حکومت ایک پاور پلانٹ سے 750 روپے فی یونٹ میں بجلی خرید رہی ہے سابق نگران وزیرتجارت
ایک سال میں آئی پی پیز کو 1.95 ٹریلین روپے کی ادائیگی کی گئی، ڈاکٹر گوہر اعجاز
سابق نگران وزیرتجارت ڈاکٹر گوہر اعجاز نے آئی پی پیز کو ادائیگیوں کا ڈیٹا ایکس پر شیئر کر دیا۔
ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بتایا کہ پچھلے پورے سال ہر آئی پی پی کو ادائیگیوں، ایندھن کی قیمت، کیپسٹی پے منٹس کا ڈیٹا پیش کر رہا ہوں، حکومت کی آئی پی پیز کو ادائیگیوں کی وجہ سے صنعتی، تجارتی اور گھریلو صارفین کو تکلیف پہنچ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ایک پاور پلانٹ سے سب سے زیادہ مہنگی بجلی 750 روپے فی یونٹ کے حساب سے خرید رہی ہے، حکومت کول پاور پلانٹس سے اوسطاً 200 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہی ہے، جبکہ ونڈ اور سولرپلانٹس سے 50 روپے فی یونٹ سے اوپرمیں بجلی خریدی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بتایا کہ صلاحیت کے 20 فیصد سے کم پیداوار پر آئی پی پیز کو 1.95 ٹریلین روپے کی ادائیگی کی گئی، حکومت ایک پلانٹ کو 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر 140 ارب روپے ادا کرچکی ہے، دوسرے پاور پلانٹ کو 17 فیصد لوڈ فیکٹر پر 120 ارب روپے ادا کئے گئے، تیسرے پاور پلانٹ کو 22 فیصد لوڈ فیکٹر پر 100 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی، اس طرح صرف تین پاور پلانٹس کو 370 ارب روپے ادا کر دیئے گئے۔
انہوں نے کہا کہ کیپیسٹی پیمنٹ کے یہ معاہدے پاورپلانٹس کو بہت زیادہ انوائس کرنے کی اجازت دیتے ہیں، معاہدوں کے نتیجے میں بجلی پیدا کیے بغیر آئی پی پیز کو بڑی صلاحیت کی ادائیگی ہوتی ہے ، مسئلے کا حل "کوئی صلاحیت کی ادائیگی نہیں" ہے۔
ڈاکٹر گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ صرف سستی ترین بجلی فراہم کرنے والوں سے بجلی کی خریداری کے لیے معاہدے کیے جائیں، تمام آئی پی پیز کو کسی بھی دوسرے کاروبار کی طرح مرچنٹ پلانٹس کے طور پر سمجھا جانا چاہیے، پاور پلانٹس 52 فیصد حکومت کی ملکیت ہیں اور 28 فیصد پاکستان کے پرائیویٹ سیکٹر کی ملکیت ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کرپٹ ٹھیکوں، بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے ہمیں بجلی 60 روپے فی یونٹ بیچی جا رہی ہے، اپنے ملک کو بچانے کے لیے 40 خاندانوں کے ساتھ کئے گئے ان معاہدوں کے خلاف سب کو اٹھنا چاہیے۔
ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بتایا کہ پچھلے پورے سال ہر آئی پی پی کو ادائیگیوں، ایندھن کی قیمت، کیپسٹی پے منٹس کا ڈیٹا پیش کر رہا ہوں، حکومت کی آئی پی پیز کو ادائیگیوں کی وجہ سے صنعتی، تجارتی اور گھریلو صارفین کو تکلیف پہنچ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ایک پاور پلانٹ سے سب سے زیادہ مہنگی بجلی 750 روپے فی یونٹ کے حساب سے خرید رہی ہے، حکومت کول پاور پلانٹس سے اوسطاً 200 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہی ہے، جبکہ ونڈ اور سولرپلانٹس سے 50 روپے فی یونٹ سے اوپرمیں بجلی خریدی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بتایا کہ صلاحیت کے 20 فیصد سے کم پیداوار پر آئی پی پیز کو 1.95 ٹریلین روپے کی ادائیگی کی گئی، حکومت ایک پلانٹ کو 15 فیصد لوڈ فیکٹر پر 140 ارب روپے ادا کرچکی ہے، دوسرے پاور پلانٹ کو 17 فیصد لوڈ فیکٹر پر 120 ارب روپے ادا کئے گئے، تیسرے پاور پلانٹ کو 22 فیصد لوڈ فیکٹر پر 100 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی، اس طرح صرف تین پاور پلانٹس کو 370 ارب روپے ادا کر دیئے گئے۔
انہوں نے کہا کہ کیپیسٹی پیمنٹ کے یہ معاہدے پاورپلانٹس کو بہت زیادہ انوائس کرنے کی اجازت دیتے ہیں، معاہدوں کے نتیجے میں بجلی پیدا کیے بغیر آئی پی پیز کو بڑی صلاحیت کی ادائیگی ہوتی ہے ، مسئلے کا حل "کوئی صلاحیت کی ادائیگی نہیں" ہے۔
ڈاکٹر گوہر اعجاز کا کہنا تھا کہ صرف سستی ترین بجلی فراہم کرنے والوں سے بجلی کی خریداری کے لیے معاہدے کیے جائیں، تمام آئی پی پیز کو کسی بھی دوسرے کاروبار کی طرح مرچنٹ پلانٹس کے طور پر سمجھا جانا چاہیے، پاور پلانٹس 52 فیصد حکومت کی ملکیت ہیں اور 28 فیصد پاکستان کے پرائیویٹ سیکٹر کی ملکیت ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کرپٹ ٹھیکوں، بدانتظامی اور نااہلی کی وجہ سے ہمیں بجلی 60 روپے فی یونٹ بیچی جا رہی ہے، اپنے ملک کو بچانے کے لیے 40 خاندانوں کے ساتھ کئے گئے ان معاہدوں کے خلاف سب کو اٹھنا چاہیے۔