میر انیس آخری حصہ
صالحہ عابد حسین نے اپنے مضمون کی ابتدا میں ہی میر انیس سے اپنی والہانہ وابستگی کا اظہارکیا ہے
میر انیس پر دوصد سالہ رثائی نمبر اتنا ضخیم اور وقیع ہے کہ اس پر بیس پچیس طویل کالم لکھے جاسکتے ہیں، لیکن یہ ممکن نہیں یہاں میں محترمہ صالحہ عابد حسین صاحبہ کے ایک ذاتی تاثراتی مضمون کا حوالہ دینا چاہوں گی۔ وہ اردو کے ایک نامی گرامی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ انھوں نے ادیب فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کیے،کئی اہم ادبی کتابیں تحریر کیں، پاکستان میں کم لوگ انھیں جانتے ہیں لیکن ہندوستان کے ادبی حلقوں میں وہ آج بھی مشہور و معروف ہیں۔ ڈاکٹر عابد حسین، ڈاکٹر ذاکر حسین اور عزیزہ دوست صغریٰ مہدی ادیبوں اور دانشوروں کاایک ایسا جھرمٹ تھا جو' تکونا پارک' میں رہتا تھا اور لوگوں کو ان کے پتے سے دوسروں کانام و نشان ملتا تھا۔
صالحہ عابد حسین نے اپنے مضمون کی ابتدا میں ہی میر انیس سے اپنی والہانہ وابستگی کا اظہارکیا ہے۔ انھوں نے اپنے بیرونی سفروں کے دوران روسی، انگریزی اور فرانسیسی ادیبوں کے گھروں کو دیکھا ہوگا جوکئی سو برس سے محفوظ ہیں اور انھیں دیکھیے تو یوں گمان گزرتا ہے جیسے کہ وہ ابھی آرام کرسی سے اُٹھ کرگئے ہیں یا ابھی انھوں نے اپنا بستر چھوڑا ہے۔
' انیس سے عقیدت مندی' کے عنوان سے محترمہ صالحہ حسین لکھتی ہیں کہ'' میں نے کم عمری ہی سے انیس کو نہ صرف سنا بلکہ پڑھنا بھی شروع کردیا تھا یہ اور بات ہے کہ ان کے کلام کے پورے محاسن کیا، مطلب بھی برسوں بعد اچھی طرح سمجھ میں آئے مگر غیرشعوری طور پر دل و دماغ بہت پہلے ہی ان سے متاثر ہونا شروع ہوگیا تھا۔ مجھے اردو ادب سے جوگہری محبت، اس کی خدمت کی جو لگن ہے اور اس سے تھوڑی بہت جو واقفیت ہے اس میں انیس کے کلام کا فیض بھی شامل ہے۔''
وہ لکھتی ہیں کہ '' ادیب فاضل کے امتحان میں انھوں نے ایک مقالہ میرانیس پر لکھاتھا، اس پرچے کے ممتحن مرحوم تلوک چند تھے۔ برسوں بعد ہونے والی ایک ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ اس مضمون پر انھوں نے 100 میں سے 95 نمبر دیے تھے۔
مدت سے میرے دل میں یہ تمنا تھی کہ انیس پرکتاب لکھوں مگر یہ کتاب کیوں لکھنا چاہتی ہوں، اس کا ایک جواب یہ ہے کہ میں انیس کو اپنا محسن سمجھتی ہوں۔ ان کے کلام کا میرے ذہن، ذوق،اخلاق اور زبان پر بہت اثر پڑا ہے اور ہر بھلے آدمی کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے محسن کا حق ادا کرے۔
لیکن ایک وجہ اور بھی ہے کہ مجھے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ اگرچہ انیس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر ابھی بہت کچھ لکھا جانا باقی ہے۔ یوں تو انیس کے کلام میں بے شمار خوبیاں ہیں لیکن ان کے ہاں کردار نگاری اور جذباتِ انسانی کی عکاسی ایسی ہے کہ جس کا پورے اردو ادب میں( اور غالباً فارسی ادب میں بھی) جواب نہیں، خصوصاً عورتوںکے کردارکی مصوری میں انھوں نے کمال کردیا ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ اپنی مجوزہ کتاب کا موضوع انیس کی کردار نگاری رکھوں لیکن موضوع اتنا ہمہ گیر اور وسیع ہے جس کا پورا حق ادا کرنا مشکل ہے، چنانچہ میں نے طے کیا کہ فی