معاشی استحکام ٹیکس نیٹ کو بڑھایا جائے
ترقی یافتہ ممالک میں جہاں ٹیکس آمدنی زیادہ ہے وہاں ٹیکس چوری بہت بڑا جرم ہے۔
عالمی ریٹنگ ایجنسی کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے اختتام تک پاکستان میں مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہوسکتی ہے، توقع ہے کہ اسٹیٹ بینک شرح سود کو 14فی صد پر لے آئے گا، جب کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے رواں مالی سال پاکستان میں مہنگائی کی شرح زیادہ رہنے اور قرضوں کا حجم سات فی صد کم ہونے کی پیشن گوئی کردی ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 49 لاکھ ٹیکس نیٹ سے باہر دولت مند اور سرمایہ داروں کو ترجیحی بنیادوں پر ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور غریب طبقے پر اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے۔
پوری دنیا میں قانون ہے کہ جہاں آمدنی ہوگی، وہاں ٹیکس ہے۔کسی شعبے اور جگہ کی مدد کے لیے کچھ عرصے ترغیبات دی جاتی ہیں، لیکن ایسا کہیں بھی نہیں ہے کہ کسی سیکٹر سے ٹیکس ہی نہیں لیا جائے گا، لیکن ہمارے یہاں تو شوگر انڈسٹری بھی سبسڈی لیتی ہے۔ پاکستان ٹیکس ریٹ زیادہ رکھنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
جرمنی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا تھا تو اس وقت معاشی پالیسی بنائی گئی انھوں نے ریٹ آف ٹیکس کم کردیا جس سے معیشت میں ترقی ہوئی اور ٹیکس آنا شروع ہوا۔پاکستان میں ایف بی آر کا نظام بھی بڑا پیچیدہ ہے۔
اس ادارے کے افسران ادارے کے لیے ٹیکس وصول کرنے کی کم بات کرتے ہیں، جب کہ اپنی ذات کے لیے زیادہ کرتے ہیں۔ ٹیکس کی کمی کے ذمے داروں میں ایف بی آر افسران بھی شامل ہیں، بیرون ملک میں کھپت پر ٹیکس لگایا جاتا ہے، ہمارے نظام میں پوری طرح ٹیکس نہیں لیا جاتا ہے۔ پاکستان 25 کروڑ آبادی والا ملک ہے اور ہماری ٹوٹل ایکسپورٹ تیس ارب ڈالر کے قریب ہوگی اور تیس ارب ڈالر بیرون ملک مقیم پاکستانی بھیجتے ہیں تو اس طرح وہ 60 ارب ڈالر ہوجاتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں جہاں ٹیکس آمدنی زیادہ ہے وہاں ٹیکس چوری بہت بڑا جرم ہے۔ امریکا میں پھانسی کی سزا صرف ٹیکس چوری پر ہے، باقی کسی جرم میں موت کی سزا نہیں ہے تو کیا پاکستان میں ٹیکس چوری روکنے کے لیے ایسے قوانین ہیں؟ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا یہاں جوبھی کرلیں بس پیسے دیں اور نکل جائیں۔
شمالی یورپ میں اسکینڈے نیوین ممالک میں ٹیکس وصولی 50فیصد سے زائد ہے لوگ آسانی سے ٹیکس دیتے ہیں جس کے بعد حکومت ان کے بچوں کو تعلیم، میڈیکل اور دیگر سہولیات مفت فراہم کرتی ہے۔ اتنا ٹیکس دینے کے باوجود وہاں کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ مجھ سے اتنا ٹیکس لے کر زیادتی کی جا رہی ہے کیوں کہ ہر آدمی ٹیکس دے رہا ہے۔
پاکستان کی اکنامی کا اسٹرکچر کچھ اس طرح سے ہے، ہماری 20 فیصد کے قریب زرعی انکم ہے جس میں ٹیکس کا حصہ ایک فیصد ہے، ٹرانسپورٹ کا 17فیصد ہے لیکن ٹیکس وصولی زیادہ سے زیادہ 2 سے تین فیصد ہے، ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر 17سے اٹھارہ فیصد ہے لیکن ٹیکس میں حصہ تین سے چار فیصد ہے، لہٰذا آخر میں سارا بوجھ صنعت پر آتا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی ٹیکس زیادہ وصول ہو رہا ہے وہ ان کی انکم کی وجہ سے ہے۔ ٹیکس دینے سے ٹیکس کا جی ڈی پی ریشو بھی بڑھتا ہے۔
