کاغذی ڈالرکی قیدی معیشت… پہلا حصہ

پہلی عالمی جنگ کے دوران پورا یورپ ’’کرنسی ایکسچینج بحران‘‘ کا شکار تھا۔

k_goraya@yahoo.com

پہلی عالمی جنگ کے دوران پورا یورپ ''کرنسی ایکسچینج بحران'' کا شکار تھا۔ امریکا 6 اپریل 1917 کو (2 سال 8 ماہ 5 دن بعد) جرمنی کے خلاف جنگ میں شریک ہوا۔ ''کرنسی ایکسچینج بحران'' کا فائدہ اٹھاکر اپنے ''نیوٹرل'' ہونے کا ڈھونگ رچاکر امریکا نے متحارب ملکوں کی معیشت کو ''ڈالرائز'' کردیا۔ کتاب ''یورپین کرنسی اینڈ فنانس'' 1925، حصہ دوم کے صفحہ95 پر درج ہے۔ 15 دسمبر 1923 کو امریکا نے چابک دستی کے ساتھ Exchange Equalization Fund کا مالیاتی ادارہ قائم کرلیا۔

EEF کے ذریعے امریکا نے یورپی ملکوں کو کاغذی ڈالر کے قرضے دے کر اور یورپی ملکوں سے گولڈ لے کر ان کی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کے مقابلے میں جوڑ توڑ، ریٹ مقرر Manipulation کرنا شروع کردیا تھا۔ یورپی ملکوں کی باہمی جنگوں کے نتیجے میں سفارتی، مالیاتی تعلقات ختم ہوگئے تھے۔ امریکا نے اس سے فائدہ اٹھایا اور تمام ملکوں کی کرنسیوں پر غلبہ حاصل کرلیا۔ دوسری عالمی جنگ میں امریکا 7 دسمبر 1941 (2 سال 3 ماہ 7 دن بعد) کو شریک ہوا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی امریکا عالمی مالیاتی ہتھکنڈے پلان کر رہا تھا۔

جنگ میں شریک ہونے سے قبل امریکا نے Exchange Equalization Fund (EEF) ادارے کی تنظیم نو کرنے کے لیے 1940 میں سیکریٹری آف اسٹیٹ Hull کو تجارتی و مالیاتی امور کا سربراہ مقرر کیا۔ اس کی نگرانی میں ''ٹریژری ڈپارٹمنٹ آف مانیٹری ریسرچ'' کے ہنری ڈی وائٹ نے دسمبر 1941 کو ایک میمورنڈم "Proposal for a Stabilization fund of the united and Associated Nations" پیش کیا۔ اسی کے ساتھ ورلڈ بینک کا پلان بھی پیش کردیا۔

امریکا نے 44 ملکوں کو 25 مئی 1944 کو بریٹن ووڈ میں اکٹھے ہونے کے لیے دعوت نامے بھیجے اور 23 دسمبر 1945 کو آئی ایم ایف کے آرٹیکلز پر 30 ملکوں کے نمایندوں نے دستخط کردیے۔ امریکا نے سابقہ (EEF) ای ای ایف کی جگہ 22 سال بعد IMF اور ورلڈ بینک بناکر بڑی چابک دستی سے ممبر ملکوں کے تمام مالیاتی آپریشن پر ازخود امریکی اختیار حاصل کرلیا۔ بظاہر اس کے پیچھے یہ بتایا گیا کہ امریکا کا آئی ایم ایف میں کوٹہ 12 ارب 75 کروڑ ڈالر تھا۔ امریکا کے پاس گولڈ ریزرو 1945 میں 20 ارب 8 کروڑ 83 لاکھ ڈالر تھا۔

دوسرے تمام ملکوں کے پاس گولڈ ریزرو 9 ارب 77 کروڑ 56 لاکھ 10 ہزار ڈالر تھا اور تمام ملکوں کے پاس کاغذی ڈالر بطور فارن ایکسچینج ریزرو کے 10 ارب 71 کروڑ 70 لاکھ 90 ہزار ڈالر موجود تھا اور دوسرے ملکوں پر ڈالر کا قرض الگ تھا۔ اسی وجہ سے امریکا کے Manipulator بننے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا اور ستمبر 1949 کو امریکا نے تمام دنیا کی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کر دی۔ اس طرح EEF کا مالیاتی ہتھکنڈا امریکا نے 15 دسمبر 1923 سے لے کر 2014 تک یعنی91 سال کے بعد بھی مزید سامراجی سخت شرائط کے ساتھ جاری رکھا ہوا تھا۔

یہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک امریکی عالمی مالیاتی کاغذی ڈالر کی اجارہ داری ختم نہیں ہوجاتی ہے۔آئی ایم ایف کی تشکیل کے پیچھے اغراض و مقاصد یہ بیان کیے گئے: تباہ حال ملکوں کی تعمیر نو، تجارتی خساروں سے نکلنا اور تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنا، کرنسی کے تبادلوں کے درمیان تضادات کو دور کرنا، عالمی تجارت کو بڑھاوا دینا لیکن جب امریکا نے آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے مالیاتی آپریشنز شروع کیے تو تمام وعدوں، معاہدوں یعنی آرٹیکلز کے خلاف اقدامات کرتا گیا۔


