زرعی ٹیکس کا نفاذ
اس متوسط طبقہ نے مشرقی بنگال کو (جو 1955سے مشرقی پاکستان کہلانے لگا ) بنگلہ دیش میں تبدیل کردیا
آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے اب زرعی انکم ٹیکس کا نفاذ ہو ہی جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے مرد آہن اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے لاہور میں کہا کہ ہمارے دوست کئی نزاکتیں محسوس نہیں کرتے مگر اب آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق زرعی شعبے پر انکم ٹیکس لگے گا۔ صدرکا کہنا تھا کہ زمیندار ہاری کو پچاس فیصد حصہ دیتا ہے اور آبیانہ ادا کرتا ہے، اب یہ سب خرچہ نکال کر ہونے والے منافع پر ٹیکس دیا جائے گا۔
ایک ماہرِ معاشیات کا تخمینہ ہے کہ اس ٹیکس سے 15 سو ارب روپے جمع ہوسکتے ہیں۔ ملک کے آئین کے تحت زراعت صوبائی شعبہ ہے، یوں اب صوبے زرعی انکم ٹیکس وصول کریں گے۔ اس طرح صوبوں کی زرعی انکم ٹیکس وصول کرنے کی اہلیت کا بھی امتحان ہوگا۔
اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں سے مشاورت مکمل کر لی ہے۔ ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں جولائی 2025 سے شروع ہونے والے مالیاتی سال سے زرعی ٹیکس لگانا چاہتی ہے اور ٹیکس کے سلیب میں بھی کمی کرنے کی خواہاں ہے۔ حکومتی ماہرین کا اندازہ ہے کہ زرعی انکم ٹیکس کا تناسب کل آمدنی کا 45 فیصد تک ہوسکتا ہے۔ اس ملک کی 68 فیصد آبادی براہِ راست یا بالواسطہ طور پر زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔
اسی طرح ملک کی 37.4 فیصد لیبر فورس زرعی شعبے سے وابستہ ہوتی ہے اور ملک کی جی ڈی پی کا 23 فیصد حصہ زرعی شعبے سے آتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برآمدات کا 70 فیصد حصہ کا تعلق زرعی شعبے سے ہوتا ہے اور ملک کی 47 فیصد زمین زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح زرعی شعبے سے وابستہ مال مویشیوں کی تعداد 225 ملین کے قریب ہے اور ان مویشیوں سے تقریباً 67 ملین ٹن دودھ سالانہ حاصل ہوتا ہے مگر زرعی شعبے سے 0.1 فیصد ٹیکس حاصل ہوتا ہے۔
موجودہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جی ڈی پی کی شرح 9.5 فیصد سے 13 فیصد تک پہنچانے کے لیے ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ حکومت نے گزشتہ سال ایف بی آرکی کارکردگی کی خاصی نگرانی کی کوشش کی تھی، یوں 3 ٹریلین روپے کے ٹیکس حاصل ہوئے مگر ٹیکس کی یہ آمدنی ملک کے معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کم تھی، اس بناء پر بجٹ میں ٹیکس وصولی کے لیے نئے اقدامات تجویزکیے گئے۔ حکومت کے لیے تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی کرنا سب سے آسان ہے، یہی وجہ ہے کہ تنخواہ دار طبقے پرکئی نئے ٹیکس عائد کیے گئے۔ اب ان نئے ٹیکسوں کی زد میں اساتذہ، ڈاکٹرز، انجنیئرز اور دیگر پروفیشنلز بھی آئے، پھر دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح صنعتی سیکٹر پر بھی نئے ٹیکس لگائے گئے۔
تاریخی طور پر اگر زرعی شعبہ پر ٹیکس لگانے کے معاملے کا جائزہ لیا جائے تو کئی تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح پروفیشنل وکیل تھے۔ ان کے ساتھ بمبئی کے چند مسلمان سرمایہ دار مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے مگر جماعت میں اکثریت بڑے جاگیرداروں اور نوابین کی تھی۔ متحدہ ہندوستان میں 1946میں کانگریس اور مسلم لیگ کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو وزیر اعظم اور لیاقت علی خان وزیرخزانہ مقرر ہوئے۔ انھوں نے بطور وزیرخزانہ اپنا شہرئہ آفاق بجٹ پیش کیا۔ اس بجٹ میں جاگیرداروں پرکوئی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا تھا جب کہ صنعت کاروں اور تاجروں پر بڑے ٹیکس لگائے گئے تھے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اس بجٹ کی یہ توجیح پیش کی تھی کہ تمام بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار ہندو تھے جب کہ جاگیردار اور نواب مسلمان تھے، اس بناء پر ہندووں پر ٹیکس لگائے گئے۔ نوبزادہ لیاقت علی خان کے اس بجٹ کا ہماری کتابوں میں ان کے کارنامے کے طور پر ذکر ہوتا ہے مگر اس حقیقت کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ صنعت کار اور کاروباری طبقے پر زیادہ ٹیکس لگانے کا مطلب ملک کو صنعتی دور میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔ یوں نئے ملک کے قیام کے بعد بھی نوابزادہ لیاقت علی خان اور مسلم لیگ کی قیادت کی یہ روایت برقرار رہی اور زرعی شعبہ کو انکم ٹیکس سے مبرا رکھا گیا، یوں ٹیکس نیٹ نہ بڑھ سکا اور مالیاتی خسارہ بڑھنے لگا۔ اگرچہ مسلم لیگ کے منشور میں زرعی اصلاحات کی شق شامل تھی مگر مسلم لیگ کی قیادت نے مغربی پاکستان میں کبھی بے زمین کسانوں،ہاریوں اور مزارعین کو سرکاری زمین دینے اور بڑی جاگیریں ختم کرنے کے بارے میں نہیں سوچا مگر مشرقی بنگال میں زرعی اصلاحات ہوئیں جس کے نتیجے میں وہاں متوسط طبقے کی قیادت ابھر کر سامنے آئی ۔
اس متوسط طبقہ نے مشرقی بنگال کو (جو 1955سے مشرقی پاکستان کہلانے لگا ) بنگلہ دیش میں تبدیل کردیا۔ پاکستان کے مغربی حصے میں کمیونسٹ پارٹی اور اس کی ذیلی کسان تنظیموں نے زرعی اصلاحات کے لیے جدوجہد کی۔ اگرچہ 50کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگادی گئی مگرکسان تنظیموں کی جدوجہد کی بناء پر 60کی دہائی میں زرعی اصلاحات اہم ایشو بن گیا تھا۔ 1958 میں جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا اور ملک میں پہلی زرعی اصلاحات ہوئیں مگر یہ زرعی اصلاحات عملی طور پرکامیاب نہ ہوسکیں۔
ایوب خان کی حکومت کو جاگیرداروں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس بناء پر زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ پر غور تک نہ ہوا مگر 60کی دہائی میں جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف طلبہ، مزدور،کسان تنظیموں اور سیاسی مخالفین کی جدوجہد خاصی مضبوط رہی، یہی وجہ تھی کہ 1967 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی قائم کی تو زرعی اصلاحات پیپلز پارٹی کے منشورکا اہم حصہ تھی۔ اس زمانے میں جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی تنظیمیں زرعی اصلاحات اور بڑی جاگیرداریں ختم کرنے کے مطالبے کو اہمیت نہیں دی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 1972 میں زرعی اصلاحات نافذ کیں۔ یہ اصلاحات ایک حد تک کامیاب رہیں مگر بھٹو حکومت زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ پر تیار نہیں تھی۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت قائم ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق نے جاگیرداروں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے زرعی اصلاحات پر عملدرآمد کو ردکیا اور زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا۔ جنرل ضیاء الحق حکومت کے مشیر اور بعد میں وزیر خزانہ بننے والے ڈاکٹر محبوب الحق زرعی انکم ٹیکس کے حامی تھے اور انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد HDI کا فارمولہ پیش کیا مگر وہ بھی زرعی انکم ٹیکس نافذ نہ کراسکے۔ یہی صورتحال نواز شریف، پرویز مشرف، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف اور عمران خان کی حکومتوں میں رہی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2015میں ٹیننسی ایکٹ میں خاموشی سے تبدیلی کر کے ہاری کو اس کے جائز حصے سے محروم کردیا۔ اب اس نئی ترمیم کے بعد ہاری کو بیج،کیمیائی کھاد اور جراثم کش ادویات کی خریداری کے لیے 50 فیصد بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ماہرِ معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ 1فیصد جاگیرداروں کے پاس ملک میں 22 فیصد زمین ہے مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صوبے 60 سے 70 ارب روپے تک جمع کرسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کا خیرمقدم کیا ہے۔
