علماء اصلاح معاشرہ کے سب سے بڑے علمبردار
ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد بے راہ روی کا شکار ہے، وہ بدکاری کو بدکاری نہیں سمجھتے
اصلاح معاشرہ ایک ایسا فریضہ ہے جس سے غفلت نسلیں برباد کرسکتی ہے، اس سے غفلت کا نتیجہ کیا برآمد ہو سکتا ہے اس کا اندازہ نبی کریمﷺ کے اس ارشاد گرامی سے کیا جاسکتا ہے، اس ارشاد گرامی کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آج سے چودہ صدیاں پہلے ہی نبی کریمﷺ کو ہمارا معاشرہ دکھایا گیا تھا اور آپﷺ اسے دیکھ دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بات کررہے تھے۔ آپﷺ نے ایک روز صحابہ کرام ؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ " اس وقت تمہارا عالم کیا ہوگا جب تمہاری عورتیں سرکش ہوجائیں گی؟ تمہارے نوجوان بدکردار ہوجائیں گے اور تم جہاد کو چھوڑ بیٹھو گے"۔
صحابہ کرام ؓ آپﷺ کی زبان اطہر سے یہ ارشاد سن کر ورطہ حیرت میں ڈوب گئے اور اسی کیفیت میں دریافت کیا "یارسول اللہ کیا ایسا بھی ہوگا؟" آپﷺ نے فرمایا "خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوگا"۔ صحابہ کرامؓ نے حیران ہوکر پوچھا "اے اللہ کے محبوبﷺ اس سے زیادہ کیا ہوگا؟" آپﷺ نے فرمایا " کیا عالم ہوگا تمہارا اس وقت جب تم نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی کا درجہ دو گے؟"۔ صحابہ کرام حیران تھے کہ کیا مسلمان کہلانے والے معاشرے میں ایک ایسا دن بھی آئے گا جب یہ باتیں ہوں گی وہ تو ایسا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے انھوں نے پھر دریافت کیا "یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟"۔ آپﷺ نے فرمایا "یہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوگا اور پھر برائیوں سے نہ روکنے کے آغاز کا یہ خوفناک انجام آپﷺ نے پیش فرمایا کہ تمہارا کیا عالم ہوگا اس وقت جب تم نیکی سے روکو گے اور برائیوں کی تبلیغ کرو گے"۔
میں جب اس حدیث کو پڑھ کر اپنے ارد گرد ماحول پر نظر ڈالتا ہوں تو میری روح کانپ جاتی ہے۔ چودہ سو سال پہلے اللہ کے پاک پیغمبرﷺ نے جس زمانے کا منظر صحابہ کی مجلس میں بیان فرمایا اور یہ منظر سن کر صحابہ کی جماعت پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، آج چودہ صدیاں بعد مجھے اور آپ کو یہ زمانہ درپیش ہے، ہم اس زمانے میں جی رہے ہیں، ہماری خواتین میں سرکشی بڑھ رہی ہے۔
ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد بے راہ روی کا شکار ہے، وہ بدکاری کو بدکاری نہیں سمجھتے، آج ایک طبقے میں شراب پینے کو فیشن کہاجاتا ہے، آج فحش گفتگو، حرکات و سکنات کو بے حیائی اور بے غیرتی کے بجائے زندہ دلی کا نام دیا جاتا ہے، آج جہاد کو دہشت گردی کہا جاتا ہے، چند دہائیاں پہلے تک ٹی وی اور وی سی آر کو بدترین معاشرتی برائی سمجھا جاتا تھا آج ہم اس برائی کو اپنی جیبوں میں لیے گھومتے ہیں، موبائل فون، لیپ ٹاپ اور ٹیب کے ذریعے پوری دنیا ہمارے نوجوانوں کی انگلیوں پر ہیں، والدین بے خبر ہیں کہ ہمارے چودہ، پندرہ سال کے نوجوان بچے اور بچیاں کیا دیکھ رہے ہیں، اس بے حیائی اور بے غیرتی کے طوفان نے ہمارے نوجوانوں کے دلوں سے اسلام کی محبت چھین لی ہے۔
