بے چارہ اونٹ
کوا غصے سے اس کی گردن سے اُڑ کر اس کی دُم کے قریب آبیٹھا۔
ایک جگہ ایک بکری اور ایک اونٹ گھاس چَر رہے تھے۔ بکری بڑی تیزی سے گھاس پر منہ مار رہی تھی جب کہ اونٹ آہستہ آہستہ گھاس کھارہا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بکری جلد ہی اپنی جگہ کی ساری گھاس کھا گئی مگر اونٹ کے سامنے ابھی بہت گھاس تھی۔
بکری اونٹ کے قریب آئی اور بڑی محبت سے پوچھا؛ ''آپ جیسا خوب صورت جانور کس دیس کا رہنے والا ہے؟ میرا مطلب ہے آپ کا وطن کہاں ہے؟''
اونٹ نے آہستہ آہستہ اپنا منہ اونچا کرنا شروع کیا اور جب اس کا منہ آسمان کی طرف ہوا تو اس نے کہا؛ ''بغداد۔'' اتنا کہہ کے جب منہ نیچے کیا تو دیکھا، گھاس کا بہت بڑا حصہ بکری کھاچکی ہے۔
اونٹ نے سوچا، بکری کا منہ یہاں سے ہٹانے کے لیے مجھے بھی اس کے دیس کے بارے میں سوال کرنا چاہیے۔ چناںچہ اس نے بکری سے پوچھا؛ ''میری بہن! تم کس دیس کی رہنے والی ہو؟''
بکری نے منہ اٹھائے بغیر جواب دیا؛ ''یہیں کی، یہی میرا وطن ہے۔ میں اسی سرزمین کی رہنے والی ہوں، اس دھرتی کی بیٹی ہوں۔''
قریب ہی ایک درخت کی شاخ پر بیٹھا کوا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ وہ وہاں سے اُڑکر اونٹ کی پیٹھ پر آبیٹھا اور اسے مخاطب کرکے بولا؛ ''تم کتنے سیدھے ہو۔''
''مجھ سے تو ہرکوئی کہتا ہے، ''اونٹ رے اونٹ! تیری کون سی کل سیدھی؟'' اور تم مجھے سیدھا کہہ رہے ہو، کیا یہ عجیب بات نہیں؟'' اونٹ نے حیرانی سے کہا۔
''ارے بھائی! سیدھے سے میرا مطلب سادہ ہے۔''
''کاگا جی! میرا خیال ہے تمہیں اپنی آنکھوں کا ٹیسٹ کروانا چاہیے کیوںکہ میرا رنگ تمہیں سادہ نظر آنے لگا ہے۔''
''تم پھر غلط سمجھے۔ سادے کا مطلب سادہ لوح سے ہے۔ یعنی تم کتنے سیدھے سادے بھولے بھالے ہو۔''
''پتا نہیں، میںکتنا بھولابھالا ہوں۔ مجھے توآج تک کسی نے نہیں بتایا۔''
''آپ گدھے ہیں۔'' کوے نے جھلّا کرکہا اور پُھدک کر اس کی پیٹھ پر جا بیٹھا۔
''کیا واقعی؟'' اونٹ نے خوش ہوکر کہا۔ ''ایک بار پھر مجھے گدھا کہیے۔ کتنے اچھے ہیں آپ۔''
کوّے کا جی چاہا کہ اس ڈفر اونٹ کو اٹھاکر پرے پھینک دے مگر یہ سوچ کر اپنا ارادہ ملتوی کردیا کہ یہ اس کے بس کی بات نہیں۔
اس نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے پوچھا، ''گدھے کی کون سی بات آپ کو اچھی لگتی ہے کہ آپ گدھا کہلوانا پسند کرتے ہیں؟''
''اس کی ڈھینچوں ڈھینچوں۔ میرا بڑا دل چاہتا ہے کہ میں بھی گدھے کی طرح ڈھینچوں ڈھینچوں کروں مگر۔۔۔۔۔'' اتنا کہہ کے اونٹ خاموش ہوگیا اور اداس نظروں سے آسمان کو گھورنے لگا۔
''کہاں کھوگئے میرے بھائی؟ گدھے کے شیدائی؟''
