گرینڈ الائنس بننے کے امکانات کتنے
کہتے ہیں وقت بڑا ظالم ہوتا ہے۔ کبھی ایک سا نہیں رہتا
کہتے ہیں وقت بڑا ظالم ہوتا ہے۔ کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ایک زمانہ تھا جب طاہرالقادری شریف خاندان کے بہت قریب ہوا کرتے تھے۔دوستی اور محبت کے انمول رشتوں اور بندھنوں میں وہ اور شریف خاندان مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے ۔ میاں صاحب کے والد محترم موصوف کے خیالات ، ذہانت اور جوشِ خطابت سے بہت متاثر ہوا کرتے تھے۔ لہذا اُنہوں نے اُنہیں ماڈل ٹاؤن کے اُسی علاقے میں جہاںوہ خود رہائش پذیر تھے جناب طاہرالقادری کو بھی ایک مکان لے کر دے دیا اور علاقے کی قریبی مسجد میں اُنہیں پیش امام مقررکر دیا تاکہ وہ ہر جمعے کو اُن کا خطاب بہ نفسِ نفیس سن سکیں۔
آج وہی ڈاکٹر طاہرالقادری اُن کے فرزند کے حلق میں ہڈی بن چکا ہے۔میاں صاحب کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک ایسا شخص جس پر اُن کے والد ِ محترم کے بڑے احسانات ہیں وہ ایک دن اُن کا اتنا بڑادشمن بن جائے گا۔طاہرالقادری آج پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی کے اتنے مخالف نہیں ہیں جتنے مسلم لیگ(ن) کے بنے ہوئے ہیں۔ پہلے اُنہوں نے اُس الیکشن کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کیے جس میںایک محتاط اندازے کے مطابق مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کے امکانات واضح دکھائی دے رہے تھے۔اُس الیکشن سے پہلے اُنہیں کئی سال تک ملکی نظام بدلنے کا خیال نہیں آیا۔
نو سال تک وہ خاموشی کے ساتھ پرویز مشرف کے آمرانہ دور کوبرداشت کرتے رہے اور پھر پانچ برس تک پیپلزپارٹی کی اُس حکومت کوقبول کرتے رہے جو کارکردگی اور اندازِ حکمرانی میں اپنی ''مثال'' آپ تھی اور جس نے مالی بدعنوانیوں اور کرپشن میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ اچانک 2013ء کے ابتدا میں جب اُنہیں اگلا الیکشن ہوتا دکھائی دینے لگا اور یہ امکانات ظاہر ہونے لگے کہ اگلا دور میاںنواز شریف کی حکمرانی کا ہونے جا رہا ہے تو وہ اپنی کمر کس کے کینیڈا سے اچانک پاکستان تشریف لے آئے اور آیندہ ہونے والے الیکشن کو ہر ممکن طریقوں سے روکنے کی بھر پور کوششیں شروع کر دیں۔
اپنے کارکنوں اور مریدوں کے علاوہ منہاج القران ٹرسٹ کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کے ملازمین اور شاگردوں کے اہلِ خانہ اور خاندانوں کے ہمراہ اسلام آباد میں ڈی چوک پر چار روز تک دھرنا دیے رکھا۔ اپنے جوشِ خطابت میںحکومتِ وقت کو یزیدی ٹولہ اور نجانے کیسے کیسے القابات سے نوازتے رہے۔چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کی تعریفیں کرتے رہے۔ بعد ازاں اُسی یزیدی حکومت کے ساتھ ایک مبہم، بے وقعتی اور ناقابلِ عمل سمجھوتہ کرکے اپنے مستقل سکونتی وطن کینیڈا روانہ ہوگئے ۔
