سسٹم کو خطرے میں نہ ڈالیں
پاکستان میں عدالتی نظام پر پہلے ہی سے ’’ نظریہ ضرورت ‘‘ کی چھاپ رہی ہے ۔
ریاست کی تکمیل کے لیے ایک منصفانہ و شفاف نظام ہوتا ہے۔ اچھا ریاستی نظام آزاد اور خود مختار معاشروں کا عکاس ہوتا ہے ۔ ہم ایک بڑے ریاستی بحران سے گزر رہے ہیں۔ اس بحران میں جہاں دیگر ادارے متاثر ہوئے ہیں وہیں عدلیہ بھی متاثر ہورہی ہے ۔
پاکستان میں عدالتی نظام پر پہلے ہی سے '' نظریہ ضرورت '' کی چھاپ رہی ہے ۔ اسی بنیاد پر ہمارے عدالتی نظام کی عالمی درجہ بندی پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور ہم اس درجہ بندی میں بہت پیچھے کھڑے ہیں ۔حالیہ کچھ عرصہ میں ہمارے عدالتی نظام پر ایک بڑا سیاسی بوجھ بھی پڑگیا ہے ۔کیونکہ سیاسی مسائل جب سیاسی پلیٹ فارم پر حل نہیں ہوںگے اور سیاست دان سیاسی فیصلے خود کرنے کے بجائے عدالتی نظام کا سہارا لیں گے تو پھر عدلیہ یا ججز کی حمایت اور مخالفت کی جنگ یا ان کے فیصلوں کو سیاسی رنگ بھی دیا جائے گا۔
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے 13رکنی بنچ میں پانچ ججز کے مقابلے میں آٹھ ججز کے اکثریتی حالیہ فیصلہ پر حکومت کا سخت ردعمل سامنے آیا ہے ۔ اس فیصلے کے بعد حکومت اور عدلیہ میں ایک نئے ٹکراؤ کا ماحول جنم لے رہا ہے ۔ کچھ عرصہ سے اعلیٰ عدلیہ میں سیاسی مقدمات کی بھرمار ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز مختلف نوعیت کے دباؤ کا اظہار بھی کررہے ہیں ۔
دباؤ یا مداخلت محض زبانی بنیادوں پر ہی نہیں کی جارہی بلکہ کئی ججز نے تحریری طور پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ ہمیں عدالتی نظام سے جڑے فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے سے روکا جارہا ہے۔ یہ حالات ماضی سے بہت مختلف بھی ہیں اور سنگین بھی۔ ایک طرف اعلیٰ عدلیہ کے کئی ججز دباؤ ، مداخلت کے بارے میں خط لکھ رہے ہیں تو دوسری جانب حکومت اور پی ٹی آئی کے مخالفین بعض عدالتی فیصلوں کو آئین سے تجاوزیا تشریح کی آڑ میں نیا آئین لکھنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ یوںجو حالات ہیں وہ ایک بڑے ٹکراؤ کی نشاندہی کرتے ہیں ۔
بدقسمتی سے یہ ہمارا مجموعی مزاج بن گیا ہے کہ اگر عدالتی فیصلے یا بنچ میں موجود ججز کے فیصلے ہماری مخالفت میں آتے ہیں تو ہمارے لیے عدالت ہو یا ججز ان پر نہ صرف تنقید بلکہ ا ن پر اقرباپروری پر مبنی سنگین الزامات اور ذاتیات یا غیر اخلاقیات پر مبنی مخالفانہ مہم بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔
اسی طرح جو سیاسی جماعت الیکشن ہار جاتی ہے، اس کے قائدین الیکشن کمیشن، عبوری حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ پر دھاندلی کرانے کے الزامات عائد کرکے ملک میں محاذ آرائی پیدا کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ پاپولر سیاسی جماعتوں کی قیادت ریاست کے اہم اداروں کے بارے میں ہمیشہ اپنے سیاسی، معاشی اور گروہی مفادات کو سامنے رکھ کر حکمت عملی ترتیب دیتی ہے۔سوال یہ ہے کہ جب ریاست کا نظام خود شکست و ریخت کا شکار ہو گا،طاقتور گروہ نظام میں نقب لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے تو ریاست کہاں کھڑا ہوگی۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے، اس کی تصویر محض ہمارے داخلی معاملات تک محدود نہیں بلکہ عالمی دنیا میں بھی مختلف رپورٹس میں ہمارے ملک کے بارے میں اچھی خبریں نہیں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ نظام میں نقب کون لگارہا ہے یا ان لوگوں کا پس پردہ ایجنڈا کیا ہے اور کون ان سازشوں میں شریک ہے ۔ ان کی نشاندہی کرنا اور ان کا خاتمہ کرنا سب کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ بار اور بنچ سمیت سیاسی جماعتیں ہوں یا میڈیا سمیت سول سوسائٹی کی طاقت متوازن ریاستی نظام ہوتا ہے۔ ریاستی نظام میں عدلیہ کی بنیاد انصاف ہوتا ہے ، عدالتی نظام میں موجود ایسی رکاوٹوں کو جو انصاف کے نظام کو خراب کرتی ہیں ، روکا جاسکتا ہے ۔
