بھینس اور خالص دودھ
سفید ہاتھیوں یعنی نکمے نکھٹو محکموں اور اداروں میں بے مثال اور لاثانی ہے
یہ تو ہم تم اور وہ سب جانتے ہیں کہ خدا کے فصل سے نہ سہی ''جہادیوں'' کی مہربانی،آئی ایم ایف کی آشیرواد اور ہمارے جدی پشتی خاندانی ممتاز سیاسی و مذہبی رہنماوں کی جدوجہد سے ہمارا یہ وطن عزیز اس وقت ساری دنیا میں ہر ہر شعبے میں ٹاپ و ٹاپ پویشنز حاصل کررہا ہے۔ نابیناؤں کی کرکٹ ٹیم سے لے کر نماز، روزوں اور مساجد و مدرسوں میں بھی ٹاپ پوزیشن پر ہے،اخبارات و چینلات میں دانا دانشوروں سے لر کر سپرماڈلوں تک اے ون ہے۔
سفید ہاتھیوں یعنی نکمے نکھٹو محکموں اور اداروں میں بے مثال اور لاثانی ہے، پھر ان محکموں اور اداروں میں کام نہ کرنے والے افسروں ، اہلکاروں اور خسارے کا ریکارڈ بھی ہمارے پاس ہے۔ بلکہ دانا دانشوروں کی بہتات کی وجہ سے آج کل پاکستان کو عالمی سطح پر یونان ثانی اور رومائے دوم کہا جاتا ہے۔خاص طور پر اخبارات کے کالم نگاروں اور چینلات کے اینکروں اور تجزیہ کاروں میں تو ایک سے ایک سقراط، بقراط،دیمقراط ،حماقراط اور یماقراط پڑا ہوا ہے۔
چنانچہ ملکی صورت حال آج کل ٹھیک اس ملک بلکہ شہر کی ہورہی ہے، جسے تازہ تازہ کسی نئے فاتح نے فتح کیا ہو۔اور مال غنیمت کی بانٹا بانٹی چل رہی ہو۔پہلی صف کے فاتحین یعنی بادشاہ، سالاروں اور وزیروں کا ''ہلہ'' گزر چکا ہے ،جو قیمتی ''مال و متاع'' از قسم صدارت، وزارت تھا، وہ تقسیم ہوچکا ہے۔ہر کسی کو حصہ بقدر جثہ مل چکا ہے۔لوٹ مار یا مال غنیمت کا دوسرامرحلہ بھی تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ مشیر، معاون، خصوصی ترجمان اور ہر قسم کی کمیٹیوں میں بھی مستحقین کو بٹھایا جاچکا ہے۔ اب تلنگوں اور پنڈاریوں کا مرحلہ باقی ہے بلکہ چل چکا ہے اور اس کا اندازہ ہمیں محکمے بجلی کی سرگرمیوں سے ہوا ہے۔ایک دن ایک گروپ آتا ہے ،شور شرابا ، ہائے ہو، پکڑو چھوڑ دو ہوتا ہے، پھر سب اپنا اپنا ''نصیبہ'' لے کر چلے جاتے ہیں۔ دوسرے دن کوئی دوسرا جتھہ ہلہ بول دیتا ہے۔ وہ بھی اپنی محنت کا پھل لے جاتے ہیں تو تیسرے دن، تیسراگروہ زور و شور سے حملہ آور ہوتا ہے۔
یہ سب کچھ اس معمول کے مطابق ہو رہا ہے جو صدیوں سے چل رہا ہے۔ پرانے زمانے میں جب کوئی حملہ آور کسی شہر پر فتح حاصل کرلیتا تھا۔تو پہلا دن ''شاہی لوٹ مار'' کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ سارا مال و متاع فاتح حکمران کے لیے جمع کیا جاتا تھا جن میں زر وجواہر کے ساتھ ساتھ مفتوحہ خواتین بھی شامل ہوا کرتی تھیں۔دوسرا دن سرکاری عمال کا ہوتا تھا جس میں فاتحین کے سرکردہ لوگ امیرمفتوحین کے گھروں سے اپنی پسند کا مال و متاع اٹھا کر لے جاتے تھے۔