''آہ! میں تمہیں کیا بتائوںکاگا جی! جب رات کی تنہائی میں کہیں نزدیک یا دور سے کسی گدھے کی ڈھینچوں ڈھینچوں رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی سنائی دیتی ہے تو دل پر کیا اثر پڑتا ہے؟ تم نہیں جانتے، اس آواز میں کتنا درد۔۔۔۔ کتنا سوز ہوتا ہے۔''
کوا غصے سے اس کی گردن سے اُڑ کر اس کی دُم کے قریب آبیٹھا۔ انداز ایسا ہی تھا جیسے وہ اسے دُم سے پکڑ کر کسی کھائی میں پھینک دے گا مگر وہ اونٹ تھا کوئی چوہا نہیں۔ لہٰذا، ایک بار پھر اسے اپنے غصے کو پی جانا پڑا۔ اس نے اونٹ کی دُم دیکھتے ہوئے بات بنائی۔ ''تم اس قدر بھاری بھرکم، اتنے بڑے ڈیل ڈول کے جانور ہو مگر تمہاری دُم۔۔۔۔۔''
''کیوں؟ کیا ہوا میری دُم کو؟''
''گھوڑا، گدھا، گائے، بکری حتیٰ کہ کتا تم سے کتنا چھوٹا جانور ہے مگر تمہارے مقابلے میں ان سب کی دُم کتنی بڑی ہے۔ کہیں ایسا تو تمہارے ساتھ نہیں ہوا کہ۔۔۔۔۔؟''
''کیسا۔۔۔۔ ذرا وضاحت سے بتائو کاگاجی! ''
ایسا کہ ؎
ایک تھا تیتر، ایک بیٹر
لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہوگئی گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم
اونٹ کھکھلا کر ہنس پڑا۔ ''نہیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں تھی۔''
''پھر کیا بات تھی؟''
''یہ تو اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔ ویسے ہم نے اپنے بڑے بوڑھوں سے سنا ہے کہ ہماری پیٹھ پر جو کوہان ہے جب اس کے بنانے کا وقت آیا تو ہمارے بنانے کا مال ختم ہوچکا تھا۔ لہٰذا، ہماری دُم کے میٹریل سے ہمارا کوہان بنادیا گیا اور دُم کو مختصر کردیا گیا۔''
''تم نے اپنے بزرگوں سے کبھی یہ بھی پوچھا تھا کہ صحرائی جہاز صحرا چھوڑ کر شہروں میں کیوں چلا آیا؟''
''پوچھا تھا۔'' کہہ کر اونٹ نے ایک سرد آہ بھری، پھر بولا؛ ''صحرائوں میں جب تیل نکل آیا تو وہاں موٹریں دوڑنے لگیں۔ ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر اُڑنے لگے اور بے چارے صحرائی جہازوں کو صحرا بدر کردیا گیا۔ چناںچہ اب ہم اپنی پیٹھ پر کنٹینر لادے اندرونِ شہر رواںدواں رہتے ہیں۔''
''یہ پیٹھ پر کنٹینر لادنے والی بات سمجھ میں نہیں آئی؟'' کوّے نے کہا۔
''تم جیسا سیانا کوا بھی یہ سیدھی سی بات نہ سمجھ سکا؟ کاگاجی! ہمیں جس گاڑی میں جَوتا جاتا ہے وہ گدھاگاڑی کے مقابلے میں کتنی بڑی ہوتی ہے۔ ایک کنٹینر جتنا مال اس پر لادا جاتا ہے۔ ہم اس بوجھ کو بڑی مشکل سے کھینچتے ہیں۔ ایک ایک قدم آگے بڑھانا ہمیں دشوار ہوتا ہے، اس پر ہمارا شُتربان ہمیں سونٹا مار مار کر کہتا ہے۔ ؎
ٹھمک ٹھمک مت چل رہے ''شُتروا'' جانا ہے ھم کا دُور
اس پر میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی ڈھینچوں ڈھینچوں کرنا شروع کردوں۔ ڈھینچوں ڈھینچوں کرکے اپنا احتجاج تو ریکارڈ کرائوں۔ اپنی آواز کو اپنا ہتھیار بنائوں مگر۔۔۔۔'' مگر کہہ کر اونٹ خاموش ہوگیا۔
