اسرائیل عالمی طاقت کیسے بنا
پاکستان کے ساتھ وجود میں آئی ننھی سی ریاست سائنس وٹیکنالوجی کی بدولت آج علاقائی سپر پاور کا روپ دھار چکی
سات اکتوبر 2023ء سے اسرائیل نے' حق ِدفاع 'کی آڑ لے کرغزہ پر حملہ کر رکھا ہے۔ فلسطینی عوام پہ زبردست بمباری ہو رہی ہے جس کی زد میں آکر ہزاروں شہری شہید ہو ئے۔ اس دوران دنیا کے تقریباً ہر ملک، حتی کہ اسرائیل کے سرپرستوں ،امریکا و برطانیہ نے بھی استدعا کی کہ جنگ بندی کر دی جائے تاکہ فلسطینی شہریوں کو امداد فراہم ہو سکے مگر اسرائیلی حکومت کسی کو خاطر میں نہ لائی۔ اس کے حکم پر ہسپتالوں، اسکولوں، کیمونٹی سینٹروں،واٹر پمپوں، ایمبولینسوں، صحافیوں غرض ہر اس شے کو نشانہ بنایا گیا جن پہ بم باری جنگ کے بین الاقوامی اصولوں کے تحت ممنو ع ہے۔ اسرائیلی حکمران طبقہ مگر کسی قانون کاپابند نہیں بنا اور اقوام متحدہ کے اعلانات کو بھی ملیامیٹ کرتا رہا۔
یہ عیاں ہے کہ عسکری و معاشی طور پہ بے انتہا طاقتور ہونے کی صلاحیت نے اسرائیلی حکمران طبقے کو یہ قدرت بخش دی کہ وہ نہ صرف اہل دنیا کے کڑے دباو کا مقابلہ کر لے بلکہ ہر قیمت پر اپنے عزائم کی بھی تکمیل کر کے رہے۔حالانکہ اسرائیل آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کافی چھوٹا ملک ہے۔ اس میںصرف 93 لاکھ لوگ بستے ہیں۔بہ اعتبار آبادی یہ 98 ویں بڑی مملکت ہے۔ ان میں سے بھی سترہ لاکھ اسرائیلی مسلمان ہیں جو یہود حکومت کی مسلم دشمن پالیسیوں کے مخالف ہیں۔مملکت کا رقبہ محض ساڑھے بیس ہزار مربع کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے۔ دنیا کے سّکہ بند دو سو ممالک میں بہ لحاظ رقبہ اسرائیل کا 153 واں نمبر ہے۔
مسلم حکمرانوں نے کیا قدم اٹھایا؟
پھر یہ بھی سچ ہے کہ صرف پچھتر سال پہلے تک اسرائیل کو کوئی وجود نہ تھا۔ بلکہ 1880 ء تک فلسطین میں چند ہزار یہود ہی بستے تھے۔ اس کے بعدیورپی و امریکی امیر یہود نے فلسطین میں زمینیں خرید کر وہاں یہودی بستیاں قائم کیں اور یوں قیام ِاسرائیل کی راہ ہموار ہونے لگی۔تب سے فلسطینی اور عرب مسلمانوں کی مزاحمت کے باوجود فلسطین میں مسلسل یہودی بستیاں آباد ہو رہی ہیں۔ گویا اسرائیل کا رقبہ بھی بڑھ رہا ہے۔ اگر صورت حال یہی رہی تو اسرائیل ایک دن تمام فلسطینیوں کو پڑوسی مسلم ممالک میں دھکیل کر سارے فلسطین پہ قبضہ کر لے گا۔
اسرائیلی حکمران طبقہ بے شک فلسطین پہ قبضے کے لیے طاقت ، دھونس اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ عالم اسلام کے حکمرانوں نے فلسطین کا قبضہ روکنے،اسرائیلی استعمار کو شکست دینے اور فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیل کے مظالم سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے ؟جواب یہی ہے کہ ایک بھی مسلم حکمران اسرائیل کا راستہ روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کر سکا۔ ترک حکمران ، طیب اردوغان نے ماضی میں کچھ عملی کوششیں کی تھیں لیکن پھر وہ بھی ناکام ہو کے بیٹھ گئے۔
اسرائیل کی فلسطینی مسلمانوں پہ حالیہ یلغار کے دوران بھی اسلامی ممالک کے حکمران بے عمل اور ناکارہ ثابت ہوئے۔ان کے اکٹھ نشستن، گفتن اور برخاستن کی عملی تصویر نظر آئے۔ حد یہ ہے کہ یہ حکمران اسرائیل کے خلاف کوئی متفقہ پالیسی نہیں بنا سکے۔بس وہ کبھی امریکا، کبھی یورپی یونین اور کبھی اقوام متحدہ سے استدعا کرتے رہے کہ وہ اسرائیل کو غزہ پر بم باری کرنے سے روک دیں۔جب مسلم حکمران اتنے مجبور و لاچار ہوں تو اپنے مفادات کی اسیر غیرمسلم حکومتیں ان کی خاک مدد کریں گی۔
تعلقات منجمند ہو گئے
حقیقت یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کی اسی بے عملی و بزدلی سے اسرائیل اور دیگر مسلمان دشمن ممالک مثلاً بھارت کو تقویت ملتی ہے۔ اب اسرائیلی حکمران طبقہ مغربی کنارے اور غزہ پہ مستقل قبضے کے لیے ہر قسم کا ظاہر وعیاں اقدام کر سکتا ہے۔ وہ جان چکا کہ فلسطین پہ قبضہ کرنے میں شاید ایک بھی مسلم حکمران رکاوٹ نہیں بنے گا۔یہی صورت حال مقبوضہ کشمیر میں درپیش ہے۔ وہاں بھی بھارتی حکمران طبقہ مسلسل مسلمانوں پہ مظالم ڈھا رہا ہے جبکہ عرب حکمران محض معاشی مفادات پورے کرنے کی خاطر مسلم دشمن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے دوستی کی پینگیں جھول رہے ہیں۔
مظلوم و اسرائیلی ظلم کا شکار فلسطینی مسلمانوں کے لیے اس سے زیادہ صدمہ انگیز اور دردناک بات کیا ہو گی کہ اب عرب حکمران اسرائیل کے ساتھ معاشی ہی نہیں عسکری معاہدے بھی کر رہے ہیں۔شاید اسی لیے مزاحمتی فلسطینی تنظیم، حماس نے سات اکتوبر کی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ دنیا والوں خصوصاً عالم اسلا م کو یاد دلا سکے، باور کرا سکے کہ اسرائیل وہ مملکت ہے جو فلسطینیوں پہ ظلم وستم کر رہی ہے۔اس کارروائی سے بہرحال یہ نتیجہ نکلا کہ عرب حکمرانوں اور اسرائیل کے مابین بڑھتے تعلقات منجمد ہو گئے۔
