وفاقی نہیں صوبائی حکومتیں
آصف علی زرداری میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی مدد و حمایت سے دوسری بار صدر مملکت بنے
صدر پاکستان، آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوں لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ ہم حکومت بنانا اورگرانا جانتے ہیں، پارٹی کارکن تیار ہو جائیں، اب میں خود میدان میں آگیا ہوں اور خود اسلام آباد اور لاہور میں بیٹھ کر کارکنوں کے کام کراؤں گا۔
صدر آصف زرداری نے اس موقع پر اور بھی باتیں کی ہیں۔ان باتوں کو لے کر بعض لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ جیسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے ہیں اور پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں حکومت گرا دے گی لیکن بعض لوگوں کو حقائق کا شاید علم نہیں ہے۔
آصف علی زرداری میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی مدد و حمایت سے دوسری بار صدر مملکت بنے اور اس کے بدلے میںصدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے میاں شہباز شریف کو دوسری بار وزیر اعظم بنوایا ہے ۔گو پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کا حصہ نہیں بنی،لیکن صدارت، چیئرمین سینٹ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی گورنر شپ پیپلزپارٹی کو مل گئیں۔ انھوں نے آئینی عہدے لے لیے ہیں مگر (ن) لیگ کے ساتھ وفاقی حکومت میں اس بار پیپلز پارٹی کو وفاقی وزارتیں نہیں لینے دی گئیں۔ ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں شامل ہے لیکن سندھ میں صوبائی حکومت کا حصہ نہیں ہے۔
اس منظر نامے کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت سے الگ نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کا کوئی حکومت کے ساتھ پالیسی اختلاف ہے۔ حالیہ سیاسی اور عدالتی معاملات میں پیپلز پارٹی کے چند نچلی سطح کے رہنماؤں نے منفی بیانات دیے ہیں لیکن ان رہنماؤں کا پیپلزپارٹی کی پالیسی سازی میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا ان کی باتوں کو سنجیدہ لے کر کوئی رائے قائم کرنا درست تجزیہ نہیں ہو گا۔ اب بھی پی ٹی آئی کے بارے میں وفاقی حکومت کا جو فیصلہ ہے پیپلز پارٹی اس فیصلے کی تائید کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم بھی وفاقی حکومت کے فیصلے کے ساتھ ہے۔ البتہ چھوٹی موٹی شکرنجیاں ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے اور آگے بھی ہو گا۔
صدر آصف زرداری نے 2008 میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو صوبائی خود مختاری دلا کر انھیں مضبوط کیا تھا ۔ اس ترمیم کے نتیجے میں وفاق کوکمزور اور مالی طور پر صوبوں کا محتاج بن گیا ہے۔پیپلز پارٹی نے جب وفاق میں حکومت بنائی تھی تو صدر مملکت آصف علی زرداری نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اگلے الیکشن میں پی پی پی وفاق میں اپنی حکومت نہیں بنا سکے گی اورگیارہ سالوں میں یہ ثابت بھی ہوگیا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے خلاف پی ٹی آئی نے بھی کام کیا جب کہ میاں نواز شریف نے بھی لانگ مارچ کیا جب کہ طاہر القادری نے بھی اسلام آباد میں دھرنا دے دیا تھا۔
اس وقت میاں نواز شریف نے وفاقی حکومت کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں طاہر القادری کا دھرنا اپنے مقاصد نہیں حاصل کر سکا۔اب صوبے وفاق کو آنکھیں دکھاتے ہیں جس طرح کہ وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور کر رہا ہے۔ وہ وفاقی اجلاسوں میں شریک بھی ہوتا ہے اور وفاق کو دھمکیاں بھی دے رہا ہے کیونکہ انھیں پتا ہے کہ وفاق کے پی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کا ایک حصہ بھی وفاقی حکومت کی سوچ کے ساتھ نہیں ہے۔
اس لیے وفاق کے پی میں گورنر راج کی دھمکیاں نہیں دے رہا جیسے پی ٹی آئی کے وزرا سندھ حکومت کو دیا کرتے تھے۔ اب صرف دھمکیاں ہی دی جا سکتی ہیں مگر صدر زرداری واقعی اس پوزیشن میں ہیں کہ جب چاہیں وہ وفاقی حکومت ختم کرا سکتے ہیں۔ لیکن صدر زرداری ایسا نہیں کریں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف چونکہ من مانی کے عادی رہے ہیں، اسی لیے (ن) لیگی حکومت نے بجٹ میں پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا جس پر پی پی رہنماؤں نے اختلافی بیانات بھی دیے مگر بجٹ پھر بھی منظورکرا دیا کیونکہ انھیں پتا ہے کہ یہ بجٹ مسلم لیگ (ن) نے نہیں آئی ایم ایف نے بنوایا ہے اسی لیے پی پی نے تنقید بھی کی اور بجٹ پاس کرادیا۔ اس لیے پیپلز پارٹی کے رہنما جو مرضی کہیں ، وہ حکومت نہیں گرائے گی۔
ویسے سچی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت چلانا مشکل کام ہے۔ پیپلز پارٹی اسے بھرپور مدد دے کر چلوا رہی ہے کہ سسٹم ڈی ریل نہ ہو۔ اسی لیے صدر مملکت کہہ رہے ہیں حکومت آئی ایم سے قرضے لے کر عوام کا امتحان لے رہی ہے۔
وفاقی حکومت کے وزیر اعظم اور وزیروں کو سرکاری پروٹوکول انجوائے کرنے، قیمتی سوٹ پہننے کا شوق پورا کرنے، غیر ملکی دورے کرنے کا موقعہ ملا ہوا ہے۔ وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں پر ملکی پیسہ خرچ ہو رہا ہے مگر آ کچھ نہیں رہا صرف اعلانات ہی ہو رہے ہیں۔
حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کے بجائے بڑھانے میں مصروف ہے۔ بجٹ میں ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے بجٹ بڑھا دیے گئے ہیں۔ حکومت سادگی اختیار کرنے اور حکومتی اخراجات کم کرنے کے بجائے عوام پر ٹیکس لگا کر عوام کا خون نچوڑ رہی ہے اور (ن) لیگی حکومت صرف عوام کا جینا حرام کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی جس کے قیام اور عوام کو تباہ کرنے میں پیپلز پارٹی بھی برابر کی شریک ہے بری الذمہ نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کو عوام کا احساس ہوتا تو بجٹ میں عوام کو ریلیف دلا سکتی تھی مگر اس نے ایسا نہیں کیا ہے اور ان کے پاس یہ آپشن بھی موجود ہے کہ عمران خان کی رضامندی سے وہ (ن) لیگ کی وفاقی حکومت ختم کرا سکتے ہیں ۔ میاں نواز شریف پارٹی صدارت پر بحال ہو کر سیاسی سرگرمیوں سے دور مری کے ٹھنڈے موسم میں وقت گزار رہے ہیں اور لگتا ہے کہ اب وزیر اعظم بھی ان کی نہیں سن رہے، اسی لیے وہ اپنے بھائی کے بجائے نام کے ڈپٹی وزیر اعظم کو کہہ رہے ہیں کہ متوسط طبقے کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دیا جائے جب کہ کے غریب انھیں یاد نہیں۔
ملک میں وفاقی (ن) لیگی حکومت چلے نہ چلے مگر چاروں صوبائی حکومتیں چل نہیں دوڑ رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کی کے پی حکومت بھاری اکثریت کی حامل ہے۔ سندھ حکومت بھی کسی کی محتاج نہیں، صرف بلوچستان میں وزیر اعلیٰ (ن) لیگ کے محتاج ہیں۔ چاروں صوبوں میں سندھ، پنجاب و بلوچستان وفاق سے مکمل تعاون کر رہے ہیں ،صرف کے پی حکومت وفاقی حکومت کے ساتھ نہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب جو کارکردگی دکھا رہی ہیں، وہ سب کے سامنے ہے۔ سندھ حکومت خوش اور بااختیار ہے۔ وفاقیحکومت بھی چل رہی ہے ۔