پھر تھوڑی دیر تک جُگالی کرنے کے بعد بولا؛ ''مگر قدرت نے تو ہمیں چیخنے چِلّانے کی صلاحیت بھی نہیں دی۔''
''عقل تو دی ہے، اس سے کام کیوں نہیں لیتے؟''
''ہاں عقل تو دی ہے مگر اس سے کام کیسے لے سکتے ہیں، کیا کرسکتے ہیں؟''
تم لوگ انسانوں کی طرح ہڑتال کیوں نہیں کردیتے؟ اپنے مالکوں، شُتربانوں کے خلاف۔ کام چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئو۔ چھوٹے بڑے بینرز اور پِلے کارڈز اٹھاکر اور ٹائر جلاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائو جن پر لکھا ہو:
''جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوں گے ہم کام پر واپس نہیں آئیں گے۔''
''ہمارا مطالبہ ہے پیٹ بھر کھانا، ضرورت سے زیادہ بوجھ نہ اٹھانا۔''
''اس طرح کیا ہوگا؟''
''تم اونٹوں کے سڑکوں پر آتے ہی ٹی وی والے بڑی تعداد میں آجائیں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے تمہارے مطالبات تمہارے مالکوں تک ہی نہیں پوری دنیا میں پہنچا دیںگے۔''
''اور اس سے پہلے کہ ہمارے مطالبات پر کوئی عمل درآمد ہو، ہمارے مالک ہمیں قصابوں کے حوالے کر دیںگے۔'' اونٹ نے ترکی بہ ترکی کہا۔ ''وہ پہلے ہی ہمیں دھمکی دیتے رہتے ہیں کہ جی لگاکر کام نہیں کروگے تو ہم تمہیں قصابوں کے ہاتھوں بیچ کر کوئی سوزی ٹرک قسطوں پر خرید لیں گے۔''
''اے ہے۔۔۔۔! توکیا قصاب اونٹوں کا گوشت بھی بیچ دیتے ہیں؟ ہم نے تو سنا تھا کہ اونٹ کا گوشت کڑوا ہوتا ہے کیوںکہ تم لوگ نیم کے پتّے کھاتے ہو۔''
''اب ہمارا گوشت کڑوا نہیں ہوتا کیوںکہ شہروں میں تو نیم، حکیم کو بھی مشکل سے ملتا ہے۔ ہمارے شتربان ہماری پسندیدہ ڈش کہاں سے لاکر کھلائیں گے؟ جو گھاس بھوسا کھلاتے ہیں اس سے ہمارا گوشت ذائقے دار ہوجاتا ہے۔ شہر کی بڑی بڑی نہاریوں کی دکانوں میں ہمارا ہی گوشت استعمال ہوتا ہے۔'' اتنا کہہ کر اونٹ لمحہ بھر کو رکا پھر اپنی بات آگے بڑھائی۔
''جہاں تک تم نے ہڑتال اور جلائوگھیرائو کا مشورہ دیا ہے، اس پر ہم اونٹ عمل نہیں کرسکتے کہ پھر ہم میں اور انسانوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟ کہنے والے تو یہی کہیں گے ناں! کہ کوا چلا ہنس کی چال۔۔۔۔ اور ہمیں اپنی چال بلکہ چال چلن پسند ہے۔ ہم اسے بدلنا نہیں چاہتے۔''
''تم اونٹ چیخ چِلّا نہیں سکتے، احتجاج نہیں کرسکتے، ہڑتال نہیں کرسکتے تو پھر کیا کرسکتے ہو؟''
''ہاں۔۔۔۔! ہم کیا کرسکتے ہیں؟'' اونٹ نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا؛ ''تم نے بڑا اچھا سوال کیا ہے کاگا جی!'' اُس نے چند لمحوں تک جگالی کی پھر بولا؛ ''جو لوگ اپنے لیے خود کچھ نہیں کرسکتے وہ دوسروں کے دست نگر بن جاتے ہیں۔ ان کی ضرورتیں پوری کرنے والے جو چاہتے ہیں، ان سے کراتے ہیں۔ انہیں اپنی انگلیوں کے اشاروں پر نچاتے ہیں۔