الحال موضوع کو سمیٹ کر اسے صرف خواتینِ اہل بیت اور ان دیگر عورتوں تک محدود کرداروں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح واقعات ِکربلا سے ہے اور جن کی سیرت نگاری میں انیس نے بڑی چابکدستی سے کام لیا ہے، اگر خدا کو منظور ہوا تو بشرط صحت و زندگی ایک اورکتاب لکھنے کی آرزو ہے جس میں کربلا کے عظیم صابر امام حسین اور اصحابِ امام حسین کی جیتی جاگتی تصویروں پر جو انیس نے کھینچی ہیں روشنی ڈالی جائے۔
میںیہاں اس واقعے کا بھی ذکرکردوں جس کی وجہ سے یہ کتاب جو برسوں سے ذہن میں گھوم رہی تھی مگرکسی طرح لکھی نہیں جاتی تھی، خدا کا نام لے کر لکھنا شروع کردی۔ انیس سے جو انس و محبت ہے اس کی وجہ سے ان کے مزار پر جانے اور ان کا گھر دیکھنے کی مدت سے تمنا تھی جوکچھ عرصہ پہلے لکھنؤ جا کر پوری ہوئی۔کئی چھوٹی موٹی گندی پتلی گلیوں میں سے ہوکر ہم کوچہ میر انیس پہنچے۔ کبھی اس گلی کے تمام مکانات میر انیس کے گھرانے کی ملکیت تھے مگر نامساعد حالات کی وجہ سے ایک ایک کرکے مسمار ہوتے گئے اور رہے سہے بعض مکینوں کے پاکستان چلے جانے کی وجہ سے ٹھکانے لگ گئے۔
صرف ایک حویلی جس میں میر انیس رہتے تھے، یادگار انیس کمیٹی کی کوشش سے کسٹوڈین کے قبضے سے بچائی جاسکی، اس حویلی کے دو حصے ہیں۔ ایک غالباً دیوان خانہ ہوگا، دوسرا زنان خانہ۔ امام باڑہ وغیرہ۔ اب ٹوٹی پھوٹی حالت میں بھی یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ کبھی وہ بہت عالی شان اور خوبصورت حویلی تھی۔ باہر کے شاندار دروازے کا آرائشی کام۔ اندرکے دالانوں میں محرابوں کی نزاکت، ان پر کندہ کیے ہوئے نقش و نگار صاحبِ خانہ کی خوش حالی، خوش ذوقی اور نفاستِ طبع کو اپنی زبان بے زبانی سے بیان کرتے ہیں۔ دوسرے حصے کو ٹھیک سے نہ دیکھ سکی میں نے اندر جانا چاہا تو سید محمد ہادی صاحب نے جو میرنفیس کے نواسے اور میر محمد عارف کے بیٹے ہیں اور اسی مکان میں رہتے ہیں وہاں جانے نہ دیا جس کی وجہ میں نہ سمجھ سکی۔ پھر بھی میں نے جھانک کر دیکھا مکان کا بیشتر حصہ کھنڈر بنا پڑا تھا۔ بیچ میں وہ تاریخی حوض بھی شکستہ حالت میں نظر آرہا تھا جس میں انیس نے اپنے بھائی میر مونس کا مرثیہ ڈبو دیا تھا۔
میر محمد ہادی کی صورت اور نقش و نگار، لباس، انداز اور بات چیت میں اپنی خاندانی آن بان کی جھلک نظرآرہی تھی۔ ان کے پاس کچھ تبرکات انیس ہیں جن میں سے میر انیس کی ہاتھی دانت کی ایک چھوٹی سی تصویر( جو انتہائی نزاکت و نفاست سے کسی باکمال آرٹسٹ نے بنائی ہے) ان کی دو چوگوشہ ٹوپیاں جن کا جال اور بیل پتی کا کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور ان کی تحریرکے کچھ نمونے میرصاحب نے مجھے دکھائے اور وعدہ کیا کہ آیندہ فرصت سے آؤگی تو اور بھی چیزیں دکھائوں گا۔
حویلی سے ملحق ایک حصے میں میر انیس اور ان کے خاندان کے کچھ افراد کی تربتیں ہیں، یادگار انیس کمیٹی نے انیس کا ایک بڑا عمدہ نقشہ بنوایا ہے بلکہ بڑی حد تک عمارت تعمیر بھی ہوگئی ہے مگر ابھی تکمیل نہیں ہوسکی۔ مکان کی مرمت خاطر خواہ نہیں کی جاسکی کیونکہ ہمارے دیس میں صاحبانِ دولت و ثروت بیکار تقریبوں،غلط رسموں، مذموم رواجوں پر لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن اپنے قومی ادیبوں اور فنکاروں کی یاد زندہ رکھنے کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا اور دھیان دیا جائے توگرہ سے پیسہ نہیں نکلتا اور جو اِنے گنے صاحبانِ ذوق اور اہل دل ہیں وہ اکثر تہی دست ہوتے ہیں۔''
