شکاگو میں سجی اردو کی محفل

عالمی مشاعرے اور کتاب کی تقریب رونمائی کی روداد

عالمی مشاعرے اور کتاب کی تقریب رونمائی کی روداد ۔ فوٹو : فائل

گذشتہ دنوں شکاگو میں سخنور شکاگو کے زیراہتمام 42 واں عالمی مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں بھارت پاکستان کینیڈا اور امریکا کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے ممتاز شعرا نے شرکت کی۔ اس موقع پر کینیڈا سے آئی ہوئی پاکستان کی ممتاز شاعرہ ذکیہ غزل کے شعری مجموعے ''تعبیریں'' کی تقریب رونمائی کا انعقاد بھی کیا گیا۔ تقریب کا آغاز شکاگو کے نوجوان شاعر اور حافظ خاور حسین کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ سخنور شکاگو کے عابدرشید نے مختصر تعارف پیش کیا۔ مشاعرے کی صدارت شکاگو کے ممتاز شاعر ڈاکٹر توفیق انصاری نے کی جب کہ پاکستان کی قومی اسمبلی کی سابق رکن کشور زہرہ اور شکاگو کی ممتاز ادبی شخصیت اور شاعرہ رضیہ فصیح احمد نے بھی شرکت کی۔

ذکیہ غزل کی کتاب تعبیریں کی راہ نمائی کے موقع پر محترمہ کشور زہرہ، قمر رضا شہزاد، عباس تابش اور خود ذکیہ غزل نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ عباس تابش نے کہا کہ پروین شاکر کے بعد جو شاعرات پاکستان کے منظرنامے پر ہمیں دکھائی دیں ان میں نمایاں ترین آواز ذکیہ غزل کی ہے۔ انہیں ہم نے مشاعروں میں بھی سنا اور نشستوں میں بھی سنا۔ معاملہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک تقسیم ہوگئی ہے کہ کچھ شاعر سمجھے جاتے ہیں کہ یہ مشاعرے کے ہیں اور کچھ شاعر کتاب کے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاعر کا فیصلہ کتاب میں ہوتا ہے۔ مشاعرہ ہماری ایک تہذیبی روایت ہے۔

ہمارے ہاں 80 کی دہائی میں ایسی شاعری بھی ہوئی جو ٹریش شاعری ہے۔ محبت کا لفظ بہت استعمال کیا گیا لیکن شاعری میں محبت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ صرف محبت کا لفظ ملتا تھا تو ہمارے کچھ شعراء اور شاعرات نے اس طرح کی شاعری کر کے کمرشیل ضرورت کو پورا کیا۔ یہ دھارا ہر دور میں چلتا ہے۔ میر صاحب کا زمانہ ہو قلندر بخش جرات نظر اتے ہیں وہ بھی یہی شاعری کرتے تھے۔ پورا لکھنؤ قلندر کا دیوانہ تھا اور میرصاحب کو جاننے والے بہت کم تھے، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ میر میر ہے اور قلندر بخش جرأت کا کسی کو ایک شعر بھی یاد نہیں ہے۔ وہ شاعر اور شاعرات جو خالص شاعری کو لے کر چلتے ہیں ان میں ذکیہ غزل صاحبہ کا شمار ہوتا ہے۔

قمر رضا شہزاد نے کہا کہ جب میں پاکستان سے باہر کسی شخص کو دیکھتا ہوں کہ وہ ان تقریبات کا اہتمام کرتا ہے تو مجھے وہ زیادہ اہم نظر آتا ہے۔ میں عابد رشید صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور شکاگو کے ان تمام شعراء کا جو یہاں موجود ہیں کہ ملک سے باہر اردو زبان کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہم اردو شاعری کے جس عہد سے گزر رہے ہیں یقیناً یہ اس لحاظ سے مشکل ہے کہ سوشل میڈیا نے اس تربیتی ادارے یا اس پراسس کو ختم کردیا ہے جہاں سے گزر کر کوئی شعر وادب کی دنیا میں داخل ہوتا ہے۔

ایک شاعر کو معتبر حلقوں سے شاعری منوانے میں وقت لگتا تھا، لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ ادھر پہلی غزل کہی، فیس بک پر پوسٹ کی اور سیکڑوں بے ذوق لوگوں کی داد اور کمنٹس سے شاعر بن کے اعلٰی شاعر کا مقام حاصل کرلیتے ہیں اور یوں بدقسمتی سے شعراء اور سامعین کی ایک ایسی نسل تیار ہو رہی ہے جن کے قریب سے بھی شاعری نہیں گزری۔ اس پر دوسری بدنصیبی یہ ہوئی کہ ہمارے مشاعروں میں سطحی کلام، سطحی سامعین کی داد سے پروان چڑھنے لگا۔ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ ایک اچھا شاعر تربیتی مراحل طے کرنے کے بعد شعر اور ادب کی دنیا میں داخل ہوکر بڑی مشکل سے اپنے شعر پر صاحب ذوق یا کسی عمدہ شاعر سے داد پاتا تھا۔ ذکیہ غزل ایک ایسی ہی نسل کی شاعرہ ہیں۔ انہوں نے لمحوں میں اپنا مقام نہیں بنایا بلکہ شاعری کے تمام تربیتی مراحل طے کرکے یہاں تک آئی ہیں۔ 80 کی دہائی ان کی شاعری کے ارتقائی سفر کا زمانہ ہے، انہوں نے اپنے شعر پر اپنے عہد کے ان تمام بڑے شعراء سے داد حاصل کی ہے جن کا کہا سنا سمجھا جاتا ہے۔