جیسے ہم اونٹوں کے مالک ہم سے نِت نئے کام لیتے ہیں۔ ہم سے محض بوجھ ہی نہیں اُٹھواتے، ہمیں نچواتے بھی ہیں اور ہمیں آپس میں لڑواتے بھی ہیں۔ کاگا جی! آپ کو تو معلوم ہوگا، ناچنے والوں کے لیے خوب صورت جسم کا ہونا کتنا ضروری ہوتا ہے، جیسے مورکا جسم۔ مگر ہمارے ستم ظریف مالک ہم جیسے بھاری اور بھدے جسم کے اونٹوں کے پیروں میں گھنگرو باندھ کر میلوں ٹھیلوں میں مجمع لگوا کر ہمیں نچواتے ہیں اور اس موقع پر یہ گانا بھی گاتے ہیں۔
ناچ میری بلبل کہ پیسا ملے گا
''ارے ارے۔۔۔۔! یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم جیسے پہاڑ سے جانور کو کوئی آدمی بھلا بلبل کہہ کر نچوا سکتا ہے؟ یار! اتنا بڑا جھوٹ تو نہ بولو۔''
''میں جھوٹ نہیں بولتا۔'' اونٹ جھٹ بول پڑا۔ ''اور وہ بھی تمہارے سامنے؟ کیا مجھے نہیں معلوم کہ جھوٹ بولے، کوا کاٹے، کالے کوّے سے ڈریو۔''
''اچھا۔۔۔۔ تو یہ گانا تم نے بھی سنا ہوا ہے؟ کہاں سنا، کس سے سنا؟'' کوّے نے پُراشتیاق لہجے میں پوچھا۔
''میرے مالک کی ملکہ۔۔۔۔ میرا مطلب ہے، ان کی بیگم جب اپنے شوہر سے ناراض ہوتی ہیں تو گاتی ہیں۔
میں میکے چلی جائوں گی تم دیکھتے رہیو۔'' پھر ذرا رک کر بولا؛ ''کاگا جی! تم کتنے خوش نصیب ہوکہ اتنے کالے کلوٹے ہو، پھر بھی شاعر لوگ تم پر گانے لکھتے ہیں، نظمیں لکھتے ہیں۔''
کوا اپنی تعریف سن کر نروس ہوگیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے۔ اونٹ اسے خاموش دیکھ کر خود ہی بول پڑا؛ ''کیا آپ لوگ سچ مچ جھوٹ بولنے والوں کو کاٹتے ہیں؟''
''کیا مطلب؟''
'' مطلب یہ کہ ایک زمانہ تھا جب جہاں کہیں کسی نے جھوٹ بولا، کوّے منڈیر سے اُترکر اس کے سر پر ٹھونگیں مارنا شروع کردیتے تھے۔ اس دور میں بہت کم لوگ جھوٹ بولتے تھے۔
کبھی کبھی بولتے تھے مگر جب لوگ ''سچ بولوںگا، سچ کے سوا کچھ نہ بولوںگا۔'' بولتے وقت بھی جھوٹ بولنے لگے۔ بے شمار لوگ بے حساب جھوٹ بولنے لگے تو کوئوں نے بھی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ جھوٹوں کے مقابلے میں کالے کوئوں کی تعداد بہت کم تھی۔
ٹھیک اسی وقت۔۔۔۔ اونٹ کا مالک آگیا۔ کوا اس کی پیٹھ سے اُڑکر درخت کی شاخ پر جا بیٹھا۔ شتربان نے اونٹ کی پیٹھ تھپتھپا کر کہا؛ ''چل میرے ایف سولہ جہاز۔۔۔۔ اب کچھ کام کاج کرلیں۔'' پھر اس نے زمین کی طرف دیکھا، بکری ساری گھاس چَرکر جاچکی تھی۔ ایک دم اس کی تیوری پر بَل پڑگئے۔
''کم بخت! تین دن کا گھاس ایک ہی بَخَت (وقت) میں کھا لیا؟'' اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا۔ ''اتنا کھائے گا تو اَپن کا دھڑن تختہ ہو جائیںگا۔ اب ہم تم کو تین دن تک کچھ کھانے پینے کو نہیں دوں گا۔''