صدر آصف زرداری نے اس موقع پر اور بھی باتیں کی ہیں۔ان باتوں کو لے کر بعض لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ جیسے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے ہیں اور پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں حکومت گرا دے گی لیکن بعض لوگوں کو حقائق کا شاید علم نہیں ہے۔
آصف علی زرداری میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی مدد و حمایت سے دوسری بار صدر مملکت بنے اور اس کے بدلے میںصدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے میاں شہباز شریف کو دوسری بار وزیر اعظم بنوایا ہے ۔گو پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کا حصہ نہیں بنی،لیکن صدارت، چیئرمین سینٹ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی گورنر شپ پیپلزپارٹی کو مل گئیں۔ انھوں نے آئینی عہدے لے لیے ہیں مگر (ن) لیگ کے ساتھ وفاقی حکومت میں اس بار پیپلز پارٹی کو وفاقی وزارتیں نہیں لینے دی گئیں۔ ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں شامل ہے لیکن سندھ میں صوبائی حکومت کا حصہ نہیں ہے۔
اس منظر نامے کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت سے الگ نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کا کوئی حکومت کے ساتھ پالیسی اختلاف ہے۔ حالیہ سیاسی اور عدالتی معاملات میں پیپلز پارٹی کے چند نچلی سطح کے رہنماؤں نے منفی بیانات دیے ہیں لیکن ان رہنماؤں کا پیپلزپارٹی کی پالیسی سازی میں عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہٰذا ان کی باتوں کو سنجیدہ لے کر کوئی رائے قائم کرنا درست تجزیہ نہیں ہو گا۔ اب بھی پی ٹی آئی کے بارے میں وفاقی حکومت کا جو فیصلہ ہے پیپلز پارٹی اس فیصلے کی تائید کر رہی ہے۔ ایم کیو ایم بھی وفاقی حکومت کے فیصلے کے ساتھ ہے۔ البتہ چھوٹی موٹی شکرنجیاں ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ سیاست میں ایسا ہوتا رہتا ہے اور آگے بھی ہو گا۔
صدر آصف زرداری نے 2008 میں پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو صوبائی خود مختاری دلا کر انھیں مضبوط کیا تھا ۔ اس ترمیم کے نتیجے میں وفاق کوکمزور اور مالی طور پر صوبوں کا محتاج بن گیا ہے۔پیپلز پارٹی نے جب وفاق میں حکومت بنائی تھی تو صدر مملکت آصف علی زرداری نے اندازہ لگا لیا تھا کہ اگلے الیکشن میں پی پی پی وفاق میں اپنی حکومت نہیں بنا سکے گی اورگیارہ سالوں میں یہ ثابت بھی ہوگیا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کے خلاف پی ٹی آئی نے بھی کام کیا جب کہ میاں نواز شریف نے بھی لانگ مارچ کیا جب کہ طاہر القادری نے بھی اسلام آباد میں دھرنا دے دیا تھا۔
اس وقت میاں نواز شریف نے وفاقی حکومت کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں طاہر القادری کا دھرنا اپنے مقاصد نہیں حاصل کر سکا۔اب صوبے وفاق کو آنکھیں دکھاتے ہیں جس طرح کہ وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور کر رہا ہے۔ وہ وفاقی اجلاسوں میں شریک بھی ہوتا ہے اور وفاق کو دھمکیاں بھی دے رہا ہے کیونکہ انھیں پتا ہے کہ وفاق کے پی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ اعلیٰ عدلیہ کا ایک حصہ بھی وفاقی حکومت کی سوچ کے ساتھ نہیں ہے۔
