''آؤ مجھے لے جاؤ، کیا آپ آکر مجھے لے جائیں گے؟ میں بہت خوف زدہ ہوں، پلیز آجائیں!''
زندگی کے آخری الفاظ، شدید بمباری میں لپٹی اس چھ سالہ معصوم ہند رجب کے ہیں جو صہiونی نہیں، شاید اپنے ہی شاہ بہادر مسلم حکمرانوں کی بے حسی کی بھینٹ چڑھی۔
39 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینیوں کے بہنے والے خون کا ہر اِک قطرہ سوال لیے منتظر ہے اس جواب کا کہ آخر میرا قصور کیا تھا؟ میں تو لڑتا بھی غلیل سے تھا۔ میں تمھارے مقابلے کا تھا؟ تمھارے پاس طاقت تھی، میزائل تھے، ایٹمی قوت تھی، افواج تھیں، پھر بھی تم بزدل بنے رہے اور ہمارے بچوں کو گولیوں سے چھلنی ہونے کےلیے چھوڑ دیا لیکن دیکھو ہم کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی امر ہوئے، مگر تمھارا کیا؟ دنیا میں کفار کی بیت کرتے کرتے اپنے رب کی بیت توڑ دی تم نے، رسوائی اپنا مقدر تم نے اپنے ہاتھوں سے لکھ لی ہے۔
اسرائیل کی فلسطین میں جاری نسل کشی کو 9 ماہ سے زائد عرصہ ہوگیا۔ اگرچہ یہ معاملہ رنگ، نسل، دین سے پہلے انسانیت کا ہے، مگر دین اسلام کم از کم اپنے پیروکاروں کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑتا۔ اگر آج غزہ کا باپ اپنے بچے کی لاش کے ٹکڑے اپنے ہاتھوں سے دفنا رہا ہے تو اس یقین اور خوشی کے ساتھ کہ جنت میں ملیں گے۔ لیکن سمجھ سے بالاتر ہے کہ مسلم حکمران کس یقین کو لیے اتنے گونگے بہرے بنے بیھٹے ہیں کہ ان پر خدا کا کلام اثر کررہا ہے نہ نبیؐ کی الاقصیٰ سے محبت ان کے ایمان کو جھنجھوڑ رہی ہے۔
البتہ انھیں اگر کچھ نظر آرہا ہے تو وہ امریکا کی خوشنودی یا اسرائیلی طاقت، جو 58 مسلم ممالک کی طاقت کے سامنے یقیناً بے معنی ہے۔ اور غضب خدا کا کہ صرف مسلم حکمران نہیں بلکہ مسلم امہ بھی صرف اس وجہ سے کہ نوٹ چھپنے کہیں بند نہ ہوجائیں، خاموش قاتل بنی ہوئی ہے۔ ان میں تو یہی اختلاف ختم نہیں ہورہا کہ بائیکاٹ کریں گے تو کیا ہم حلال رزق کو حرام کہہ کر گناہ گار تو نہیں ہورہے؟ احتجاج، دھرنے سے کیا ہوگا؟ جبکہ ادھر کفار کی گود میں پھلنے والے بچے اپنی ہی حکومتوں کے خلاف کھڑے ہوئے، ظلم حد سے بڑھا تو یہودیوں کے اپنے ہی مذہب سے ان کے خلاف آوازیں اٹھیں لیکن نہ جاگے تو الاقصیٰ کے نام نہاد فرزند!