دنیا میں فیڈریشن اور صوبوں کے ٹیکس ملا کر ٹیکس ٹو جی ڈی پی بنتا ہے، وفاق تو ٹیکس وصول کر لے گا لیکن جب صوبے نہیں کر پاتے توٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو سے نیچے چلاجاتا ہے ہماری انکم بڑھتی چلی جاتی ہے لیکن دوسرے سیکٹر ٹیکس نہیں دیتے۔ ہماری پہلی ترجیح یہ ہو کہ جو سیکٹر ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں، انھیں سہولتوں کے ساتھ اس میں شامل کیا جائے۔
ہمیں پہلے یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ پاکستان میں سیاسی استحکام رہے گا تو معیشت مستحکم ہوگی اور ترقی کے سارے مسائل خود بخود بہتر ہوں گے، ٹیکس کا بڑھنا اسی سے جڑا ہے، پوری دنیا میں قانون ہے کہ جہاں آمدنی ہوگی وہاں ٹیکس ہوگا۔ دنیا میں ٹیکس کی مد میں آمدنی دو وجہ سے بڑھی ہے، اول وجہ جب معیشت ترقی کر رہی ہوتی ہے اور دوئم وجہ سیاسی استحکام۔ کیوں کہ مقامی سرمایہ کاری تو جاری رہتی ہے، لیکن غیر ملکی سرمایہ کار جوکسی بھی معیشت کے انجن ہوتے ہیں وہ اس بات کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔
کسی بھی ملک کی ترقی و خوش حالی کے لیے اس کا ٹیکس ریونیو اچھا ہونا بہت ضروری ہے، تاکہ وہ یہ آمدنی اپنی عوام پر خرچ کرسکے، لیکن جب پیسے ہی نہیں جمع ہوں گے تو خرچ کیسے کریں گے؟ حالانکہ ہم نے متعدد بار ٹیکس نیٹ 15فیصد تک لے جانے کی منصوبہ بندی کی لیکن ہم گیارہ سے بارہ فیصد پر پہنچ کر واپس پرانی پوزیشن پر چلے جاتے ہیں۔ ہمارا ٹیکس نیٹ کیسے بڑھ سکتا ہے اور کن وجوہات کے سبب ہم ٹیکس وصولی میں ناکام ہیں، ہمیں یہ سمجھنے کی بھی کوشش کرنا ہوگی کہ اب تک ہمارا نظام بڑے سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں کیوں ناکام ہے؟
وفاقی بجٹ کے اعلان کے بعد توقع کے مطابق حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، توانائی کی بڑھتی ہوئی لاگت، کم پیداواری صلاحیت اور مہنگائی کی آنے والی لہر پر تشویش کا اظہار کیا گیا، جس کی وجہ سے وزیر اعظم شہباز شریف کو قومی اسمبلی کے سامنے اعتراف کرنا پڑا کہ بجٹ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ بات بڑی حد تک درست ہے اور کوئی بھی پاکستان کے لیے عالمی قرض دہندہ کے ساتھ ایک اور بیل آؤٹ پیکیج کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر رہا ہے، لیکن آؤٹ آف بکس نہ سوچنا اور اسلام آباد میں حکام کی جانب سے حل تلاش کرنا مخلوط حکومت کو فائدہ نہیں دے گا۔