ججز کی حمایت اور مخالفت میں بھی جو ٹرولنگ ہمیں سوشل میڈیا کی سطح پر دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ بھی ہمارے مجموعی عدالتی نظام کو تقسیم کرنے کا سبب پیدا کررہی ہے ۔کیونکہ اس مہم میں جہاں کچھ صداقت ہوسکتی ہے وہیں اس کھیل میں مخالفانہ مہم بھی ہوتی ہے لیکن یہ کلچر معاملات کو اور زیادہ خراب کرنے کی کوشش ہے ۔ججوں کو ہم مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی کے طور پر پیش کرکے ان سمیت عدالتی فیصلوں کو بھی متنازعہ بنارہے ہیں۔کسی کی قانونی ڈگری کو چیلنج کیا جارہا ہے تو کسی پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات یا ان کی سیاسی وابستگی کو بنیاد بنا کر مہم چلانا کسی بھی طور پر عدالتی نظام کے مفاد میں نہیں ہے ۔ اس مہم کو ہر سطح پر روکا جانا چاہیے۔
یہ سپریم کورٹ سمیت ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عدالتی نظام میں ججز کی جانب سے جو مداخلتوں کی بنیاد پر سوالات زبانی یا تحریری طور پر سامنے آرہے ہیں اس پر سخت نوٹس لینا چاہیے ۔جولوگ بھی ججوں ، فوج اور سیاسی مخالفین کے خلاف منفی اور غلیظ مہم کا حصہ ہیں،انھیں موقع دیا جائے کہ وہ اپنے الزامات کو ثابت کریں وگرنہ ان کو قانون کی سخت گرفت میں لایا جائے ، چاہے وہ کتنا ہی مقبول ہو یا کتنا ہی بااختیار ہو، اسے الزامات کو ثابت کرنا پڑے گا کیونکہ اگر اس عمل کو نہ روکا گیا تو ریاست کا پورا نظام زمین بوس ہوجائے گا ۔
ان تمام معاملات میں حکومت کی جانب سے ہم خاموشی دیکھ رہے ہیں جو ان کی ساکھ کو متاثر کررہی ہے اوراس کا نتیجہ حکومت پر الزامات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اگر ہم نے سیاست ، جمہوریت ، آئین اور قانون کی حکمرانی سمیت ایک پرامن پاکستان کے طورپر پیش کرنا ہے تو ریاست کے اہم ترین اداروں کی آزادی اور خود مختاری ہماری ترجیحات کا اہم حصہ ہونی چاہیے ۔
پاکستان میں عدالتی نظام پر پہلے ہی سے '' نظریہ ضرورت '' کی چھاپ رہی ہے ۔ اسی بنیاد پر ہمارے عدالتی نظام کی عالمی درجہ بندی پر بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور ہم اس درجہ بندی میں بہت پیچھے کھڑے ہیں ۔حالیہ کچھ عرصہ میں ہمارے عدالتی نظام پر ایک بڑا سیاسی بوجھ بھی پڑگیا ہے ۔کیونکہ سیاسی مسائل جب سیاسی پلیٹ فارم پر حل نہیں ہوںگے اور سیاست دان سیاسی فیصلے خود کرنے کے بجائے عدالتی نظام کا سہارا لیں گے تو پھر عدلیہ یا ججز کی حمایت اور مخالفت کی جنگ یا ان کے فیصلوں کو سیاسی رنگ بھی دیا جائے گا۔
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے 13رکنی بنچ میں پانچ ججز کے مقابلے میں آٹھ ججز کے اکثریتی حالیہ فیصلہ پر حکومت کا سخت ردعمل سامنے آیا ہے ۔ اس فیصلے کے بعد حکومت اور عدلیہ میں ایک نئے ٹکراؤ کا ماحول جنم لے رہا ہے ۔ کچھ عرصہ سے اعلیٰ عدلیہ میں سیاسی مقدمات کی بھرمار ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز مختلف نوعیت کے دباؤ کا اظہار بھی کررہے ہیں ۔
دباؤ یا مداخلت محض زبانی بنیادوں پر ہی نہیں کی جارہی بلکہ کئی ججز نے تحریری طور پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ ہمیں عدالتی نظام سے جڑے فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے سے روکا جارہا ہے۔ یہ حالات ماضی سے بہت مختلف بھی ہیں اور سنگین بھی۔ ایک طرف اعلیٰ عدلیہ کے کئی ججز دباؤ ، مداخلت کے بارے میں خط لکھ رہے ہیں تو دوسری جانب حکومت اور پی ٹی آئی کے مخالفین بعض عدالتی فیصلوں کو آئین سے تجاوزیا تشریح کی آڑ میں نیا آئین لکھنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ یوںجو حالات ہیں وہ ایک بڑے ٹکراؤ کی نشاندہی کرتے ہیں ۔