کتاب Economy of Pakistan 1948-68 جسے منسٹری آف فنانس اکنامک ایڈوائزر ونگ نے شایع کیا اس کے صفحہ 99 اور 103 کے تجارتی اعدادوشمار کے مطابق تجارت 1954-55 میں 119.7 ملین روپے سے سرپلس تھی اور 1955-56 میں 458.6 ملین روپے سے بڑھکر سرپلس ہو گئی۔ اس کے بعد 1956-57 میں 727.0 ملین روپے سے خسارے میں چلی گئی۔ حکومت کی طرف سے ہر سال بجٹ پر کتاب شایع کی جاتی ہے۔ مالی سال 1955-56 کا بجٹ 5 لاکھ 82 ہزار روپے سے سرپلس تھا۔ مالی سال 1956-57 کا بجٹ 2 کروڑ 48 لاکھ 86 ہزار روپے سے خسارے کا شکار ہو گیا۔

اصل حقیقت یہ تھی جون 1955 کو اسکندر مرزا نے پاکستان کے قائمقام گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا تھا چونکہ یہ امریکا نواز تھا اس نے آئی ایم ایف کے حکم پر پاکستانی کرنسی 3.340 روپے فی ڈالر سے 4.762 روپے فی ڈالر جولائی 1955 کو کردی تھی۔ روپے کی قیمت میں 43 فیصد کمی کا اثر ملکی پوری معیشت پر منفی پڑا۔ باہر سے آنیوالی چیز کی قیمت میں 43 فیصد زیادہ ادائیگی کرنی پڑی۔ ملکی صنعتی کلچر کی پیداواری لاگتیں 43 فیصد بڑھنے سے ملک میں تیار ہونے والی اشیاؤں کے مقابلے میں بیرونی منڈی سے آنیوالی چیزیں اس Currency Devaluation Minus Economic Development کے نتیجے میں سستی ہو گئیں۔

اس کے نتیجے میں بعد میں مسلسل امپورٹ بڑھتی گئی اور ایکسپورٹ کم ہوتی گئی۔ امریکا نے آئی ایم ایف کے پلیٹ فارم سے منظم طریقے سے ممبر ملکوں کو امریکا کا معاشی غلام ملک بنالیا۔ معیشت کا بنیادی اصول ہے کہ کسی بھی ملک کے مالیاتی سسٹم میں جب غیر پیداواری اخراجات بڑھتے ہیں تو اسی نسبت سے مہنگائی کا بوجھ عوام کی قوت خرید پر بڑھ جاتا ہے۔ اس کے برعکس امریکا نے1900 کے بعد اور خاص کر 1914 سے 15 دسمبر 1923 تک جب امریکا نے باقاعدہ ای ای ایف (EEF) کا ادارہ بناکر عالمی مالیاتی فراڈ و ہتھکنڈے استعمال کرکے آزاد ملکوں کو غیراعلانیہ باجگزار ملک بنانا شروع کیا۔

عالمی مالیاتی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا فراڈ و ہتھکنڈا کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ پہلے بادشاہ ملک فتح کرتے تھے اور شکست خوردہ ملک کے ذمے سالانہ رقم مقرر کرکے اس ملک کو باجگزار ملک بنالیتے تھے۔ یہ غلام ملک فتح یاب ملک کی دوسری لڑائیوں میں اپنے فوجی و سامان سمیت شریک ہوتے تھے۔ جیسے پاکستان امریکی اسٹیج کردہ نائن الیون کے ڈرامے کے بعد امریکا کا اتحادی بنا اور بڈبیر کا ہوائی اڈہ 1959 میں امریکا کے حوالے کردیا گیا۔ اس طرح پاکستان غیراعلانیہ سامراجی امریکا کا معاشی غلام ملک بنادیا گیا ہے۔

ایک طرف عوام حکومتی اخراجات کا بوجھ اٹھا رہے ہیں تو دوسری طرف CDMED سڈمڈ غیر اعلانیہ ڈالر ٹیکس کی ادائیگی کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ تیسری حالت غیرملکی اور ملکی قرض ادائیگی کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ کتاب Pakistan Economic Survey 2013-14 by Finance Division Govt. of Pakistan کے صفحہ 58 پر (1)۔ریونیو سال 2010-11 ء 22 کھرب 52 ارب 85 کروڑ 80 لاکھ روپے تھا جو ریونیو کا 53 فیصد تھا۔ مالی سال 2011-12ء کا ریونیو 25 کھرب 66 ارب 51 کروڑ 40 لاکھ روپے تھا۔ مالی سال 2011-12ء کا خسارہ 13 کھرب 69 ارب 70 کروڑ 40 لاکھ روپے تھا جو ریونیو کا 53.36 فیصد تھا۔

مالی سال 2012-13ء کا ریونیو29 کھرب 82ارب 43 کروڑ 60 لاکھ روپے تھا۔ 2012-13ء کا بجٹ خسارہ 18 کھرب 33 ارب 86 کروڑ 40 لاکھ روپے تھا جو ریونیو کا 61.49 فیصد تھا۔ (2)غیرملکی قرض اور ملکی قرض ادائیگی مالی سال 2010-11ء میں 8 کھرب 74 ارب 54 کروڑ 80 لاکھ روپے تھی جو مالی سال 2010-11ء کے ریونیو کا 39 فیصد تھا۔ مالی سال 2011-12ء ملکی و غیرملکی قرض ادائیگی 10 کھرب 37 ارب 20 کروڑ 50 لاکھ روپے تھی جو ریونیو کا 40.41 فیصد تھا۔ مالی سال 2013-13ء ملکی و غیرملکی قرض ادائیگی 12 کھرب 23 ارب 67کروڑ روپے تھی جو ریونیو کا 41 فیصد تھا۔ (جاری ہے)
Load Next Story