اب ایک بار پھر وہ پاکستان میں جلوہ افروز ہوئے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح میاں صاحب کی حکومت معزول کردی جائے۔اپنے اِس مقدس مقصد کے لیے وہ اِس بار یہ تہیہ کرکے آئے ہیں کہ جب تک میاں نواز شریف کو اقتدار سے محروم نہ کردیں چین سے نہیں بیٹھیں گے خواہ اُسکے لیے اُنہیں کتنے جتن کرنا پڑیں اور کتنے ہی برس یہاں گزارنا پڑیں۔کہنے کو وہ اپنا سامان اور کپڑے بھی اپنے ساتھ لے آئے ہیں اور کینیڈا واپس جانے کا ارادہ بھی ترک کرچکے ہیں لیکن اپنی کینیڈین نیشنلٹی سرینڈر کرنے کا فی الحال کوئی پروگرام اُن کے پیشِ نظر نہیں ہے۔
پاکستان آنے سے پہلے اُنہوں نے مختلف جماعتوں سے رابطہ بھی کیا اور اپنے نیک ارادوں سے چند قابلِ اعتبار دوستوں کو آگاہ بھی کیا۔اِن میں سرِ فہرست چوہدری برادران اور شیخ رشید ہیں جنہوں نے فوراً ہی لبیک کہتے ہوئے اُنہیں اپنے بھر پور تعاون اور مدد کا یقین دلایا۔اِن کے علاوہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور مجلسِ وحدت المسلمین کے صاحبزادہ حامد رضا خان نے بھی اُنہیں پاکستان آمد پر اپنی مکمل حمایت اور جدوجہد میں ساتھ نبھانے کا وعدہ مرحمت فرمایا۔
اب کیا تھا آناً فاناً وہ پاکستان میں انقلاب برپا کرنے کے اپنے نیک ارادوں اور عزائم کی تکمیل کے لیے کینیڈا سے چل پڑے۔یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ صرف اِن چند حمایتیوں کے بل بوتے پر یہ معرکہ اُن سے سر نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ایک گرینڈ الائنس تشکیل دینا پڑے ہی گا۔اب وہ اِس کی کوششوں میں لگ گئے ہیں۔اور اُن جماعتوں سے رابطے کر رہے ہیں جن کی جڑیں ملک کے چاروں صوبوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔اِن میں پاکستان پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ شامل ہیں، لیکن چونکہ ساری لڑائی ہی پاکستان مسلم لیگ کے خلاف ہے لہذا اُس سے اتحاد تو ممکن ہی نہیں، باقی رہ گئیں پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف جو بہر حال اُنکی قیادت میں کسی تحریک چلانے پر کچھ تحفظات رکھتے ہیں۔
جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے والوں میں پیپلز پارٹی کا بہرحال بہت بڑا نام ہے جب کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا اِس ملک کے جمہوری نظام سے زمانے کا بیر ہے۔وہ نہ اِیسی جمہوریت کے قائل ہیں اور نہ ایسے الیکشن کمیشن پر اعتبار واعتماد رکھتے ہیں جس کے تحت یہاں کوئی انتخابات منعقد ہوں۔وہ تو سارا نظام ہی تلپٹ کر کے اپنی مرضی کا نظام رائج کرنا چاہتے ہیں۔تحریکِ انصاف کے عمران خان بھی ابھی تک ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ کسی تحریک کا حصہ بننے کے لیے اِسی وجہ سے ہچکچاہٹ اور تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ موجودہ جمہوری اور پارلیمانی نظام کا وہ حصہ بھی نہیں ہیں۔
