خیالی پلاؤ وہ پاگل تھا

لا الہ کی پکار نے شایداس پاگل کوقوت دی تھی، وہ تب تک لڑتا رہا جب تک دشمن کو چپ نہیں کرایا۔


ذیشان ظفر July 01, 2014
لا الہ کی پکار نے شایداس پاگل کوقوت دی تھی، وہ تب تک لڑتا رہا جب تک دشمن کو چپ نہیں کرایا۔ فوٹو فائل

اسے 21 مارچ کو ائیرفورس میں کمیشن ملاتھا، ابھی ابھی اس نے زندگی کی 20 بہاریں دیکھی تھیں۔

وہ اپنے لہو کو گرمانا سیکھا رہا تھا ،ابھی وہ فضا میں شاہین اڑانا سیکھ رہا تھا، وہ خون میں ابال لانا سیکھ رہا تھا ، اس نے زندگی میں دیکھے ہوئے سب خوابوں کی تعبیر کے لیے ان کو جوڑنا تھا۔ اسے6 مہینے ہوگئے تھے لیکن وہ چھٹی پہ گھر نہیں گیا تھا۔

اس صبح وہ اپنی معمول کی مشق پہ تھا جس صبح اس نے جام شہادت نوش کی تھی۔ کیا ضرورت تھی اسے جانے دیتا اس جہاز کو سرحد پار، وہ پاگل تھا۔ وہ زندہ گھر نہیں جاسکا، پاگل ہی توتھا اپنے خواب نہیں جوڑ سکا تھا، ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی 20 سال صرف 20 سال، اس کی عمر کے لوگ تو ابھی زندگی کی رونق کا مزا لے رہے ہوتے ہیں اور وہ ـ''نشان حیدر'' لے گیا، وہ راشد منہاس نہیں، وہ پاگل تھا۔

وہ سگلنلز میں تھا، اس کا کام بندوق لے کر محاز پہ لڑنا نہیں تھا، دشمن کی بندوقیں خاموش ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں، جب وہ اپنے مورچے میں تھا، جبکہ اس کے سارے ساتھی اپنی زندگی کا اولین مقصد پا چکے تھے۔

وہ رو رہا تھا، وہ اپنے آفیسر سے بھیگ مانگ رہا تھا ''سر مجھے جانے دیں ، اگر میں آج نہ گیا تو میرا ضمیر مجھے مار دیگا، سر دشمن بہت دور نہیں ہے، میں جانا چاہتا ہوں۔'' وہ اکیلا ہی تھا اس مورچے میں ، آفیسر ہمیشہ اسے آگے جانے سے روک دیتا تھا لیکن آج جانے کی اجازت دے دی گئی۔ اس وقت وہ خاموشی اس کے لیے گواہی دے رہی تھی کہ جب تک ایسے پاگل زندہ ہیں، اے وطن تمہیں کچھ نہیں ہوگا اس کے سینے سے پار ہونے والی دشمن کی ہر گولی نے اس کی بہادری کو مانا تھا۔

لااللہ کی پکار نے شایداس پاگل کوقوت دی تھی، وہ تب تک لڑتا رہا جب تک دشمن کو چپ نہیں کرایا، وہ پاگل ہی تھا جسے تمغہ جرات ملا تھا، جب کہ وہ زندہ واپس آسکتا تھا، لیکن اگر وہ زندہ آتا تو ایسے پاگل پن کی کوشش کون کرے گا؟

وہ سیاچین کے محاذ پر تھا، کچھ چوکیوں کوشدید برف باری کی وجہ سے خالی کرالیا گیا تھا کہ ہمسایہ ملک نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان چوکیوں پر قبضہ کرلیا۔ پوری ڈویژن تعینات کردی گئی، دشمن ٹائیگر ہل پر قبضہ کر چکا تھا، ٹائیگر ہل سے با آسانی دوسری سائیڈ کو نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ تب ایک پاگل نے دشمن سے ٹائیگر ہل واپس لینے کی ٹھانی، یہ پاگل دشمن کے مقابلہ میں تھوڑی سی تعداد لے کر آگے بڑھا، رات کی تاریکی میں دشمن نے اس کے ساتھیوں پر حملہ کیا ، کچھ ساتھی شہید ہوئے، بچے ہوئے کچھ جوانوں میں سے ایک نے اس پاگل سے پوچھا؛ سر اب ہم کیا کریں گے؟