اپنے اوائل کے زمانے میں ہی ان کی شاعری نے سنجیدہ ادبی حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کردیا تھا۔ ادبی جرائد سے لے کر پاکستان اور پاکستان سے باہر مشاعروں میں ان کے کلام نے پذیرائی حاصل کی۔ پہلا مجموعہ 2002 میں شائع ہوا پھر دوسرا اور اب تیسرا مجموعہ، تعبیریں، منظر عام پر آیا ہے۔

یقیناً اس دوران وہ گھریلو ذمے داریاں بھی نبھاتی رہیں، لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ان کے اس تیسرے مجموعے کے مطالعے کے بعد کہیں یہ احساس جنم نہیں لیتا کہ ان کے شعری سفر میں کسی طرح کی رکاوٹ آئی ہو۔ ان کا شعری وفور اسی طرح ہے جیسا کہ پہلے مجموعے میں تھا۔ ان کی شاعری زندگی کے ان تجربوں سے جڑی ہوئی ہے جو ان کی ذات پر گزرے وہ تمام محبتیں نفرتیں محرومیاں اور کام یابیاں جو انہیں ملیں ان کے تخلیقی تجربے میں ڈھلیں۔ اس موقع پر ذکیہ غزل نے کہا کہ عزت اللّہ تعالٰی عطا کرتا ہے لیکن عزت کی حفاظت ہماری ذمے داری ہوتی ہے، جس طرح اللّہ تعالٰی صحت عطا کرتا ہے اس کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہوتی ہے اس طرح عزت بھی بہت بڑی چیز ہے۔ میں ہمیشہ یہ کوشش کرتی ہوں کہ اگر میں پاکستان کا نام لے کر کہیں جا رہی ہوں یا پاکستان کا چہرہ کہیں دکھا رہی ہوں یا پاکستان کا نام میرے ساتھ ہے تو میں اس نام کو مزید بلند کروں۔

کتاب کی تقریب رونمائی کے بعد مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ سب سے پہلے مشاعرے کی میزبان حمیرا گل تشنہ نے اپنا کلام سنایا:

تمہارے سر پر آئی تو خدا کی آزمائش ہے

مصیبت ہم پر آئی تو مکافات عمل ٹھہری

کسی بھی کھیل میں شامل نہیں ہوں

میں تیری راہ میں حائل نہیں ہوں

یہ اپنا علم اپنے پاس رکھو

سنو میں بھی کوئی جاہل نہیں ہوں

ان کے بعد دیگر شعرا نے اپنا کلام پیش کیا:

