دنیا بھر سے بھارت میں عورت کو محفوظ بنانے کے لیے اب یہ بھی ہونا تھا
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت میں کیا ہورہا ہے؟ ہر 22 منٹ میں ایک یعنی سالانہ 23890 خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کی خبریں آرہی ہیں۔ جس سے یہ بات تقویت پکڑرہی ہے کہ سرکاری سطح پر عورت کے احترام میں اضافے اور تحفظ کو یقینی بنانے کے اقدامات نہیں ہورہے ہیں۔
ان خبروں کے بعد میں سوچ میں پڑ گیا ہوں کیا یہ وہی بھارت ہے؟ جو اپنی فلم انڈسٹری کے ذریعے جب اپنے کلچر کو پروموٹ کرتا ہے، تو اس میں عورت کو دیوی قرار دیتا ہے۔جو صرف لائق عزت ہی نہیں پوجنے کے قابل بھی ہے۔ اِدھر کچھ دن قبل ''مودی سرکار ''کی مرکزی وزیر سمرتی ایرانی نے اسکول کے بچوں سے خطاب میں بھارتی کلچر میں موجود جہالت کو عیاں کرکے دنیا کو بھارتیوں کے میک اپ میں چھپے چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا کہ ''لوگوں نے میری ماں کو مشورہ دیا کہ یہ لڑکی تم پر بوجھ ہے اسے مارڈالو، مگر میری ماں بہادر تھی اس نے ایسا نہیں کیا''۔سمرتی ایرانی کی ماں نے یقیناًبہادری کا کام کیا ورنہ بھارت ہی میں کتنی خواتین ہوں گی جو اپنی لڑکیوں کو بوجھ سمجھ کر'' پرلوک'' بھیج دیتی ہونگی۔جو بچ جاتی ہیں ان میں سے23 ہزار معاشرے کی ہوس ناکی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ بھارتی اخبارات بھی مانتے ہیں کہ لڑکیوں اور خواتین سے زیادتی کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ چلیں مان لیتے ہیں اخبارات سنسنی پھیلانے کیلئے اعداد و شمار بڑھاتے ہیں۔ لیکن اس بات کو بھارتی طالبات بھی محسوس کرنے لگیں ہیں خاص طور پر غریب لڑکیوں میں عدم تحفظ کا احساس شدید ہوگیا۔
سائنس کی ایک اسٹوڈنٹ اورٹیکسی ڈرائیور کی بیٹی سکشا پتھاک کے مطابق ''حالیہ اجتماعی زیادتی کے خوفناک واقعات نے مجھے اور میری ساتھیوں کو سخت صدمے سے دوچار کیا ہے''۔ اس طالبہ نے مسئلے کی شدت کو جان لیا، وہ سمجھ گئی کہ'' زیادتی کے مجرم '' اکثر کیسز میں بچ جاتے ہیں،سیاستدان عزت لٹنے پرعورت کا ساتھ دینے ، انصاف کے عمل کو آسان بنانے کے بجائے مضائقہ خیز بیانات دیتے ہیں۔اس بہادر اور سمجھ دار طالبہ نے اپنی دوست انجلی سری واستوا کے ساتھ مل کر ایسی جینز ڈیزائن کی ہے جس میں برقی آلات لگائے گئے ہیں تاکہ جب بھی مرد عورت پر حملہ آور ہوتو قریب کے پولیس اسٹیشن پر اس کی اطلاع مل جائے اور وہ جتنی جلد ممکن ہو جائے وقوعہ کی طرف دوڑ سکے۔اس برقی ٹریکر اور جینز کی قیمت چار ڈالر یعنی 250 انڈین روپیہ رکھی گئی ہے۔ اس طرح کی بعض اطلاعات بھی ہیں کہ بھارتی خواتین زیادتی سے بچاؤں کیلئے اپنے ساتھ کئی طرح کے ہتھیار بھی رکھتی ہیں مگر سرکاری سطح پراِن میں بڑھتے عدم تحفظ کے احساس نے اس کے تدارک کا عمل تیز نہ ہونے کے باعث ہوس ناک لوگوں کی کارروائیاں تیز ہوگئی ہیں۔