مواقع سے بھرپور فائدہ
یہ درست ہے کہ اسرائیل کو معاشی و عسکری طور پہ طاقتور بنانے میں امریکا، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی نے اہم کردار ادا کیا۔ یہ بھی مگر حقیقت ہے کہ اسرائیلی قوم نے دستیاب مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور محنت و ذہانت کی مدد سے محدود وسائل کے باوجود ایک بڑی طاقت بننے میں کامیاب رہی۔ اسرائیلی حکومت نے پیسے کا درست استعمال کیا اور کرپشن سے دور رہی۔وہ گڈ گورنس کے ذریعے اپنی مملکت کو مضبوط بنیادوں پہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ آج اسرائیل ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک ہے جہاں شہریوں کو زندگی کی تمام سہولیت میسرّ ہیں اور وہ پْرآسائش طریقے سے وقت گذارتے ہیں۔
اسرائیلی حکمران طبقے کی ایک نمایاں کامیابی یہ ہے کہ اس نے اسلحہ سازی کی صنعت پہ بھرپورتوجہ دی۔ اس انڈسٹری پہ اربوں ڈالر خرچ کیے اور اسے ہر قسم کی سہولیات بہم پہنچائیں۔ نتیجہ یہ کہ آج ڈیرھ سو سے زائد اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیاں اپنی افواج کے زیراستعمال بیشتربھاری اور ہلکے ہتھیار خود تیار کرتی ہیں۔ یہ ہتھیار اپنی جدت اور کارکردگی کے لحاظ سے سپر پاور طاقتوں کے اسلحے کے ہم پلہ ہیں۔یہی وجہ ہے، دنیا کے کئی ممالک آج اسرائیل ساختہ اسلحہ خریدتے ہیں۔ ان میں اسلامی ممالک بھی شامل ہیں۔
اسلحہ فروخت کرنے والا بڑا ملک
2022ء میں اسرائیل نے ''ساڑھے بارہ ارب ڈالر''کا اسلحہ فروخت کیا۔ یوں وہ دنیا میں اسلحہ فروخت کرنے والا آٹھواں بڑا ملک بن گیا۔ صرف امریکا، روس، فرانس، چین، جرمنی ، اٹلی اور برطانیہ نے اس سے زیادہ اسلحہ فروخت کیا۔ یہ ایک ایسے ملک کی قابل ستائش کامیابی ہے جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹی مملکت قرار پاتا ہے۔ اسرائیل کے مقابلے میں اسلامی ممالک کہاں کھڑے ہیں؟
اعدادوشمار کی رو سے عالم اسلام میں ترکی سب سے زیادہ ہتھیار برآمد کرتا ہے۔اس نے 2022ء میں ساڑھے چار ارب ڈالر کے ہتھیار بیرون ممالک فروخت کیے۔اس کے بعد ایران (1ارب ڈالر)، اردن(5 کروڑ ڈالر )، مصر(4 کروڑ ڈالر )، مراکش(2 کروڑ ڈالر )اور متحدہ عرب امارات(1کروڑ بیس لاکھ ڈالر ) کا نمبر آتا ہے۔ پاکستان اْس سال صرف چالیس لاکھ ڈالر کا اسلحہ برآمد کر سکا۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں بنا قومی افواج کے زیراستعمال ہی آجاتا ہے۔لیکن پاکستانی اسلحہ ساز صنعت کی وسعت دیکھتے ہوئے پاکستان ساختہ ہتھیاروں کی بیرون ملک فروخت زیادہ ہونی چاہیے۔
درج بالا تقابلی جائزے سے یہ سچائی سامنے آتی ہے کہ پورے عالم اسلام میں ہر سال جتنا اسلحہ ایکسپورٹ ہوتا ہے، تقریباً اتنی ہی مالیت کا اسلحہ صرف اسرائیل بیرون ملک فروخت کرتا ہے۔اسرائیلی اسلحے کے خریداروں میں امریکا اور جرمنی جیسے انتہائی ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔ نیز اسرائیل بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والا بڑا ملک بھی بن رہا ہے۔
اسلحے کی سائنس وٹیکنالوجی میں مہارت پا لینے کے باعث ہی اسرائیلی حکمران طبقہ غرور وتکبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک بھی پڑوسی ملک عسکری لحاظ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔مصر کی افواج عددی برتری ضرور رکھتی ہیں مگر ماضی کی جنگوں میں اسرائیل اپنے اعلی و معیاری اسلحے کی وجہ سے انھیں شکست دے چکا۔اسی لیے مصری جرنیل اب اسرائیل سے جنگ کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔پھر وہ اربوں ڈالر سے بھی محروم نہیں ہونا چاہتے جو امریکا اسرائیل سے انھیں دور رکھنے کی خاطر فراہم کرتا ہے۔
مارٹرکی ایجاد
تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ اسرائیلیوں نے سب سے پہلے 1947ء میں بھاری اسلحہ بنانا شروع کیا۔ آغاز میں ایک مارٹر (چھوٹی توپ)ایجاد ہوا۔ یہ ہتھیار ایک زرعی کالج میں بنایا گیا جس کا نام میکفہ اسرائیل تھا۔ اس مارٹر کا نام ''داودیکا(Davidka)رکھا گیا۔ یہ مارٹر چالیس کلو وزنی گولہ پھینکتا تھا۔
داودیکا کا نشانہ اچھا نہیں تھا، مگر اس کا گولہ اتنی زوردار آواز میں پھٹتا تھا کہ دل دہل جائیں۔ اسرائیلی مورخین خود لکھتے ہیں کہ اس مارٹر سے 1947ء کی عرب اسرائیلی جنگ کے دوران دشمن کے مورچے کم ہی تباہ ہوئے، البتہ اس کے گولے پھٹنے پر عرب فوجی پسپا ہو جاتے تھے۔غرض ایسے خام اور ناکارہ ہتھیار بنانے سے اسرائیلی اسلحہ ساز صنعت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