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے گزشتہ سال ستمبر میں کہا تھا کہ '' ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان امیروں سے زیادہ ٹیکس وصول کرے اور غریبوں کو تحفظ فراہم کرے۔'' ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے صرف جزوی طور پر ''ٹیکس زیادہ'' کی ہدایت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ باقی کو نظر انداز کرنے کو ترجیح دی ہے۔ تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ دستاویزی معیشت پر مزید ٹیکس لگا کر حکومت فی الوقت اپنے مالی پہلو کو مستحکم کرسکتی ہے لیکن ساختی مسائل برقرار رہیں گے۔ دراصل ٹیکسوں میں اضافہ جو ظالمانہ نوعیت کا ہے، صرف ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ اب تک بجٹ کے نافذ العمل ہونے کے چند ہفتوں بعد سیمنٹ، پٹرولیم ڈیلرز، ریٹیلرز، تنخواہ دار طبقے، فلور ملز مالکان نے بھی ٹیکس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
پاکستانی معیشت کا بنیادی مسئلہ حکومتی اخراجات ہیں جب کہ ٹیکسوں میں اضافہ اس کا حل نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں حکومت کی جانب سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مارکیٹ سے لیے جانے والے قرضوں میں اضافہ ہوا ہے جو بڑے پیمانے پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اوپن مارکیٹ آپریشنز (او ایم او) کے ذریعے لیا جا رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر قرض ایسے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ہیں، جو ترقی میں اضافے کے بجائے بڑے پیمانے پر غیر ترقیاتی ہیں۔ لہٰذا اسٹیٹ بینک کو کچھ خود مختاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے او ایم اوز کو ختم کرنا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پبلک ٹیکسز غیر پیداواری شعبوں کی فنڈنگ جاری رکھتے ہیں تو اس سے افراط زر میں مزید اضافہ ہوگا جس سے مزید مالی عدم توازن پیدا ہوگا، لہٰذا حکومت چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی حکومتوں کو اپنا حجم کم کرنا ہوگا۔ اسے متعدد غیر ضروری وزارتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے اور اس کی تنخواہوں اور پنشن کے ڈھانچے کو حل کرنا چاہیے،بصورت دیگر، یہاں سے راستہ صرف نیچے کی طرف جاتا ہے۔
ٹیکس آمدن میں اضافے اور ٹیکس وصولی کے ادارے میں موثر اقدامات ضروری ہیں کیونکہ جب تک قومی خزانے میں ٹیکس آمدن میں اضافہ نہیں ہوگا اس وقت تک ملک قرضوں کی دلدل سے نہیں نکل سکتا۔ اس کے علاوہ ٹیکس وصولی کے متعلق پالیسی سازی درست ہونی چاہیے۔ پاکستان میں ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہونے کے باعث لوگ ٹیکس چوری کی جانب مائل ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے اسمگلنگ کو فروغ مل رہا ہے، اگر ٹیکس کی شرح بہت کم اور ادائیگی آسان ہو تو کاروباری افراد بخوشی ٹیکس ادائیگی پر رضامند ہوں گے اور ٹیکس ادائیگی میں آسانیاں پیدا کرکے اسمگلنگ کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں تو ٹیکس دینے والوں کو ٹیکس محکمہ زیادہ تنگ کرتا ہے اور جو لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں وہ سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں تو بدقسمتی سے ٹیکس دینا جرم بنا ہوا ہے۔ ٹیکس دینے والے افراد کو آئے روز نوٹس کرکے پریشان کیا جاتا ہے۔
