسانیت بیدار ہو رہی ہے۔ انسانیت واقعۂ کربلا کو سمجھنا چاہتی ہے اور فکر حسین ابن علیؓ کو جاننا چاہتی ہے۔ نواسۂ رسولؐ کی وہ صدا جو کربلا میں عصر عاشور فضاؤں میں گونجی وہ آج بھی امت میں گونج رہی ہے کہ ہے کوئی نواسۂ رسولؐ کی مدد کرنے والا، ہے کوئی حرم رسول خدا ﷺ کی حفاظت کرنے والا۔ اس صدا پہ آج بھی لبیک کہا جاسکتا ہے اور اس کی ضرورت ہے۔
رسول اکرم ؐ کی ذات گرامی کی توہین ہر آئے روز مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے (نعوذباﷲ)، مقدسات اسلامی کو پامال کیا جارہا ہے، اس پُرآشوب دور میں آج انسانیت و بالخصوص اسلام کو ظالم کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے کردار و فکر حسینی کی ضرورت ہے۔ فکر نواسہ رسول مکرمؐ جو دراصل فکر رسول اﷲ ﷺ ہے اور فکر رسول اﷲ ﷺ پیام قرآن و وحی الٰہی ہے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہدایت کے ان میناروں کو سمجھیں اور اس کے مطابق ہی اپنا ہر عمل اور پروگرام زیست ترتیب دیں، یہی دین و قرآن کا منشاء ہے اور یہی رسولؐ و نواسۂ رسولؐ کی سیرت ہے اور اسی طرح ہی اک پاکیزہ انسانی و آفاقی معاشرہ وجود میں آسکتا ہے جہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہو۔