جن میں ان کی خواتین بھی شامل ہوتی تھیں۔ پھر جب تیسرا دن طلوع ہوتا تو عام سپاہیوں،پنڈاروں اور تلنگوں کی باری آتی تھی، یہ ہر حملہ آور فوج کے ساتھ ساتھ بلکہ پیچھے پیچھے اسی ایک''دن'' کی امید میں چلتے رہتے تھے اور اپنے ہی ہم وطنوں کا قتل عام کرتے تھے ۔گزشتہ دنوں ہمیں کسی نے بتایا کہ فلاں ایم پی اے نے اپنے فلاں رشتہ دار کو ایک جگہ ''فٹ'' کردیا ہے حالانکہ وہ ایک ایسا پتھر تھا جو کسی بھی دیوار میں، کسی بھی جگہ فٹ نہیں ہوسکتا تھا، تب ہم سمجھ گئے کہ مفتوح شہر پر تیسرا دن طلوع ہوچکا ہے ۔
ہاں وہ بجلی والی بات تو ادھوری رہ گئی۔ آج کل آپ کسی بھی گاؤں محلے میں نکل جائیں بھانت بھانت کے الگ الگ لوگ چیکنگ کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔نتیجہ تو سب کا ایک ہی ہوتا ہے جو ہم تم اور وہ سب کو معلوم ہے۔جس سے ہمیں اس نادان شخص کا قصہ یاد آجاتا ہے جس نے ''خالص دودھ'' کے لیے بھینس پال لی تھی۔ یہ تو معلوم نہیں کہ بھینس خریدی تھی یا چوری کی تھی۔لیکن بہرحال ''پال'' رکھی تھی، بیچارا احمق تھا ورنہ اسے معلوم ہوتا کہ خالص دودھ آج کل صرف ''کٹے'' ہی پی سکتے ہیں اور وہ خود ''کٹا'' نہیں تھا ، بھینس پالنے پوسنے اور دوہنے کے لیے ملازم بھی ضروری تھا۔باقی قصہ تو آپ سب کو معلوم ہے کہ اس بیچارے کو خالص دودھ سے خالص پانی تک پہنچنے میں کتنے اور ملازم رکھنا پڑے تھے۔ اب آگے جو جملہ میں پیش کرنے والا ہوں وہ جملہ صد فی صد ایک سرکاری ملازم سے ہم نے اپنے ان گناہگار کانوں سے سنا ہے۔ موصوف کا کہنا تھا کہ یار!اب نوکری کاکوئی مزہ نہیں رہا ۔سرکار نے ہمارے اوپر ''دوسرے'' شریکوال لادیے ہیں لہٰذا اب اپنے لیے کچھ بچتا ہی نہیں۔
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ ''بچا'' ہی نہیں
سفید ہاتھیوں یعنی نکمے نکھٹو محکموں اور اداروں میں بے مثال اور لاثانی ہے، پھر ان محکموں اور اداروں میں کام نہ کرنے والے افسروں ، اہلکاروں اور خسارے کا ریکارڈ بھی ہمارے پاس ہے۔ بلکہ دانا دانشوروں کی بہتات کی وجہ سے آج کل پاکستان کو عالمی سطح پر یونان ثانی اور رومائے دوم کہا جاتا ہے۔خاص طور پر اخبارات کے کالم نگاروں اور چینلات کے اینکروں اور تجزیہ کاروں میں تو ایک سے ایک سقراط، بقراط،دیمقراط ،حماقراط اور یماقراط پڑا ہوا ہے۔
چنانچہ ملکی صورت حال آج کل ٹھیک اس ملک بلکہ شہر کی ہورہی ہے، جسے تازہ تازہ کسی نئے فاتح نے فتح کیا ہو۔اور مال غنیمت کی بانٹا بانٹی چل رہی ہو۔پہلی صف کے فاتحین یعنی بادشاہ، سالاروں اور وزیروں کا ''ہلہ'' گزر چکا ہے ،جو قیمتی ''مال و متاع'' از قسم صدارت، وزارت تھا، وہ تقسیم ہوچکا ہے۔ہر کسی کو حصہ بقدر جثہ مل چکا ہے۔لوٹ مار یا مال غنیمت کا دوسرامرحلہ بھی تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ مشیر، معاون، خصوصی ترجمان اور ہر قسم کی کمیٹیوں میں بھی مستحقین کو بٹھایا جاچکا ہے۔ اب تلنگوں اور پنڈاریوں کا مرحلہ باقی ہے بلکہ چل چکا ہے اور اس کا اندازہ ہمیں محکمے بجلی کی سرگرمیوں سے ہوا ہے۔ایک دن ایک گروپ آتا ہے ،شور شرابا ، ہائے ہو، پکڑو چھوڑ دو ہوتا ہے، پھر سب اپنا اپنا ''نصیبہ'' لے کر چلے جاتے ہیں۔ دوسرے دن کوئی دوسرا جتھہ ہلہ بول دیتا ہے۔ وہ بھی اپنی محنت کا پھل لے جاتے ہیں تو تیسرے دن، تیسراگروہ زور و شور سے حملہ آور ہوتا ہے۔
یہ سب کچھ اس معمول کے مطابق ہو رہا ہے جو صدیوں سے چل رہا ہے۔ پرانے زمانے میں جب کوئی حملہ آور کسی شہر پر فتح حاصل کرلیتا تھا۔تو پہلا دن ''شاہی لوٹ مار'' کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ سارا مال و متاع فاتح حکمران کے لیے جمع کیا جاتا تھا جن میں زر وجواہر کے ساتھ ساتھ مفتوحہ خواتین بھی شامل ہوا کرتی تھیں۔دوسرا دن سرکاری عمال کا ہوتا تھا جس میں فاتحین کے سرکردہ لوگ امیرمفتوحین کے گھروں سے اپنی پسند کا مال و متاع اٹھا کر لے جاتے تھے۔
جن میں ان کی خواتین بھی شامل ہوتی تھیں۔ پھر جب تیسرا دن طلوع ہوتا تو عام سپاہیوں،پنڈاروں اور تلنگوں کی باری آتی تھی، یہ ہر حملہ آور فوج کے ساتھ ساتھ بلکہ پیچھے پیچھے اسی ایک''دن'' کی امید میں چلتے رہتے تھے اور اپنے ہی ہم وطنوں کا قتل عام کرتے تھے ۔گزشتہ دنوں ہمیں کسی نے بتایا کہ فلاں ایم پی اے نے اپنے فلاں رشتہ دار کو ایک جگہ ''فٹ'' کردیا ہے حالانکہ وہ ایک ایسا پتھر تھا جو کسی بھی دیوار میں، کسی بھی جگہ فٹ نہیں ہوسکتا تھا، تب ہم سمجھ گئے کہ مفتوح شہر پر تیسرا دن طلوع ہوچکا ہے ۔
ہاں وہ بجلی والی بات تو ادھوری رہ گئی۔ آج کل آپ کسی بھی گاؤں محلے میں نکل جائیں بھانت بھانت کے الگ الگ لوگ چیکنگ کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔نتیجہ تو سب کا ایک ہی ہوتا ہے جو ہم تم اور وہ سب کو معلوم ہے۔جس سے ہمیں اس نادان شخص کا قصہ یاد آجاتا ہے جس نے ''خالص دودھ'' کے لیے بھینس پال لی تھی۔ یہ تو معلوم نہیں کہ بھینس خریدی تھی یا چوری کی تھی۔لیکن بہرحال ''پال'' رکھی تھی، بیچارا احمق تھا ورنہ اسے معلوم ہوتا کہ خالص دودھ آج کل صرف ''کٹے'' ہی پی سکتے ہیں اور وہ خود ''کٹا'' نہیں تھا ، بھینس پالنے پوسنے اور دوہنے کے لیے ملازم بھی ضروری تھا۔باقی قصہ تو آپ سب کو معلوم ہے کہ اس بیچارے کو خالص دودھ سے خالص پانی تک پہنچنے میں کتنے اور ملازم رکھنا پڑے تھے۔ اب آگے جو جملہ میں پیش کرنے والا ہوں وہ جملہ صد فی صد ایک سرکاری ملازم سے ہم نے اپنے ان گناہگار کانوں سے سنا ہے۔ موصوف کا کہنا تھا کہ یار!اب نوکری کاکوئی مزہ نہیں رہا ۔سرکار نے ہمارے اوپر ''دوسرے'' شریکوال لادیے ہیں لہٰذا اب اپنے لیے کچھ بچتا ہی نہیں۔
اتنے حصوں میں بٹ گیا ہوں میں
میرے حصے میں کچھ ''بچا'' ہی نہیں