سماجی و معاشی ترقی اورگڈ گورننس
وزیراعظم شہباز شریف کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معیشت میں بہتری کے آثار نظرآنا شروع ہوگئے ہیں
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچانا ہے تو دن رات محنت کرنا ہوگی۔ اسلام آباد ٹیکنالوجی پارک پاکستان کا بین الاقوامی معیارکے عین مطابق پہلا کیٹیگری 3 کا ٹیکنالوجی پارک ہوگا۔ 10 ہزار ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہونگے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ چین سے تعاون کے معاہدوں پر مفاہمتی یادداشتوں پر عمل درآمد میں کسی بھی قسم کا تعطل برداشت نہیں کیا جائے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معیشت میں بہتری کے آثار نظرآنا شروع ہوگئے ہیں، بلاشبہ ان ہی کوششوں کا نتیجہ سرمایہ کاری، ملکی دولت میں اضافے، روزگارکے وسیع مواقع اور معاشی خوشحالی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف ملک کی ترقی اور خوشحالی کے دن، رات کوشاں ہیں،اور انھوں نے اپنی ہفتہ اور اتوارکی چھٹی نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ہم کچھ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک دو سال مشکل سہی،آسودگی کا وقت ضرور آئے گا۔ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اس کے مستحکم سیاسی ماحول سے وابستہ ہے۔ تاریخ شاید ہے کہ مضبوط معیشت والے ممالک میں نہ کوئی انقلابی پیدا ہوا اور نہ ہی انقلاب آیا۔گزشتہ کچھ سال بدترین معاشی حالات سے گزرنے کے بعد اب پاکستان کی فضا میں معیشت کے مثبت اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان اور چین کے تعلقات بدلتے ہوئے بین الاقوامی ماحول کے ہر امتحان پر پورا اترے ہیں اور ایک چٹان کی طرح مضبوط اور پہاڑکی طرح غیر متزلزل رہے ہیں۔ فریقین غیرمتزلزل تزویراتی باہمی اعتماد، مختلف شعبوں میں نتیجہ خیز عملی تعاون اور بین الاقوامی اور علاقائی امور پر قریبی تعاون کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، چین دنیا کی ایک مضبوط معیشت بن کر ابھرا ہے، پاکستان چین کی ترقی سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ چین سے انفارمیشن ٹیکنالوجی، مواصلات، معدنیات وکان کنی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کے نئے دورکا آغاز ہو رہا ہے، ان شعبوں میں پاک چین تعاون کے فروغ سے معاشی ترقی، علاقائی روابط کی مضبوطی اور دونوں ممالک کے تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔
صرف چند ماہ پہلے پاکستان کے پاس اپنے درآمدی بلزکی ادائیگی کے لیے محض 15 روزکا زرمبادلہ باقی تھا۔ یعنی آسان الفاظ میں اس کے خزانے میں صرف اتنے ہی ڈالرز موجود تھے جس سے وہ بیرون ملک سے منگوائے گئے دو ہفتوں کے سامان کی ادائیگی کرسکتا تھا، لیکن معاشی اشاریے بتاتے ہیں کہ اب اس کمزور معیشت میں کئی ماہ کے بعد بحالی کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں۔ توانائی کے شعبے میں سبسڈیزکے خاتمے، مالی نظم وضبط قائم کرنے سے معاشی استحکام آنا شروع ہوا۔
جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح کم ہے۔ ٹیکس سطح میں کمی کے باوجود ٹیکس وصولی میں کم خلا دیکھا گیا۔ ترقیاتی بجٹ کے لیے وسائل کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے بہتر ٹیکس پالیسیوں، انتظامی اقدامات کے ساتھ مجموعی سماجی و معاشی ترقی اور پبلک گورننس میں بہتری کی ضرورت ہے۔ استحکام کی نئی علامات کو پنپنے اور ایک عام شہری تک اس کے ثمرات پہنچانے کے لیے پالیسیوں میں تسلسل اور مستقل مزاجی کی اشد ضرورت ہے۔
وفاقی حکومت نے 3 سالہ معاشی پلان جاری کر دیا، وسط مدتی بجٹ اسٹرٹیجی پیپر کے تحت اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ مالی سال 2024 سے 2027 پر مشتمل تین برسوں کے تخمینے شامل ہیں، 3 سال میں معاشی شرح نمو 5.5 فیصد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ رواں مالی سال میں جی ڈی پی گروتھ 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے، مہنگائی اور مالیاتی خسارہ کم کیا جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے میں کم معاشی نموکے ساتھ ساتھ بلند افراط زر بھی بڑی وجہ ہے، برآمدات میں اضافہ بھی اس کا ایک سبب ہے۔ ماہرین کے مطابق ترسیلات زر میں بھی گزشتہ دو ماہ میں بہتری دیکھی گئی ہے اور جو آگے بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔
ایشین ڈیولپمنٹ بینک، اسٹیٹ بینک اور شماریات بیورو نے بھی اپنی رپورٹس میں پاکستان کی معاشی کارکردگی کو مثبت سمت کی جانب گامزن قرار دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اب پاکستان کی معیشت درست سمت پر چل رہی ہے، سال 2023 کی نسبت رواں سال پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر رہی، اسی تناسب سے معیشت کا پہیہ چلتا رہا تو 2025 میں مہنگائی کم ہو کر 15 فیصد رہ جائے گی۔ اکنامک آوٹ لک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام دیکھا گیا اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان دیکھا گیا۔
جی ڈی پی کی شرح نمو2 سے 3فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے، شرح نمو میں اضافے کا کلیدی محرک زراعت کا شعبہ ہے، مالی سال 2024 میں گندم، چاول، مکئی اور کپاس کی فصلوں میں بمپر اضافہ ہوا، زراعت کے شعبے کی شرح نمو 7 فیصد سے زائد رہی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے وطن رقوم بھیجنے میں بھی تیزی دیکھی گئی ہے اور اس بار یہ ریکارڈ تین ارب ڈالر سے بھی زیادہ رہا ہے۔ مثبت معاشی اشاریوں اور آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت رقم ملنے کے امکانات روشن ہونے کے باعث پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بھی اس وقت خاصی تیزی دکھائی دے رہی ہے۔ وفاقی بجٹ 2025-2024میں توقع کی جارہی تھی کہ عام عوام کے ساتھ اشرافیہ بھی بوجھ اُٹھائے گی مگر تاریخ نے اپنے آپ کو پھر دہرایا۔ حکمران طبقہ اور اشرافیہ نے سارا بوجھ غریب اور تنخواہ دار عوام پر ڈال دیا ہے۔
30کھرب کے اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ یہ 8500ارب روپے کے خسارے کا بجٹ ہے۔ ملک میں سرکاری افسران کے پاس لاکھوں کی تعداد میں گاڑیاں ہیں، جن پر پٹرول اور مرمت کی مد میں اربوں خرچ ہوتے ہیں۔ فری بجلی،گیس، سرکاری اقامت گاہوں پر کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ جس کی مثال امریکا سمیت کسی ملک میں نہیں ہے۔ بدعنوانی اور رشوت تو عام سی بات ہے غریب کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے۔ بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے غریب کے بجائے اس کا رخ امیر کی طرف ہونا چاہیے اور آئی ایم ایف کی طرف جانے سے بچنا چاہیے۔ آگے بڑھنے کا راستہ صرف اور صرف قانون کی حکمرانی اور عوام کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کرنے میں ہی ہے۔
پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمیشہ سے روایتی نوکر شاہی رہی ہے جن کی وجہ سے اگر کوئی حکمران اہم اور ضروری فیصلہ عوام کے مفاد میں کر بھی لے تو اس پر عملدرآمد سرخ فیتے کی نذر ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں واپڈا، ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل کی بدحالی کی بڑی وجہ کرپٹ بیوروکریسی، نااہل اورکرپٹ وزراء اور طاقتور خاندان کے افراد کی وہ تکون (Nexus) ہے جس میں افسران و اہلکار اس ملک اور عوام کی سرمایہ دارانہ نظام میں منافع کی ہوس پوری کرنے کے لیے سب کچھ تہس نہس کررہے ہیں۔ کسی ترقی یافتہ ملک کی تو بات ہی کیا ہے ہم تو تعلیم کے معاملے میں اپنے آس پاس کے ممالک سے بھی بہت پیچھے ہیں۔