جہاں مصر نے رفح بارڈر بند کیے، سعودی عرب نے علی الاعلان اپنے ملک میں اسرائیل کے خلاف بات کرنے پر کارروائیاں کیں، اردن کی قاتلانہ خاموشی تھی وہیں لبنان کے حزب اللہ، یمن کے حوثیوں نے نہ صرف بحیرہ عرب میں بلکہ اسرائیل پر براہ راست حملہ کرکے فلسطین کو مسلم امہ کی حمایت کا یقین دلایا۔ مگر الاقصیٰ سے کیے عہد کو نباہنے کی ذمے داری ان چند ممالک کی نہیں پونے 2 ارب مسلمانوں کی ہے۔ حد تو یہ کہ عرب ممالک نے یمن کا ساتھ دینے کے بجائے ''تحمل'' سے کام لینے پر زور دیا، تب جب فلسطینی کٹ رہے تھے۔ آج تک OIC میں فلسطین سے متعلق دس سے زائد قراردادیں منظور ہوئیں، اک عہد تھا فلسطینیوں سے مگر کتنوں نے اور کتنی بار پورا کیا؟
ریاست مدینہ کے بعد لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بنا ہمارا پاکستان، مگر غور فرمائیے تو شرم کے مارے سر ہی جھک جائے کہ ہم نے من حیث القوم اہل غزہ کی امیدوں کو کرچی کرچی کر ڈالا۔ سول سوسائٹی اپنی ''سیو غزہ'' کے نام سے کمپین لانچ نہ کرتی تو شاید آج یہ معلوم بھی نہ ہوتا کسی پاکستانی کو کہ فلسطین پکار رہا ہے۔ اَن گنت احتجاج کے بعد 42 دن کا دھرنا، دو اموات کے ساتھ حکومت نے مطالبات مانے جن میں سے چند یہ تھے کہ پاکستان حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو جوابی خط میں اظہار افسوس اور یکجہتی کرے، اہل غزہ کےلیے فلوٹیلا روانہ کرے، جنوبی افریقہ کی درخواست میں فریق بنے۔ وغیرہ۔ مگر کیا ہوا? وعدہ پورا ہوا؟ نہیں!
بلکہ صیہونی دہشتگردوں نے رفح، خان یونس میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اسکولوں پر مزید حملے کیے، جن عمارتوں کے سائے میں معصوم بچوں نے سنہرے خواب سجاۓ، نہ وہ عمارتیں باقی رہیں اور نہ ہی وہ معصوم بچے۔ 80 فیصد غزہ کی پٹی پر بسنے والوں کو غزہ چھوڑنے کے احکامات ہیں اور UNRWA کے مطابق سب کا صرف ایک ہی سوال ہے کہ
''ہم کدھر جائیں؟''
ایک 42 روزہ پرامن دھرنا سول سوسائٹی نے ڈی چوک پر دیا اور دوسرا صرف ایک ہفتے کا ٹی ایل پی نے اپنے روایتی مقام جڑواں شہروں کے سنگم ''فیض آباد'' پر دیا، جس سے روزانہ لاکھوں شہری خوار ہوتے، حکومتی ترجیحات کہ ٹی ایل پی سے نہ صرف فوری مذاکرات ہوئے بلکہ ہنگامی بنیادوں پر ان پر عمل کرتے ہوۓ نسل کشی کے 9 ماہ بعد نیتن یاہو کو سرکاری سطح پر دہشتگرد قرار دیا گیا، اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان ہوا۔
مگر سوال اب وہی ہے کہ کیا وعدہ وفا ہوگیا؟ کیا نسل کشی رک گئی؟ غزہ میں قحط ختم ہوگیا؟ اسرائیل باز آگیا؟ مسلمانوں نے اپنے قبلہ اول کو بچا لیا؟
''سیو غزہ تحریک'' سے کیے وعدے آج بھی پورے نہیں ہوئے، آج بھی وہ مطالبات لیے سڑکوں پر ہیں۔ مگر حکومت ہے کہ سیاسی کھیل تماشے سے آگے بڑھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ یہ مسئلہ بلاشبہ انسانیت کا ہے مگر بحیثیت مسلمان سب پر ایک بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ القدس کو اپنے ہاتھوں امانت جانتے ہوئے وہ کردار ادا کریں جو انھیں سجتا ہے۔ اپنے ایمان سے، اپنے لوگوں سے کیے عہد نبھائیں اور دنیا کو یہ باور کرائیں کہ زندہ ہے مسلم زندہ ہے!
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