حکومتیں سبق کیوں نہیں سیکھتیں
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ماضی میں بھی سیاسی مفاد کے لیے ساتھ مل کر چلنے پر اتفاق کرچکی ہیں
وفاقی وزیر قانون نے وزیر اعظم شہباز شریف کو پی ٹی آئی پر ممکنہ پابندی اور اس کے تین رہنماؤں پر آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کے لیے بریفنگ دی ہے جب کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے سلسلے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا حکومتی فیصلے پر اتفاق کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی نے ایوان صدر میں ہونے والے اجلاس کے بعد واضح کردیا ہے کہ پیپلز پارٹی ہر آئینی اور قانونی فیصلوں کے لیے حکومت کے ساتھ کھڑی رہے گی جب کہ بعض معاملات پر اب بھی پیپلز پارٹی کو (ن) لیگ کی طرف سے تحفظات ہیں کہ وہ پی پی کو پہلے اعتماد میں نہیں لیتی۔ موجودہ حکومت میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں اہم پارٹیز ہیں اور باہمی رضامندی سے پیپلز پارٹی ملک کے اہم آئینی عہدے لے چکی ہے مگر اس نے حکومت میں اپنے وزیر شامل نہیں کیے جب کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں پیپلز پارٹی کے پاس وزارت خارجہ سمیت اہم وزارتیں تھیں اور مشیروں و معاونین خصوصی کی ایک بڑی تعداد پی پی رہنماؤں پر مشتمل تھی صرف صدر مملکت کا عہدہ پی ٹی آئی کے پاس تھا۔
صدر کے عہدے کی مدت ستمبر 2023 میں ختم ہو جانے کے باوجود آئینی وجوہات کے باعث عام انتخابات تک صدر عارف علوی کو مزید 6 ماہ صدر رہنے کا موقعہ مل گیا تھا اور انھوں نے اپنی پی ٹی آئی حکومت ختم کیے جانے کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم نہیں کیے۔
1988 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی تین تین حکومتیں قائم ہوئیں۔ پہلی دو، دو حکومتوں میں دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں اور ایک دوسرے کی حکومتیں چلنے نہیں دیں اور دونوں کی کوئی حکومت مدت پوری نہ کر سکی تھی۔
1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آ کر دونوں پارٹیوں کو شکنجے میں کسا تو دونوں پارٹیوں کی قیادت جلاوطن ہونے پر مجبور ہوئی کیونکہ جنرل مشرف دونوں سابق حکمرانوں کے خلاف تھے اور دونوں پارٹیوں کی سیاست ختم کرنا چاہتے تھے اور اس کوشش میں عمران خان بھی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تھے اور موقع سے فائدہ اٹھا کر جنرل پرویز مشرف کے ذریعے وزیر اعظم بننا چاہتے تھے مگر جنرل پرویز مشرف کو ان پر اعتماد نہیں تھا جس کی وجہ سے انھوں نے مسلم لیگ (ق) بنوائی جس کی حکومت نے صدر پرویز مشرف کی وجہ سے اپنی مدت پہلی بار پوری کی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کے باعث نواز شریف اور بے نظیر بھٹو لندن میں باہمی اختلافات ختم کر کے میثاق جمہوریت پر مجبور ہوئے۔ دونوں پارٹیوں نے سبق سیکھ لیا تھا کہ پرویز مشرف انھیں ختم کرنا چاہتے ہیں اس لیے دونوں متحد ہوئے اور فیصلہ کیا کہ اگر وہ تیسری بار اقتدار میں آئے تو پہلے کی طرح سیاست نہیں کریں گے۔
میثاق جمہوریت کے باعث 2008سے 2018تک دونوں پارٹیوں کی حکومتوں نے پہلی بار اپنی اقتداری مدت تو پوری کی مگر بالاتر تحریک انصاف کی سرپرستی کر کے دونوں پارٹیوں کے مقابلے میں نئی پارٹی سامنے لے آئے اور 2018 میں عمران خان کو اقتدار دیا گیا جو توقعات پر پورے نہ اترے اور انھوں نے بھی جنرل(ر) مشرف کی طرح مختلف الزامات میں پی پی اور (ن) لیگ کے خلاف بھرپور انتقامی کارروائیاں کیں اور آمر بن کر دونوں پارٹیوں کی سیاست ختم کرنا چاہی مگر ناکام رہے جس پر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی ایک بار پھر آپس میں متحد ہوئے اور دونوں بڑی پارٹیوں نے عمران خان کے اتحادیوں کی مدد سے انھیں برطرف کرایا جو ملک میں پہلی بار آئینی برطرفی تھی۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ماضی میں بھی سیاسی مفاد کے لیے ساتھ مل کر چلنے پر اتفاق کرچکی ہیں مگر دونوں نے اپنی اپنی حکومتوں میں صرف یہ سبق سیکھا کہ سیاسی و اقتداری مفاد کے لیے آپس میں ایک ہو کر چلیں مگر دونوں نے عوام کے مفاد کے لیے کبھی مل کرکام نہیں کیا اور اگر کسی نے عوام کے مفاد کا فیصلہ کیا تو دوسرے نے مخالفت کی کہ کہیں وہ عوام میں مزید مقبول نہ ہو جائیں۔ (ن) لیگ اور پی پی تیسری بار مل کر حکومت کر رہی ہیں۔
گیلانی حکومت میں (ن) لیگ ججز بحالی تحریک میں عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے پی پی حکومت سے الگ ہوگئی تھی جس کے بعد پی پی حکومت نے پنجاب میں (ن) لیگی حکومت ختم کر کے گورنر راج لگایا تھا، پھر (ن) لیگ کی وفاقی حکومت میں پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت ختم کرائی اور پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کی مدد سے بلوچستان میں باپ پارٹی کی حکومت اور صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب کرایا تھا۔
پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے سندھ میں پی پی کی حکومت ختم کرانے کی کوشش کی تھی جب کہ نواز شریف نے اپنے تیسرے اقتدار میں سندھ میں پی پی اور کے پی میں پی ٹی آئی حکومتیں ختم کرانے میں دلچسپی نہیں لی تھی اور 2018 میں اقتدار میں آکر عمران خان نے پی پی اور (ن) لیگ کے ساتھ وہ کچھ کیا جو ان کے ساتھ جنرل پرویز(ر) نے بھی نہیں کیا تھا۔
(ن) لیگ اور پی پی حکومتوں نے عمران خان کی آمرانہ حکومت کا مل کر مقابلہ کیا اور اب یہ دونوں عمران خان کے ساتھ وہی کچھ کر رہی ہیں جو کبھی ماضی میں کامیاب نہیں ہوا۔ عمران خان کے ساتھ جوکچھ ہو رہا ہے اس کے ذمے دار عمران خان ہیں جنھوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی کچھ نہیں سیکھا اور وہ دونوں پارٹیوں کے ساتھ جمہوریت کے لیے بیٹھنے کو تیار نہیں مگر حصول اقتدارکے لیے ان ہی بالاتروں کی حمایت چاہتے ہیں جو انھیں پہلے اقتدار میں لائے۔ حکومتوں میں رہ کر مخالفین کو پہلے ختم کیا جاسکا نہ اب کسی کو ختم کیا جاسکے گا۔
ماضی میں کسی پارٹی پر پابندی کبھی بھی کامیاب نہیں رہی نہ اب ہوگی مگر عمران خان جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کر چکے ہیں کہ دونوں پارٹیاں اور بالاتر ان کے خلاف ہو چکے ہیں جب کہ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔
پیپلز پارٹی نے ایوان صدر میں ہونے والے اجلاس کے بعد واضح کردیا ہے کہ پیپلز پارٹی ہر آئینی اور قانونی فیصلوں کے لیے حکومت کے ساتھ کھڑی رہے گی جب کہ بعض معاملات پر اب بھی پیپلز پارٹی کو (ن) لیگ کی طرف سے تحفظات ہیں کہ وہ پی پی کو پہلے اعتماد میں نہیں لیتی۔ موجودہ حکومت میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں اہم پارٹیز ہیں اور باہمی رضامندی سے پیپلز پارٹی ملک کے اہم آئینی عہدے لے چکی ہے مگر اس نے حکومت میں اپنے وزیر شامل نہیں کیے جب کہ پی ڈی ایم کی حکومت میں پیپلز پارٹی کے پاس وزارت خارجہ سمیت اہم وزارتیں تھیں اور مشیروں و معاونین خصوصی کی ایک بڑی تعداد پی پی رہنماؤں پر مشتمل تھی صرف صدر مملکت کا عہدہ پی ٹی آئی کے پاس تھا۔
صدر کے عہدے کی مدت ستمبر 2023 میں ختم ہو جانے کے باوجود آئینی وجوہات کے باعث عام انتخابات تک صدر عارف علوی کو مزید 6 ماہ صدر رہنے کا موقعہ مل گیا تھا اور انھوں نے اپنی پی ٹی آئی حکومت ختم کیے جانے کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم نہیں کیے۔
1988 کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی تین تین حکومتیں قائم ہوئیں۔ پہلی دو، دو حکومتوں میں دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں اور ایک دوسرے کی حکومتیں چلنے نہیں دیں اور دونوں کی کوئی حکومت مدت پوری نہ کر سکی تھی۔
