انسداد دہشت گردی …وقت کی ضرورت

بلوچستان اور خیبر پختوا نخوا میں دہشت گردی زوروں پر ہے

ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ ''عزم استحکام '' فوجی آپریشن نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر اور مربوط انسداد دہشت گردی مہم ہے۔ اس مہم کا مقصد دہشت گردوں اور کریمنلز کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ہے، اگرہمارا عدالتی و قانونی نظام 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو ڈھیل دے گا اور انھیںکیفر کردار تک نہیں پہنچائے گا تو ملک میں انتشار مزید پھیلے گا اور فسطائیت بڑھے گی۔ لہٰذا غیر قانونی اسپیکٹرم کی روک تھام کی ضرورت ہے۔

بلاشبہ ترجمان پاک فوج نے صائب خیالات کا اظہار کیا ہے، کیونکہ گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا کے مختلف ٹولز کے ذریعے پاکستان مخالف پروپیگنڈا زور و شور سے جاری ہے۔پاک فوج اور عوام کے مابین بداعتمادی کی خلیج پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈے کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے اور سیاست کے نام پر فوج کو بدنام کیا جا رہا ہے جو ایک انتہائی منفی اور خطرناک مہم ہے ۔

بلوچستان اور خیبر پختوا نخوا میں دہشت گردی زوروں پر ہے۔ دہشت گرد اپنے سہولت کاروں کی مدد سے جدید ترین اسلحہ سے لیس ہوکر کارروائیاں کررہے ہیں، پاک فوج کے افسر اور جوان ملک و قوم کی سلامتی کے لیے جان قربان کررہے ہیں، لیکن ایک مخصوص گروہ چونکہ چناچے کی آڑ لے کر دہشت گردوں کی نظریاتی و مادی سہولت کاری کر رہا ہے۔ دہشت گردوں اور وائٹ کالرز کریمنلزکا نیٹ ورک توڑنے کے لیے جب بھی کوئی حکمت عملی تیار ہوتی ہے تو اس حکمت عملی کی مخالفت شروع کردی جاتی ہے۔

سیاسی گروہ جلسے جلوس شروع کرکے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ اپنے دہشت گردوں کی سہولت کاری کرکے پاکستان اور اس کے قانون پسند اور پرامن شہریوں کے مفادات کو تباہ کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ اس کے باوجود پاک فوج ملک دشمنوں کے خلاف صف آرا ہیں۔ پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے، جہاں مخصوص مائنڈ سیٹ کا حامل گروہ اپنے ہی ملک اور عوام کے مفادات کے خلاف کام کررہا ہے اور دھڑلے سے کررہا ہے۔

ایک طرف وطن عزیز کے لیے پاک فوج میں شہادتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے تو ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ملک کے سیاسی حالات کے تناظر میں پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا مہم کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک مخصوص گروہ اس ملک اور اس کے عوام کے مفادات تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، جس ملک نے انھیں عزت دی، شہرت دی، دولت دی، اعلیٰ سرکاری عہدے دیے اور پاکستانی پاسپورٹ پر بیرون ملک گئے۔ اس گروہ کے ارکان سوشل میڈیا پر اپنی ہی فوج کے خلاف مذموم مہم چلا کر ثابت کرنے کے مشن پر ہیں کہ پاک فوج ملک کے اندر اپنی ہی عوام کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔

ان سطور میں ماضی میں بھی متعدد بار عوام کو آگاہ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ نوجوانوں کو ففتھ جنریشن وار کا کیسے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ ففتھ جنریشن وارکیا ہے اور آج ایک بار پھر اس موضوع کو زیر بحث لانے کی وجہ یہ ہے کہ دشمن نے اپنا یہ ہتھیار بڑی تیزی سے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ ففتھ جنریشن وارکے بنیادی ہتھیار جہاز، ٹینک اور میزائل نہیں بلکہ سفارت کاری، ٹی وی، ریڈیو، اخبار، سوشل میڈیا، فلم اور معیشت ہیں۔ یہ لڑائی زمین پر نہیں بلکہ لوگوں کے ذہنوں کے ذریعے لڑی جا رہی ہے۔ لوگوں کے جسم کو نہیں بلکہ ان کے ذہن کو شکار کیا جا رہا ہے۔

اب یہ کھیل کھل کر کھیلا جا رہا ہے کہ نوجوانوں کواپنے ہی اداروں اور ملک کے بارے میں مایوس کردیا گیا ہے۔سوشل میڈیاکے مختلف ٹولز پر افغانستان کی کرنسی کی قدر کے حوالے جھوٹ اور بے بنیاد اطلاعات پھیلا کر نوجوانوں کے ذہن میں یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ پاکستان کی معیشت افغانستان سے بھی کمزور ہے۔طالبان حکومت کو گلوریفائی کرکے یہ تاثر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جیسے وہ دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بننے جارہا۔اگر یہ خبریں سچ ہیں تو پھر پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین اپنے وطن واپس کیوں نہیں جارہے؟ کیا پاکستان حق بجانب نہیں ہے کہ تمام افغان باشندوں کو زبردستی افغانستان بھیج دے۔