اسرائیل کے چاروں طرف طاقتور مخالف موجود تھے۔ اس باعث اسرائیلی حکومت نے فیصلہ کیا کہ جدید اور مہلک ہتھیار بنائے جائیں تاکہ دشمن کا بھرپور مقابلہ ہو سکے۔ چناں چہ حکومت اسلحہ ساز کارخانے بنانے کے لیے ہر سال کروڑوں ڈالر خرچ کرنے لگی۔ جدید اسلحہ ایجاد کرنے کی خاطر سائنس وٹیکنالوجی کے مراکز قائم کیے گئے۔ حکومت نے حکم دے دیا کہ ہر بالغ اسرائیلی مردو وعورت پہ فرض ہے کہ وہ جنگی تربیت حاصل کرے۔ اس طرح کم آبادی ہونے کے باوجود اسرائیل عسکری طاقت بننے کی راہ پہ گامزن ہو گیا۔
بار گیورا
فلسطین میں آباد ہونے والے یہودی ویسے بیسویں صدی کے اوائل ہی سے چھوٹا اسلحہ بنانے لگے تھے۔ جب خریدی گئی زمینوں پہ یہودی بستیاں آباد ہو گئیں تو پانی کی تقسیم یا دیگر معاملات میں پڑوسی فلسطینی عربوں سے ان کے جھگڑے ہونے لگے۔ تب ہی بستیوں کا دفاع اور عربوں پہ حملے کرنے کے لیے مسلح تنظیمیں بنائی گئیں۔ایسی پہلے تنظیم ''بار گیورا''(Bar-Giora)تھی جو 1907ء تا 1909ء سرگرم عمل رہی۔
اس کے بعد نئی تنظیم، ''ہاشومیر''(Hashomer)کا قیام عمل میں آیا۔1920ء میں یہ تنظیم''ہگاناہ'' (Haganah)کہلانے لگی۔ اسی تنظیم کے زیراہتمام اسرائیلی انجیئنروں اور ماہرین نے پستول، بارودی سرنگیں اور دستی بم ایجاد کیے۔ یوں اسرائیلی اسلحہ ساز صنعت کی داغ بیل پڑ گئی۔
اسرائیلی مورخین دعوی کرتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہگاناہ کے ارکان برطانوی سب مشین گنیں فلسطین سمگل کرنے میں کامیاب رہے۔ تاہم مسلم مورخین کا استدلال ہے کہ برطانوی حکومت نے اس سلسلے میں چشم پوشی سے کام لیا کیونکہ وہ ہگاناہ کو طاقتور بنانا چاہتی تھی۔
اسرائیلی مورخین لکھتے ہیں کہ ہگاناہ کے ماہرین نے پھر ایک زرعی بستی کی بنیاد رکھی۔ یہود نے فلسطین میں بکثرت ایسی زرعی بستیاں بسا رکھی تھیں جنھیں ''کیبوتس''(Kibbutz)کہا گیا۔ ان بستیوں میں بڑی تعداد میں یہودی کسان خاندان رہتے اور کھیتوں میں کاشت کاری کرتے ہیں۔
اسلحہ ساز فیکٹری
ہگاناہ نے مگر جو کیبوتس قائم کیا ، وہ اصل میں اسلحہ ساز فیکٹری تھی۔وہاں زیرزمین مشین گنوں کا اسلحہ ،چھوٹے ہتھیاروں کی گولیاں اور بم وغیرہ تیار ہوتے تھے۔اس فیکٹری کے اوپر ایک بیکری واقع تھی۔ بیکری میں نصب خفیہ روشن دانوں کے ذریعے تازہ ہوا زیر زمین فیکٹری میں جاتی تھی۔جبکہ گندی ہوا کا اخراج ایک لانڈری (کپڑے دھونے کی جگہ)کے ذریعے ہوتا جو بیکری کے ساتھ ہی بنائی گئی تھی۔
ہگاناہ پولینڈ اور یوکرین سے پرزہ جات منگوا کر اسلحہ تیار کرتی تھی۔ جو ہتھیار بن جاتے ، وہ دودھ کے ٹرکوں میں چھپا کر باہر نکالے جاتے۔ وہ پھر تنظیم کے جتھوں میں تقسیم ہو جاتے۔ یہ ہتھیار فلسطینی مسلمانوں سے لڑنے اور انھیں شہید کرنے میں کام آتے۔
یہ عیاں ہے کہ تب فلسطین پہ حکومت کرنے والے برطانوی فوجی اس زیرزمین فیکٹری کی موجودگی سے آگاہ تھے مگر انھوں نے اسے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وجہ یہی کہ برطانوی حکمران طبقہ فلسطین میں کسی بھی طرح یہودی ریاست قائم کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔لہذا یہود کو عسکری طور پہ طاقتور بنانا اس کی خفیہ پالیسی تھی۔
رفتہ رفتہ برطانوی فوج کی موجودگی میں یہود نے اپنے اکثریتی علاقوں میں کئی زیرزمین اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم کر لیں۔ یوں وہ عسکری لحاظ سے طاقتور ہوگئے۔ اب وہ مخالفین کا بخوبی مقابلہ کر سکتے تھے۔ان فیکٹریوں میں ہر ماہ ہزاروں کلو گولہ بارود تیار ہو رہا تھا۔ جب انگریزوں نے دیکھا کہ یہود اسلحہ بنانے میں خودکفیل ہو چکے تو وہ 1948ء میں فلسطین سے رخصت ہو گئے۔
انگریز کے جاتے ہی یہود اور عرب مسلمانوں کے مابین جنگ چھڑ گئی۔عربوں کے پاس فرسودہ ہتھیار تھے، جبکہ یہود نے برطانوی فوج کی مدد سے جدید ہتھیار تیار کر لیے تھے۔اسی لیے جنگ میں ان کا پلّہ بھاری رہا۔اور مملکت اسرائیل وجود میں آگئی۔
جدید کمپنیاں
جنگ کے بعد تمام اسلحہ ساز فیکٹریوں کو ایک کمپنی، اسرائیل ملٹری انڈسٹریز ( Israel Military Industries )کے ماتحت کر دیا گیا۔ جلد ہی پوری دنیا سے یہود اسرائیل آنے لگے۔ان میں ایسے انجئینر اور سائنس داں بھی شامل تھے جو یورپ یا امریکا کی اسلحہ ساز کمپنیوں میں کام کر چکے تھے۔نوزائیدہ مملکت میں عسکری صنعت کی بنیاد رکھنے کے لیے اسرائیلی حکومت نے ان کی خدمات حاصل کر لیں۔
مہاجرین میں جرمنی سے آیا ا اسلحہ ڈیزائن کرنے والا ماہر، یوزی گال بھی شامل تھا۔اس نے 1950ء میں ایک سب مشین گن ایجاد کی جسے ''یوزی'' (Uzi)کا نام دیا گیا۔ اس ہتھیار کو دنیا بھر میں مقبولیت ملی اور امریکا، جرمنی، جاپان سمیت نوے ممالک کی افواج نے اسے خریدا۔یہ اب تک دس لاکھ سے زیادہ تعداد میں تیار ہو چکی۔
اسرائیلی حکمران طبقہ دراصل آگاہ تھا کہ صرف سائنس وٹیکنالوجی خصوصاً عسکریات میں مہارت تامہ پا کر ہی دشمنوں میں گھرا اسرائیل اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔اسی لیے اس نے ابتدا ہی سے سائنس وٹیکنالوجی کے فروغ کو اپنا مشن بنا لیا۔یہی وجہ ہے، اسرائیل کا پہلا صدر، حاییم ویزمان ایک کیمیا داں تھا۔ویسے یہودی مشہور طبیعات داں، آئن سٹائن کو اپنا صدر بنانا چاہتے تھے مگر اس نے انکار کر دیا۔
یہودی سائنس وٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے اتنے بے تاب تھے کہ آزادی سے دو ماہ قبل ہی ہگاناہ نے ایک خصوصی دستے ''سائنس کور''(Corps Science )کی بنیاد رکھ دی۔اس دستے میں فلسطین کے علاوہ دنیا بھر سے سائنس داں، انجئنیر، ٹیکنیشن وغیرہ بھرتی کیے گئے۔اس کور کا صدر دفتر تل ابیب میں بنایا گیا۔
رافیل کا قیام
1952ء میں وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے سائنس کور کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ریسرچ اینڈ ڈیزائن ڈائرکٹوریٹ ( Research and Design Directorate )کے ماہرین نت نیا اسلحہ بنانے کے سلسلے میں تحقیق وتجربات کرنے لگے۔ جبکہ دوسرے حصے کو رافیل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹمز (Rafael Advanced Defense Systems )کا نام ملا۔
رافیل آج مختلف جدید و مہلک میزائیل بنانے والی بڑی عالمی کمپنی بن چکی۔یہی کمپنی ''آئرن ڈوم ''کے میزائیل تیار کرتی ہے جو حماس او دیگر فلسطینی تنظیموں کے چھوڑے گئے راکٹ تباہ کرنے میں کام آتے ہیں۔
اس اسرائیلی کمپنی نے ایک بھارتی اسلحہ ساز ادارے، کلیانی سٹرٹیجک سسٹمز لمیٹڈ کے ساتھ مل کر بھارت میں میزائیل بنانے والی ایک نجی کمپنی،کیلانی رافیل ایڈوانسڈ سسٹمز لمیٹڈ ( Kalyani Rafael Advanced Systems Pvt. Ltd )کھول رکھی ہے۔2019ء میں اس کمپنی کو مودی حکومت نے اسرائیلی بارک8 میزائیل تیار کرنے کا ٹھیکہ دیا تھا جس کی مالیت دس کروڑ ڈالر تھی۔ پھر اگست 2023ء میں بھی اسے میزائیل سسٹمز فراہم کرنے کا ٹھیکہ ملا جس کی مالیت پونے تین ارب بھارتی روپے سے زائد ہے۔
امریکی جنگی جہاز اسرائیل میں
اسرائیل کی مضبوط بنیاد رکھنے میں ایک امریکی نژاد یہودی انجینئر، ایڈلف شویمر ( Adolph William Schwimmer )نے بھی اہم حصہ لیا۔ وہ جنگ عظیم دوم میں ہوائی جہازوں کی مرمت کرتا تھا۔ امریکی شعبہ ہوا بازی میں اس کے کئی دوست تھے۔ جب 1948ء میں عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو شویمر نے اپنے اثرورسوخ سے کام لیتے ہوئے تیس امریکی جنگی ہوائی جہاز اسرائیل اسمگل کر دئیے۔ اس نے پھر اسرائیلی حکومت کو پائلٹ بھی فراہم کیے۔ان جہازوں نے جنگ جیتنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
جنگ کے بعد امریکی حکومت نے غیرقانونی طور پہ امریکی طیارے اسرائیل اسمگل کرنے پر ایڈلف شویمر کے خلاف مقدمہ چلایا۔ اسے دس ہزار ڈالر کا جرمانہ ہوا مگر وہ جیل جانے سے محفوظ رہا۔ شویمر کا استدلال تھا کہ اس نے کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا بلکہ زائد طیارے ہی اسرائیل بھجوائے۔ 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن نے اسے معافی دے دی۔
مسلم ماہرین لکھتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے ، امریکی خفیہ ایجنسیوں کی کڑی نگاہ سے بچ کر تیس امریکی جنگی جہاز اسرائیل پہنچ گئے؟ظاہر ہے، اس اسمگلنگ کو امریکی حکمران طبقے کی آشیرباد حاصل تھی، تبھی وہ انجام پائی۔
ایڈلف شویمر کو 1950ء میں اسرائیلی وزیراعظم، بن گوریان نے اسرائیل بلوا لیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اسرائیل میں جنگی و سول طیارے بنانے والا ادارہ قائم کیا جائے۔ وہ یہ ذمے داری شویمر کو سونپنا چاہتا تھا۔ کہا جاتا ہے ، شویمر نے یہ ذمے داری قبول کرنے سے قبل صرف ایک شرط اسرائیلی وزیراعظم کے سامنے رکھی تھی۔وہ یہ کہ:
''ادارے میں کوئی سفارشی بھرتی نہیں ہو گا۔ اوپر سے نیچے تک ہر بھرتی میرٹ پر ہو گی۔''
بن گوریان نے یہ شرط قبول کر لی چناں چہ شویمر اسرائیل آ گیا اور پھر ساری عمر اسی ملک میں مقیم رہا۔ اس نے 1953ء میں اسرائیل ایروسپیس انڈسٹریز ( Israel Aerospace Industries)کی بنیاد رکھی جو آج مملکت کا بڑا اسلحہ ساز سرکاری ادارہ ہے۔ یہ جنگی طیارے، میزائیل، ڈرون اور دیگر ہتھیار بناتا ہے۔بھارت میں ایک اسلحہ ساز کمپنی،ہیلا سسٹمز پرائیوٹ لمیٹڈ ( HELA Systems Private Limited)مخلتف ہتھیار بناتی ہے۔ یہ بھارتی کمپنی اسرائیل ایروسپیس انڈسٹریز کی ملکیت ہے۔
اسرائیلی حکومت اور افواج نے نئے سائنس دانوں اور انجیئنروں کی تلاش کے لیے کئی پروگرام شروع کر رکھے ہیں۔ ان میں ( Talpiot program)، ( Program Havatzalot )، ( 81 Unit )اور ( 8200 Unit )قابل ذکر ہیں۔ اسرائیل کی سائنسی و ٹیکنالوجیکل یونیورسٹیوں کا شمار بھی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل میں سائنس دانوں اور انجینئروں کی کثرت ہے۔ اسرائیلی ماہرین امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔
ایک رپورٹ کی رو سے اسرائیل کی آدھی آبادی بیچلر ڈگری رکھتی ہے۔ اس اعتبار سے اسرائیل سب سے زیادہ تعلیم یافتہ آبادی رکھنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پہ فائز ہے۔اس ضمن میں صرف کینیڈا، جاپان، لکسمبرگ اور جنوبی کوریا اس سے آگے ہیں۔
یہ عیاں ہے کہ عسکری و معاشی طور پہ بے انتہا طاقتور ہونے کی صلاحیت نے اسرائیلی حکمران طبقے کو یہ قدرت بخش دی کہ وہ نہ صرف اہل دنیا کے کڑے دباو کا مقابلہ کر لے بلکہ ہر قیمت پر اپنے عزائم کی بھی تکمیل کر کے رہے۔حالانکہ اسرائیل آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کافی چھوٹا ملک ہے۔ اس میںصرف 93 لاکھ لوگ بستے ہیں۔بہ اعتبار آبادی یہ 98 ویں بڑی مملکت ہے۔ ان میں سے بھی سترہ لاکھ اسرائیلی مسلمان ہیں جو یہود حکومت کی مسلم دشمن پالیسیوں کے مخالف ہیں۔مملکت کا رقبہ محض ساڑھے بیس ہزار مربع کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے۔ دنیا کے سّکہ بند دو سو ممالک میں بہ لحاظ رقبہ اسرائیل کا 153 واں نمبر ہے۔
مسلم حکمرانوں نے کیا قدم اٹھایا؟
پھر یہ بھی سچ ہے کہ صرف پچھتر سال پہلے تک اسرائیل کو کوئی وجود نہ تھا۔ بلکہ 1880 ء تک فلسطین میں چند ہزار یہود ہی بستے تھے۔ اس کے بعدیورپی و امریکی امیر یہود نے فلسطین میں زمینیں خرید کر وہاں یہودی بستیاں قائم کیں اور یوں قیام ِاسرائیل کی راہ ہموار ہونے لگی۔تب سے فلسطینی اور عرب مسلمانوں کی مزاحمت کے باوجود فلسطین میں مسلسل یہودی بستیاں آباد ہو رہی ہیں۔ گویا اسرائیل کا رقبہ بھی بڑھ رہا ہے۔ اگر صورت حال یہی رہی تو اسرائیل ایک دن تمام فلسطینیوں کو پڑوسی مسلم ممالک میں دھکیل کر سارے فلسطین پہ قبضہ کر لے گا۔
اسرائیلی حکمران طبقہ بے شک فلسطین پہ قبضے کے لیے طاقت ، دھونس اور غنڈہ گردی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ عالم اسلام کے حکمرانوں نے فلسطین کا قبضہ روکنے،اسرائیلی استعمار کو شکست دینے اور فلسطینی مسلمانوں کو اسرائیل کے مظالم سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے ؟جواب یہی ہے کہ ایک بھی مسلم حکمران اسرائیل کا راستہ روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کر سکا۔ ترک حکمران ، طیب اردوغان نے ماضی میں کچھ عملی کوششیں کی تھیں لیکن پھر وہ بھی ناکام ہو کے بیٹھ گئے۔
اسرائیل کی فلسطینی مسلمانوں پہ حالیہ یلغار کے دوران بھی اسلامی ممالک کے حکمران بے عمل اور ناکارہ ثابت ہوئے۔ان کے اکٹھ نشستن، گفتن اور برخاستن کی عملی تصویر نظر آئے۔ حد یہ ہے کہ یہ حکمران اسرائیل کے خلاف کوئی متفقہ پالیسی نہیں بنا سکے۔بس وہ کبھی امریکا، کبھی یورپی یونین اور کبھی اقوام متحدہ سے استدعا کرتے رہے کہ وہ اسرائیل کو غزہ پر بم باری کرنے سے روک دیں۔جب مسلم حکمران اتنے مجبور و لاچار ہوں تو اپنے مفادات کی اسیر غیرمسلم حکومتیں ان کی خاک مدد کریں گی۔
تعلقات منجمند ہو گئے
حقیقت یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کی اسی بے عملی و بزدلی سے اسرائیل اور دیگر مسلمان دشمن ممالک مثلاً بھارت کو تقویت ملتی ہے۔ اب اسرائیلی حکمران طبقہ مغربی کنارے اور غزہ پہ مستقل قبضے کے لیے ہر قسم کا ظاہر وعیاں اقدام کر سکتا ہے۔ وہ جان چکا کہ فلسطین پہ قبضہ کرنے میں شاید ایک بھی مسلم حکمران رکاوٹ نہیں بنے گا۔یہی صورت حال مقبوضہ کشمیر میں درپیش ہے۔ وہاں بھی بھارتی حکمران طبقہ مسلسل مسلمانوں پہ مظالم ڈھا رہا ہے جبکہ عرب حکمران محض معاشی مفادات پورے کرنے کی خاطر مسلم دشمن بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے دوستی کی پینگیں جھول رہے ہیں۔
مظلوم و اسرائیلی ظلم کا شکار فلسطینی مسلمانوں کے لیے اس سے زیادہ صدمہ انگیز اور دردناک بات کیا ہو گی کہ اب عرب حکمران اسرائیل کے ساتھ معاشی ہی نہیں عسکری معاہدے بھی کر رہے ہیں۔شاید اسی لیے مزاحمتی فلسطینی تنظیم، حماس نے سات اکتوبر کی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ دنیا والوں خصوصاً عالم اسلا م کو یاد دلا سکے، باور کرا سکے کہ اسرائیل وہ مملکت ہے جو فلسطینیوں پہ ظلم وستم کر رہی ہے۔اس کارروائی سے بہرحال یہ نتیجہ نکلا کہ عرب حکمرانوں اور اسرائیل کے مابین بڑھتے تعلقات منجمد ہو گئے۔
مواقع سے بھرپور فائدہ