آج کے دور میں جو نیکی کی تلقین کرے اسے دقیانوسی اور نئے دور کے تقاضوں سے نابلد قرار دیا جاتا ہے۔ آج جوئے کا نام ریس رکھ دیا گیا ہے۔ سود کو منافع کہا جاتا ہے۔ رشوت خور کے گھر کے باہر فضل ربی کی تختی نصب ہوتی ہے، اس کے دفتر میں الراشی والمرتشی کلاھما فی النار لکھا ہوتا ہے۔ آج برائی مکمل طور پر آزاد ہے اسے انٹر نیٹ کے ذریعے ہمارے خواب گاہوں تک پہنچا دیا گیا ہے جب کہ نیکی پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے، اس کے راستے میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی ہیں، جنھیں عبور کرنا آسان نہیں۔ اس پرفتن دور میں اگر قوم بالخصوص نسل نو کی کسی کو فکر ہے تو وہ طبقہ علماء کا ہے جنھیں انبیاء کا وارث قرار دیا گیا ہے۔
میں نے اپنے مرشد و مربی بابا جان حضرت ڈاگئی بابا جان رحمہ اللہ کو "نسل نو" کے لیے ہمیشہ فکر مند پایا وہ اپنے دروس، خطبات کے علاوہ نجی محافل میں شباب امت کی تربیت پر زور دیا کرتے تھے اور بتایاکرتے تھے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت آپ کی ذمے داری کے علاوہ امت کے ساتھ احسان عظیم اور اس میں غفلت جرم عظیم ہے۔ میں نے باباجان ؒ کے ہم عصر علماء، ان کے قریبی دوستوں شامنصور کے شیخین کریمین اور شاہ منصور باباؒ اور ان کے نامی گرامی شاگردوں کو ہمیشہ نسل نو کی تربیت کے حوالے سے بے چین پایا۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم حضرت مولانا فضل الرحیم اشرفی دامت برکاتہم العالیہ کو ایک بار نہیں کئی بار نسل نو کے ایمان کے لیے مضطرب پایا وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ "موجودہ دور میں نسل نو کے ایمان کی حفاظت ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے"۔
پوری دنیا میں علماء اصلاح معاشرہ کے لیے اپنی اپنی جگہ گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن مجھے تبدیلی کے قارئین کو یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میرے علاقے صوابی سے تعلق رکھنے والے باباجان رحمہ اللہ کے شاگردوں اور معتقدین نے "اصلاح معاشرہ" کو ایک تحریک کی شکل دے دی ہے، وہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر اس مشن کو فریضہ سمجھ کر نکل پڑے ہیں۔ اس مقصد کے لیے تحصیل رزڑ ضلع صوابی کے جید علماء اور عصری علوم سے مزئین اذہان کے مالکان اور اصلاح معاشرہ کے لیے فکر مند افراد نے مل کر باقاعدہ ایک تنظیم "انجمن علماء رزڑ" کے نام سے بنائی ہے جس کا دائرہ پورے ضلع صوابی بعد ازاں صوبے اور ملک گیر سطح تک پھیلایا جائے گا۔ "انجمن علماء رزڑ" کی پہلی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں جید علماء کرام کے علاوہ کثیر تعداد میں اصلاح معاشرہ کے لیے فکر مند افراد شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں علماء سر جوڑ کر بیٹھے اور اصلاح معاشرہ کے لیے مختلف تجاویز پر غورو فکر کیا۔ طویل مشاورت اور غوروفکر کے بعد چند نکات پر اتفاق پایا گیا جو درج ذیل ہیں۔
1۔ معاشرے کے اندر خلاف شریعت رسم و رواج اور دیگر سماجی برائیوں کی نشاندہی اور ان کے مقابلے میں شریعت کے مطابق متبادل لائحہ عمل پیش کرنے کے لیے علم فقہ پر خصوصی عبور رکھنے والے علماء کرام کا ایک فورم تشکیل دیا جائے گا۔
2۔ سرکاری اداروں میں علمائے کرام کے مسائل اور مشکلات حل کرنے اور علمائے کرام کی دیکھ بھال اور تحفظ کے لیے ایک گرینڈ جرگہ تشکیل دیا جائے گا۔