اگر آزادی رائے کی بات کریں تو پاکستان میں آزادی اظہار رائے شاید دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں سے بھی زیادہ ہے۔ کیا امریکا میں کوئی سیاسی گروہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کی جرات کرسکتا ہے؟ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں جن مظاہرین نے کیپٹل ہل میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ کی تھی، انھیں گرفتار کیا گیا، ان پر مقدمے چلے اور سزائیں بھی ہوئی ہیں۔ کیا بھارت میں مودی کی مخالفت میں کوئی گروہ انڈین آرمی کی تنصیبات پر حملہ آور ہونے کی جرات کرسکتا ہے۔

بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے،اگر وہاں آزادی اظہار رائے کی صورتحال دیکھیں تو ماضی قریب میں بھارت نے فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ پر پابندیاں عائد کی ہیں اور ٹویٹر کے دفتر پر تو باقاعدہ چھاپہ مارا گیا تھا۔ چین میں یہ فیس بک، ٹویٹر اور اس طرح کی کوئی ایپ نہیں چلتی ان کا اپنا نظام ہے جس کے تحت لوگ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں۔ ایران اور افغانستان میں حکومت پر تنقید کرکے دکھائیں، اول تو کوئی جرات ہی نہیں کرتا، اگر کرے گا تو جان سے جائے گا۔

جب ہم اپنے ارد گرد ممالک پر نظر دوڑائیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں لوگوں اور سیاستدانوں کو رائے کی آزادی میسر ہے۔ آزادی اظہار رائے کا تصور مادر پدر آزادی نہیں ہے۔ ہر ملک میں آزادی اظہار کے پیرامیٹرز اور قوانین و ضابطے مقرر ہیں۔

پروپیگنڈے کے اس طوفان میں سب سے زیادہ نقصان ہماری اس نوجوان نسل کا ہورہا ہے جو نہ تو مطالعہ شوق رکھتی ہے نہ ہی اسے سیاسی اور معاشی حالات اور واقعات کی حقیقت جاننے سے کوئی دلچسپی ہے۔ متمول طبقہ اپنے بچوں کو جن تعلیمی اداروں میں پڑھا رہا ہے ، وہ کیمرج ،آکسفورڈ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی اداروں کا نصاب پڑھاتے ہیں، ان بچوں کو اپنے ملک کی معاشرتی اقدار، تہذیبی روایات، صدیوں پر محیط تاریخ اور اس کے کرداروں کا کوئی علم نہیں ہے۔ ادھر سرکاری تعلیمی اداروں میں جو نصاب پڑھایا جاتا ہے، اس میں جدید رجحانات کی کمی ہوتی ہے، فرسودہ اور جھوٹ پر مبنی تاریخ پڑھائی جاتی ہے جب کہ ایک طبقہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہوکر نکلتا ہے۔ ان کی سوچ و فکر بالکل الگ ہوتی ہے۔

پاک فوج کے خلاف مہم اس وقت عروج پر ہے جس وقت غزہ میں اسرائیل صرف اس وجہ سے بچوں کے بہیمانہ قتل کے نئے عالمی ریکارڈ قائم کر رہا ہے کیونکہ فلسطینیوں کے پاس نہ اپنا دفاع ہے اور نہ ہی فوج۔ پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان کو بھی اس کی فوج سے محروم کر دیا جائے اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو کم از کم فوج اور عوام کے درمیان ایسے فکری مغالطے اور قلبی فاصلے پیدا کر دیے جائیں تو اس کے بعد پاکستان دشمنوں کے لیے لاہور، کراچی اور پشاور جیسے شہروں کو غزہ بنانا اتنا ہی آسان ہوجائے گا جتنا نیتن یاہو کے لیے ظلم اور بربادی کی نئی تاریخ لکھنا ہوا ہے۔

پاکستان کو بہت سے چیلنجزکا سامنا ہے، اس میں سب سے بڑا چیلنج پاکستان کو اس وقت، سیاسی بے یقینی کے ساتھ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کا غیر ملکی پروپیگنڈے پر کامل یقین کرنا ہے۔ غیر ملکی قوتوں کی ازل سے کوشش رہی ہے کہ پاکستان کی فوج کے خلاف عوام کو لاکھڑا کیا جائے تاکہ معاشرہ تقسیم ہو اور اس تقسیم سے پاکستان کو ایک متحد رکھنے والی فوج بھی تقسیم ہوجائے، جب عوام کا فوج پر اعتماد اٹھ جائے تو ملک میں عراق، افغانستان، یمن، شام اور افریقی ممالک کی طرح بد امنی و انتشار پیدا ہوجائے گا۔

پاکستانی نوجوان قومی سلامتی کے اس ابھرتے ہوئے چیلنج سے نبرد آزما ہونے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں اور اس چیلنج پر اسی وقت قابو پایا جا سکتا ہے جب نوجوان دشمنوں کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈے کو مسترد کرکے ریاست کی طرف سے فراہم کردہ مستند معلومات پر انحصار کریں۔ پاکستان کے غیور عوام اپنی فوج کے پشتی بان بن کر ہمیشہ کی طرح اس کا ساتھ دے گی اور دشمن کی یہ ففتھ جنریشن وار اسی پر الٹا دی جائے گی اور پاک فوج اور عوام کے درمیان جو اخوت اور الفت کا رشتہ ہے وہ پہلے سے مزید مضبوط ہوگا۔
Load Next Story