بدقسمتی سے یہ ہمارا مجموعی مزاج بن گیا ہے کہ اگر عدالتی فیصلے یا بنچ میں موجود ججز کے فیصلے ہماری مخالفت میں آتے ہیں تو ہمارے لیے عدالت ہو یا ججز ان پر نہ صرف تنقید بلکہ ا ن پر اقرباپروری پر مبنی سنگین الزامات اور ذاتیات یا غیر اخلاقیات پر مبنی مخالفانہ مہم بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔
اسی طرح جو سیاسی جماعت الیکشن ہار جاتی ہے، اس کے قائدین الیکشن کمیشن، عبوری حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ پر دھاندلی کرانے کے الزامات عائد کرکے ملک میں محاذ آرائی پیدا کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ پاپولر سیاسی جماعتوں کی قیادت ریاست کے اہم اداروں کے بارے میں ہمیشہ اپنے سیاسی، معاشی اور گروہی مفادات کو سامنے رکھ کر حکمت عملی ترتیب دیتی ہے۔سوال یہ ہے کہ جب ریاست کا نظام خود شکست و ریخت کا شکار ہو گا،طاقتور گروہ نظام میں نقب لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے تو ریاست کہاں کھڑا ہوگی۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے، اس کی تصویر محض ہمارے داخلی معاملات تک محدود نہیں بلکہ عالمی دنیا میں بھی مختلف رپورٹس میں ہمارے ملک کے بارے میں اچھی خبریں نہیں ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ نظام میں نقب کون لگارہا ہے یا ان لوگوں کا پس پردہ ایجنڈا کیا ہے اور کون ان سازشوں میں شریک ہے ۔ ان کی نشاندہی کرنا اور ان کا خاتمہ کرنا سب کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ بار اور بنچ سمیت سیاسی جماعتیں ہوں یا میڈیا سمیت سول سوسائٹی کی طاقت متوازن ریاستی نظام ہوتا ہے۔ ریاستی نظام میں عدلیہ کی بنیاد انصاف ہوتا ہے ، عدالتی نظام میں موجود ایسی رکاوٹوں کو جو انصاف کے نظام کو خراب کرتی ہیں ، روکا جاسکتا ہے ۔
ججز کی حمایت اور مخالفت میں بھی جو ٹرولنگ ہمیں سوشل میڈیا کی سطح پر دیکھنے کو مل رہی ہے، وہ بھی ہمارے مجموعی عدالتی نظام کو تقسیم کرنے کا سبب پیدا کررہی ہے ۔کیونکہ اس مہم میں جہاں کچھ صداقت ہوسکتی ہے وہیں اس کھیل میں مخالفانہ مہم بھی ہوتی ہے لیکن یہ کلچر معاملات کو اور زیادہ خراب کرنے کی کوشش ہے ۔ججوں کو ہم مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستگی کے طور پر پیش کرکے ان سمیت عدالتی فیصلوں کو بھی متنازعہ بنارہے ہیں۔کسی کی قانونی ڈگری کو چیلنج کیا جارہا ہے تو کسی پر کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات یا ان کی سیاسی وابستگی کو بنیاد بنا کر مہم چلانا کسی بھی طور پر عدالتی نظام کے مفاد میں نہیں ہے ۔ اس مہم کو ہر سطح پر روکا جانا چاہیے۔
یہ سپریم کورٹ سمیت ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عدالتی نظام میں ججز کی جانب سے جو مداخلتوں کی بنیاد پر سوالات زبانی یا تحریری طور پر سامنے آرہے ہیں اس پر سخت نوٹس لینا چاہیے ۔جولوگ بھی ججوں ، فوج اور سیاسی مخالفین کے خلاف منفی اور غلیظ مہم کا حصہ ہیں،انھیں موقع دیا جائے کہ وہ اپنے الزامات کو ثابت کریں وگرنہ ان کو قانون کی سخت گرفت میں لایا جائے ، چاہے وہ کتنا ہی مقبول ہو یا کتنا ہی بااختیار ہو، اسے الزامات کو ثابت کرنا پڑے گا کیونکہ اگر اس عمل کو نہ روکا گیا تو ریاست کا پورا نظام زمین بوس ہوجائے گا ۔
ان تمام معاملات میں حکومت کی جانب سے ہم خاموشی دیکھ رہے ہیں جو ان کی ساکھ کو متاثر کررہی ہے اوراس کا نتیجہ حکومت پر الزامات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اگر ہم نے سیاست ، جمہوریت ، آئین اور قانون کی حکمرانی سمیت ایک پرامن پاکستان کے طورپر پیش کرنا ہے تو ریاست کے اہم ترین اداروں کی آزادی اور خود مختاری ہماری ترجیحات کا اہم حصہ ہونی چاہیے ۔