بجلی بلوں میں ہوشربا اضافہ عوام پر بوجھ
اپنے ملک میں بجلی کی قیمتوں کا موازنہ جب پڑوسی ممالک سے کیا جائے تو ان سے حسد محسوس ہوتا ہے
یوں تو اس ملک میں کسی بھی ایسی زیادتی کے خلاف جو عوام کے ساتھ سرکارکی غفلت اور بے توجہی کی بناء پرکی جا رہی ہو، نہ کچھ لکھنے کا فائدہ ہے نہ کسی احتجاج سے حکومت وقت کی صحت پرکچھ فرق پڑتا ہے۔گزشتہ چند دنوں سے بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی خبروں نے نہ صرف عوام کی چیخیں نکال دی ہیں بلکہ ان کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں بجلی کی ہوشربا لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہرے روزانہ کا معمول بنتے جارہے ہیں۔ اس ہوشربا اضافے اور لوڈ شیڈنگ کے عذاب کے خلاف اگرکراچی میں کسی نے آواز اٹھائی تو وہ جماعت اسلامی تھی۔
پاکستان میں اور خصوصا کراچی میں آخر بجلی کی قیمتیں دن بند آسمان کو کیوں چھوتی جا رہی ہیں؟ اس کا تجزیہ آج کے اس کالم میں، دستیاب ریکارڈ کے مطابق کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سب سے پہلے جب ہم اپنے پڑوسی ممالک میں عوام کو مہیا کی جانے والی بجلی کی قیمتوں کا معائنہ کرتے تو حیرت انگیز انکشاف ہوتا ہے کہ ان ممالک میں عوام کو بجلی کتنی کم قیمتوں پر دستیاب ہے۔
اپنے ملک میں بجلی کی قیمتوں کا موازنہ جب پڑوسی ممالک سے کیا جائے تو ان سے حسد محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کو سہولت دینے کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہیں،اور ہم کس ماحول میں زندہ ہیں۔ مالی سال 2022 کے دوران، ہندوستان میں فراہم کی جانے والی ریاستی بجلی کی اوسط قیمت 6.29 ہندوستانی روپے فی کلو واٹ فی گھنٹہ تھی۔ اسی سال انڈیا جنوبی ایشیا میں بجلی پیدا کرنے والا دنیا میں تیسرا سب سے بڑا پروڈیوسر تھا۔ انڈیا کے میگا سٹی ممبئی میں رہائشی صارفین کے لیے بجلی کے موجودہ نرخ کچھ اس طرح ہیں۔ یونٹ چارجز فی یونٹ0-100 یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین کے لیے 3.45 انڈین روپے،101 سے 300 یونٹ تک استعمال کرنے پر پانچ روپے پچپن پیسے، 300 سے500 یونٹ بجلی استعمال کرنے پر سات روپے پینتالیس پیسے جب کہ 501 اور اس سے اوپر یونٹ استعمال کرنے پرآٹھ روپے پینتالیس پیسے فی یونٹ کے حساب سے چارج کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک ماہ میں چھ سو یونٹ استعمال کرنے والے صارف کو ماہانہ 5070 روپے کا بل بھیجا جاتا ہے، اس میں اگر مختلف ٹیکسز بھی شامل کرلیے جائیں تب بھی یہ چھ ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ نہ جا سکے۔
بنگلہ دیش، ڈھاکہ میں عام صارفین کو بجلی کا بل چار ٹکا تریپن پیسے کے حساب سے چارج کیا جاتا ہے جبکہ پچھلے سال یہ چار ٹکا اور انیس پیسے تھا جب کہ بنگلہ دیش میں بجلی کی نئی قیمت باقاعدہ صارفین کے لیے 4.53 ٹکا (پچھلے سال 4.19 ٹکا)، تھوک 6.70 ٹکا فی یونٹ زراعت کے صارفین کے لیے 4.19 ٹکا جب کہ چھوٹے پیمانے کی صنعتیں کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت 8.95 ٹکا مقررکی گئی ہے۔
اب آ جائیں، پاکستان میں بجلی کی قیمتوں کی جانب۔ چونکہ میں پیدائشی طور پرکراچی والا ہوں، اس لیے کراچی میں کے الیکٹرک کمپنی کی جانب سے فراہم کی جانے والی بجلی کی قیمت میں اضافے کا براہ راست متاثرہ شخص بھی ہوں۔ جہاں ایک عام صارف کے لیے بجلی کے فی یونٹ کی قیمت یوں تو نو سے دس روپے ہے لیکن اس رقم پر ٹیکسسزکی بھرمار ہے، یعنی اگر کسی صارف نے 12سو یونٹ بجلی استعمال کی ہو، اس کے بجلی چارجز51 ہزار 264 رو پے ٹہرے گی، کیونکہ اب اس پر جو ٹیکس نافذ ہو نگے جس میں یونیفارم کوارٹرلی ایڈجسمنٹ، فیول چارجزایڈجسمنٹ، ایڈیشنل سر چارج اور پھر سرچارج کے بعد یہ بل تقریباً66 ہزار روپے کا ہوجائے گا۔ اس کے بعد اس ٹوٹل پر الیکٹرک سٹی ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس اور ٹی وی فیکس وصول کی جائے گی جو 19 ہزار روپے کے لگ بھگ بن جاتے ہیں، اس طرح صارف کو 85 ہزار روپے کا بل ادا کرنا پڑتا ہے،