کوّے نے دیکھا، اونٹ نے بے بسی کے عالم میں اپنا منہ اُٹھاکر یوں کھولا جیسے گدھے کی طرح ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگے گا۔ مگر اس کے منہ سے کوئی آواز نہیں نکلی، بس رال ٹپک کر رہ گئی۔ کوا دل ہی دل میں ''بے چارہ!'' کہہ کر رہ گیا۔
بکری اونٹ کے قریب آئی اور بڑی محبت سے پوچھا؛ ''آپ جیسا خوب صورت جانور کس دیس کا رہنے والا ہے؟ میرا مطلب ہے آپ کا وطن کہاں ہے؟''
اونٹ نے آہستہ آہستہ اپنا منہ اونچا کرنا شروع کیا اور جب اس کا منہ آسمان کی طرف ہوا تو اس نے کہا؛ ''بغداد۔'' اتنا کہہ کے جب منہ نیچے کیا تو دیکھا، گھاس کا بہت بڑا حصہ بکری کھاچکی ہے۔
اونٹ نے سوچا، بکری کا منہ یہاں سے ہٹانے کے لیے مجھے بھی اس کے دیس کے بارے میں سوال کرنا چاہیے۔ چناںچہ اس نے بکری سے پوچھا؛ ''میری بہن! تم کس دیس کی رہنے والی ہو؟''
بکری نے منہ اٹھائے بغیر جواب دیا؛ ''یہیں کی، یہی میرا وطن ہے۔ میں اسی سرزمین کی رہنے والی ہوں، اس دھرتی کی بیٹی ہوں۔''
قریب ہی ایک درخت کی شاخ پر بیٹھا کوا یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ وہ وہاں سے اُڑکر اونٹ کی پیٹھ پر آبیٹھا اور اسے مخاطب کرکے بولا؛ ''تم کتنے سیدھے ہو۔''
''مجھ سے تو ہرکوئی کہتا ہے، ''اونٹ رے اونٹ! تیری کون سی کل سیدھی؟'' اور تم مجھے سیدھا کہہ رہے ہو، کیا یہ عجیب بات نہیں؟'' اونٹ نے حیرانی سے کہا۔
''ارے بھائی! سیدھے سے میرا مطلب سادہ ہے۔''
''کاگا جی! میرا خیال ہے تمہیں اپنی آنکھوں کا ٹیسٹ کروانا چاہیے کیوںکہ میرا رنگ تمہیں سادہ نظر آنے لگا ہے۔''
''تم پھر غلط سمجھے۔ سادے کا مطلب سادہ لوح سے ہے۔ یعنی تم کتنے سیدھے سادے بھولے بھالے ہو۔''
''پتا نہیں، میںکتنا بھولابھالا ہوں۔ مجھے توآج تک کسی نے نہیں بتایا۔''
''آپ گدھے ہیں۔'' کوے نے جھلّا کرکہا اور پُھدک کر اس کی پیٹھ پر جا بیٹھا۔
''کیا واقعی؟'' اونٹ نے خوش ہوکر کہا۔ ''ایک بار پھر مجھے گدھا کہیے۔ کتنے اچھے ہیں آپ۔''
کوّے کا جی چاہا کہ اس ڈفر اونٹ کو اٹھاکر پرے پھینک دے مگر یہ سوچ کر اپنا ارادہ ملتوی کردیا کہ یہ اس کے بس کی بات نہیں۔
اس نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے پوچھا، ''گدھے کی کون سی بات آپ کو اچھی لگتی ہے کہ آپ گدھا کہلوانا پسند کرتے ہیں؟''
''اس کی ڈھینچوں ڈھینچوں۔ میرا بڑا دل چاہتا ہے کہ میں بھی گدھے کی طرح ڈھینچوں ڈھینچوں کروں مگر۔۔۔۔۔'' اتنا کہہ کے اونٹ خاموش ہوگیا اور اداس نظروں سے آسمان کو گھورنے لگا۔
''کہاں کھوگئے میرے بھائی؟ گدھے کے شیدائی؟''
''آہ! میں تمہیں کیا بتائوںکاگا جی! جب رات کی تنہائی میں کہیں نزدیک یا دور سے کسی گدھے کی ڈھینچوں ڈھینچوں رات کے سناٹے کو چیرتی ہوئی سنائی دیتی ہے تو دل پر کیا اثر پڑتا ہے؟ تم نہیں جانتے، اس آواز میں کتنا درد۔۔۔۔ کتنا سوز ہوتا ہے۔''
کوا غصے سے اس کی گردن سے اُڑ کر اس کی دُم کے قریب آبیٹھا۔ انداز ایسا ہی تھا جیسے وہ اسے دُم سے پکڑ کر کسی کھائی میں پھینک دے گا مگر وہ اونٹ تھا کوئی چوہا نہیں۔ لہٰذا، ایک بار پھر اسے اپنے غصے کو پی جانا پڑا۔ اس نے اونٹ کی دُم دیکھتے ہوئے بات بنائی۔ ''تم اس قدر بھاری بھرکم، اتنے بڑے ڈیل ڈول کے جانور ہو مگر تمہاری دُم۔۔۔۔۔''
''کیوں؟ کیا ہوا میری دُم کو؟''
''گھوڑا، گدھا، گائے، بکری حتیٰ کہ کتا تم سے کتنا چھوٹا جانور ہے مگر تمہارے مقابلے میں ان سب کی دُم کتنی بڑی ہے۔ کہیں ایسا تو تمہارے ساتھ نہیں ہوا کہ۔۔۔۔۔؟''
''کیسا۔۔۔۔ ذرا وضاحت سے بتائو کاگاجی! ''
ایسا کہ ؎
ایک تھا تیتر، ایک بیٹر
لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہوگئی گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم
اونٹ کھکھلا کر ہنس پڑا۔ ''نہیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں تھی۔''
''پھر کیا بات تھی؟''
''یہ تو اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔ ویسے ہم نے اپنے بڑے بوڑھوں سے سنا ہے کہ ہماری پیٹھ پر جو کوہان ہے جب اس کے بنانے کا وقت آیا تو ہمارے بنانے کا مال ختم ہوچکا تھا۔ لہٰذا، ہماری دُم کے میٹریل سے ہمارا کوہان بنادیا گیا اور دُم کو مختصر کردیا گیا۔''
''تم نے اپنے بزرگوں سے کبھی یہ بھی پوچھا تھا کہ صحرائی جہاز صحرا چھوڑ کر شہروں میں کیوں چلا آیا؟''
''پوچھا تھا۔'' کہہ کر اونٹ نے ایک سرد آہ بھری، پھر بولا؛ ''صحرائوں میں جب تیل نکل آیا تو وہاں موٹریں دوڑنے لگیں۔ ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر اُڑنے لگے اور بے چارے صحرائی جہازوں کو صحرا بدر کردیا گیا۔ چناںچہ اب ہم اپنی پیٹھ پر کنٹینر لادے اندرونِ شہر رواںدواں رہتے ہیں۔''
''یہ پیٹھ پر کنٹینر لادنے والی بات سمجھ میں نہیں آئی؟'' کوّے نے کہا۔
''تم جیسا سیانا کوا بھی یہ سیدھی سی بات نہ سمجھ سکا؟ کاگاجی! ہمیں جس گاڑی میں جَوتا جاتا ہے وہ گدھاگاڑی کے مقابلے میں کتنی بڑی ہوتی ہے۔ ایک کنٹینر جتنا مال اس پر لادا جاتا ہے۔ ہم اس بوجھ کو بڑی مشکل سے کھینچتے ہیں۔ ایک ایک قدم آگے بڑھانا ہمیں دشوار ہوتا ہے، اس پر ہمارا شُتربان ہمیں سونٹا مار مار کر کہتا ہے۔ ؎
ٹھمک ٹھمک مت چل رہے ''شُتروا'' جانا ہے ھم کا دُور
اس پر میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی ڈھینچوں ڈھینچوں کرنا شروع کردوں۔ ڈھینچوں ڈھینچوں کرکے اپنا احتجاج تو ریکارڈ کرائوں۔ اپنی آواز کو اپنا ہتھیار بنائوں مگر۔۔۔۔'' مگر کہہ کر اونٹ خاموش ہوگیا۔
پھر تھوڑی دیر تک جُگالی کرنے کے بعد بولا؛ ''مگر قدرت نے تو ہمیں چیخنے چِلّانے کی صلاحیت بھی نہیں دی۔''
''عقل تو دی ہے، اس سے کام کیوں نہیں لیتے؟''