یہ تو شائننگ بھارت کا ایک چہرہ ہے۔اس کو روشن تب ہی کہا جاسکتا ہے جب وہاں کی سماجی زندگی حقیقی نوعیت کی تبدیلیاں آئیں۔ یعنی عورتوں کو بنیادی سہولیات دستیاب ہوں، اُنہیں اپنی شناخت بنانے اور دنیا کو خوبصورت رُخ سے اور اپنے انداز سے اپنانے کی آزادی ہو۔
لیکن ہاں مودی صاحب آپ اِس بات کا ضرور خیال رکھیں یہ آزادی مادر پدر آزادی نہ بن جائے۔ دیہات میں بستے کسان اور شہروں میں محنت مزدوری کرتے عادمی کو یقین دلائیے کہ اُس کا حق کوئی نہیں مار سکے گا، انصاف تھوڑی دیر سے ہی مگر اُسے ضرور ملے گا۔اگر کوئی کہتا ہے کہ بھارت ایسا ہی تو ہے تو میں اُس سے پوچھتا ہوں وہاں سماجی جرائم میں شدت سے اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ کسان خودکشیاں کیوں کررہے ہیں؟ 52 فیصد خواتین غیر محفوظ کیوں ہیں؟ تعمیر اور ترقی کے راستوں پر کرپٹ افراد اور مافیاز کا قبضہ کیوں ہے؟ لیکن مودی صاحب نے اس طرح کے حساس نوعیت کے معاملات پر توجہ دینے کے بجائے جنگی جنون میں اضافے کے اقدامات کرلئے ہیں، جس کی تازہ مثال بھارت کی جانب سے امریکا، برطانیہ،فرانس سمیت دنیا کے بڑے ممالک کو اسلحہ سازی کی فیکٹریاں لگانے کے لیے سرمایہ کاری کی دعوت دینا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بھارت کے کئی ایک دشمن ہیں، لیکن یہ سب دشمن اس نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے بنائے ہیں اسے دوسروں کی حدود میں مداخلت کا بے انتہا شوق ہے تاکہ وہ خود کو علاقے کا چوہدری ثابت کرسکے۔یہی خود کو اعلیٰ ثابت کرنے کے جنون نے اس سے وہ بھارت بھی چھین لیا جس میں کبھی ترقی کے مواقع اور امن سب کیلئے تھا ، سرحد پر جنگ ہوتی تھی ، پر عوام خود کو محفوظ سمجھتے تھے۔مودی صاحب آپ کا اصل ہدف اسلحہ کا انبار لگانا نہیں بلکہ سماجی تبدیلی ہونا چاہیے، وہ سماجی تبدیلی جس میں سب کیلئے عزت ہو، روزگار ہو، فرقہ واریت نہ ہو، اور رجت شرما کو دئیے گئے آپ کے اپنے قول کے مطابق'' کہ میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن ہو اور دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ ہو'' تو قدم بڑھائیے ۔صرف مسلمانوں ہی نہیں تمام بھارتیوں کو لیپ ٹاپ دینے کیلئے لیپ ٹاپ کا کارخانہ لگوائیں ، اسلحہ سازی کا نہیں۔ ترقی کیلئے ضروری بھی یہی ہے، اور آپ کا خواب بھی۔بصورت دیگر بھارتی خواتین کی طرح اقلیت اور پسماندہ قومیں بھارت میں اپنا تحفظ کرنے کا راستہ تلاش کرلیں گئی۔ بھارتی عوام کی قسمت کا فیصلہ اب کی بار مودی صاحب کے ہاتھ ، دیکھیں ہوتا کیا ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