بیروزگاری اہم ترین مسئلہ

کچھ تربیت یافتہ کچھ غیر تربیت یافتہ بس صرف شناختی کارڈ ہونا شرط ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں جب ترقی کا عمل شروع ہوا تو انھیں کئی اقسام کی سہولیات حاصل تھیں۔ عالمی منڈی چاہے کسی قسم کی ہو، تیل کی منڈی ہو، خوراک کی منڈی ہو، سونے کی عالمی مارکیٹ ہو، اسلحہ جات کی عالمی مارکیٹ ہو یا زرکی عالمی منڈی ہو تمام پر مغربی ممالک کا کنٹرول تھا،کیونکہ ان کے ہاں بڑی بڑی یونیورسٹیاں، تعلیمی ادارے اور ہر طرح کی تعلیمی سہولیات اور تعلیم پر حکومتی اخراجات میں اضافے کے باعث تعلیم یافتہ افراد کی تعداد ترقی پذیر ملکوں کی نسبت کہیں زیادہ تھی جس کا انھیں خاطر خواہ فائدہ ہوا۔

مغربی ممالک نے شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کو بھی خوب ترقی دینا شروع کردی۔ ہر دیہی علاقے کو روڈ نیٹ ورک کے ساتھ پورے ملک بلکہ پورے براعظم کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ قریب ترین ہوائی اڈے مہیا کردیے گئے۔ قریبی ریلوے اسٹیشنوں کے ساتھ جوڑ دیاگیا۔ وہاں تعلیمی ادارے، صحت کے مراکز، چھوٹی بڑی مارکیٹیں، غلہ منڈیاں اور ظاہر ہے کہ بجلی،گیس، پانی تو پہلے ہی سے مہیا کردی گئی تھیں۔

ہمارے ملک میں اب بھی کئی دور دراز کے مقامات ایسے ہیں جہاں اگر بجلی کی سہولت ہے تو گیس نہیں 50 فیصد سے زائد آبادی صاف پانی سے محروم ، سیکڑوں گاؤں کی طرف جانے والی سڑکیں کچی ہیں، اس لیے برسات کے موسم میں کیچڑ سے لت پت رہتی ہیں۔ دورکہیں سڑک موجود ہے تو وہ بھی ٹوٹی پھوٹی جوکسی قصبے کی طرف چلی جاتی ہے۔ بہرحال مغربی ممالک نے آبادی کو روزگار فراہم کرنے کے لیے انھیں کے گاؤں اور قصبوں میں اس کا بھرپور انتظام کردیا تھا جس کے باعث آبادی کا پہاڑ شہروں کی جانب کم سے کم ہوکر رہ گیا۔

پاکستان میں صورت حال اس لیے انتہائی پیچیدہ تر ہوکر رہ گئی کہ اب روزگار فراہم کرنے والی فیکٹریوں،کارخانوں، ملوں کو تالا لگنے کا عمل شروع ہوگیا یا پھر ایسے ملز جہاں تین شفٹیں چلا کرتی تھیں اب ایک شفٹ اور وہ بھی کم سے کم مزدور سے کام چلا رہے ہوتے ہیں، البتہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کئی ایسے شعبے وجود میں آگئے ہیں جن میں روزگار کے مواقعے بڑھ رہے ہیں وہ شعبہ ہے سیکیورٹی اداروں کا جہاں سے گارڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔

کچھ تربیت یافتہ کچھ غیر تربیت یافتہ بس صرف شناختی کارڈ ہونا شرط ہے۔ ایسا معلوم دیتا ہے کہ گزشتہ دو عشروں کے دوران لاکھوں افراد کو گیٹ کے سامنے، دکان کے سامنے، دفتروں کے سامنے اور لاکھوں جگہوں پر دو سے تین شفٹوں میں پڑھے لکھے تربیت یافتہ ان پڑھ یا پانچ یا آٹھ کلاس پڑھے ہوئے افراد جن میں 18سال سے لے کر 78 سال کے بزرگ بھی نظر آتے ہیں، ان سب کو اسلحہ تھماکر آرام کرنے کے لیے بٹھادیا گیا ہے۔

کیا بات تھی 1947 سے لے کر 1995 تک کی جب کارخانے لگ رہے تھے، نئی ملیں قائم ہورہی تھیں۔ نئے تجارتی ادارے بنائے جا رہے تھے ملک میں مختلف گروپس کی طرف سے بینک قائم کیے گئے اور بہت سی تجارتی، معاشی، صنعتی سرگرمیوں کو تیزی سے پر لگ رہے تھے اورکارخانوں، ملوں ، فیکٹریوں کو کاریگروں،کارپینٹر، فورمین، سپروائزر، الیکٹریشن، پلمبر، فٹرز، مینجرز،کمیشن ایجنٹس سپلائرز اور بہت اقسام کے ہنرمند ، تعلیم یافتہ ، کہیں بی ای کی ڈگری والے،کہیں ڈپلومہ ہولڈرزکی ضرورت پیش آتی تھی۔


