خداراقوم پر رحم کیجیے
گزشتہ دنوں عوام کو ایک اور جھٹکا دیا گیا جس سے ماہ جولائی سے بجلی 3.32 روپے مزید مہنگی کر دی گئی
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ٹیکس چوروں اور ان کے سہولت کار سرکاری افسران کو بھی معاف نہیں کریں گے اور ٹیکس چوری کے جرم میں ان کا ساتھ دینے والے افسروں اور اہلکاروں کو بھی سزا دی جائے گی۔ دوسری جانب حکومت عوام سے ٹیکس نہ دینے کے الزامات لگا رہی ہے، مگر حکومتی وزراء و مشیر ملک میں ایک کسی ایسے شخص کا بھی نہیں بتا سکتے جو حکومت کو ٹیکس نہ دے رہا ہو۔ ملک میں ہر پیک چیز حتیٰ کہ چھوٹے بچوں کے خشک دودھ پر بھی نہ صرف ٹیکس لیا جاتا ہے بلکہ اس بار خشک دودھ پر بھی ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں عوام کو ایک اور جھٹکا دیا گیا جس سے ماہ جولائی سے بجلی 3.32 روپے مزید مہنگی کر دی گئی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت اب بجلی صارفین سے مزید چھ سو ارب روپے وصول کرے گی۔ ملک میں شدید مہنگائی، ٹیکسوں کی بھرمار پر حکومت عوام کو رلا رہی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حکومت نے نئے بجٹ میں 1700 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے ہیں جن میں ایک منی بجٹ بھی شامل ہے جو 28 جون کو آ چکا ہے اور منی بجٹ بھی بجٹ کے ساتھ پاس بھی ہوگیا اور تقریباً چھ سو ارب روپے اضافی بجلی کے بلوں میں وصول کرنے کے لیے حکومت نے بجلی مزید مہنگی کردی ہے اس طرح اب عوام سے 2300 ارب روپے مزید وصول کیے جائیں گے۔
کہا جا رہا ہے کہ یکم جولائی سے حکومت کو گیس کی قیمت کم کرنے کی تجویز دی گئی تھی جو حکومت نے نہیں کی بلکہ اس کے بجائے حکومت نے جہاں جہاں ہو سکا نئے ٹیکس لگا دیے ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جب میاں نواز شریف اقتدار میں نہیں تھے تو وہ حکومت کے ٹیکس بڑھانے پر کہتے تھے کہ '' یقین مانیے نواز شریف کا دل روتا ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ غریب مصیبت میںگرفتار ہیں جب مجھے یہ خیال آتا ہے تو راتوں کو میری نیند چلی جاتی ہے جب مجھے یہ خیال آتا ہے کہ آپ کے بچے بھوکے ہیں میرا دل روتا ہے جب بجلی کا بل عوام پر بجلی بن کر گرتا ہے۔''
جون کے بجلی کے بلوں نے ہی عوام کے ہوش اڑا دیے ہیں ان کی قوت خرید کم ہوگئی ہے اور نئے بجٹ کے بعد مہنگائی مزید بڑھ گئی ہے جس کا بجلی کا بل پانچ چھ ہزار روپے کا آتا تھا اب بیس سے تیس ہزار روپے کا آئے گا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ جولائی میں آنے والی مہنگائی سے عوام روئیں گے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی یہ حکومت اقتدار میں آئی تھی اس نے تو آتے ہی عوام کو مہنگائی کرکے رلانا شروع کر دیا تھا مگر مسلم لیگ ن کی قیادت کہاں تھی اور ان کا دل مزید کیوں نہیں رویا کہ ان کی حکومت کے اقدامات نے عوام کو ملک بھر میں بجلی کے بلوں پر احتجاج کرنے پر مجبورکردیا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا عوام کا وہ احتجاج نہیں دکھا رہا جو سوشل میڈیا دکھا رہا ہے۔ اس سلسلے میں یہ میڈیا صرف سادہ سا احتجاج دکھا رہا ہے جب کہ ملک بھر میں بجلی کے مہنگے بل دیکھ کر صارفین پر دل کے دورے پڑ رہے ہیں۔
ان کے بلڈ پریشر اور شوگر بڑھ رہی ہے۔ ملک بھر میں بجلی کے بل جلائے جا رہے ہیں۔ لوگ حکومت کو کوس رہے ہیں اور فیصل آباد میں دل جلے رکشے والے نے اپنا بجلی کا بل دیکھ کر انتہا کردی اور بھری سڑک پر چیخ و پکار شروع کردی کہ میں اتنا بل کیسے ادا کروں؟ غریب ہی نہیں امیر لوگ بھی بجلی و گیس کے زیادہ بل آنے پر شور مچانے لگے ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر گھریلو اخراجات کم کرکے گھر کی فالتو چیزیں فروخت کرکے بھاری بھرکم بل جمع کرانے پر مجبور ہیں۔ متوسط طبقے نے اپنے بچوں کو پرائیوٹ اسکولوں سے ہٹا کر گھر بٹھا لیا ہے یا سرکاری اسکولوں میں داخل کرانا شروع کر دیا ہے۔
ملک میں معیاری تعلیم کا حصول اب متوسط طبقے کے لیے بھی ممکن نہیں رہا۔ معیاری تعلیم انتہائی مہنگی ہو چکی ہے کہ اچھے خاص لوگ بھی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلا پا رہے ہیں۔ لوگوں کی آمدنی اب ان کے گھر والوں کی خوراک، تعلیم، صحت اور ضروریات سے زیادہ بجلی وگیس کے بلوں پر خرچ ہو رہی ہے۔ عید قربان پر حصہ لے کر قربانی کرنے والے لاکھوں مسلمان اس بار قربانی کرسکے نہ عید الفطر پر اپنے لیے جوتے وکپڑے خرید سکے کیونکہ حکومت نے انھیں اس قابل بھی نہیں چھوڑا۔ حکومت کی سفاکیت کا یہ حال ہے کہ بجلی بلوں پر ملک بھر میں احتجاج ہو رہے ہیں مگر حکومت پھر بھی بجلی کے بلوں میں اضافہ نہیں روک رہی۔
حکومت ٹیکس وصول اور دینے والوں کو دھمکیاں تو سالوں سے دے رہی ہے اور وزیر اعظم انھیں معاف نہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں جب کہ عوام اب حکومت سے تنگ آ کر اس پر سخت برہم اور انھیں معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت میں عوام نے مہنگائی کے باعث (ن) لیگ کو انتخابات میں معاف نہیں کیا تھا مگر اب تو (ن) لیگی حکومت نے انتہا کر دی ہے ۔