قائدآباد حراست میں نوجوان کا قتل ایس ایچ او اور اہلکاروں کے خلاف مقدمے کا حکم

عدالت نے کہا کہ ویڈیوز اور دیگر شواہد سے قتل ثابت ہوتا ہے لہٰذاتینوں اہلکاروں اور ایس ایچ او کے خلاف مقدمہ درج کیاجائے

عدالت نے کہا کہ شواہد اور ویڈیوز سے نوجوان کا قتل ثابت ہوتا ہے—فوٹو: فائل

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر عبدالرزاق نے قائد آباد میں مبینہ پولیس مقابلے میں نوجوان کی ہلاکت پر ایس ایچ او اور پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اینڈ جسٹس آف پیس ملیر نے ایس ایس پی ملیر کو مدعی کا بیان ریکارڈ کرکے مقدمہ درج کرنے کا حکم دی اور قرار دیا کہ ایس ایچ او کیس میں خود مدعا علیہ ہے اس لیے ایس ایس پی ملیر مدعی کا بیان قلم بند کریں۔

عدالت نے ایس ایس پی ملیر کو ایف آئی آر درج کرنے کا بھی حکم دے دیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ملیر نے قرار دیا کہ عدالت میں پیش کی گئیں وڈیوز اور دیگر شواہد سے نوجوان کا قتل ثابت ہوتا ہے لہٰذا ایس ایچ او قائد آباد اور 3 پولیس اہلکاروں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔


حکم میں کہا گیا کہ پولیس اہلکاروں میں کانسٹیبل جہانگیر مروت، کانسٹیبل اقبال حسین، کانسٹیبل بابر علی رند اور ایس ایچ او قائدآباد شامل ہیں اور ثبوت کی بنیاد پر ایس ایچ او بھی ملزم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: پولیس کی حراست میں نوجوان جاں بحق، لواحقین کے احتجاج پر 3 اہلکار معطل

عدالت نے کہا کہ ملزم ایف آئی آر درج نہیں کر سکتے، لہذا ایس ایس پی بیان ریکارڈ کر کے مقدمہ درج کروائیں۔

مدعی مقدمہ کے وکیل امان اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ عدالت نے بہترین فیصلہ دے کر انصاف کیا ہے، ہم نے عدالت میں ٹھوس ثبوت پیش کیے تھے۔

خیال رہے کہ کراچی کے علاقے قائد آباد میں حراست میں موجود نوجوان عاطف خان کو مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کرنے کا واقعہ پیش آیا تھا اور ویڈیوز بھی منظر عام پر آگئی تھیں۔
Load Next Story