ہر فیکٹری کے باہر یہ بورڈ لگا ہوتا تھا کہ آسامیاں خالی ہیں، ضرورت ہے اکاؤنٹنٹ کی، سپروائزرکی، انجینئرزکی وغیرہ وغیرہ اور اس طرح ملک ترقی کر رہا تھا۔ نہ بجلی کی کمی نہ ہی نلوں میں بلدیہ کی طرف سے فراہم کردہ پانی کی کمی، نہ گیس کے نرخوں کا مسئلہ نہ ہی ڈالر کے ریٹس بڑھنے کا مسئلہ یا پھر روپے کی روز بروزکمزوری کا مسئلہ ، ملک ترقی کی جانب گامزن تھا۔

اس کے بعد حالات بتدریج بگڑنے شروع ہوئے۔ ملک میں لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ پیدا ہونے لگا اور روزگارکی فراہمی کا مسئلہ سنگین ہونا شروع ہوا۔ 70 کی حکومت نے بڑے اچھے اقدامات کیے جن میں سے ایک یہ تھا کہ بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کو مشرق وسطیٰ کی طرف بھیجنا شروع کردیا اور لاکھوں افراد مشرق وسطیٰ کے ممالک میں جاکر اچھی خاصی آمدنی حاصل کرنے لگے اور زرمبادلہ پاکستان بھیجنے لگے۔

پاکستان کے معاشی مسائل تو بے انتہا ہے لیکن پاکستان کو اول اپنی قیمتی افرادی قوت کا استعمال ایک بار پھر 1970 کی دہائی کے طریقوں پرکرنا ہوگا۔ اول، مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک جنھوں نے پاکستانی شہریوں کے لیے ویزہ میں پابندی یا ویزہ کو مشکل تر بنادیا ہے یا جہاں مسائل موجود ہیں ان کو حکومتی سطح پر متعلقہ ملک کے ساتھ مذاکرات اور مسائل کے حل کے طریقوں پر غورکرکے ان رکاوٹوں کو دورکرنا ہوگا جو صرف پاکستانیوں کے لیے ہیں۔

کئی ممالک ایسے ہیں پاکستان کے علاوہ دیگر ایشیائی ممالک کے لیے کوئی پابندی رکاوٹ یا مسائل نہیں ہیں جہاں رکاوٹ ہے ان میں کویت، دبئی اس کے علاوہ کئی دیگر ممالک کے ساتھ جنوب مشرقی ایشیاء کے کئی ممالک میں خاص طور پر جاپان کے لیے پاکستان کی طرف سے افرادی قوت میں اضافے کی گنجائش موجود ہے، اسی طرح کئی یورپی ممالک میں جہاں بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں کیونکہ کروڑوں افراد بیروزگار ہیں، ملک میں بجلی کی شدید قلت ہے۔ 1960کی دہائی میں عالمی بینک کے تعاون سے چند بڑے ڈیمز تعمیر ہوئے، اس کے بعد سے عالمی بینک کی جانب سے کوئی تعاون حاصل نہیں ہے۔ پاکستان ایران سے بھی گیس حاصل کرنے میں سستی کا مظاہرہ کررہا ہے۔

ملک بھرکی بیشتر زمینوں پر نام نہاد غیر آباد اقسام کی سوسائٹیاں بناکر ان کے گرد احاطے بناکر ان زمینوں کو غیر فعال بنا دیاگیا ہے۔ دیہی علاقوں، قصبوں میں کسی بھی قسم کی سہولیات موجود نہیں جب کہ مغرب کی ترقی کا راز اسی میں ہے کہ انھوں نے دیہی علاقوں کو خوب ترقی دی کہ وہاں کی دیہی آبادی نے شہروں کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا ۔ وہ اپنی زمینوں، اپنے باغات ، مرغ بانی، ڈیری فارمز،گائے بکرے پالنے کا کارو بار اور دیگر بے شمار شعبوں سے وابستہ ہوکر اپنی آمدن میں کئی گنا اضافہ کرچکے ہیں اور اپنے اپنے ملکوں کو ہر قسم کی زرعی پیداوار میں خود کفیل بناچکے ہیں۔

پاکستان اپنے دیہی کلچرکو سدھار لے جہاں ابھی تک کہیں وڈیرہ شاہی اورکہیں بڑے زمیندار،کہیں بھٹہ مالکان کے باعث مختلف صورتوں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے کے سبب جب دیہی آبادی شہروں میں منتقل ہوتی ہے تو یہاں نہ روزگار اور رہائشی سہولیات مہنگی ہونے کے سبب مختلف مسائل کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں لہٰذا حکومت اپنے عوام کو برسرروزگارکرنے کے لیے بیرون ملک اور اندرون ملک ایسے اقدامات کرے جس سے جب عوام کو جو روزگار میسر ہوگا تو ایسی صورت میں ملک کی ترقی کی رفتار بھی تیز ہونا شروع ہوجائے گی۔
Load Next Story