اور تیزی سے تغیر پذیر اُن کے خیالات اور فرمودات کا پتا بھی نہیں۔ کل پیپلز پارٹی موصوف کی نظر میں یزیدی ٹولا کہلائی، آج شہباز شریف اِس ملک کا سب سے بڑا دہشت گرد ٹھہرا ،نجانے کل عمران خان اقتدرا مل جانے کی صورت میں وقت کا سب سے بڑا فرعون قرار پائے ۔ تحریکِ انصاف نے ابھی تک اپنی بیس سالہ جدوجہد کے بعد جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ ہمارے ملک کے اِسی لنگڑے لولے جمہوری نظام میں رہتے ہوئے حاصل کی ہیں۔ وہ بھلا کیونکر کسی ایسے شخص کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جمہوریت ہی کو ڈی ریل کرنا چاہیں گے جس کی پارٹی کی پارلیمان میں کوئی نمایندگی ہی نہ ہو۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ جناب شیخ الاسلام کی لیڈر شپ میں کوئی تحریک چلانے کا مطلب اپنی پارٹی کی کمان بھی اُن کے ہاتھ میںدے دینا ہے۔ جو یہ دونوں پارٹیاں ہر گز نہیں چاہیں گی۔چھوٹی موٹی سیاسی جماعتیں جن کا براہِ راست ووٹوں کے ذریعے اقتدار میںآناایک خواب ہی ہے وہ بہر حال اُنہیں اپنا لیڈر تسلیم کرنے پررضامندہو سکتی ہیں اور ابھی تک صورتحال بھی کچھ ایسی ہی دکھائی دے رہی ہے۔ طاہر القادری کی دلی خواہش اور تمنا تو یہی ہے کہ ساری سیاسی پارٹیاں اُنہیں اپنا قائد اور لیڈر مان کر اُن کے قافلے میں شامل ہوجائیں اور انقلاب لانے کا سہرا اُنکے سر سج جائے۔مگر چونکہ دن میں خواب دیکھنے پر یہاں کوئی قدغن تو ہے ہی نہیں سو وہ ایسا کرنے میں مکمل آزاد اور مجاز ہیں۔
چوہدری برادران کی مسلم لیگ (ق) اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ اُن کی خوابوں کی تعبیر میں اگر کوئی رول ادا کرسکتے ہیں تو وہ دل وجان سے اداکیے جارہے ہیں اور کسی حد تک ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھی اُنہیں زبانی و کلامی حوصلہ اور دلاسہ دیے جا رہے ہیں ۔دیکھتے ہیںاُونٹ کِس کروٹ بیٹھتا ہے۔ حسرتوں اور خواہشوں پر مبنی ایک گرینڈ الائنس کس طرح ترتیب پاتا ہے ۔ شیخ الاسلام اپنا سحر انگیز انقلابی جادو کِس طرح جگا پائیں گے۔ یا پھرناکامی کی صورت میں کسی بیماری کا عذر یا بہانہ تراش کر کے علاج کے بہانے اپنے اصل وطن کینیڈا نکل جائیں گے۔
آج وہی ڈاکٹر طاہرالقادری اُن کے فرزند کے حلق میں ہڈی بن چکا ہے۔میاں صاحب کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک ایسا شخص جس پر اُن کے والد ِ محترم کے بڑے احسانات ہیں وہ ایک دن اُن کا اتنا بڑادشمن بن جائے گا۔طاہرالقادری آج پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی کے اتنے مخالف نہیں ہیں جتنے مسلم لیگ(ن) کے بنے ہوئے ہیں۔ پہلے اُنہوں نے اُس الیکشن کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کیے جس میںایک محتاط اندازے کے مطابق مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کے امکانات واضح دکھائی دے رہے تھے۔اُس الیکشن سے پہلے اُنہیں کئی سال تک ملکی نظام بدلنے کا خیال نہیں آیا۔