اس لیے وفاق کے پی میں گورنر راج کی دھمکیاں نہیں دے رہا جیسے پی ٹی آئی کے وزرا سندھ حکومت کو دیا کرتے تھے۔ اب صرف دھمکیاں ہی دی جا سکتی ہیں مگر صدر زرداری واقعی اس پوزیشن میں ہیں کہ جب چاہیں وہ وفاقی حکومت ختم کرا سکتے ہیں۔ لیکن صدر زرداری ایسا نہیں کریں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف چونکہ من مانی کے عادی رہے ہیں، اسی لیے (ن) لیگی حکومت نے بجٹ میں پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا جس پر پی پی رہنماؤں نے اختلافی بیانات بھی دیے مگر بجٹ پھر بھی منظورکرا دیا کیونکہ انھیں پتا ہے کہ یہ بجٹ مسلم لیگ (ن) نے نہیں آئی ایم ایف نے بنوایا ہے اسی لیے پی پی نے تنقید بھی کی اور بجٹ پاس کرادیا۔ اس لیے پیپلز پارٹی کے رہنما جو مرضی کہیں ، وہ حکومت نہیں گرائے گی۔
ویسے سچی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت چلانا مشکل کام ہے۔ پیپلز پارٹی اسے بھرپور مدد دے کر چلوا رہی ہے کہ سسٹم ڈی ریل نہ ہو۔ اسی لیے صدر مملکت کہہ رہے ہیں حکومت آئی ایم سے قرضے لے کر عوام کا امتحان لے رہی ہے۔
وفاقی حکومت کے وزیر اعظم اور وزیروں کو سرکاری پروٹوکول انجوائے کرنے، قیمتی سوٹ پہننے کا شوق پورا کرنے، غیر ملکی دورے کرنے کا موقعہ ملا ہوا ہے۔ وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں پر ملکی پیسہ خرچ ہو رہا ہے مگر آ کچھ نہیں رہا صرف اعلانات ہی ہو رہے ہیں۔
حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کے بجائے بڑھانے میں مصروف ہے۔ بجٹ میں ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کے بجٹ بڑھا دیے گئے ہیں۔ حکومت سادگی اختیار کرنے اور حکومتی اخراجات کم کرنے کے بجائے عوام پر ٹیکس لگا کر عوام کا خون نچوڑ رہی ہے اور (ن) لیگی حکومت صرف عوام کا جینا حرام کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی جس کے قیام اور عوام کو تباہ کرنے میں پیپلز پارٹی بھی برابر کی شریک ہے بری الذمہ نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی کو عوام کا احساس ہوتا تو بجٹ میں عوام کو ریلیف دلا سکتی تھی مگر اس نے ایسا نہیں کیا ہے اور ان کے پاس یہ آپشن بھی موجود ہے کہ عمران خان کی رضامندی سے وہ (ن) لیگ کی وفاقی حکومت ختم کرا سکتے ہیں ۔ میاں نواز شریف پارٹی صدارت پر بحال ہو کر سیاسی سرگرمیوں سے دور مری کے ٹھنڈے موسم میں وقت گزار رہے ہیں اور لگتا ہے کہ اب وزیر اعظم بھی ان کی نہیں سن رہے، اسی لیے وہ اپنے بھائی کے بجائے نام کے ڈپٹی وزیر اعظم کو کہہ رہے ہیں کہ متوسط طبقے کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دیا جائے جب کہ کے غریب انھیں یاد نہیں۔
ملک میں وفاقی (ن) لیگی حکومت چلے نہ چلے مگر چاروں صوبائی حکومتیں چل نہیں دوڑ رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کی کے پی حکومت بھاری اکثریت کی حامل ہے۔ سندھ حکومت بھی کسی کی محتاج نہیں، صرف بلوچستان میں وزیر اعلیٰ (ن) لیگ کے محتاج ہیں۔ چاروں صوبوں میں سندھ، پنجاب و بلوچستان وفاق سے مکمل تعاون کر رہے ہیں ،صرف کے پی حکومت وفاقی حکومت کے ساتھ نہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب جو کارکردگی دکھا رہی ہیں، وہ سب کے سامنے ہے۔ سندھ حکومت خوش اور بااختیار ہے۔ وفاقیحکومت بھی چل رہی ہے ۔