اب وزیراعظم کی جانب سے ٹیکس محکمے میں کڑے احتساب کے عزم کے اظہار سے امید کی جاسکتی ہے کہ شفاف احتساب کرکے ٹیکس محکمے میں کرپشن کا خاتمہ کیا جائے گا۔ یہاں تو لوگ ٹیکس محکمے کے ڈر سے سرمایہ بیرون ملک لے جاتے ہیں یا چھپا کر بیٹھے رہتے ہیں۔ جب کاروبار نہیں کیا جائے گا تو ٹیکس کیسے ملے گا اور بے روزگاری میں کیسے کمی آسکتی ہے؟ بہرحال ملک گیر سطح پر شہریوں کی آمدن اور ذرایع آمدن سے متعلق اعداد و شمار جمع کر کے انھیں ٹیکس نیٹ میں لانا ناگزیر ہے اور موجودہ کوششوں کی حمایت کی جانا چاہیے اور اس کے مثبت مضمرات سے لوگوں کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔
پوری دنیا میں قانون ہے کہ جہاں آمدنی ہوگی، وہاں ٹیکس ہے۔کسی شعبے اور جگہ کی مدد کے لیے کچھ عرصے ترغیبات دی جاتی ہیں، لیکن ایسا کہیں بھی نہیں ہے کہ کسی سیکٹر سے ٹیکس ہی نہیں لیا جائے گا، لیکن ہمارے یہاں تو شوگر انڈسٹری بھی سبسڈی لیتی ہے۔ پاکستان ٹیکس ریٹ زیادہ رکھنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
جرمنی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سب کچھ ختم ہوگیا تھا تو اس وقت معاشی پالیسی بنائی گئی انھوں نے ریٹ آف ٹیکس کم کردیا جس سے معیشت میں ترقی ہوئی اور ٹیکس آنا شروع ہوا۔پاکستان میں ایف بی آر کا نظام بھی بڑا پیچیدہ ہے۔
اس ادارے کے افسران ادارے کے لیے ٹیکس وصول کرنے کی کم بات کرتے ہیں، جب کہ اپنی ذات کے لیے زیادہ کرتے ہیں۔ ٹیکس کی کمی کے ذمے داروں میں ایف بی آر افسران بھی شامل ہیں، بیرون ملک میں کھپت پر ٹیکس لگایا جاتا ہے، ہمارے نظام میں پوری طرح ٹیکس نہیں لیا جاتا ہے۔ پاکستان 25 کروڑ آبادی والا ملک ہے اور ہماری ٹوٹل ایکسپورٹ تیس ارب ڈالر کے قریب ہوگی اور تیس ارب ڈالر بیرون ملک مقیم پاکستانی بھیجتے ہیں تو اس طرح وہ 60 ارب ڈالر ہوجاتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں جہاں ٹیکس آمدنی زیادہ ہے وہاں ٹیکس چوری بہت بڑا جرم ہے۔ امریکا میں پھانسی کی سزا صرف ٹیکس چوری پر ہے، باقی کسی جرم میں موت کی سزا نہیں ہے تو کیا پاکستان میں ٹیکس چوری روکنے کے لیے ایسے قوانین ہیں؟ پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہوتا یہاں جوبھی کرلیں بس پیسے دیں اور نکل جائیں۔
شمالی یورپ میں اسکینڈے نیوین ممالک میں ٹیکس وصولی 50فیصد سے زائد ہے لوگ آسانی سے ٹیکس دیتے ہیں جس کے بعد حکومت ان کے بچوں کو تعلیم، میڈیکل اور دیگر سہولیات مفت فراہم کرتی ہے۔ اتنا ٹیکس دینے کے باوجود وہاں کوئی شخص یہ نہیں کہتا کہ مجھ سے اتنا ٹیکس لے کر زیادتی کی جا رہی ہے کیوں کہ ہر آدمی ٹیکس دے رہا ہے۔
پاکستان کی اکنامی کا اسٹرکچر کچھ اس طرح سے ہے، ہماری 20 فیصد کے قریب زرعی انکم ہے جس میں ٹیکس کا حصہ ایک فیصد ہے، ٹرانسپورٹ کا 17فیصد ہے لیکن ٹیکس وصولی زیادہ سے زیادہ 2 سے تین فیصد ہے، ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر 17سے اٹھارہ فیصد ہے لیکن ٹیکس میں حصہ تین سے چار فیصد ہے، لہٰذا آخر میں سارا بوجھ صنعت پر آتا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی ٹیکس زیادہ وصول ہو رہا ہے وہ ان کی انکم کی وجہ سے ہے۔ ٹیکس دینے سے ٹیکس کا جی ڈی پی ریشو بھی بڑھتا ہے۔