پاکستان شرح خواندگی میں دنیا کے 194ممالک میں 180ویں نمبر پرکھڑا ہے یعنی صرف دنیا کے چودہ ممالک سے پاکستان شرح خواندگی کے معاملے میں قدر ے بہتر ہے، چونکہ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ علم کے بغیر کسی شعبہ میں انسان ترقی و تعمیر کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس تناظر میں معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے بھی اگر جدید علوم، جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق و معلومات نہ ہوں تو آپ آگے نہیں بڑھ سکتے اس لیے ہمیں ہر شعبے میں جدید علوم حاصل کرنا بہت ضروری ہے چاہے وہ نیچرل سائنس ہو، انجینئرنگ و ٹیکنالوجی ہو، میڈیکل و ہیلتھ سائنس ہو، ایگریکلچرل سائنس ہو یا سوشل سائنس ہو۔
ہمیں اپنی درس گاہوں میں ان تمام علوم اور ان کی تمام ذیلی شاخوں پر حقیقی معنوں میں علم و تحقیق کے دروازے کھولنے ہونگے۔ یوں تو سائنس کی ہر شاخ اور ان کی ذیلی شاخوں کی جدید تعلیم اور آگاہی بہت ضروری ہے اور ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ہر اس جدید علم کے حصول کو یقینی بنانا چاہیے جس سے پاکستانی معیشت بہتر اور ترقی یافتہ ہو۔ مثال کے طور پر ہمیں ایگریکلچرل سائنس کی تعلیم اور ترویج پر انتہائی تیزی سے کام کرنا چاہیے کیونکہ جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، موسم میں تغیرات ہورہے ہیں، غذائی قلت ہورہی ہے اور پانی کے ذخائر کی کمی واقع ہو رہی ہے اس کے لیے ایگریکلچرل سائنس کی تعلیم ازحد ضروری ہے کیونکہ ہمارے ہاں اکثر کاشتکار اور کسان حضرات جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں ۔
اسی لیے پرانے دیسی طریقوں کو استعمال کرتے ہیں اور اپنی زمین سے مناسب پیداوار حاصل نہیں کرپاتے۔ ایگریکلچرل سائنس کی جدید تعلیم سے نہ صرف زیادہ پیداوار ہوگی جس سے غذائی قلت کا خطرہ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کو زیادہ منافع حاصل ہوگا بلکہ اضافی زرعی پیداوار کو برآمد کرکے پاکستان کثیر زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں کچھ زرعی یونیورسٹیاں ہیں مگر اس سے متوقع فوائد حاصل نہیں ہو پا رہے۔ زرعی سائنس کی جدید تعلیم کی آگاہی کی وجہ سے ہم اپنی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوارکئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معیشت میں بہتری کے آثار نظرآنا شروع ہوگئے ہیں، بلاشبہ ان ہی کوششوں کا نتیجہ سرمایہ کاری، ملکی دولت میں اضافے، روزگارکے وسیع مواقع اور معاشی خوشحالی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف ملک کی ترقی اور خوشحالی کے دن، رات کوشاں ہیں،اور انھوں نے اپنی ہفتہ اور اتوارکی چھٹی نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ہم کچھ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک دو سال مشکل سہی،آسودگی کا وقت ضرور آئے گا۔ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی اس کے مستحکم سیاسی ماحول سے وابستہ ہے۔ تاریخ شاید ہے کہ مضبوط معیشت والے ممالک میں نہ کوئی انقلابی پیدا ہوا اور نہ ہی انقلاب آیا۔گزشتہ کچھ سال بدترین معاشی حالات سے گزرنے کے بعد اب پاکستان کی فضا میں معیشت کے مثبت اشارے ملنا شروع ہو گئے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان اور چین کے تعلقات بدلتے ہوئے بین الاقوامی ماحول کے ہر امتحان پر پورا اترے ہیں اور ایک چٹان کی طرح مضبوط اور پہاڑکی طرح غیر متزلزل رہے ہیں۔ فریقین غیرمتزلزل تزویراتی باہمی اعتماد، مختلف شعبوں میں نتیجہ خیز عملی تعاون اور بین الاقوامی اور علاقائی امور پر قریبی تعاون کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، چین دنیا کی ایک مضبوط معیشت بن کر ابھرا ہے، پاکستان چین کی ترقی سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ چین سے انفارمیشن ٹیکنالوجی، مواصلات، معدنیات وکان کنی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کے نئے دورکا آغاز ہو رہا ہے، ان شعبوں میں پاک چین تعاون کے فروغ سے معاشی ترقی، علاقائی روابط کی مضبوطی اور دونوں ممالک کے تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔
صرف چند ماہ پہلے پاکستان کے پاس اپنے درآمدی بلزکی ادائیگی کے لیے محض 15 روزکا زرمبادلہ باقی تھا۔ یعنی آسان الفاظ میں اس کے خزانے میں صرف اتنے ہی ڈالرز موجود تھے جس سے وہ بیرون ملک سے منگوائے گئے دو ہفتوں کے سامان کی ادائیگی کرسکتا تھا، لیکن معاشی اشاریے بتاتے ہیں کہ اب اس کمزور معیشت میں کئی ماہ کے بعد بحالی کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئے ہیں۔ توانائی کے شعبے میں سبسڈیزکے خاتمے، مالی نظم وضبط قائم کرنے سے معاشی استحکام آنا شروع ہوا۔
جی ڈی پی کے لحاظ سے ٹیکس کی شرح کم ہے۔ ٹیکس سطح میں کمی کے باوجود ٹیکس وصولی میں کم خلا دیکھا گیا۔ ترقیاتی بجٹ کے لیے وسائل کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے بہتر ٹیکس پالیسیوں، انتظامی اقدامات کے ساتھ مجموعی سماجی و معاشی ترقی اور پبلک گورننس میں بہتری کی ضرورت ہے۔ استحکام کی نئی علامات کو پنپنے اور ایک عام شہری تک اس کے ثمرات پہنچانے کے لیے پالیسیوں میں تسلسل اور مستقل مزاجی کی اشد ضرورت ہے۔
وفاقی حکومت نے 3 سالہ معاشی پلان جاری کر دیا، وسط مدتی بجٹ اسٹرٹیجی پیپر کے تحت اہداف مقرر کیے گئے ہیں۔ مالی سال 2024 سے 2027 پر مشتمل تین برسوں کے تخمینے شامل ہیں، 3 سال میں معاشی شرح نمو 5.5 فیصد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ رواں مالی سال میں جی ڈی پی گروتھ 3.6 فیصد رہنے کا امکان ہے، مہنگائی اور مالیاتی خسارہ کم کیا جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے میں کم معاشی نموکے ساتھ ساتھ بلند افراط زر بھی بڑی وجہ ہے، برآمدات میں اضافہ بھی اس کا ایک سبب ہے۔ ماہرین کے مطابق ترسیلات زر میں بھی گزشتہ دو ماہ میں بہتری دیکھی گئی ہے اور جو آگے بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔
ایشین ڈیولپمنٹ بینک، اسٹیٹ بینک اور شماریات بیورو نے بھی اپنی رپورٹس میں پاکستان کی معاشی کارکردگی کو مثبت سمت کی جانب گامزن قرار دیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اب پاکستان کی معیشت درست سمت پر چل رہی ہے، سال 2023 کی نسبت رواں سال پاکستان کی معاشی صورتحال بہتر رہی، اسی تناسب سے معیشت کا پہیہ چلتا رہا تو 2025 میں مہنگائی کم ہو کر 15 فیصد رہ جائے گی۔ اکنامک آوٹ لک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں استحکام دیکھا گیا اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان دیکھا گیا۔
جی ڈی پی کی شرح نمو2 سے 3فیصد کے درمیان رہنے کی توقع ہے، شرح نمو میں اضافے کا کلیدی محرک زراعت کا شعبہ ہے، مالی سال 2024 میں گندم، چاول، مکئی اور کپاس کی فصلوں میں بمپر اضافہ ہوا، زراعت کے شعبے کی شرح نمو 7 فیصد سے زائد رہی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے وطن رقوم بھیجنے میں بھی تیزی دیکھی گئی ہے اور اس بار یہ ریکارڈ تین ارب ڈالر سے بھی زیادہ رہا ہے۔ مثبت معاشی اشاریوں اور آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت رقم ملنے کے امکانات روشن ہونے کے باعث پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بھی اس وقت خاصی تیزی دکھائی دے رہی ہے۔ وفاقی بجٹ 2025-2024میں توقع کی جارہی تھی کہ عام عوام کے ساتھ اشرافیہ بھی بوجھ اُٹھائے گی مگر تاریخ نے اپنے آپ کو پھر دہرایا۔ حکمران طبقہ اور اشرافیہ نے سارا بوجھ غریب اور تنخواہ دار عوام پر ڈال دیا ہے۔
