اجرتی غلام
عورتوں کے حقوق کی تحریک کے آگے بڑھنے سے عورتیں نا خوش اجرتی غلاموں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
ISLAMABAD:
عورتوں کے حقوق کی تحریک کے آگے بڑھنے سے عورتیں نا خوش اجرتی غلاموں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ یہ کہنا ہے عورتوں کے حقوق کی تحریک کی بانیوں میں سے ایک فے ویلڈن کا۔اس اٹھتر سالہ مصنفہ کی رائے میںصرف خوشحال لوگ ہی جدید زندگی کے تھکا دینے والے تقاضوں سے نمٹ سکتے ہیں۔60 کی دہائی کے صنفی انقلاب کے بعد اب عورتوں سے بچوں کی دیکھ بھال اور کھانا پکانے کی توقع نہیں کی جاتی۔ لیکن اس تحریک کا تاریک پہلوعورتوں کی ایک نئی قسم کی نسل کا سامنے آنا ہے۔
اس نسل کی عورتیں بالکل اپنے مرد رفقائے کار جیسی ہیںاور ان کا مقصد صرف اپنی تنخواہوں میں اضافہ اور عہدے کی ترقی ہے۔ تحریک نسواں کا منفی پہلو یہ ہے کہ اب عورتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ اب وہ گھر سے باہر نکل کے کام کریں بجائے گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے۔ایک زمانے میں مرد ہی اجرتی غلام تھے لیکن اب مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی اجرتی غلام بن چکی ہیں۔ فے ویلڈن اس کی ذمے داری سرمایہ دارانہ نظام پر عائد کرتی ہیں۔
غالبا 20 فی صد عورتیںبدتر زندگی جب کہ اکثریت بہتر زندگی گزار رہی ہے لیکن بہتر زندگی گزارنے والی عورتیں وہ ہیںجو صبح پانچ بجے اٹھ کر اپنے ننھے منے بچوں کو تیار کر کے انھیں نرسری میں چھوڑنے کے بعد کام پر جاتی ہیں۔فے ویلڈن کی رائے میں فیمنزم یا حقوق نسواں کی تحریک عورتوں کے لیے کم برا آپشن ہےleast worst option،اگر آپ ذہین، قابل اور صحتمند ہیں تو یہ سب سے اچھی بات ہے۔
ماضی کی مشہور ماڈل جورڈن کے بارے میں ان کا کہنا تھاکہ وہ کچھ لوگوںکی توقعات کے مطابق ایک مثبت رول ماڈل تھی۔اگر مقصد اچھا نظر آنا ہے تو وہ اچھی تھی،اگر مقصد بہت سا پیسا کمانا ہے تو وہ اچھی تھی، میں سمجھتی ہوں وہ عورتوں کو بااختیار بننے میں مدد دے رہی تھی کیونکہ ہم یہی تو چاہتے ہیںکہ عورتیں خوشحال ہوں اور پھر عورتوں کو اچھا نظر آنا اچھا بھی تو لگتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ویلڈن نے عورت کو اجرتی غلام کہا ہے، آج سے دس سال پہلے بھی ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھاکہ سرمایہ داری فیمنزم کا لبادہ اوڑھ کر اندرگھس آئی ہے۔اور اس نے بڑی مکاری سے عورتوں کو اور مردوں کو بھی اجرتی غلام بنا دیا ہے اوراب عورت کا دشمن مرد نہیں بلکہ آجر ہے۔
سرمایہ داری کے حوالے سے کچھ ایسی ہی باتیں کوئی ایک صدی قبل لینن نے بھی کہی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ غریب اور محنت کش لوگوں کے لیے زندگی کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور اس طرح کے کروڑوں خاندانوں کی خواتین گھریلو غلاموں کی سی زندگی گزارتی ہیں اور اپنے خاندان کی روٹی اورکپڑے کی ضروریات پوری کرنے میں لگی رہتی ہیں۔سرمایہ دار ان خواتین کو گھریلوملازمائوں کے طور پر رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ معمولی معاوضہ پر کام کرنے کو تیار ہو جاتی ہیں۔اکثر صورتوں میں ان گھریلو ملازمائوں کا جنسی استحصال بھی کیا جاتا ہے،جب تک اجرتی غلامی باقی رہے گی،جسم فروشی بھی ختم نہیں ہو گی۔اس حوالے سے دور غلامی ،جاگیرداری اور سرمایہ داری میں کوئی فرق نہیں،صرف استحصال کی شکل بدل جاتی ہے لیکن استحصال ہوتا رہتا ہے۔
فیمنسٹ نظریے میں ایک متوازی دلیل پوشیدہ ہے، جنسیت کو ایک سانچے میں ڈھالنا اور اس کی سمت اور اظہار کے ذریعے مردوں اور عورتوں کو منظم کرنا۔مارکسیت میں محنت کی طرح فیمنزم میں جنسیت بھی سماجی طورپر تشکیل پاتی ہے یعنی جنسیت سماج کا اسٹرکچر یا ڈھانچا ہے تو صنف اور خاندان اس کی ٹھوس شکلیں ہیں،جنسی کردار اس کی صفات ہیںاور افزائش نسل اس کا نتیجہ ہے جو اس کے مسئلہ کو کنٹرول کرتا ہے۔
دونوں نظریات ایک دوسرے سے کچھ بنیادی سوالات کرتے ہیں۔کیا مردانہ حاکمیت سرمایہ داری کی تخلیق ہے؟ یا سرمایہ داری مردانہ حاکمیت کا اظہار ہے؟اگر یہ کہا جائے کہ ایک گروہ کے استحصال کی وجوہات کا پیداواری رشتوں یا طریقوں سے کچھ لینا دینا نہیںتو طبقاتی تجزیے میں اس کی کیا اہمیت ہو گی۔ اگر سرمایہ داری کے ساتھ جنس کو مربوط کر لیا جائے یا عورتیں سرمایہ دارانہ نظام چلانے لگیں تو اس نظام میں مادی طور پر کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
اگر سوشلسٹ ریاست اور سرمایہ داری ریاست کا ڈھانچہ اور مفادات طبقاتی لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں تو کیا جنسی نا برابری کی بنیاد پر بھی یہی کہا جا سکتا ہے؟کیا کچھ طبقوں کی دیگر طبقوں پر بالا دستی اور سارے مردوں کی ساری عورتوں پر بالا دستی کے درمیان کوئی تعلق ہے؟ان سوالات کا سامنا کرنے کی بجائے مارکسی افراد اور فیمنسٹس ایک دوسرے کو یا تو مسترد کرتے ہیں یا ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتے ہیں۔
سرمایہ داری کے موجودہ مرحلے یعنی نیو لبرل ازم کا آغاز 70 کے عشرے میںریگن اور مارگریٹ تھیچر کی پالیسیوں سے ہوا جن میں نجکاری اور ڈی ریگولیشن پر زور دیا جاتا ہے تا کہ ریاست کی مداخلت سے فرد کو بچایا جائے اور اس کی مسابقت اور صرف consumeکی آزادی کا تحفظ کیا جا سکے۔ایک مارکسی عالم ڈیوڈ ہاروے کے بقول 70 کے عشرے کے اقتصادی انحطاط کی بدولت دنیا کا نیو لبرل ازم سے ٹکرائو ہواجب ریاست کی مداخلت کے نتیجے میں قائم ہونے والا محنت اور سرمایہ کا اتحاد ختم ہو گیا۔مثال کے طور پر برطانیہ کی حکومت کو آئی ایم ایف کے کہنے پر عوام کے لیے کیے جانے والے فلاحی اقدامات ختم کرنے پڑے۔جنگ کے بعد ہونے والے تصفیے میں لیبر کو زیادہ حصہ ملا تھا اور اب بالائی طبقات کے لیے اسے چھیننے کا وقت آ گیا تھا۔
اس حقیقت کے پیش نظرکہ فیمنزم کی دوسری لہر اور نیو لبرل ازم دونوں 70 کی دہائی میں پھلے پھولے ، بعض لوگوں جن میں نینسی فریزر قابل ذکر ہیں، نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ فیمنزم نے سرمایہ داری معاشرے کی ساختیاتی قلب ماہیت کا جواز فراہم کیا۔ سب جانتے ہیں کہ سرمایہ داری اپنی بقا اور تجدید کے لیے اپنے مخالفین کو بھی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنے ساتھ ملا لیتی ہے۔
نیو لبرل ازم کے پراجیکٹ کا ایک حصہ ریاست کے حجم اور جسامت کو کم کرنا ہے،اس لیے فیمنسٹ تنقیدکہ ریاست پدرسری ہے اور باپوں والا رویہ رکھتی ہے،کو اپنانے سے سرمایہ داری کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ ریاست پر فیمنسٹس کی تنقید نیو لبرل سرمایہ داروں کے مقاصد سے مطابقت رکھتی ہے۔عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ریاست اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن اگروہ نیو لبرل پراجیکٹ کو اپنائے گی تو بے بس اور لاچار طبقوں کو نقصان پہنچے گا۔