نو سال تک وہ خاموشی کے ساتھ پرویز مشرف کے آمرانہ دور کوبرداشت کرتے رہے اور پھر پانچ برس تک پیپلزپارٹی کی اُس حکومت کوقبول کرتے رہے جو کارکردگی اور اندازِ حکمرانی میں اپنی ''مثال'' آپ تھی اور جس نے مالی بدعنوانیوں اور کرپشن میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ اچانک 2013ء کے ابتدا میں جب اُنہیں اگلا الیکشن ہوتا دکھائی دینے لگا اور یہ امکانات ظاہر ہونے لگے کہ اگلا دور میاںنواز شریف کی حکمرانی کا ہونے جا رہا ہے تو وہ اپنی کمر کس کے کینیڈا سے اچانک پاکستان تشریف لے آئے اور آیندہ ہونے والے الیکشن کو ہر ممکن طریقوں سے روکنے کی بھر پور کوششیں شروع کر دیں۔
اپنے کارکنوں اور مریدوں کے علاوہ منہاج القران ٹرسٹ کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں کے ملازمین اور شاگردوں کے اہلِ خانہ اور خاندانوں کے ہمراہ اسلام آباد میں ڈی چوک پر چار روز تک دھرنا دیے رکھا۔ اپنے جوشِ خطابت میںحکومتِ وقت کو یزیدی ٹولہ اور نجانے کیسے کیسے القابات سے نوازتے رہے۔چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کی تعریفیں کرتے رہے۔ بعد ازاں اُسی یزیدی حکومت کے ساتھ ایک مبہم، بے وقعتی اور ناقابلِ عمل سمجھوتہ کرکے اپنے مستقل سکونتی وطن کینیڈا روانہ ہوگئے ۔
اب ایک بار پھر وہ پاکستان میں جلوہ افروز ہوئے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح میاں صاحب کی حکومت معزول کردی جائے۔اپنے اِس مقدس مقصد کے لیے وہ اِس بار یہ تہیہ کرکے آئے ہیں کہ جب تک میاں نواز شریف کو اقتدار سے محروم نہ کردیں چین سے نہیں بیٹھیں گے خواہ اُسکے لیے اُنہیں کتنے جتن کرنا پڑیں اور کتنے ہی برس یہاں گزارنا پڑیں۔کہنے کو وہ اپنا سامان اور کپڑے بھی اپنے ساتھ لے آئے ہیں اور کینیڈا واپس جانے کا ارادہ بھی ترک کرچکے ہیں لیکن اپنی کینیڈین نیشنلٹی سرینڈر کرنے کا فی الحال کوئی پروگرام اُن کے پیشِ نظر نہیں ہے۔
پاکستان آنے سے پہلے اُنہوں نے مختلف جماعتوں سے رابطہ بھی کیا اور اپنے نیک ارادوں سے چند قابلِ اعتبار دوستوں کو آگاہ بھی کیا۔اِن میں سرِ فہرست چوہدری برادران اور شیخ رشید ہیں جنہوں نے فوراً ہی لبیک کہتے ہوئے اُنہیں اپنے بھر پور تعاون اور مدد کا یقین دلایا۔اِن کے علاوہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور مجلسِ وحدت المسلمین کے صاحبزادہ حامد رضا خان نے بھی اُنہیں پاکستان آمد پر اپنی مکمل حمایت اور جدوجہد میں ساتھ نبھانے کا وعدہ مرحمت فرمایا۔
اب کیا تھا آناً فاناً وہ پاکستان میں انقلاب برپا کرنے کے اپنے نیک ارادوں اور عزائم کی تکمیل کے لیے کینیڈا سے چل پڑے۔یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ صرف اِن چند حمایتیوں کے بل بوتے پر یہ معرکہ اُن سے سر نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ایک گرینڈ الائنس تشکیل دینا پڑے ہی گا۔اب وہ اِس کی کوششوں میں لگ گئے ہیں۔اور اُن جماعتوں سے رابطے کر رہے ہیں جن کی جڑیں ملک کے چاروں صوبوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔اِن میں پاکستان پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ شامل ہیں، لیکن چونکہ ساری لڑائی ہی پاکستان مسلم لیگ کے خلاف ہے لہذا اُس سے اتحاد تو ممکن ہی نہیں، باقی رہ گئیں پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف جو بہر حال اُنکی قیادت میں کسی تحریک چلانے پر کچھ تحفظات رکھتے ہیں۔
جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے والوں میں پیپلز پارٹی کا بہرحال بہت بڑا نام ہے جب کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا اِس ملک کے جمہوری نظام سے زمانے کا بیر ہے۔وہ نہ اِیسی جمہوریت کے قائل ہیں اور نہ ایسے الیکشن کمیشن پر اعتبار واعتماد رکھتے ہیں جس کے تحت یہاں کوئی انتخابات منعقد ہوں۔وہ تو سارا نظام ہی تلپٹ کر کے اپنی مرضی کا نظام رائج کرنا چاہتے ہیں۔تحریکِ انصاف کے عمران خان بھی ابھی تک ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ کسی تحریک کا حصہ بننے کے لیے اِسی وجہ سے ہچکچاہٹ اور تذبذب کا شکار ہیں کیونکہ موجودہ جمہوری اور پارلیمانی نظام کا وہ حصہ بھی نہیں ہیں۔
اور تیزی سے تغیر پذیر اُن کے خیالات اور فرمودات کا پتا بھی نہیں۔ کل پیپلز پارٹی موصوف کی نظر میں یزیدی ٹولا کہلائی، آج شہباز شریف اِس ملک کا سب سے بڑا دہشت گرد ٹھہرا ،نجانے کل عمران خان اقتدرا مل جانے کی صورت میں وقت کا سب سے بڑا فرعون قرار پائے ۔ تحریکِ انصاف نے ابھی تک اپنی بیس سالہ جدوجہد کے بعد جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ ہمارے ملک کے اِسی لنگڑے لولے جمہوری نظام میں رہتے ہوئے حاصل کی ہیں۔ وہ بھلا کیونکر کسی ایسے شخص کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جمہوریت ہی کو ڈی ریل کرنا چاہیں گے جس کی پارٹی کی پارلیمان میں کوئی نمایندگی ہی نہ ہو۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ جناب شیخ الاسلام کی لیڈر شپ میں کوئی تحریک چلانے کا مطلب اپنی پارٹی کی کمان بھی اُن کے ہاتھ میںدے دینا ہے۔ جو یہ دونوں پارٹیاں ہر گز نہیں چاہیں گی۔چھوٹی موٹی سیاسی جماعتیں جن کا براہِ راست ووٹوں کے ذریعے اقتدار میںآناایک خواب ہی ہے وہ بہر حال اُنہیں اپنا لیڈر تسلیم کرنے پررضامندہو سکتی ہیں اور ابھی تک صورتحال بھی کچھ ایسی ہی دکھائی دے رہی ہے۔ طاہر القادری کی دلی خواہش اور تمنا تو یہی ہے کہ ساری سیاسی پارٹیاں اُنہیں اپنا قائد اور لیڈر مان کر اُن کے قافلے میں شامل ہوجائیں اور انقلاب لانے کا سہرا اُنکے سر سج جائے۔مگر چونکہ دن میں خواب دیکھنے پر یہاں کوئی قدغن تو ہے ہی نہیں سو وہ ایسا کرنے میں مکمل آزاد اور مجاز ہیں۔
چوہدری برادران کی مسلم لیگ (ق) اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ اُن کی خوابوں کی تعبیر میں اگر کوئی رول ادا کرسکتے ہیں تو وہ دل وجان سے اداکیے جارہے ہیں اور کسی حد تک ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھی اُنہیں زبانی و کلامی حوصلہ اور دلاسہ دیے جا رہے ہیں ۔دیکھتے ہیںاُونٹ کِس کروٹ بیٹھتا ہے۔ حسرتوں اور خواہشوں پر مبنی ایک گرینڈ الائنس کس طرح ترتیب پاتا ہے ۔ شیخ الاسلام اپنا سحر انگیز انقلابی جادو کِس طرح جگا پائیں گے۔ یا پھرناکامی کی صورت میں کسی بیماری کا عذر یا بہانہ تراش کر کے علاج کے بہانے اپنے اصل وطن کینیڈا نکل جائیں گے۔