وہ میر انیس کی یادگارکمیٹی میں وہ شریک رہیں پھر انھوں نے''خواتینِ کربلا،کلام انیس کے آئینے میں'' تحریرکی جس کا ادبی حلقوں میں بہت چرچا رہا۔ محترمہ صالحہ حسین اپنے محسن کا اسی انداز میں بارِ احسان اُتار سکتی تھیں۔
صالحہ عابد حسین نے اپنے مضمون کی ابتدا میں ہی میر انیس سے اپنی والہانہ وابستگی کا اظہارکیا ہے۔ انھوں نے اپنے بیرونی سفروں کے دوران روسی، انگریزی اور فرانسیسی ادیبوں کے گھروں کو دیکھا ہوگا جوکئی سو برس سے محفوظ ہیں اور انھیں دیکھیے تو یوں گمان گزرتا ہے جیسے کہ وہ ابھی آرام کرسی سے اُٹھ کرگئے ہیں یا ابھی انھوں نے اپنا بستر چھوڑا ہے۔
' انیس سے عقیدت مندی' کے عنوان سے محترمہ صالحہ حسین لکھتی ہیں کہ'' میں نے کم عمری ہی سے انیس کو نہ صرف سنا بلکہ پڑھنا بھی شروع کردیا تھا یہ اور بات ہے کہ ان کے کلام کے پورے محاسن کیا، مطلب بھی برسوں بعد اچھی طرح سمجھ میں آئے مگر غیرشعوری طور پر دل و دماغ بہت پہلے ہی ان سے متاثر ہونا شروع ہوگیا تھا۔ مجھے اردو ادب سے جوگہری محبت، اس کی خدمت کی جو لگن ہے اور اس سے تھوڑی بہت جو واقفیت ہے اس میں انیس کے کلام کا فیض بھی شامل ہے۔''
وہ لکھتی ہیں کہ '' ادیب فاضل کے امتحان میں انھوں نے ایک مقالہ میرانیس پر لکھاتھا، اس پرچے کے ممتحن مرحوم تلوک چند تھے۔ برسوں بعد ہونے والی ایک ملاقات میں انھوں نے بتایا کہ اس مضمون پر انھوں نے 100 میں سے 95 نمبر دیے تھے۔
مدت سے میرے دل میں یہ تمنا تھی کہ انیس پرکتاب لکھوں مگر یہ کتاب کیوں لکھنا چاہتی ہوں، اس کا ایک جواب یہ ہے کہ میں انیس کو اپنا محسن سمجھتی ہوں۔ ان کے کلام کا میرے ذہن، ذوق،اخلاق اور زبان پر بہت اثر پڑا ہے اور ہر بھلے آدمی کا جی چاہتا ہے کہ وہ اپنے محسن کا حق ادا کرے۔
لیکن ایک وجہ اور بھی ہے کہ مجھے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ اگرچہ انیس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے مگر ابھی بہت کچھ لکھا جانا باقی ہے۔ یوں تو انیس کے کلام میں بے شمار خوبیاں ہیں لیکن ان کے ہاں کردار نگاری اور جذباتِ انسانی کی عکاسی ایسی ہے کہ جس کا پورے اردو ادب میں( اور غالباً فارسی ادب میں بھی) جواب نہیں، خصوصاً عورتوںکے کردارکی مصوری میں انھوں نے کمال کردیا ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ اپنی مجوزہ کتاب کا موضوع انیس کی کردار نگاری رکھوں لیکن موضوع اتنا ہمہ گیر اور وسیع ہے جس کا پورا حق ادا کرنا مشکل ہے، چنانچہ میں نے طے کیا کہ فی الحال موضوع کو سمیٹ کر اسے صرف خواتینِ اہل بیت اور ان دیگر عورتوں تک محدود کرداروں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح واقعات ِکربلا سے ہے اور جن کی سیرت نگاری میں انیس نے بڑی چابکدستی سے کام لیا ہے، اگر خدا کو منظور ہوا تو بشرط صحت و زندگی ایک اورکتاب لکھنے کی آرزو ہے جس میں کربلا کے عظیم صابر امام حسین اور اصحابِ امام حسین کی جیتی جاگتی تصویروں پر جو انیس نے کھینچی ہیں روشنی ڈالی جائے۔
میںیہاں اس واقعے کا بھی ذکرکردوں جس کی وجہ سے یہ کتاب جو برسوں سے ذہن میں گھوم رہی تھی مگرکسی طرح لکھی نہیں جاتی تھی، خدا کا نام لے کر لکھنا شروع کردی۔ انیس سے جو انس و محبت ہے اس کی وجہ سے ان کے مزار پر جانے اور ان کا گھر دیکھنے کی مدت سے تمنا تھی جوکچھ عرصہ پہلے لکھنؤ جا کر پوری ہوئی۔کئی چھوٹی موٹی گندی پتلی گلیوں میں سے ہوکر ہم کوچہ میر انیس پہنچے۔ کبھی اس گلی کے تمام مکانات میر انیس کے گھرانے کی ملکیت تھے مگر نامساعد حالات کی وجہ سے ایک ایک کرکے مسمار ہوتے گئے اور رہے سہے بعض مکینوں کے پاکستان چلے جانے کی وجہ سے ٹھکانے لگ گئے۔
صرف ایک حویلی جس میں میر انیس رہتے تھے، یادگار انیس کمیٹی کی کوشش سے کسٹوڈین کے قبضے سے بچائی جاسکی، اس حویلی کے دو حصے ہیں۔ ایک غالباً دیوان خانہ ہوگا، دوسرا زنان خانہ۔ امام باڑہ وغیرہ۔ اب ٹوٹی پھوٹی حالت میں بھی یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ کبھی وہ بہت عالی شان اور خوبصورت حویلی تھی۔ باہر کے شاندار دروازے کا آرائشی کام۔ اندرکے دالانوں میں محرابوں کی نزاکت، ان پر کندہ کیے ہوئے نقش و نگار صاحبِ خانہ کی خوش حالی، خوش ذوقی اور نفاستِ طبع کو اپنی زبان بے زبانی سے بیان کرتے ہیں۔ دوسرے حصے کو ٹھیک سے نہ دیکھ سکی میں نے اندر جانا چاہا تو سید محمد ہادی صاحب نے جو میرنفیس کے نواسے اور میر محمد عارف کے بیٹے ہیں اور اسی مکان میں رہتے ہیں وہاں جانے نہ دیا جس کی وجہ میں نہ سمجھ سکی۔ پھر بھی میں نے جھانک کر دیکھا مکان کا بیشتر حصہ کھنڈر بنا پڑا تھا۔ بیچ میں وہ تاریخی حوض بھی شکستہ حالت میں نظر آرہا تھا جس میں انیس نے اپنے بھائی میر مونس کا مرثیہ ڈبو دیا تھا۔
میر محمد ہادی کی صورت اور نقش و نگار، لباس، انداز اور بات چیت میں اپنی خاندانی آن بان کی جھلک نظرآرہی تھی۔ ان کے پاس کچھ تبرکات انیس ہیں جن میں سے میر انیس کی ہاتھی دانت کی ایک چھوٹی سی تصویر( جو انتہائی نزاکت و نفاست سے کسی باکمال آرٹسٹ نے بنائی ہے) ان کی دو چوگوشہ ٹوپیاں جن کا جال اور بیل پتی کا کام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے اور ان کی تحریرکے کچھ نمونے میرصاحب نے مجھے دکھائے اور وعدہ کیا کہ آیندہ فرصت سے آؤگی تو اور بھی چیزیں دکھائوں گا۔
حویلی سے ملحق ایک حصے میں میر انیس اور ان کے خاندان کے کچھ افراد کی تربتیں ہیں، یادگار انیس کمیٹی نے انیس کا ایک بڑا عمدہ نقشہ بنوایا ہے بلکہ بڑی حد تک عمارت تعمیر بھی ہوگئی ہے مگر ابھی تکمیل نہیں ہوسکی۔ مکان کی مرمت خاطر خواہ نہیں کی جاسکی کیونکہ ہمارے دیس میں صاحبانِ دولت و ثروت بیکار تقریبوں،غلط رسموں، مذموم رواجوں پر لاکھوں روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن اپنے قومی ادیبوں اور فنکاروں کی یاد زندہ رکھنے کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا اور دھیان دیا جائے توگرہ سے پیسہ نہیں نکلتا اور جو اِنے گنے صاحبانِ ذوق اور اہل دل ہیں وہ اکثر تہی دست ہوتے ہیں۔''
وہ میر انیس کی یادگارکمیٹی میں وہ شریک رہیں پھر انھوں نے''خواتینِ کربلا،کلام انیس کے آئینے میں'' تحریرکی جس کا ادبی حلقوں میں بہت چرچا رہا۔ محترمہ صالحہ حسین اپنے محسن کا اسی انداز میں بارِ احسان اُتار سکتی تھیں۔