انھوں نے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ اب صرف زمیندار ہی اپنی آمدنی سے زرعی ٹیکس ادا کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ زرعی شعبہ میں ہاری کو آمدنی کا 50 فیصد حصہ ملتا ہے جب کہ صنعتی اداروں میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ زرعی اصلاحات کے قانون کی بناء پر زمیندار ایک مخصوص تعداد سے زیادہ زمین اپنے پاس نہیں رکھ سکتا مگر پھر بھی زمیندار زرعی انکم ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے مؤقف میں مثبت تبدیلی کی نشاندہی ہورہی ہے مگر حکومت کو اس مسئلے پر بھی توجہ دینی ہوگی کہ اس ٹیکس کے نفاذ سے زرعی شعبہ میں سرمایہ کاری کم نہ ہو اور اس کا اثر زرعی اشیاء کی قیمتوں پر نہ پڑے۔
ایک ماہرِ معاشیات کا تخمینہ ہے کہ اس ٹیکس سے 15 سو ارب روپے جمع ہوسکتے ہیں۔ ملک کے آئین کے تحت زراعت صوبائی شعبہ ہے، یوں اب صوبے زرعی انکم ٹیکس وصول کریں گے۔ اس طرح صوبوں کی زرعی انکم ٹیکس وصول کرنے کی اہلیت کا بھی امتحان ہوگا۔
اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں سے مشاورت مکمل کر لی ہے۔ ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ میں جولائی 2025 سے شروع ہونے والے مالیاتی سال سے زرعی ٹیکس لگانا چاہتی ہے اور ٹیکس کے سلیب میں بھی کمی کرنے کی خواہاں ہے۔ حکومتی ماہرین کا اندازہ ہے کہ زرعی انکم ٹیکس کا تناسب کل آمدنی کا 45 فیصد تک ہوسکتا ہے۔ اس ملک کی 68 فیصد آبادی براہِ راست یا بالواسطہ طور پر زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔
اسی طرح ملک کی 37.4 فیصد لیبر فورس زرعی شعبے سے وابستہ ہوتی ہے اور ملک کی جی ڈی پی کا 23 فیصد حصہ زرعی شعبے سے آتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ برآمدات کا 70 فیصد حصہ کا تعلق زرعی شعبے سے ہوتا ہے اور ملک کی 47 فیصد زمین زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح زرعی شعبے سے وابستہ مال مویشیوں کی تعداد 225 ملین کے قریب ہے اور ان مویشیوں سے تقریباً 67 ملین ٹن دودھ سالانہ حاصل ہوتا ہے مگر زرعی شعبے سے 0.1 فیصد ٹیکس حاصل ہوتا ہے۔
موجودہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جی ڈی پی کی شرح 9.5 فیصد سے 13 فیصد تک پہنچانے کے لیے ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ حکومت نے گزشتہ سال ایف بی آرکی کارکردگی کی خاصی نگرانی کی کوشش کی تھی، یوں 3 ٹریلین روپے کے ٹیکس حاصل ہوئے مگر ٹیکس کی یہ آمدنی ملک کے معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کم تھی، اس بناء پر بجٹ میں ٹیکس وصولی کے لیے نئے اقدامات تجویزکیے گئے۔ حکومت کے لیے تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولی کرنا سب سے آسان ہے، یہی وجہ ہے کہ تنخواہ دار طبقے پرکئی نئے ٹیکس عائد کیے گئے۔ اب ان نئے ٹیکسوں کی زد میں اساتذہ، ڈاکٹرز، انجنیئرز اور دیگر پروفیشنلز بھی آئے، پھر دکانداروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح صنعتی سیکٹر پر بھی نئے ٹیکس لگائے گئے۔
تاریخی طور پر اگر زرعی شعبہ پر ٹیکس لگانے کے معاملے کا جائزہ لیا جائے تو کئی تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح پروفیشنل وکیل تھے۔ ان کے ساتھ بمبئی کے چند مسلمان سرمایہ دار مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے مگر جماعت میں اکثریت بڑے جاگیرداروں اور نوابین کی تھی۔ متحدہ ہندوستان میں 1946میں کانگریس اور مسلم لیگ کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو وزیر اعظم اور لیاقت علی خان وزیرخزانہ مقرر ہوئے۔ انھوں نے بطور وزیرخزانہ اپنا شہرئہ آفاق بجٹ پیش کیا۔ اس بجٹ میں جاگیرداروں پرکوئی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا تھا جب کہ صنعت کاروں اور تاجروں پر بڑے ٹیکس لگائے گئے تھے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں نے اس بجٹ کی یہ توجیح پیش کی تھی کہ تمام بڑے سرمایہ دار اور صنعت کار ہندو تھے جب کہ جاگیردار اور نواب مسلمان تھے، اس بناء پر ہندووں پر ٹیکس لگائے گئے۔ نوبزادہ لیاقت علی خان کے اس بجٹ کا ہماری کتابوں میں ان کے کارنامے کے طور پر ذکر ہوتا ہے مگر اس حقیقت کو فراموش کردیا جاتا ہے کہ صنعت کار اور کاروباری طبقے پر زیادہ ٹیکس لگانے کا مطلب ملک کو صنعتی دور میں داخل ہونے سے روکنا تھا۔ یوں نئے ملک کے قیام کے بعد بھی نوابزادہ لیاقت علی خان اور مسلم لیگ کی قیادت کی یہ روایت برقرار رہی اور زرعی شعبہ کو انکم ٹیکس سے مبرا رکھا گیا، یوں ٹیکس نیٹ نہ بڑھ سکا اور مالیاتی خسارہ بڑھنے لگا۔ اگرچہ مسلم لیگ کے منشور میں زرعی اصلاحات کی شق شامل تھی مگر مسلم لیگ کی قیادت نے مغربی پاکستان میں کبھی بے زمین کسانوں،ہاریوں اور مزارعین کو سرکاری زمین دینے اور بڑی جاگیریں ختم کرنے کے بارے میں نہیں سوچا مگر مشرقی بنگال میں زرعی اصلاحات ہوئیں جس کے نتیجے میں وہاں متوسط طبقے کی قیادت ابھر کر سامنے آئی ۔