یہ درست ہے کہ اسرائیل کو معاشی و عسکری طور پہ طاقتور بنانے میں امریکا، برطانیہ ، فرانس اور جرمنی نے اہم کردار ادا کیا۔ یہ بھی مگر حقیقت ہے کہ اسرائیلی قوم نے دستیاب مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور محنت و ذہانت کی مدد سے محدود وسائل کے باوجود ایک بڑی طاقت بننے میں کامیاب رہی۔ اسرائیلی حکومت نے پیسے کا درست استعمال کیا اور کرپشن سے دور رہی۔وہ گڈ گورنس کے ذریعے اپنی مملکت کو مضبوط بنیادوں پہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ آج اسرائیل ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک ہے جہاں شہریوں کو زندگی کی تمام سہولیت میسرّ ہیں اور وہ پْرآسائش طریقے سے وقت گذارتے ہیں۔
اسرائیلی حکمران طبقے کی ایک نمایاں کامیابی یہ ہے کہ اس نے اسلحہ سازی کی صنعت پہ بھرپورتوجہ دی۔ اس انڈسٹری پہ اربوں ڈالر خرچ کیے اور اسے ہر قسم کی سہولیات بہم پہنچائیں۔ نتیجہ یہ کہ آج ڈیرھ سو سے زائد اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنیاں اپنی افواج کے زیراستعمال بیشتربھاری اور ہلکے ہتھیار خود تیار کرتی ہیں۔ یہ ہتھیار اپنی جدت اور کارکردگی کے لحاظ سے سپر پاور طاقتوں کے اسلحے کے ہم پلہ ہیں۔یہی وجہ ہے، دنیا کے کئی ممالک آج اسرائیل ساختہ اسلحہ خریدتے ہیں۔ ان میں اسلامی ممالک بھی شامل ہیں۔
اسلحہ فروخت کرنے والا بڑا ملک
2022ء میں اسرائیل نے ''ساڑھے بارہ ارب ڈالر''کا اسلحہ فروخت کیا۔ یوں وہ دنیا میں اسلحہ فروخت کرنے والا آٹھواں بڑا ملک بن گیا۔ صرف امریکا، روس، فرانس، چین، جرمنی ، اٹلی اور برطانیہ نے اس سے زیادہ اسلحہ فروخت کیا۔ یہ ایک ایسے ملک کی قابل ستائش کامیابی ہے جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹی مملکت قرار پاتا ہے۔ اسرائیل کے مقابلے میں اسلامی ممالک کہاں کھڑے ہیں؟
اعدادوشمار کی رو سے عالم اسلام میں ترکی سب سے زیادہ ہتھیار برآمد کرتا ہے۔اس نے 2022ء میں ساڑھے چار ارب ڈالر کے ہتھیار بیرون ممالک فروخت کیے۔اس کے بعد ایران (1ارب ڈالر)، اردن(5 کروڑ ڈالر )، مصر(4 کروڑ ڈالر )، مراکش(2 کروڑ ڈالر )اور متحدہ عرب امارات(1کروڑ بیس لاکھ ڈالر ) کا نمبر آتا ہے۔ پاکستان اْس سال صرف چالیس لاکھ ڈالر کا اسلحہ برآمد کر سکا۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں بنا قومی افواج کے زیراستعمال ہی آجاتا ہے۔لیکن پاکستانی اسلحہ ساز صنعت کی وسعت دیکھتے ہوئے پاکستان ساختہ ہتھیاروں کی بیرون ملک فروخت زیادہ ہونی چاہیے۔
درج بالا تقابلی جائزے سے یہ سچائی سامنے آتی ہے کہ پورے عالم اسلام میں ہر سال جتنا اسلحہ ایکسپورٹ ہوتا ہے، تقریباً اتنی ہی مالیت کا اسلحہ صرف اسرائیل بیرون ملک فروخت کرتا ہے۔اسرائیلی اسلحے کے خریداروں میں امریکا اور جرمنی جیسے انتہائی ترقی یافتہ ممالک شامل ہیں۔ نیز اسرائیل بھارت کو ہتھیار فراہم کرنے والا بڑا ملک بھی بن رہا ہے۔
اسلحے کی سائنس وٹیکنالوجی میں مہارت پا لینے کے باعث ہی اسرائیلی حکمران طبقہ غرور وتکبر کا مظاہرہ کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک بھی پڑوسی ملک عسکری لحاظ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔مصر کی افواج عددی برتری ضرور رکھتی ہیں مگر ماضی کی جنگوں میں اسرائیل اپنے اعلی و معیاری اسلحے کی وجہ سے انھیں شکست دے چکا۔اسی لیے مصری جرنیل اب اسرائیل سے جنگ کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔پھر وہ اربوں ڈالر سے بھی محروم نہیں ہونا چاہتے جو امریکا اسرائیل سے انھیں دور رکھنے کی خاطر فراہم کرتا ہے۔
مارٹرکی ایجاد
تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ اسرائیلیوں نے سب سے پہلے 1947ء میں بھاری اسلحہ بنانا شروع کیا۔ آغاز میں ایک مارٹر (چھوٹی توپ)ایجاد ہوا۔ یہ ہتھیار ایک زرعی کالج میں بنایا گیا جس کا نام میکفہ اسرائیل تھا۔ اس مارٹر کا نام ''داودیکا(Davidka)رکھا گیا۔ یہ مارٹر چالیس کلو وزنی گولہ پھینکتا تھا۔
داودیکا کا نشانہ اچھا نہیں تھا، مگر اس کا گولہ اتنی زوردار آواز میں پھٹتا تھا کہ دل دہل جائیں۔ اسرائیلی مورخین خود لکھتے ہیں کہ اس مارٹر سے 1947ء کی عرب اسرائیلی جنگ کے دوران دشمن کے مورچے کم ہی تباہ ہوئے، البتہ اس کے گولے پھٹنے پر عرب فوجی پسپا ہو جاتے تھے۔غرض ایسے خام اور ناکارہ ہتھیار بنانے سے اسرائیلی اسلحہ ساز صنعت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔
اسرائیل کے چاروں طرف طاقتور مخالف موجود تھے۔ اس باعث اسرائیلی حکومت نے فیصلہ کیا کہ جدید اور مہلک ہتھیار بنائے جائیں تاکہ دشمن کا بھرپور مقابلہ ہو سکے۔ چناں چہ حکومت اسلحہ ساز کارخانے بنانے کے لیے ہر سال کروڑوں ڈالر خرچ کرنے لگی۔ جدید اسلحہ ایجاد کرنے کی خاطر سائنس وٹیکنالوجی کے مراکز قائم کیے گئے۔ حکومت نے حکم دے دیا کہ ہر بالغ اسرائیلی مردو وعورت پہ فرض ہے کہ وہ جنگی تربیت حاصل کرے۔ اس طرح کم آبادی ہونے کے باوجود اسرائیل عسکری طاقت بننے کی راہ پہ گامزن ہو گیا۔