30کھرب کے اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ یہ 8500ارب روپے کے خسارے کا بجٹ ہے۔ ملک میں سرکاری افسران کے پاس لاکھوں کی تعداد میں گاڑیاں ہیں، جن پر پٹرول اور مرمت کی مد میں اربوں خرچ ہوتے ہیں۔ فری بجلی،گیس، سرکاری اقامت گاہوں پر کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ جس کی مثال امریکا سمیت کسی ملک میں نہیں ہے۔ بدعنوانی اور رشوت تو عام سی بات ہے غریب کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے۔ بجٹ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے غریب کے بجائے اس کا رخ امیر کی طرف ہونا چاہیے اور آئی ایم ایف کی طرف جانے سے بچنا چاہیے۔ آگے بڑھنے کا راستہ صرف اور صرف قانون کی حکمرانی اور عوام کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کرنے میں ہی ہے۔
پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمیشہ سے روایتی نوکر شاہی رہی ہے جن کی وجہ سے اگر کوئی حکمران اہم اور ضروری فیصلہ عوام کے مفاد میں کر بھی لے تو اس پر عملدرآمد سرخ فیتے کی نذر ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں واپڈا، ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل کی بدحالی کی بڑی وجہ کرپٹ بیوروکریسی، نااہل اورکرپٹ وزراء اور طاقتور خاندان کے افراد کی وہ تکون (Nexus) ہے جس میں افسران و اہلکار اس ملک اور عوام کی سرمایہ دارانہ نظام میں منافع کی ہوس پوری کرنے کے لیے سب کچھ تہس نہس کررہے ہیں۔ کسی ترقی یافتہ ملک کی تو بات ہی کیا ہے ہم تو تعلیم کے معاملے میں اپنے آس پاس کے ممالک سے بھی بہت پیچھے ہیں۔
پاکستان شرح خواندگی میں دنیا کے 194ممالک میں 180ویں نمبر پرکھڑا ہے یعنی صرف دنیا کے چودہ ممالک سے پاکستان شرح خواندگی کے معاملے میں قدر ے بہتر ہے، چونکہ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ علم کے بغیر کسی شعبہ میں انسان ترقی و تعمیر کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس تناظر میں معاشی و اقتصادی ترقی کے لیے بھی اگر جدید علوم، جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق و معلومات نہ ہوں تو آپ آگے نہیں بڑھ سکتے اس لیے ہمیں ہر شعبے میں جدید علوم حاصل کرنا بہت ضروری ہے چاہے وہ نیچرل سائنس ہو، انجینئرنگ و ٹیکنالوجی ہو، میڈیکل و ہیلتھ سائنس ہو، ایگریکلچرل سائنس ہو یا سوشل سائنس ہو۔
ہمیں اپنی درس گاہوں میں ان تمام علوم اور ان کی تمام ذیلی شاخوں پر حقیقی معنوں میں علم و تحقیق کے دروازے کھولنے ہونگے۔ یوں تو سائنس کی ہر شاخ اور ان کی ذیلی شاخوں کی جدید تعلیم اور آگاہی بہت ضروری ہے اور ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ہر اس جدید علم کے حصول کو یقینی بنانا چاہیے جس سے پاکستانی معیشت بہتر اور ترقی یافتہ ہو۔ مثال کے طور پر ہمیں ایگریکلچرل سائنس کی تعلیم اور ترویج پر انتہائی تیزی سے کام کرنا چاہیے کیونکہ جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، موسم میں تغیرات ہورہے ہیں، غذائی قلت ہورہی ہے اور پانی کے ذخائر کی کمی واقع ہو رہی ہے اس کے لیے ایگریکلچرل سائنس کی تعلیم ازحد ضروری ہے کیونکہ ہمارے ہاں اکثر کاشتکار اور کسان حضرات جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی سے نابلد ہیں ۔
اسی لیے پرانے دیسی طریقوں کو استعمال کرتے ہیں اور اپنی زمین سے مناسب پیداوار حاصل نہیں کرپاتے۔ ایگریکلچرل سائنس کی جدید تعلیم سے نہ صرف زیادہ پیداوار ہوگی جس سے غذائی قلت کا خطرہ نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کو زیادہ منافع حاصل ہوگا بلکہ اضافی زرعی پیداوار کو برآمد کرکے پاکستان کثیر زرمبادلہ حاصل کر سکتا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں کچھ زرعی یونیورسٹیاں ہیں مگر اس سے متوقع فوائد حاصل نہیں ہو پا رہے۔ زرعی سائنس کی جدید تعلیم کی آگاہی کی وجہ سے ہم اپنی فصلوں کی فی ایکڑ پیداوارکئی گنا بڑھا سکتے ہیں۔