عجیب پاگل تھا وہ''کائونٹر اٹیک'' کہہ رہا تھا ، کسی نے کہا کہ سر یہ اس وقت خودکشی ہوگی۔ وہ پتا نہیں کس ارادے سے تھا؟ بو ل پڑا دشمن نے ہم پر رات کی تاریکی میں بھاری اسلحہ کے ساتھ حملہ کیا ہے ، میں دشمن کو نہیں چھوڑوں گا۔

وہ پاگل ان برف پوش پہاڑیوں میں کلمہ کا ورد کررہا تھا اور دشمن کو للکار رہا تھا کہ ہمت ہے تو اس کلمے کو اس کا آخری کلمہ بنالو، عجیب پاگل تھا 150 دشمنوں کے ہوتے ہوئے صرف ایک مشین گن کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ ساری گولیاں ختم کرنے کے باوجود بھی دشمن کو للکار رہاتھا، ہاں یہ وہی پاگل ہے جس کے خاکی جسم کو دشمن جنگی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ساتھ لے گیا، یہ وہی پاگل ہے جس کی لاش پر دشمن نے لکھا کہ یہ نام کا شیر نہیں بلکہ واقعی شیر تھا۔

وہ اپنی ماں سے فون پر بات کررہا تھا اس کی ماں اس کو کہہ رہی تھی بیٹا بارڈر پر ابھی تو کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ تمہیں چھٹی کب ملے گی تم اس دفعہ جب گھر آؤ گے تو تمہاری شادی کرا کے ہی تمہیں واپس بھیجوں گی۔ میں اب بوڑھی ہوگئی ہوں، بہو آئے گی تو مجھے تھوڑا سکون ملے گا۔

فون پر اپنی ماں سے بات کرنے والا یہ فوجی اپنی ماں کی اکلوتی اولاد تھا، پتا نہیں اسے کیا ضرورت تھی کہ گاؤں کے پرسکون ماحول کو چھوڑ کر فوج میں آگیا۔ وہ اپنی ماں سے بولا امی آپ کو پتہ ''جب ماں اپنی اولاد کے لیے دعا کرتی ہے تو زمین اور آسمان کے سارے پردے اٹھ جاتے ہیں اور اللہ خود اس کی دعا سنتا ہے''۔

فون کی دوسری طرف موجود اس کی ماں پریشان ہوگئی بولی کیا ہوا بیٹا ایسے کیوں کہہ رہے ہو؟

ماں وزیرستان میں فوج شر پسندوں کے خلاف آپریشن کررہی ہے، اور کل صبح ہمیں وزیرستان جانا ہے دعا کرنا کہ تیرا یہ بیٹا ہمیشہ کے لیے لازوال ہوجائے۔ تو دعا کرے گی تو اللہ تیری سنے گا ۔ عجیب پاگل تھا مرنے کی دعا اپنی ماں سے کرورہا تھا۔ جب کہ اس کو پتا بھی تھا کہ اس کے شہید ہونے کے بعد اس کے والدین اکیلے ہوجائیں گے یہ جانتے ہوئے بھی شہید ہونے کا عجیب سا جنون سوار تھا۔

ایسے پاگلوں کی وجہ سے تو ہم آج زندہ قوم ہیں۔ یہ شہید ہی ہیں جن کی وجہ سے ہماری قوم کے ساتھ زندہ کا لفظ جوڑا ہے، ورنہ باذاتِ ایک قوم ہم کب کے مر چکے ہیں۔

وہ اپنے10 سالہ بیٹے کو اپنے جیسے سب پاگلوں کی کہانیاں سنا رہا تھا۔ بیٹے کے سونے کے بعد اس نے لائٹ آف کی، ویل چئیر گھمائی، آنکھوں سے آنسو صاف کیے اور اپنے کمرے میں آکر شدت سے رونے لگا۔ اس کی آہوں میں درد تھا، شکایت تھی، وہ اپنی دونوں ٹانگیں دشمن کے حملے میں کھو چکا تھا۔ شاید اسے افسوس تھا کہ اسے شہادت کا رتبہ نہیں دیا گیا۔ یہ بھی عجیب پاگل تھا جو شہادت کی اس خواہش کو اپنے بیٹے سے منسوب کرنے کی دعا کے ساتھ آنکھ بند کرکے سو گیا۔
ہمارا بھی خوں شامل ہے تزئین گلستان میں
ہمیں بھی یاد رکھنا چمن میں جب بہار آئے

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |