ہر چند کہیں کہ ’’ہے‘‘ نہیں ہے

ما ضی میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی گئی، وہ پابندی ایک غلطی قرار دی جاتی ہے

Jvqazi@gmail.com

ملک کے حالات اس نہج پر ہیں ایک اور نو مئی جیسا واقعہ رونما ہوسکتا ہے یا پھر ہم ایسا ہونے سے قبل کچھ اقدامات کررہے ہیں۔ کیا اس وقت ریاست کے تین اہم ستون پارلیمان، عدلیہ اور مقننہ ایک صفحے پر ہیں؟ کیا ریاست کی ڈیفیکٹو تشریح کے مطابق اسٹبلشمنٹ، عدلیہ، پارلیمان اور مقننہ یعنی پاکستان کے تمام ادارے اس وقت ایک رائے پر متفق ہیں؟ بات سمجھانے کی یہ ہے کہ یہ تمام ادارے انفرادی حیثیت میں اپنے اندر بھی ایک دوسرے سے متفق نہیں۔ عدلیہ کے اندر توڑ پھوڑ ہے یا ایسا کہیے کہ بار و بنچ کے اندر بھی تقسیم ہے۔ نو مئی کا واقعہ، اسٹبلشمنٹ کے اندر دو سوچوں اور دو زاویوں کا ٹکراؤ تھا۔ پھر اس واقعے کو ابھارنے اور حوصلہ افزائی کرنے والوں کے ساتھ جو ہونا چاہیے تھا وہ ہو نہ سکا۔

اس میں دو رائے ہیں۔ ایک تو عمران خان کے لیے عدلیہ میں نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔ دوسرا یہ سوچ کہ شاید اتنا بھاری نقصان نہیں پہنچا۔ ایک سال ارتقاء کی منزلوں کو طے کرتے کرتے بلآخر اسٹبلشمنٹ اس نتیجے پر پہنچی کہ نو مئی جیسا واقعہ اب نہیں ہونا چاہیے اور مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اس معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑی ہیں اور یہ جمہوری قوتیں ہیں۔ تو پھر کیا پی ٹی آئی جمہوری قوت نہیں ہے! اب ایک شکل یہ بھی بنتی نظر آرہی ہے کہ ایسے واقعات کو بڑھاوا دینے والوں پر پابندی عائد کی جائے اور اس کا طریقہ آئین میں موجود ہے مگر آئین کی تشریح کرے گا کون؟

ما ضی میں نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی گئی، وہ پابندی ایک غلطی قرار دی جاتی ہے مگر سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس ڈالا گیا، سپریم کورٹ نے اس ریفرنس کو صحیح مانا اور اپنا فیصلہ صادرکرتے ہوئے پابندی عائد کی۔ سابق جسٹس دراب پٹیل اس بینچ کا حصہ تھے، وہ اپنی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگانے کے لیے جو شواہد عدالت میں پیش کیے گئے وہ بہت کمزور شواہد تھے۔ ہوا کیا؟ NAP نہ سہی ANP سہی، اس کو فزکس میں Hook's Law کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرکسی مادے کو ایک جگہ سے دبایا جائے گا تو وہ مادہ پھسل کر دور تک پھیلے گا۔ یقینا ایسی کسی سیاسی جماعت پر پابندی نہیں لگنی چاہیے جو جماعت عوام میں مقبولیت رکھتی ہو، وہ اگر شورش پسند ہے تو کوشش یہ کرنی چاہیے کہ ان کو ڈائیلاگ میں مصروف کرکے قومی دھارے کا حصہ بنایا جائے۔

نیشنل عوامی پارٹی کسی طور بھی شورش پسند پارٹی نہ تھی مگر جو کچھ پی ٹی آئی نے کیا ان کے خلاف شواہد بہرِحال ٹھوس اور مضبوط ہیں، جیسا کہ ایسے فرانزک شواہد موجود ہیں کہ پی ٹی آئی کو ایسے لوگ باہر سے پیسے بھیجتے ہیں جن کے تعلقات ہندوستان اور اسرائیل سے ہیں، اس پر ایک فیصلہ بھی ہے الیکشن کمیشن کا۔ نو مئی کا واقعہ فسطائی سوچ تھی، اب تو یورپی ممالک میں یہ سوچ ابھر رہی ہے کہ دائیں بازو کی انتہا پرست سوچ رکھنے والوں پر پابندی لگائی جائے، صرف ہم ہی نہیں پوری دنیا اس فسطائیت کی لپیٹ میں ہے۔

امریکا کا نیو کنزرویٹو افغان نژاد نمایندہ زلمے خلیل زاد پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بارہا اپنی تشویش ظاہرکرتا رہا ہے ۔ ساتھ ہی موصوف طالبان کے ساتھ ڈیل کرنے میں پیش پیش رہا ہے اور ہم بھی آگے آگے رہے ہیں یعنی پچھلی اسٹبلشمنٹ جنرل فیض حمید، جنرل باجوہ اور عمران خان۔یہی زلمے خلیل زاد عمران خان اور تحریک انصاف کے حق میں بیانات بھی دیتا رہا ہے۔

ری پبلکن پارٹی یعنی ڈونالڈ ٹرمپ کے چنیدہ نائب صدر جے ڈی وانس نے حال ہی میں اپنی تقریر میں یہ کہا ہے کہ '' ہم اسلامی ایٹم بم چھین کر رہیں گے۔'' آج بھی جو لوگ عمران خان کو ایک جمہوری لیڈر مانتے ہیں وہ حق پر نہیں ہیں۔ ان لوگوں کو جمہوری تو نہیں مگر فاشسٹ ضرورکہا جاسکتا ہے۔ بانی ایم کیو ایم بھی فاشسٹ تھے، ان کی پارٹی کے ساتھ جو بھی ہوا اچھا یا برا لیکن سوال یہاں اخلاقیات، برے یا اچھے کا نہیں۔ بات یہ ہے جو بھی فساد کو دعوت دے گا، ریاست کے خلاف جائے گا، ریاست اس سے ٹکرائے گی یا وہ ریاست کو مات دے گا یا پھر ریاست اس کو مات دے گی۔

کیا ریاست بھی انصاف کر پاتی ہے؟ کیونکہ یہاں ریاست کے ہر ستون کی صورت بگڑ ی ہوئی ہے، کسی ایک سمت کی طرف نہیں۔ بلوچستان میں بلوچوں کا ایک گروپ وفاق کے خلاف لڑ رہا ہے۔بلوچستان کے وہ علاقے جو افغانستان سے ملحق ہیں، وہاں طالبان اور قوم پرستی یکجا ہوکر وفاق پاکستان پر حملے کرتے ہیں، پنجابیوں کو قتل کیا جارہا ہے ، خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی اور اس کے سہولت کار پاکستان کے خلاف سرگرم ہوگئے ہیں، سندھ میں دیہی اور شہری تعصب ہے اور ڈاکو گروہ ہیں۔جنھیں ہم چھوٹے صوبے کہتے ہیں، وہاں ایک حکمت عملی کے تحت پنجاب کے خلاف نفرت کو ابھارا جاتا ہے۔ پنجاب میدانِ جنگ بنا ہوا ہے جیسے پنجاب بہ مقابلہ پنجاب ہو۔ یہی بات ولی خان اپنے زمانے میں دیکھ رہے تھے۔

اب جو دنگل ہونے جارہا ہے، اس کا ایک میدان سوشل میڈیا ہے اور دوسرا بد زبانی، غیر اخلاقی اور غیر مہذب زبان۔ آج کے انقلابی لیڈران نے ان بد اخلاقیوں میں سب کو مات دے دی ہے۔


معیشت کو جن کے رحم وکرم پر چھوڑ گئے تھے جس کا تسلسل تھے جسٹس ثاقب نثار اور یہ سلسلہ جاری رہا، جسٹس عمر عطا بندیال تک، آج کا پاکستان اس کی شکل ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ تنہا آخر کر بھی کیا سکتے ہیں مگر وہ تاریخ میں ضرور سنہرے الفاظ میں رقم کیے جائیں گے۔

ظلمت کدے میں میرے شب غم کا جوش ہے

اک شمع ہے دلیل سحر سو خموش ہے

(غالب)

یہ وقت خاموشی کا نہیں۔ یہ وقت ہے فیصلہ لینے کا یا کہو کہ ملک بچانا ہے یا کہو کہ ملک گنوانا ہے۔ اب تو ہمارے پیارے افغانستان والے بھائی طالبان بھی مودی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات بنا کر طالبان سرکار خوشی سے پھولے نہیں سما رہی۔ المیہ دیکھیں کہ پاکستان کی حکومت اگر بھارت کے ساتھ تجارت کی بات کرے تو پاکستان میں طالبان کے سہولت کار اور نظریاتی ساتھی آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ پاکستان، بین الاقوامی سازشوں کے نرغے میں ہے اگر یہ سازشیں کسی کو نظر نہیں آرہی ہیں تو یقیناً انھوں نے اپنی آنکھیں موندی ہوئی ہیں۔ کون کہتا ہے کہ پاکستان میں مکمل جمہوریت ہے؟ کون کہتا ہے کہ یہ بھی ہائبرڈ حکومت نہیں؟ کون کہتا ہے کہ 2024 کے انتخابات شفاف تھے؟ اور نہ ہی 2018 کے انتخابات ! کون کہتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت نہیں؟ کون کہتا ہے عدلیہ آزاد اور ملک میں آئین کی بالا دستی ہے؟ افراطِ زر بھی ہے اور لوگوں کا کوئی گوش گزار نہیں، پرسانِ حال نہیں اس کمر توڑ مہنگائی نے جینا محال کر رکھا ہے مگر یہ ضرور ہے کہ معیشت نے ایک سمت ضرور پکڑ لی ہے۔ پہلے کی طرح دیوالیہ ہونے کی تلوار سر پر نہیں لٹک رہی ہے۔ بحران کی وہ کیفیت نہیں کہ پاکستان اب دیوالیہ ہوا کہ تب دیوالیہ ہوا۔

ہم نے آئین بنایا مگر وہ بھی آزادی کے پچیس سال بعد،آدھا ملک گنوا کر اور اب تک جو چلتا رہا وہ اس لیے کہ آئین کو توڑا نہیں گیا۔ مخصوص نشستوں کا فیصلہ آئین اور قانون کے ٹیکسٹ کے مطابق نہیں، تشریح کرنا آپ کا استحقاق ہے مگر جو سادہ الفاظ میں موجود ہے اور معاملہ جوڈیشل ریویو کی جیورسڈکشن کا بھی نہ ہوتو پھر یہ فیصلہ بہت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ایک ایسے ملک کے لیے جو قاعدے سے پہلے نہیں چلا۔ دوسری طرف آرٹیکل 182 یہ کہتا ہے کہ ایڈہاک ججزآسکتے ہیں، اس پوائنٹ پر کسی تشریح کی ضرورت بھی نہیں مگر اس بات پر شور وغوغا خاصا ہے۔

اب دیکھنے کی ضرورت یہ ہے کہ کیا ہونا چاہیے؟سپریم کورٹ کے آٹھ ججز کے اس فیصلے سے ان قوتوں میں دوبارہ جان آئی ہے جو نو مئی کے واقعات دوبارہ برپا کرنا چاہتے ہیں توکیا ریاست ایسی ہی خاموش تماشائی بنی رہے گی۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔

ہرچند کہیں کہ ''ہے''، نہیں ہے۔
Load Next Story