عابد رشید

یہ کون ہے جو زمیں پر خدا بنا ہوا ہے

ہمارے ساتھ یہ ایک اور سانحہ ہوا ہے

ہے کون راہ نما اور کون ہے رہزن

سنا ہے رات گئے کوئی فیصلہ ہوا ہے

بینا گوندی

نہ چہرہ ہی بدلتا ہے نہ وہ تیور بدلتا ہے

وہ ظالم صرف اپنے ہاتھ کا پتھر بدلتا ہے

وہ تو مل جائے مجھے خواب میں شاید لیکن

ڈھونڈتی رہتی ہوں اب خواب بھی نہیں ملتے

ڈاکٹر فرحت شری

نہ جانے کیوں مجھے اس بولتی چنگھاڑتی دنیا سے وحشت ہو چلی ہے

کہیں پہلے پہل اس سحر میں رہنا مجھے بھی بھا رہا تھا

یہی لکھا تھا شاید میں نے بھی اپنی کہانی کا کوئی حصہ

جھجکتا ہچکچاتا سا کوئی بے نام سا قصہ

اعجاز حسین بھٹی

منزل پہ مجھ سے پہلے پہنچتا ہے کوئی اور

یارب میرے پروں سے یہ تاخیر کھینچ لے

زمین سے آسمانوں پر اٹھا کر رکھ دیا مجھ کو

مری ماں کی دعاؤں نے چھپا کر رکھ دیا مجھ کو

راشدنور

جو کبھی پلکوں تلک آتے نہ تھے

آنکھ وہ آنسو بہا جاتی ہے روز

تھپکیاں دے کر، دلاسے زیست کے

اک خبر مقتل سے آجاتی ہے روز

طاہر شہیر

بڑھاپے کے افیئر کا بھی ایڈوانٹیج نہیں ہوتا

اگر ہوجائے بھی تو ٹھیک سے مینج نہیں ہوتا

میں ایک عام سا عاشق وہ اس کی پھپھو کا بیٹا تھا

ان دونوں کی شادی مرے لیے اک نائن الیون تھا

چاہے اس سے ہر میدان میں آگے تھا میں کیا کرتا

میرا فارم تھا 45 اس کا 47 تھا

مقصود وفا

ہوتے ہوتے ترے رازوں کی خبر ہوتی ہے

چلتے چلتے تری دنیا کا پتا چلتا ہے

گھر میں ترتیب سے رکھی ہوئی چیزوں سے مجھے

اپنی برباد تمنا کا پتا چلتا ہے

سید نوید جعفری (بھارت)

فاصلوں کے درمیاں تھا آنسوؤں کا سلسلہ

بے خبر تھے ہر خبر سے ہم سمندر پار کی

قمر رضا شہزاد


تمام شہر مری جان کو ہے آیا ہوا

مجھے تو ایک محبت نہ ہے بچایا ہوا

سب اپنی اپنی طرف کھینچنے میں تھے مصروف

مجھے کوئی بھی خدا کی طرف نہیں لایا

ہر ایک دکھ نہ سپرد قلم کیا جائے

یہ عشق ہے اسے کم کم رقم کیا جائے

سنائی جائے کوئی داستاں محبت کی

میں تھک چکا ہوں مجھے تازہ دم کیا جائے

الزام کوئی سر پہ اٹھا کر نہیں آیا

میدان سے میں جان بچا کر نہیں آیا

اے دوست یہ تہذیب مجھے عشق نے دی ہے

میں دشت میں بھی خاک آڑا کر نہیں آیا

محترمہ ذکیہ غزل

عدل کے ورق پھاڑے مکتب سیاست نے

پھر گناہ کیا تیرا میری بے گناہی کیا

احتساب دل کا جب ہر حساب چکتا ہے

تیری کم نگاہی کیا، میری خوش نگاہی کیا

ہم امیدفردہ کے رہ روانے منزل ہیں

صبح کے اجالوں کو رات کی سیاہی کیا

میں نے مانگی تھی اجالے کی صرف ایک کرن

تم سے یہ کس نے کہا آگ لگا دی جائے

سوچ کر جدا ہونا پھر کہ مل نہ پائیں گے

کیوں کہ اس زمانے میں معجزے نہیں ہوتے

جو بھی تھے گلے شکوے دور کرکے جانا تھا

کم سے کم بچھڑنے پر دل برے نہیں ہوتے

شب کی تیرگی کا غم اس طرح بھلانا ہے

ہر منڈیر پر گھر کی اک دیا جلانا ہے

ملک بیچ دیتے ہو بے ضمیر ہو اتنے

کیا تمہارے بچوں کا اور کوئی ٹھکانا ہے

شہر کی فصیلوں پر کیوں پیام لکھتے ہو

تم کو زوربازو سے انقلاب لانا ہے

مہمان خصوصی عباس تابش

دُہائی دیتا رہے جو دہائی دیتا ہے

کہ بادشاہ کو اونچا سنائی دیتا ہے

تو اس سے مانگ رہا ہے فقط غزل کی بھیک

خدا تو مُلک سخن کی خدائی دیتا ہے

ہم اس لیے بھی تجھے بولنے سے روکتے ہیں

تو چپ رہے تو زیادہ سنائی دیتا ہے

گزر چکا ہے کم و بیش عرصۂ ہستی

کہیں کہیں کوئی لمحہ دکھائی دیتا ہے

جواب دیتی ہے میری تمام باتوں کا

کہ ماں کو قبر کے اندر سنائی دیتا ہے

مرغابیوں کی نقل مکانی میں ہم بھی تھے

گولی چلی تو جھیل کے پانی میں ہم بھی تھے

پھر اپنا ہوگیا تھا مصنف سے اختلاف

کچھ دیر کے لیے تو کہانی میں ہم بھی تھے

صدر مشاعرہ ڈاکٹر توفیق انصاری

دھوپ سے دھوکا بڑا کھایا میاں

سر سے اونچا ہوگیا سایہ میاں

کچھ نہ پوچھو وقت کے بازار میں

کھو دیا کیا اور کیا پایا میاں

ہوگئی خود اس کی مٹی بھی خراب

وہ ستا کر ہم کو پچھتایا میاں

سب یہاں آئے ہیں جانے کے لیے

کون رہنے کے لیے آیا میاں

مشاعرے میں شائقین کا جوش قابل دید تھا۔ پروگرام کے آخر میں عابد رشید نے مہمان شعراء اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔
Load Next Story