کوچۂ سخن

خواب در خواب مصیبت سے نکلنا ہے مجھے<br /> یعنی خود اپنی شکایت سے نکلنا ہے مجھے

فوٹو: فائل

غزل
خواب در خواب مصیبت سے نکلنا ہے مجھے
یعنی خود اپنی شکایت سے نکلنا ہے مجھے
اتنا آساں تو نہیں اس سے نکلنا لیکن
جس طرح بھی ہو محبت سے نکلنا ہے مجھے
یوں مقفّل ہوا بیٹھا ہوں کسی کمرے میں
جیسے کمرے کی اجازت سے نکلنا ہے مجھے
چھوڑ آیا ہوں ترے شہر میں آنکھیں اپنی
اب کسی اور اذیت سے نکلنا ہے مجھے
بے وجہ دشمنوں پہ ٹوٹ رہا ہوں شافیؔ
اور اپنوں کی حراست سے نکلنا ہے مجھے
(بلال شافی ۔جڑانوالہ، فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
نظامِ زندگی بالکل الگ تشکیل ہوتا ہے
خلا میں روشنی کا ذائقہ تبدیل ہوتا ہے
نظر کے بار سے اجسام ہیئت چھوڑ دیتے ہیں
جہانِ بے طلب میں آئنہ تفصیل ہوتا ہے
بھنور سے پہلے ہی ترتیب سے نکلے ہوئے تھے ہم
خلا میں حادثہ بھی باعثِ تکمیل ہوتا ہے
کوئی خواہش نہ ضد کی اُس بدن کے ساتھ میں نے بھی
مجھے معلوم ہے اک شہر کب تحصیل ہوتا ہے
سبھی حسبِ ضرورت مانندِ زندیق ہوتے ہیں
مسلسل رد سے تازہ راستہ تشکیل ہوتا ہے
دھماکہ در دھماکہ عاشقی کے سین چلتے ہیں
نئے موسم میں اپنا گھونسلہ تبدیل ہوتا ہے
(توحید زیب ۔رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
نہ غم کر اور نہ کر تو آنکھ کو پرنم کہا تھا نا
سحر ہو گی گزر جائے گی شام غم کہا تھا نا
کہیں ایسا نہ ہو وہ راستہ ہی بھول بیٹھا ہو
ارے مت کر چراغ رہ گزر مدھم کہا تھا نا
نہیں منظور دنیا کو ہمارا ایک ہو جانا
نہیں ہو سکتے میں اور تو کبھی بھی ہم ،کہا تھا نا
ہماری آنکھ نم دیکھی جو تم نے یاد ہے تم کو
ہمیں گل اور ہمارے اشک کو شبنم کہا تھا نا
ہم اپنی جان سے جائیں گے تیری کج ادائی سے
یوں چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہ ہو برہم کہا تھا نا
کہا تھا ناکسی کے واسطے دنیا نہیں رکتی
سمے رکھ دیتا ہے ہر زخم پر مرہم کہا تھا نا
کہا تھا ناکہ شاہانہؔ کو تم اک روز کھو دو گے
کہا تھا نا مرے ساتھی مرے ہمدم کہا تھا نا
(شاہانہ ناز۔راولپنڈی)


۔۔۔
غزل
چشمِ ساقی کو لال دیکھا تھا
تشنگی کا کمال دیکھا تھا
پہلے اس کو صدا لگائی تھی
پھر جنوب و شمال دیکھا تھا
استعارہ تھا وہ جدائی کا
آئنے میں جو بال دیکھا تھا
دل کی سرحد، عبور کرتے ہوئے
حوصلوں کو نڈھال دیکھا تھا
سارا جنگل تھا سامنے میرے
میں نے پھر بھی غزال دیکھا تھا
(احمد معاذ۔ کہوٹہ، راولپنڈی)


۔۔۔
غزل
اثرِجلوۂ خوبان کہاں جاتا ہے
نقشِ جاں اس قدر آسان کہاں جاتا ہے
اک نظر تو نے مجھے دیکھ لیا، خوب کیا
یہ بھی دیکھ اب مرا امکان کہاں جاتا ہے
دل بہ ہنگامِ محبت کوئی نادان نہ تھا
مجھ سے کہتا تھا کہ نادان کہاں جاتا ہے
بعد از ترکِ وفا میرا پتہ پوچھتے ہو
آخر اک خلیۂ بے جان کہاں جاتا ہے
بابِ حیرت کدۂ دل پہ کھڑا دیکھتا ہوں
کہ یہ رستہ پسِ دالان کہاں جاتا ہے
ہاتھ سے ہاتھ چھڑاتے ہوئے دورانِ سفر
آخر اک شخص کا ایمان کہاں جاتا ہے؟
ہے طلسم انجمنِ یار میں ایسا کہ ہر ایک
جانے انگشت بہ دندان کہاں جاتا ہے
کرکے آلودہ و صد چاک اب آرام سے ہیں
ورنہ اندیشہ ٔدامان کہاں جاتا ہے
(اسامہ آزاد۔ؔ تلہ گنگ)