دنیا میں فیڈریشن اور صوبوں کے ٹیکس ملا کر ٹیکس ٹو جی ڈی پی بنتا ہے، وفاق تو ٹیکس وصول کر لے گا لیکن جب صوبے نہیں کر پاتے توٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو سے نیچے چلاجاتا ہے ہماری انکم بڑھتی چلی جاتی ہے لیکن دوسرے سیکٹر ٹیکس نہیں دیتے۔ ہماری پہلی ترجیح یہ ہو کہ جو سیکٹر ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں، انھیں سہولتوں کے ساتھ اس میں شامل کیا جائے۔
ہمیں پہلے یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ پاکستان میں سیاسی استحکام رہے گا تو معیشت مستحکم ہوگی اور ترقی کے سارے مسائل خود بخود بہتر ہوں گے، ٹیکس کا بڑھنا اسی سے جڑا ہے، پوری دنیا میں قانون ہے کہ جہاں آمدنی ہوگی وہاں ٹیکس ہوگا۔ دنیا میں ٹیکس کی مد میں آمدنی دو وجہ سے بڑھی ہے، اول وجہ جب معیشت ترقی کر رہی ہوتی ہے اور دوئم وجہ سیاسی استحکام۔ کیوں کہ مقامی سرمایہ کاری تو جاری رہتی ہے، لیکن غیر ملکی سرمایہ کار جوکسی بھی معیشت کے انجن ہوتے ہیں وہ اس بات کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں۔
کسی بھی ملک کی ترقی و خوش حالی کے لیے اس کا ٹیکس ریونیو اچھا ہونا بہت ضروری ہے، تاکہ وہ یہ آمدنی اپنی عوام پر خرچ کرسکے، لیکن جب پیسے ہی نہیں جمع ہوں گے تو خرچ کیسے کریں گے؟ حالانکہ ہم نے متعدد بار ٹیکس نیٹ 15فیصد تک لے جانے کی منصوبہ بندی کی لیکن ہم گیارہ سے بارہ فیصد پر پہنچ کر واپس پرانی پوزیشن پر چلے جاتے ہیں۔ ہمارا ٹیکس نیٹ کیسے بڑھ سکتا ہے اور کن وجوہات کے سبب ہم ٹیکس وصولی میں ناکام ہیں، ہمیں یہ سمجھنے کی بھی کوشش کرنا ہوگی کہ اب تک ہمارا نظام بڑے سیکٹرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں کیوں ناکام ہے؟
وفاقی بجٹ کے اعلان کے بعد توقع کے مطابق حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، توانائی کی بڑھتی ہوئی لاگت، کم پیداواری صلاحیت اور مہنگائی کی آنے والی لہر پر تشویش کا اظہار کیا گیا، جس کی وجہ سے وزیر اعظم شہباز شریف کو قومی اسمبلی کے سامنے اعتراف کرنا پڑا کہ بجٹ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہ بات بڑی حد تک درست ہے اور کوئی بھی پاکستان کے لیے عالمی قرض دہندہ کے ساتھ ایک اور بیل آؤٹ پیکیج کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر رہا ہے، لیکن آؤٹ آف بکس نہ سوچنا اور اسلام آباد میں حکام کی جانب سے حل تلاش کرنا مخلوط حکومت کو فائدہ نہیں دے گا۔
آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے گزشتہ سال ستمبر میں کہا تھا کہ '' ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان امیروں سے زیادہ ٹیکس وصول کرے اور غریبوں کو تحفظ فراہم کرے۔'' ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے صرف جزوی طور پر ''ٹیکس زیادہ'' کی ہدایت پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ باقی کو نظر انداز کرنے کو ترجیح دی ہے۔ تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ دستاویزی معیشت پر مزید ٹیکس لگا کر حکومت فی الوقت اپنے مالی پہلو کو مستحکم کرسکتی ہے لیکن ساختی مسائل برقرار رہیں گے۔ دراصل ٹیکسوں میں اضافہ جو ظالمانہ نوعیت کا ہے، صرف ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ اب تک بجٹ کے نافذ العمل ہونے کے چند ہفتوں بعد سیمنٹ، پٹرولیم ڈیلرز، ریٹیلرز، تنخواہ دار طبقے، فلور ملز مالکان نے بھی ٹیکس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