بار گیورا
فلسطین میں آباد ہونے والے یہودی ویسے بیسویں صدی کے اوائل ہی سے چھوٹا اسلحہ بنانے لگے تھے۔ جب خریدی گئی زمینوں پہ یہودی بستیاں آباد ہو گئیں تو پانی کی تقسیم یا دیگر معاملات میں پڑوسی فلسطینی عربوں سے ان کے جھگڑے ہونے لگے۔ تب ہی بستیوں کا دفاع اور عربوں پہ حملے کرنے کے لیے مسلح تنظیمیں بنائی گئیں۔ایسی پہلے تنظیم ''بار گیورا''(Bar-Giora)تھی جو 1907ء تا 1909ء سرگرم عمل رہی۔
اس کے بعد نئی تنظیم، ''ہاشومیر''(Hashomer)کا قیام عمل میں آیا۔1920ء میں یہ تنظیم''ہگاناہ'' (Haganah)کہلانے لگی۔ اسی تنظیم کے زیراہتمام اسرائیلی انجیئنروں اور ماہرین نے پستول، بارودی سرنگیں اور دستی بم ایجاد کیے۔ یوں اسرائیلی اسلحہ ساز صنعت کی داغ بیل پڑ گئی۔
اسرائیلی مورخین دعوی کرتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہگاناہ کے ارکان برطانوی سب مشین گنیں فلسطین سمگل کرنے میں کامیاب رہے۔ تاہم مسلم مورخین کا استدلال ہے کہ برطانوی حکومت نے اس سلسلے میں چشم پوشی سے کام لیا کیونکہ وہ ہگاناہ کو طاقتور بنانا چاہتی تھی۔
اسرائیلی مورخین لکھتے ہیں کہ ہگاناہ کے ماہرین نے پھر ایک زرعی بستی کی بنیاد رکھی۔ یہود نے فلسطین میں بکثرت ایسی زرعی بستیاں بسا رکھی تھیں جنھیں ''کیبوتس''(Kibbutz)کہا گیا۔ ان بستیوں میں بڑی تعداد میں یہودی کسان خاندان رہتے اور کھیتوں میں کاشت کاری کرتے ہیں۔
اسلحہ ساز فیکٹری
ہگاناہ نے مگر جو کیبوتس قائم کیا ، وہ اصل میں اسلحہ ساز فیکٹری تھی۔وہاں زیرزمین مشین گنوں کا اسلحہ ،چھوٹے ہتھیاروں کی گولیاں اور بم وغیرہ تیار ہوتے تھے۔اس فیکٹری کے اوپر ایک بیکری واقع تھی۔ بیکری میں نصب خفیہ روشن دانوں کے ذریعے تازہ ہوا زیر زمین فیکٹری میں جاتی تھی۔جبکہ گندی ہوا کا اخراج ایک لانڈری (کپڑے دھونے کی جگہ)کے ذریعے ہوتا جو بیکری کے ساتھ ہی بنائی گئی تھی۔
ہگاناہ پولینڈ اور یوکرین سے پرزہ جات منگوا کر اسلحہ تیار کرتی تھی۔ جو ہتھیار بن جاتے ، وہ دودھ کے ٹرکوں میں چھپا کر باہر نکالے جاتے۔ وہ پھر تنظیم کے جتھوں میں تقسیم ہو جاتے۔ یہ ہتھیار فلسطینی مسلمانوں سے لڑنے اور انھیں شہید کرنے میں کام آتے۔
یہ عیاں ہے کہ تب فلسطین پہ حکومت کرنے والے برطانوی فوجی اس زیرزمین فیکٹری کی موجودگی سے آگاہ تھے مگر انھوں نے اسے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وجہ یہی کہ برطانوی حکمران طبقہ فلسطین میں کسی بھی طرح یہودی ریاست قائم کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔لہذا یہود کو عسکری طور پہ طاقتور بنانا اس کی خفیہ پالیسی تھی۔
رفتہ رفتہ برطانوی فوج کی موجودگی میں یہود نے اپنے اکثریتی علاقوں میں کئی زیرزمین اسلحہ ساز فیکٹریاں قائم کر لیں۔ یوں وہ عسکری لحاظ سے طاقتور ہوگئے۔ اب وہ مخالفین کا بخوبی مقابلہ کر سکتے تھے۔ان فیکٹریوں میں ہر ماہ ہزاروں کلو گولہ بارود تیار ہو رہا تھا۔ جب انگریزوں نے دیکھا کہ یہود اسلحہ بنانے میں خودکفیل ہو چکے تو وہ 1948ء میں فلسطین سے رخصت ہو گئے۔
انگریز کے جاتے ہی یہود اور عرب مسلمانوں کے مابین جنگ چھڑ گئی۔عربوں کے پاس فرسودہ ہتھیار تھے، جبکہ یہود نے برطانوی فوج کی مدد سے جدید ہتھیار تیار کر لیے تھے۔اسی لیے جنگ میں ان کا پلّہ بھاری رہا۔اور مملکت اسرائیل وجود میں آگئی۔
جدید کمپنیاں
جنگ کے بعد تمام اسلحہ ساز فیکٹریوں کو ایک کمپنی، اسرائیل ملٹری انڈسٹریز ( Israel Military Industries )کے ماتحت کر دیا گیا۔ جلد ہی پوری دنیا سے یہود اسرائیل آنے لگے۔ان میں ایسے انجئینر اور سائنس داں بھی شامل تھے جو یورپ یا امریکا کی اسلحہ ساز کمپنیوں میں کام کر چکے تھے۔نوزائیدہ مملکت میں عسکری صنعت کی بنیاد رکھنے کے لیے اسرائیلی حکومت نے ان کی خدمات حاصل کر لیں۔
مہاجرین میں جرمنی سے آیا ا اسلحہ ڈیزائن کرنے والا ماہر، یوزی گال بھی شامل تھا۔اس نے 1950ء میں ایک سب مشین گن ایجاد کی جسے ''یوزی'' (Uzi)کا نام دیا گیا۔ اس ہتھیار کو دنیا بھر میں مقبولیت ملی اور امریکا، جرمنی، جاپان سمیت نوے ممالک کی افواج نے اسے خریدا۔یہ اب تک دس لاکھ سے زیادہ تعداد میں تیار ہو چکی۔
اسرائیلی حکمران طبقہ دراصل آگاہ تھا کہ صرف سائنس وٹیکنالوجی خصوصاً عسکریات میں مہارت تامہ پا کر ہی دشمنوں میں گھرا اسرائیل اپنا وجود برقرار رکھ سکتا ہے۔اسی لیے اس نے ابتدا ہی سے سائنس وٹیکنالوجی کے فروغ کو اپنا مشن بنا لیا۔یہی وجہ ہے، اسرائیل کا پہلا صدر، حاییم ویزمان ایک کیمیا داں تھا۔ویسے یہودی مشہور طبیعات داں، آئن سٹائن کو اپنا صدر بنانا چاہتے تھے مگر اس نے انکار کر دیا۔