''ہاں عقل تو دی ہے مگر اس سے کام کیسے لے سکتے ہیں، کیا کرسکتے ہیں؟''
تم لوگ انسانوں کی طرح ہڑتال کیوں نہیں کردیتے؟ اپنے مالکوں، شُتربانوں کے خلاف۔ کام چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئو۔ چھوٹے بڑے بینرز اور پِلے کارڈز اٹھاکر اور ٹائر جلاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائو جن پر لکھا ہو:
''جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوں گے ہم کام پر واپس نہیں آئیں گے۔''
''ہمارا مطالبہ ہے پیٹ بھر کھانا، ضرورت سے زیادہ بوجھ نہ اٹھانا۔''
''اس طرح کیا ہوگا؟''
''تم اونٹوں کے سڑکوں پر آتے ہی ٹی وی والے بڑی تعداد میں آجائیں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے تمہارے مطالبات تمہارے مالکوں تک ہی نہیں پوری دنیا میں پہنچا دیںگے۔''
''اور اس سے پہلے کہ ہمارے مطالبات پر کوئی عمل درآمد ہو، ہمارے مالک ہمیں قصابوں کے حوالے کر دیںگے۔'' اونٹ نے ترکی بہ ترکی کہا۔ ''وہ پہلے ہی ہمیں دھمکی دیتے رہتے ہیں کہ جی لگاکر کام نہیں کروگے تو ہم تمہیں قصابوں کے ہاتھوں بیچ کر کوئی سوزی ٹرک قسطوں پر خرید لیں گے۔''
''اے ہے۔۔۔۔! توکیا قصاب اونٹوں کا گوشت بھی بیچ دیتے ہیں؟ ہم نے تو سنا تھا کہ اونٹ کا گوشت کڑوا ہوتا ہے کیوںکہ تم لوگ نیم کے پتّے کھاتے ہو۔''
''اب ہمارا گوشت کڑوا نہیں ہوتا کیوںکہ شہروں میں تو نیم، حکیم کو بھی مشکل سے ملتا ہے۔ ہمارے شتربان ہماری پسندیدہ ڈش کہاں سے لاکر کھلائیں گے؟ جو گھاس بھوسا کھلاتے ہیں اس سے ہمارا گوشت ذائقے دار ہوجاتا ہے۔ شہر کی بڑی بڑی نہاریوں کی دکانوں میں ہمارا ہی گوشت استعمال ہوتا ہے۔'' اتنا کہہ کر اونٹ لمحہ بھر کو رکا پھر اپنی بات آگے بڑھائی۔
''جہاں تک تم نے ہڑتال اور جلائوگھیرائو کا مشورہ دیا ہے، اس پر ہم اونٹ عمل نہیں کرسکتے کہ پھر ہم میں اور انسانوں میں کیا فرق رہ جائے گا؟ کہنے والے تو یہی کہیں گے ناں! کہ کوا چلا ہنس کی چال۔۔۔۔ اور ہمیں اپنی چال بلکہ چال چلن پسند ہے۔ ہم اسے بدلنا نہیں چاہتے۔''
''تم اونٹ چیخ چِلّا نہیں سکتے، احتجاج نہیں کرسکتے، ہڑتال نہیں کرسکتے تو پھر کیا کرسکتے ہو؟''
''ہاں۔۔۔۔! ہم کیا کرسکتے ہیں؟'' اونٹ نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا؛ ''تم نے بڑا اچھا سوال کیا ہے کاگا جی!'' اُس نے چند لمحوں تک جگالی کی پھر بولا؛ ''جو لوگ اپنے لیے خود کچھ نہیں کرسکتے وہ دوسروں کے دست نگر بن جاتے ہیں۔ ان کی ضرورتیں پوری کرنے والے جو چاہتے ہیں، ان سے کراتے ہیں۔ انہیں اپنی انگلیوں کے اشاروں پر نچاتے ہیں۔