پاکستانی معیشت کا بنیادی مسئلہ حکومتی اخراجات ہیں جب کہ ٹیکسوں میں اضافہ اس کا حل نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں حکومت کی جانب سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے مارکیٹ سے لیے جانے والے قرضوں میں اضافہ ہوا ہے جو بڑے پیمانے پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) اوپن مارکیٹ آپریشنز (او ایم او) کے ذریعے لیا جا رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر قرض ایسے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ہیں، جو ترقی میں اضافے کے بجائے بڑے پیمانے پر غیر ترقیاتی ہیں۔ لہٰذا اسٹیٹ بینک کو کچھ خود مختاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے او ایم اوز کو ختم کرنا چاہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پبلک ٹیکسز غیر پیداواری شعبوں کی فنڈنگ جاری رکھتے ہیں تو اس سے افراط زر میں مزید اضافہ ہوگا جس سے مزید مالی عدم توازن پیدا ہوگا، لہٰذا حکومت چاہے وہ وفاقی ہو یا صوبائی حکومتوں کو اپنا حجم کم کرنا ہوگا۔ اسے متعدد غیر ضروری وزارتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے اور اس کی تنخواہوں اور پنشن کے ڈھانچے کو حل کرنا چاہیے،بصورت دیگر، یہاں سے راستہ صرف نیچے کی طرف جاتا ہے۔
ٹیکس آمدن میں اضافے اور ٹیکس وصولی کے ادارے میں موثر اقدامات ضروری ہیں کیونکہ جب تک قومی خزانے میں ٹیکس آمدن میں اضافہ نہیں ہوگا اس وقت تک ملک قرضوں کی دلدل سے نہیں نکل سکتا۔ اس کے علاوہ ٹیکس وصولی کے متعلق پالیسی سازی درست ہونی چاہیے۔ پاکستان میں ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہونے کے باعث لوگ ٹیکس چوری کی جانب مائل ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے اسمگلنگ کو فروغ مل رہا ہے، اگر ٹیکس کی شرح بہت کم اور ادائیگی آسان ہو تو کاروباری افراد بخوشی ٹیکس ادائیگی پر رضامند ہوں گے اور ٹیکس ادائیگی میں آسانیاں پیدا کرکے اسمگلنگ کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان میں تو ٹیکس دینے والوں کو ٹیکس محکمہ زیادہ تنگ کرتا ہے اور جو لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں ہیں وہ سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہاں تو بدقسمتی سے ٹیکس دینا جرم بنا ہوا ہے۔ ٹیکس دینے والے افراد کو آئے روز نوٹس کرکے پریشان کیا جاتا ہے۔
اب وزیراعظم کی جانب سے ٹیکس محکمے میں کڑے احتساب کے عزم کے اظہار سے امید کی جاسکتی ہے کہ شفاف احتساب کرکے ٹیکس محکمے میں کرپشن کا خاتمہ کیا جائے گا۔ یہاں تو لوگ ٹیکس محکمے کے ڈر سے سرمایہ بیرون ملک لے جاتے ہیں یا چھپا کر بیٹھے رہتے ہیں۔ جب کاروبار نہیں کیا جائے گا تو ٹیکس کیسے ملے گا اور بے روزگاری میں کیسے کمی آسکتی ہے؟ بہرحال ملک گیر سطح پر شہریوں کی آمدن اور ذرایع آمدن سے متعلق اعداد و شمار جمع کر کے انھیں ٹیکس نیٹ میں لانا ناگزیر ہے اور موجودہ کوششوں کی حمایت کی جانا چاہیے اور اس کے مثبت مضمرات سے لوگوں کو آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