اس متوسط طبقہ نے مشرقی بنگال کو (جو 1955سے مشرقی پاکستان کہلانے لگا ) بنگلہ دیش میں تبدیل کردیا۔ پاکستان کے مغربی حصے میں کمیونسٹ پارٹی اور اس کی ذیلی کسان تنظیموں نے زرعی اصلاحات کے لیے جدوجہد کی۔ اگرچہ 50کی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگادی گئی مگرکسان تنظیموں کی جدوجہد کی بناء پر 60کی دہائی میں زرعی اصلاحات اہم ایشو بن گیا تھا۔ 1958 میں جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا اور ملک میں پہلی زرعی اصلاحات ہوئیں مگر یہ زرعی اصلاحات عملی طور پرکامیاب نہ ہوسکیں۔
ایوب خان کی حکومت کو جاگیرداروں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس بناء پر زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ پر غور تک نہ ہوا مگر 60کی دہائی میں جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف طلبہ، مزدور،کسان تنظیموں اور سیاسی مخالفین کی جدوجہد خاصی مضبوط رہی، یہی وجہ تھی کہ 1967 میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی قائم کی تو زرعی اصلاحات پیپلز پارٹی کے منشورکا اہم حصہ تھی۔ اس زمانے میں جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی تنظیمیں زرعی اصلاحات اور بڑی جاگیرداریں ختم کرنے کے مطالبے کو اہمیت نہیں دی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 1972 میں زرعی اصلاحات نافذ کیں۔ یہ اصلاحات ایک حد تک کامیاب رہیں مگر بھٹو حکومت زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ پر تیار نہیں تھی۔
جنرل ضیاء الحق کی حکومت قائم ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق نے جاگیرداروں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے زرعی اصلاحات پر عملدرآمد کو ردکیا اور زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا۔ جنرل ضیاء الحق حکومت کے مشیر اور بعد میں وزیر خزانہ بننے والے ڈاکٹر محبوب الحق زرعی انکم ٹیکس کے حامی تھے اور انھوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد HDI کا فارمولہ پیش کیا مگر وہ بھی زرعی انکم ٹیکس نافذ نہ کراسکے۔ یہی صورتحال نواز شریف، پرویز مشرف، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف اور عمران خان کی حکومتوں میں رہی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2015میں ٹیننسی ایکٹ میں خاموشی سے تبدیلی کر کے ہاری کو اس کے جائز حصے سے محروم کردیا۔ اب اس نئی ترمیم کے بعد ہاری کو بیج،کیمیائی کھاد اور جراثم کش ادویات کی خریداری کے لیے 50 فیصد بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ماہرِ معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ 1فیصد جاگیرداروں کے پاس ملک میں 22 فیصد زمین ہے مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صوبے 60 سے 70 ارب روپے تک جمع کرسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے زرعی انکم ٹیکس کے نفاذ کا خیرمقدم کیا ہے۔
انھوں نے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ اب صرف زمیندار ہی اپنی آمدنی سے زرعی ٹیکس ادا کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ زرعی شعبہ میں ہاری کو آمدنی کا 50 فیصد حصہ ملتا ہے جب کہ صنعتی اداروں میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ زرعی اصلاحات کے قانون کی بناء پر زمیندار ایک مخصوص تعداد سے زیادہ زمین اپنے پاس نہیں رکھ سکتا مگر پھر بھی زمیندار زرعی انکم ٹیکس ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے مؤقف میں مثبت تبدیلی کی نشاندہی ہورہی ہے مگر حکومت کو اس مسئلے پر بھی توجہ دینی ہوگی کہ اس ٹیکس کے نفاذ سے زرعی شعبہ میں سرمایہ کاری کم نہ ہو اور اس کا اثر زرعی اشیاء کی قیمتوں پر نہ پڑے۔