۔۔۔
غزل
ایسا مکتب بھی یہاں کوئی بنایا جائے
پیار کا درس جہاں خوب پڑھایا جائے
کچھ تو آجائے خلل ان کے تغافل میں بھی
جاکے احوال مرا ان کو سنایا جائے
اب گزارا نہیں اس دھر میں اپنا کہ جہاں
بے قصوروں کو یتیموں کو رلایا جائے
اچھا لگتا ہے ترے دست ِدعا میں رہنا
سوچتے ہیں کہ بُرا حال بنایا جائے
اے مرے دوست یہ ممکن نہیں ہو سکتا کیا
روٹھی باغوں سے بہاروں کو منایا جائے
دل بضد اب بھی اسی بات پہ ہے اے عنبرؔ
چاہا جائے اسے اور اپنا بنایا جائے
(سیدہ سعدیہ عنبرؔ جیلانی۔ فیصل آباد)


۔۔۔
غزل
رنج ہوتے تھے فراوانی نہیں ہوتی تھی
پہلے اس درجہ پریشانی نہیں ہوتی تھی
مان لیتا تھا ہر اک حکم، ہر اک بات اس کی
بات بھی وہ جو کبھی مانی نہیں ہوتی تھی
میں نے خود جان کے مٹی کے حوالے کیا ہے
تجھ سے بھی خیر نگہبانی نہیں ہوتی تھی
کس قدر سہل تھا تختی کو مٹانا، لکھنا
دور آسان تھا آسانی نہیں ہوتی تھی
روز اول سے مصائب کے پہاڑوں پر تھا
اس قدر بے سروسامانی نہیں ہوتی تھی
زندگی تیری عنایت تھی کہ سوتیلا پن
دیکھنے والوں کو حیرانی نہیں ہوتی تھی


جس طرح میرے علی جنگ میں ڈٹ جاتے تھے
تو بتا قوت یزدانی نہیں ہوتی تھی
(شائق سعیدی ۔نواں کوٹ، رحیم یار خان)


۔۔۔
غزل
انجامِ محبت کو بھلانے پہ تلا ہے
اک دل ہے کہ بس خود کو لٹانے پہ تلا ہے
اس کو بھی یہ معلوم کہ قطعاً نہیں ممکن
جو قوم کو خوابوں سے جگانے پہ تلا ہے
صد لاغر و کمزور سہی پھر بھی وہی شخص
کندھوں پہ ہر اک بوجھ اٹھانے پہ تلا ہے
ظاہر ہے اسی پر کہ یہ مہلک ہے کسی روز
پر درد کو سینے میں چھپانے پہ تلا ہے
عقبیٰ کی معافی سے یہ کرتے ہیں تغافل
ہر شخص فقط رزق کمانے پہ تلا ہے
اب تک ترا دیوانہ تری چاہ میں پھر کر
ٹوٹے ہوئے رشتوں کو نبھانے پہ تلا ہے
روٹھا ہے وہ کچھ یوں کہ اب آنے کا نہیں ہے
محبوبؔ عبث اس کو منانے پہ تلا ہے
(محبوب الرحمان۔ سینے، میاندم، سوات)


۔۔۔
غزل
سارے ہی گر رکھیں گے،انسان میلی آنکھیں
کرتی رہیں گی پھر یہ نقصان میلی آنکھیں
بستے ہوئے گھروں کو،یہ صرف اک نظر سے
جاتی ہیں کر اچانک ویران میلی آنکھیں
صدقہ اتارتا تھا،میں ایسی آنکھوں کا یار
جو میلی آنکھوں کی تھی پہچان میلی آنکھیں
اے دھوکے باز میری، تیرے لئے دعا ہے
اک بار بخشے تیری رحمان میلی آنکھیں
میں کوستا ہوں خود کو، بنتا بھی ہے مرا اب
اک عمر تک رہی ہیں جو جان میلی آنکھیں
اے جانِ من ستم گر، آنکھوں پہ میں تری تو
سارے جہاں کی کر دوں،قربان میلی آنکھیں
میں روکتا تھا تجھ کو اس واسطے ہی حمزہؔ
ہیں کر گئی نا تجھ کو حیران میلی آنکھیں
(رانا حمزہ۔کسوکی، حافظ آباد)