یہودی سائنس وٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے اتنے بے تاب تھے کہ آزادی سے دو ماہ قبل ہی ہگاناہ نے ایک خصوصی دستے ''سائنس کور''(Corps Science )کی بنیاد رکھ دی۔اس دستے میں فلسطین کے علاوہ دنیا بھر سے سائنس داں، انجئنیر، ٹیکنیشن وغیرہ بھرتی کیے گئے۔اس کور کا صدر دفتر تل ابیب میں بنایا گیا۔
رافیل کا قیام
1952ء میں وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان نے سائنس کور کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ریسرچ اینڈ ڈیزائن ڈائرکٹوریٹ ( Research and Design Directorate )کے ماہرین نت نیا اسلحہ بنانے کے سلسلے میں تحقیق وتجربات کرنے لگے۔ جبکہ دوسرے حصے کو رافیل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹمز (Rafael Advanced Defense Systems )کا نام ملا۔
رافیل آج مختلف جدید و مہلک میزائیل بنانے والی بڑی عالمی کمپنی بن چکی۔یہی کمپنی ''آئرن ڈوم ''کے میزائیل تیار کرتی ہے جو حماس او دیگر فلسطینی تنظیموں کے چھوڑے گئے راکٹ تباہ کرنے میں کام آتے ہیں۔
اس اسرائیلی کمپنی نے ایک بھارتی اسلحہ ساز ادارے، کلیانی سٹرٹیجک سسٹمز لمیٹڈ کے ساتھ مل کر بھارت میں میزائیل بنانے والی ایک نجی کمپنی،کیلانی رافیل ایڈوانسڈ سسٹمز لمیٹڈ ( Kalyani Rafael Advanced Systems Pvt. Ltd )کھول رکھی ہے۔2019ء میں اس کمپنی کو مودی حکومت نے اسرائیلی بارک8 میزائیل تیار کرنے کا ٹھیکہ دیا تھا جس کی مالیت دس کروڑ ڈالر تھی۔ پھر اگست 2023ء میں بھی اسے میزائیل سسٹمز فراہم کرنے کا ٹھیکہ ملا جس کی مالیت پونے تین ارب بھارتی روپے سے زائد ہے۔
امریکی جنگی جہاز اسرائیل میں
اسرائیل کی مضبوط بنیاد رکھنے میں ایک امریکی نژاد یہودی انجینئر، ایڈلف شویمر ( Adolph William Schwimmer )نے بھی اہم حصہ لیا۔ وہ جنگ عظیم دوم میں ہوائی جہازوں کی مرمت کرتا تھا۔ امریکی شعبہ ہوا بازی میں اس کے کئی دوست تھے۔ جب 1948ء میں عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو شویمر نے اپنے اثرورسوخ سے کام لیتے ہوئے تیس امریکی جنگی ہوائی جہاز اسرائیل اسمگل کر دئیے۔ اس نے پھر اسرائیلی حکومت کو پائلٹ بھی فراہم کیے۔ان جہازوں نے جنگ جیتنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
جنگ کے بعد امریکی حکومت نے غیرقانونی طور پہ امریکی طیارے اسرائیل اسمگل کرنے پر ایڈلف شویمر کے خلاف مقدمہ چلایا۔ اسے دس ہزار ڈالر کا جرمانہ ہوا مگر وہ جیل جانے سے محفوظ رہا۔ شویمر کا استدلال تھا کہ اس نے کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا بلکہ زائد طیارے ہی اسرائیل بھجوائے۔ 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن نے اسے معافی دے دی۔
مسلم ماہرین لکھتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے ، امریکی خفیہ ایجنسیوں کی کڑی نگاہ سے بچ کر تیس امریکی جنگی جہاز اسرائیل پہنچ گئے؟ظاہر ہے، اس اسمگلنگ کو امریکی حکمران طبقے کی آشیرباد حاصل تھی، تبھی وہ انجام پائی۔
ایڈلف شویمر کو 1950ء میں اسرائیلی وزیراعظم، بن گوریان نے اسرائیل بلوا لیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اسرائیل میں جنگی و سول طیارے بنانے والا ادارہ قائم کیا جائے۔ وہ یہ ذمے داری شویمر کو سونپنا چاہتا تھا۔ کہا جاتا ہے ، شویمر نے یہ ذمے داری قبول کرنے سے قبل صرف ایک شرط اسرائیلی وزیراعظم کے سامنے رکھی تھی۔وہ یہ کہ:
''ادارے میں کوئی سفارشی بھرتی نہیں ہو گا۔ اوپر سے نیچے تک ہر بھرتی میرٹ پر ہو گی۔''
بن گوریان نے یہ شرط قبول کر لی چناں چہ شویمر اسرائیل آ گیا اور پھر ساری عمر اسی ملک میں مقیم رہا۔ اس نے 1953ء میں اسرائیل ایروسپیس انڈسٹریز ( Israel Aerospace Industries)کی بنیاد رکھی جو آج مملکت کا بڑا اسلحہ ساز سرکاری ادارہ ہے۔ یہ جنگی طیارے، میزائیل، ڈرون اور دیگر ہتھیار بناتا ہے۔بھارت میں ایک اسلحہ ساز کمپنی،ہیلا سسٹمز پرائیوٹ لمیٹڈ ( HELA Systems Private Limited)مخلتف ہتھیار بناتی ہے۔ یہ بھارتی کمپنی اسرائیل ایروسپیس انڈسٹریز کی ملکیت ہے۔
اسرائیلی حکومت اور افواج نے نئے سائنس دانوں اور انجیئنروں کی تلاش کے لیے کئی پروگرام شروع کر رکھے ہیں۔ ان میں ( Talpiot program)، ( Program Havatzalot )، ( 81 Unit )اور ( 8200 Unit )قابل ذکر ہیں۔ اسرائیل کی سائنسی و ٹیکنالوجیکل یونیورسٹیوں کا شمار بھی دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ اسرائیل میں سائنس دانوں اور انجینئروں کی کثرت ہے۔ اسرائیلی ماہرین امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہے ہیں۔
ایک رپورٹ کی رو سے اسرائیل کی آدھی آبادی بیچلر ڈگری رکھتی ہے۔ اس اعتبار سے اسرائیل سب سے زیادہ تعلیم یافتہ آبادی رکھنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پہ فائز ہے۔اس ضمن میں صرف کینیڈا، جاپان، لکسمبرگ اور جنوبی کوریا اس سے آگے ہیں۔