1999 میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار میں آ کر دونوں پارٹیوں کو شکنجے میں کسا تو دونوں پارٹیوں کی قیادت جلاوطن ہونے پر مجبور ہوئی کیونکہ جنرل مشرف دونوں سابق حکمرانوں کے خلاف تھے اور دونوں پارٹیوں کی سیاست ختم کرنا چاہتے تھے اور اس کوشش میں عمران خان بھی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تھے اور موقع سے فائدہ اٹھا کر جنرل پرویز مشرف کے ذریعے وزیر اعظم بننا چاہتے تھے مگر جنرل پرویز مشرف کو ان پر اعتماد نہیں تھا جس کی وجہ سے انھوں نے مسلم لیگ (ق) بنوائی جس کی حکومت نے صدر پرویز مشرف کی وجہ سے اپنی مدت پہلی بار پوری کی تھی۔
جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کے باعث نواز شریف اور بے نظیر بھٹو لندن میں باہمی اختلافات ختم کر کے میثاق جمہوریت پر مجبور ہوئے۔ دونوں پارٹیوں نے سبق سیکھ لیا تھا کہ پرویز مشرف انھیں ختم کرنا چاہتے ہیں اس لیے دونوں متحد ہوئے اور فیصلہ کیا کہ اگر وہ تیسری بار اقتدار میں آئے تو پہلے کی طرح سیاست نہیں کریں گے۔
میثاق جمہوریت کے باعث 2008سے 2018تک دونوں پارٹیوں کی حکومتوں نے پہلی بار اپنی اقتداری مدت تو پوری کی مگر بالاتر تحریک انصاف کی سرپرستی کر کے دونوں پارٹیوں کے مقابلے میں نئی پارٹی سامنے لے آئے اور 2018 میں عمران خان کو اقتدار دیا گیا جو توقعات پر پورے نہ اترے اور انھوں نے بھی جنرل(ر) مشرف کی طرح مختلف الزامات میں پی پی اور (ن) لیگ کے خلاف بھرپور انتقامی کارروائیاں کیں اور آمر بن کر دونوں پارٹیوں کی سیاست ختم کرنا چاہی مگر ناکام رہے جس پر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی ایک بار پھر آپس میں متحد ہوئے اور دونوں بڑی پارٹیوں نے عمران خان کے اتحادیوں کی مدد سے انھیں برطرف کرایا جو ملک میں پہلی بار آئینی برطرفی تھی۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ماضی میں بھی سیاسی مفاد کے لیے ساتھ مل کر چلنے پر اتفاق کرچکی ہیں مگر دونوں نے اپنی اپنی حکومتوں میں صرف یہ سبق سیکھا کہ سیاسی و اقتداری مفاد کے لیے آپس میں ایک ہو کر چلیں مگر دونوں نے عوام کے مفاد کے لیے کبھی مل کرکام نہیں کیا اور اگر کسی نے عوام کے مفاد کا فیصلہ کیا تو دوسرے نے مخالفت کی کہ کہیں وہ عوام میں مزید مقبول نہ ہو جائیں۔ (ن) لیگ اور پی پی تیسری بار مل کر حکومت کر رہی ہیں۔
گیلانی حکومت میں (ن) لیگ ججز بحالی تحریک میں عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے پی پی حکومت سے الگ ہوگئی تھی جس کے بعد پی پی حکومت نے پنجاب میں (ن) لیگی حکومت ختم کر کے گورنر راج لگایا تھا، پھر (ن) لیگ کی وفاقی حکومت میں پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں (ن) لیگ کی حکومت ختم کرائی اور پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی کی مدد سے بلوچستان میں باپ پارٹی کی حکومت اور صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب کرایا تھا۔
پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت نے سندھ میں پی پی کی حکومت ختم کرانے کی کوشش کی تھی جب کہ نواز شریف نے اپنے تیسرے اقتدار میں سندھ میں پی پی اور کے پی میں پی ٹی آئی حکومتیں ختم کرانے میں دلچسپی نہیں لی تھی اور 2018 میں اقتدار میں آکر عمران خان نے پی پی اور (ن) لیگ کے ساتھ وہ کچھ کیا جو ان کے ساتھ جنرل پرویز(ر) نے بھی نہیں کیا تھا۔
(ن) لیگ اور پی پی حکومتوں نے عمران خان کی آمرانہ حکومت کا مل کر مقابلہ کیا اور اب یہ دونوں عمران خان کے ساتھ وہی کچھ کر رہی ہیں جو کبھی ماضی میں کامیاب نہیں ہوا۔ عمران خان کے ساتھ جوکچھ ہو رہا ہے اس کے ذمے دار عمران خان ہیں جنھوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی کچھ نہیں سیکھا اور وہ دونوں پارٹیوں کے ساتھ جمہوریت کے لیے بیٹھنے کو تیار نہیں مگر حصول اقتدارکے لیے ان ہی بالاتروں کی حمایت چاہتے ہیں جو انھیں پہلے اقتدار میں لائے۔ حکومتوں میں رہ کر مخالفین کو پہلے ختم کیا جاسکا نہ اب کسی کو ختم کیا جاسکے گا۔
ماضی میں کسی پارٹی پر پابندی کبھی بھی کامیاب نہیں رہی نہ اب ہوگی مگر عمران خان جان بوجھ کر ایسے حالات پیدا کر چکے ہیں کہ دونوں پارٹیاں اور بالاتر ان کے خلاف ہو چکے ہیں جب کہ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