جرمنی میں پاکستانی قونصل خانے پر افغان شہریوں کا دھاوا

وزارت خارجہ کی قونصل خانے پر حملے اور سلامتی کے تحفظ میں ناکامی کی شدید مذمت


ویب ڈیسک July 21, 2024
فوٹو : اسکرین گریب

جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصل خانے پر افغان شہریوں کی جانب سے دھاوا بولا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق 8 سے 10 افغان شہریوں نے فرینکفرٹ میں پاکستانی قونصل خانے پر دھاوا بولا اور پاکستانی پرچم اتار کر فرار ہوگئے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو بھی دیکھا گیا ہے کہ پاکستانی قونصل خانے پر چڑھائی کرنے والے افغان شہریوں نے افغان پرچم بھی اٹھا رکھے تھے۔

پاکستانی سفارتی حکام نے معاملہ جرمن حکام کے ساتھ اٹھایا ہے جس پر جرمن حکام کی جانب سے پوری تحقیقات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ جرمن پولیس کی طرف سے اب تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔

پاکستان نے فرینکفرٹ، جرمنی میں اپنے قونصل خانے پر انتہا پسند گروہ کی جانب سے کیے گئے حملے اور جرمن حکام کی طرف سے قونصل مشن کے احاطے کے تقدس اور سلامتی کے تحفظ میں ناکامی کی شدید مذمت کی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ واقعے میں قونصل خانے اورسفارتی عملے کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں : جرمن سفیر کی دفتر خارجہ طلبی، قونصل خانے پر حملے کی مذمت

 

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ویانا کنونشن برائے قونصلر تعلقات، 1963 کے تحت میزبان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قونصلر احاطے کے تقدس کی حفاظت کرے اور سفارتکاروں کی سلامتی کو یقینی بنائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جرمن حکومت کو اپنے شدید احتجاج سے آگاہ کر رہے ہیں اور انہیں ویانا کنونشنز کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے اور جرمنی میں پاکستانی سفارتی مشنز اور عملے کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ جرمن حکام واقعے میں ملوث افراد کو فوری طور پر گرفتار کریں اورسیکیورٹی کی خامیوں کے ذمہ دار افراد کو بھی جوابدہ ٹھہرائیں۔

علاوہ ازیں، جرمنی میں پاکستانی سفارتخانے نے بھی سوشل میڈیا پر بیان جاری کرتے ہوئے شرپسندوں کی طرف سے پاکستانی سفارتخانے میں توڑ پھوڑ کی مذمت کی اور کہا ہے کہ وہ حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ ایسی صورتحال دوبارہ پیدا نہ ہو اور شرپسندوں کو قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑے۔ سفارتخانے نے اپنی کمیونٹی سے صبر اور پرسکون رہنے کی اپیل بھی کی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