۔۔۔
غزل
موسم بدل رہا ہے ہر رت بدل رہی ہے
خود کو سبھالو صاحب اب عمر ڈھل رہی ہے
ہر سو تھے لہلہاتے جو پیڑ کھیت سبزے
اب ان حسین پھولوں کی ہر مہک جل رہی ہے
خوش ہو کے تم چلے تھے ہم کو جدائی دے کے
اب زندگی ہماری کانٹوں پہ چل رہی ہے
اک وقت تھا کہ چلتے ہاتھوں میں ہاتھ لے کر
اب دل مرے کی حالت پل پل مچل رہی ہے
دل جل رہا ہے میرا سانسیں رکی ہوئی ہیں
ہر آنکھ میرے آنسو چہرے پہ مل رہی ہے
ساگرؔکہاں ملیں گے اہلِ وفا تمہیں اب
تیری وفا کو کب سے دنیا کچل رہی ہے
(رجب علی ساگر ۔ پہاڑ پور،ڈیرہ اسماعیل خان)


۔۔۔
غزل
ترے قدم سے ہمیشہ قدم ملاؤں گا
میں مرتے مرتے بھی رسم وفا نبھاؤں گا
میں جب تلک ہوں میسر مجھے غنیمت جان
چلا گیا تو کبھی لوٹ کر نہ آؤں گا
میں گھر کا سب سے بڑا بیٹا ہوں سو یاد رہے
ستم بھی مجھ پہ کروگے تو مسکراؤں گا
یہ اور بات ہے تونے بچھائے ہیں لیکن
میں تیری راہ میں کانٹے نہیں بچھاؤں گا
میں جانتا ہوں کہ چولہا نہیں جلے گا مرا
میں شہر جا کے جو پیسے نہیں کماؤں گا
میں اپنی آنکھوں کے سب خواب بیچ دوں گا مگر
میں تیرے واسطے دنیا نئی بساؤں گا
ہے والدین کا احساں میں فیضیؔ جو کچھ ہوں
میں اپنی جان بھی ان دونوں پر لٹاؤں گا
(محمد فرقان فیضی ۔ برہم پوری، سرلاہی ،نیپال)


۔۔۔
غزل
مجھے اپنے آپ کو ڈھونڈنا ہے خدائے کل کی بشار میں
سو نکل پڑا ہوں دوام سے کسی ان کہی کے خمار میں
کوئی چل دیا تو خبر ہوئی کہ وہ اپنی ہستی بچا گیا
میں اگر سفر پہ نکل گیا تو ملوں گا دشتِ غبار میں
مرے ہمنوا یہ تری نگاہ کا فیض ہے ترے پاس ہوں
میں نوائے بلبلِ خوش گلو ہوں ترے حسین حصار میں
میں چلا ہوں دربدری لئے کسی خوش نوا کے ترنگ میں
جو پکارتا ہوں تو کچھ نہیں مری خامشی کے دیار میں
سرِ رنگ میری عبادتیں ہیں، جبین گھسنے کی دیر ہے
وہ نکل پڑے گا صنم کدے سے پکار لے گا قرار میں
وہ جو پتی پتی بکھر گیا کوئی پھول تھا کسی رنگ کا
جو دنوں کی پھیر میں آگیا، وہ بہت کھلا تھا بہار میں
سرِ دار مجھ کو اچھالیے میں پھروں گا نئیں ترے عشق سے
کہ میں جانتا ہوں نہیں کوئی ترے بعد میرے فرار میں
میں نے ایک سجدہ نہیں کیا ہوئیں سب عبادتیں رائیگاں
جو نکل پڑا ہوں تو کچھ نہیں مری زندگی کی قطار میں
(زاہد خان۔ پہاڑپور، ڈیرہ اسماعیل خان)


۔۔۔
غزل
جب بھی آنکھوں میں مری غم سے نمی ہوتی ہے
خشک ہونٹوں پہ کہ پپڑی سی جمی ہوتی ہے
میری یادوں کی بہاروں کو تردد کاہے
یہ مودت تو محبت سے قوی ہوتی ہے
شعر میرے ہیں یہ تاثیر سے عاری مانا
خاکِ شعری کہ مسلسل یوں زری ہوتی ہے
میں نے دیکھا ہے یہ اکثر ہی زمانے بھر میں
عشقِ جاناں میں یوں جاں پر جو بنی ہوتی ہے
جب خزاں دورمیں جھڑتے ہیں یہ پتوں کے سر
گرد گردن سے تنوں پر بھی جمی ہوتی ہے
جان جاتی ہے کہ قاصر ؔیوں مکرّر دیکھو
جب محبت میں مسلسل یوں کمی ہوتی ہے
(قاصر ایاز میمن۔ کنری پاک)


سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

Load Next Story