جیسے ہم اونٹوں کے مالک ہم سے نِت نئے کام لیتے ہیں۔ ہم سے محض بوجھ ہی نہیں اُٹھواتے، ہمیں نچواتے بھی ہیں اور ہمیں آپس میں لڑواتے بھی ہیں۔ کاگا جی! آپ کو تو معلوم ہوگا، ناچنے والوں کے لیے خوب صورت جسم کا ہونا کتنا ضروری ہوتا ہے، جیسے مورکا جسم۔ مگر ہمارے ستم ظریف مالک ہم جیسے بھاری اور بھدے جسم کے اونٹوں کے پیروں میں گھنگرو باندھ کر میلوں ٹھیلوں میں مجمع لگوا کر ہمیں نچواتے ہیں اور اس موقع پر یہ گانا بھی گاتے ہیں۔
ناچ میری بلبل کہ پیسا ملے گا
''ارے ارے۔۔۔۔! یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ تم جیسے پہاڑ سے جانور کو کوئی آدمی بھلا بلبل کہہ کر نچوا سکتا ہے؟ یار! اتنا بڑا جھوٹ تو نہ بولو۔''
''میں جھوٹ نہیں بولتا۔'' اونٹ جھٹ بول پڑا۔ ''اور وہ بھی تمہارے سامنے؟ کیا مجھے نہیں معلوم کہ جھوٹ بولے، کوا کاٹے، کالے کوّے سے ڈریو۔''
''اچھا۔۔۔۔ تو یہ گانا تم نے بھی سنا ہوا ہے؟ کہاں سنا، کس سے سنا؟'' کوّے نے پُراشتیاق لہجے میں پوچھا۔
''میرے مالک کی ملکہ۔۔۔۔ میرا مطلب ہے، ان کی بیگم جب اپنے شوہر سے ناراض ہوتی ہیں تو گاتی ہیں۔
میں میکے چلی جائوں گی تم دیکھتے رہیو۔'' پھر ذرا رک کر بولا؛ ''کاگا جی! تم کتنے خوش نصیب ہوکہ اتنے کالے کلوٹے ہو، پھر بھی شاعر لوگ تم پر گانے لکھتے ہیں، نظمیں لکھتے ہیں۔''
کوا اپنی تعریف سن کر نروس ہوگیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا جواب دے۔ اونٹ اسے خاموش دیکھ کر خود ہی بول پڑا؛ ''کیا آپ لوگ سچ مچ جھوٹ بولنے والوں کو کاٹتے ہیں؟''
''کیا مطلب؟''
'' مطلب یہ کہ ایک زمانہ تھا جب جہاں کہیں کسی نے جھوٹ بولا، کوّے منڈیر سے اُترکر اس کے سر پر ٹھونگیں مارنا شروع کردیتے تھے۔ اس دور میں بہت کم لوگ جھوٹ بولتے تھے۔
کبھی کبھی بولتے تھے مگر جب لوگ ''سچ بولوںگا، سچ کے سوا کچھ نہ بولوںگا۔'' بولتے وقت بھی جھوٹ بولنے لگے۔ بے شمار لوگ بے حساب جھوٹ بولنے لگے تو کوئوں نے بھی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ جھوٹوں کے مقابلے میں کالے کوئوں کی تعداد بہت کم تھی۔
ٹھیک اسی وقت۔۔۔۔ اونٹ کا مالک آگیا۔ کوا اس کی پیٹھ سے اُڑکر درخت کی شاخ پر جا بیٹھا۔ شتربان نے اونٹ کی پیٹھ تھپتھپا کر کہا؛ ''چل میرے ایف سولہ جہاز۔۔۔۔ اب کچھ کام کاج کرلیں۔'' پھر اس نے زمین کی طرف دیکھا، بکری ساری گھاس چَرکر جاچکی تھی۔ ایک دم اس کی تیوری پر بَل پڑگئے۔
''کم بخت! تین دن کا گھاس ایک ہی بَخَت (وقت) میں کھا لیا؟'' اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا۔ ''اتنا کھائے گا تو اَپن کا دھڑن تختہ ہو جائیںگا۔ اب ہم تم کو تین دن تک کچھ کھانے پینے کو نہیں دوں گا۔''
کوّے نے دیکھا، اونٹ نے بے بسی کے عالم میں اپنا منہ اُٹھاکر یوں کھولا جیسے گدھے کی طرح ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگے گا۔ مگر اس کے منہ سے کوئی آواز نہیں نکلی، بس رال ٹپک کر رہ گئی۔ کوا دل ہی دل میں ''بے چارہ!'' کہہ کر رہ گیا۔