شاید ہی دنیا میں کہیں ایسا ہوتا ہوکہ ایک بنیادی اور ضروری سہولت کے استعمال پر اتنی زیادہ ڈیوٹیز اور ٹیکسز وصول کیے جاتے ہوں۔ گزشتہ دنوں کے الیکٹرک ترجمان نے کہا کہ کے الیکٹرک ٹیکس لاگو نہیں کرتا بلکہ تمام تقسیم کار کمپنیوں کی طرح کے الیکٹرک بھی حکومتی اور ریگولیٹری اداروں کی ہدایات و متعلقہ قوانین کے تحت کام کرنے کی پابند ہے اگر یہ ٹیکس نافذ کرنے والی متعلقہ اتھارٹیز و اداروں کی جانب سے واپس لینے کا فیصلہ ہوتا ہے تو کے الیکٹرک کو اس پرکسی قسم کا اعتراض نہیں ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ دراصل مختلف شعبوں کے افراد کے تجزیے کے مطابق آئی پی پیز (IPPs) ہیں اور جب تک پاکستان میں آئی پی پیز موجود ہیں،کبھی بھی بجلی سستی نہیں ہوسکتی۔ یہ بات ماضی میں بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ آئی پی پیزکو پاکستان میں تمام حکومتوں نے تحفظ دیا ہے۔ گوکہ یہ معاہدہ ن لیگ کے گزشتہ دور حکومت میں کیا گیا لیکن اس کے بعد پی ٹی آئی کی کابینہ کے چار وزراء بھی آئی پی پیزکے مالک تھے اور یہی وجہ ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی جڑ آئی پی پیز سے کیا جانے والا غیر منصفانہ اور بے ڈھنگا معاہدہ ہے۔
گزشتہ حکومتوں میں نا اہل فیصلہ کارو ں نے آئی پی پیزکے ساتھ ڈالر ز(capicity payment) پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگیوں کا معاہدہ کیا جس کی ہر دورحکومت میں توثیق کی جاتی رہی۔ اب یہ عوامی مطالبہ ہے کہ آئی پی پیز کو ان کی پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگیاں نہ کی جائیں۔ آئی پی پیز کے ساتھ آیندہ معاہدےcapicity payment کی بنیا د پر نہ کیے جائیں۔
اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (DISCOS) کی پروفیشنل گورننس اور دوسرا آئی پی پیز ہے۔ یہ عوام کا مطالبہ ہے کہ بجلی کے بل کم کرنے کے لیے تمام سرکاری افسران کی مفت بجلی بند کی جائے۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کمیٹی نے صرف 5آئی پی پیز سے 40ارب واپس لینے کے لیے کہا مگر ایک روپیہ بھی واپس نہیں لیا جا سکا۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت میں کچھ وزیر آئی پی پیز کا تحفظ کرتے تھے جبکہ نگراں حکومت میں بھی وزیر توانائی نے آئی پی پیزکو محفوظ راستہ دیا۔
موجودہ حکومت بھی عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے میں اب تک مکمل ناکام ہے۔ عوام کی چیخیں آسمان کو چھو رہی ہیں لیکن اگرکسی کو یہ چیخیں نہیں سنائی دیتیں تو وہ صرف حکمران ہیں۔ موجودہ حکومت نے کم سے کم تنخواہ 35 ہزار مقررکی ہے جو ویسے تو ہر ایک کو ملتی ہی نہیں اور اگر کسی کو مل بھی رہی ہے اور وہ اس سے اپنا گھر چلانا چاہتا ہے تو پھر اس کے لیے ضروری ہوگیا ہے، وہ بجلی کا استعمال نہ کرے،کیونکہ ایسا کیا تو اس کی تمام تنخواہ صرف ایک بجلی کے بل کے لیے خرچ ہوجائے گی۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر ہمارا ساتھ نہ دیا تو ہم تمہیں پتھروں کے دور میں پہنچا دیں گے۔ یہ کام امریکا تو بوجوہ نہ کر سکا لیکن ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کے سب سے بڑے مڈل اور لوئرمڈل کلاس طبقے کو تقریبا پتھروں کے دور میں پہنچا ہی دیا ہے۔