3۔ اسکول کالج اور یونیورسٹی کے اندر پڑھانے والے اساتذہ کرام پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو کہ مختلف اوقات میں اسکول کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کو فری ٹیوشن پڑھائیں گے ان ٹیوشن سینٹرز کا انعقاد دینی مدارس کے اندر کیا جائے گا تاکہ اسکول کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ اور دینی مدارس کے طلباء اور علماء کرام کے درمیان پیدا شدہ خلیج اور دوریوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
4۔ اکابر علماء کرام کی دینی اور قومی خدمات کے حوالے سے مختلف اجتماعات اور کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ نوجوان نسل اور عوام کو ان کی قربانیوں سے روشناس کرایا جا سکے۔
5۔ حضرت ڈاگئی بابا جی ؒ کے شاگرد رشید حضرت مولانا جہانزیب مظہری صاحب کو "انجمن علماء رزڑ" کا متفقہ طور پر سرپرست اور اشتیاق سعدی صاحب کو انجمن کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔
6۔ "انجمن علمائے رزڑ" ایک غیر متنازع، غیر سیاسی اصلاحی تنظیم ہوگی۔
7۔ "انجمن علمائے رزڑ" علماء کرام کی سرپرستی میں محب وطن اور پرامن شہریوں کی تنظیم ہے جو کہ ملکی قوانین کے اندر رہتے ہوئے اصلاح معاشرہ کے مقدس مشن میں مصروف عمل ہوگی۔
بیشک رزڑ (صوابی) کے علماء کرام نے سرجوڑ کر جو متفقہ لائحہ عمل اپنایا ہے وہ اصلاح معاشرہ کے لیے کارگر نسخہ ثابت ہوگا۔ علمائے رزڑ (صوابی ) نے مسلمانوں اور بالخصوص نوجوانوں کو دردِ دل کے ساتھ راہ راست پر لانے کا مشن شروع کیا ہے، اس کار خیر کو پاکستان میں بسنے والے ہر عالم دین کو اپنا مشن بنانا چاہیے۔ مجھے لگتا ہے کہ ابتداء میں نبی کریمﷺ کا جو ارشاد گرامی نقل کیا ہے اس کی روشنی میں مسلمان اتنی پستی میں کبھی نہ گرا تھا جتنا آج گر چکا ہے۔
گناہوں پر نادم ہونے اور توبہ کرنے والے کو معافی ملتی ہے، برائیوں پر فخر کرنے اور گناہوں پر اکڑنے والے کو خدا بھی معاف نہیں کرتا۔ اس کے خطا کی بخشش ہے لیکن بغاوت کی نہیں۔ علمائے رزڑ (صوابی) نے اصلاح معاشرہ کے لیے اجتماعی جدوجہد کا آغاز کردیا ہے، تمام علماء کرام کو اس قابل تعریف و قابل تقلید مشن کے لیے اٹھ جانا چاہیے۔
صحابہ کرام ؓ آپﷺ کی زبان اطہر سے یہ ارشاد سن کر ورطہ حیرت میں ڈوب گئے اور اسی کیفیت میں دریافت کیا "یارسول اللہ کیا ایسا بھی ہوگا؟" آپﷺ نے فرمایا "خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوگا"۔ صحابہ کرامؓ نے حیران ہوکر پوچھا "اے اللہ کے محبوبﷺ اس سے زیادہ کیا ہوگا؟" آپﷺ نے فرمایا " کیا عالم ہوگا تمہارا اس وقت جب تم نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی کا درجہ دو گے؟"۔ صحابہ کرام حیران تھے کہ کیا مسلمان کہلانے والے معاشرے میں ایک ایسا دن بھی آئے گا جب یہ باتیں ہوں گی وہ تو ایسا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے انھوں نے پھر دریافت کیا "یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہوگا؟"۔ آپﷺ نے فرمایا "یہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوگا اور پھر برائیوں سے نہ روکنے کے آغاز کا یہ خوفناک انجام آپﷺ نے پیش فرمایا کہ تمہارا کیا عالم ہوگا اس وقت جب تم نیکی سے روکو گے اور برائیوں کی تبلیغ کرو گے"۔
میں جب اس حدیث کو پڑھ کر اپنے ارد گرد ماحول پر نظر ڈالتا ہوں تو میری روح کانپ جاتی ہے۔ چودہ سو سال پہلے اللہ کے پاک پیغمبرﷺ نے جس زمانے کا منظر صحابہ کی مجلس میں بیان فرمایا اور یہ منظر سن کر صحابہ کی جماعت پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، آج چودہ صدیاں بعد مجھے اور آپ کو یہ زمانہ درپیش ہے، ہم اس زمانے میں جی رہے ہیں، ہماری خواتین میں سرکشی بڑھ رہی ہے۔
ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد بے راہ روی کا شکار ہے، وہ بدکاری کو بدکاری نہیں سمجھتے، آج ایک طبقے میں شراب پینے کو فیشن کہاجاتا ہے، آج فحش گفتگو، حرکات و سکنات کو بے حیائی اور بے غیرتی کے بجائے زندہ دلی کا نام دیا جاتا ہے، آج جہاد کو دہشت گردی کہا جاتا ہے، چند دہائیاں پہلے تک ٹی وی اور وی سی آر کو بدترین معاشرتی برائی سمجھا جاتا تھا آج ہم اس برائی کو اپنی جیبوں میں لیے گھومتے ہیں، موبائل فون، لیپ ٹاپ اور ٹیب کے ذریعے پوری دنیا ہمارے نوجوانوں کی انگلیوں پر ہیں، والدین بے خبر ہیں کہ ہمارے چودہ، پندرہ سال کے نوجوان بچے اور بچیاں کیا دیکھ رہے ہیں، اس بے حیائی اور بے غیرتی کے طوفان نے ہمارے نوجوانوں کے دلوں سے اسلام کی محبت چھین لی ہے۔
آج کے دور میں جو نیکی کی تلقین کرے اسے دقیانوسی اور نئے دور کے تقاضوں سے نابلد قرار دیا جاتا ہے۔ آج جوئے کا نام ریس رکھ دیا گیا ہے۔ سود کو منافع کہا جاتا ہے۔ رشوت خور کے گھر کے باہر فضل ربی کی تختی نصب ہوتی ہے، اس کے دفتر میں الراشی والمرتشی کلاھما فی النار لکھا ہوتا ہے۔ آج برائی مکمل طور پر آزاد ہے اسے انٹر نیٹ کے ذریعے ہمارے خواب گاہوں تک پہنچا دیا گیا ہے جب کہ نیکی پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے، اس کے راستے میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی ہیں، جنھیں عبور کرنا آسان نہیں۔ اس پرفتن دور میں اگر قوم بالخصوص نسل نو کی کسی کو فکر ہے تو وہ طبقہ علماء کا ہے جنھیں انبیاء کا وارث قرار دیا گیا ہے۔
میں نے اپنے مرشد و مربی بابا جان حضرت ڈاگئی بابا جان رحمہ اللہ کو "نسل نو" کے لیے ہمیشہ فکر مند پایا وہ اپنے دروس، خطبات کے علاوہ نجی محافل میں شباب امت کی تربیت پر زور دیا کرتے تھے اور بتایاکرتے تھے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت آپ کی ذمے داری کے علاوہ امت کے ساتھ احسان عظیم اور اس میں غفلت جرم عظیم ہے۔ میں نے باباجان ؒ کے ہم عصر علماء، ان کے قریبی دوستوں شامنصور کے شیخین کریمین اور شاہ منصور باباؒ اور ان کے نامی گرامی شاگردوں کو ہمیشہ نسل نو کی تربیت کے حوالے سے بے چین پایا۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم حضرت مولانا فضل الرحیم اشرفی دامت برکاتہم العالیہ کو ایک بار نہیں کئی بار نسل نو کے ایمان کے لیے مضطرب پایا وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ "موجودہ دور میں نسل نو کے ایمان کی حفاظت ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے"۔
پوری دنیا میں علماء اصلاح معاشرہ کے لیے اپنی اپنی جگہ گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں، لیکن مجھے تبدیلی کے قارئین کو یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میرے علاقے صوابی سے تعلق رکھنے والے باباجان رحمہ اللہ کے شاگردوں اور معتقدین نے "اصلاح معاشرہ" کو ایک تحریک کی شکل دے دی ہے، وہ انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر اس مشن کو فریضہ سمجھ کر نکل پڑے ہیں۔ اس مقصد کے لیے تحصیل رزڑ ضلع صوابی کے جید علماء اور عصری علوم سے مزئین اذہان کے مالکان اور اصلاح معاشرہ کے لیے فکر مند افراد نے مل کر باقاعدہ ایک تنظیم "انجمن علماء رزڑ" کے نام سے بنائی ہے جس کا دائرہ پورے ضلع صوابی بعد ازاں صوبے اور ملک گیر سطح تک پھیلایا جائے گا۔ "انجمن علماء رزڑ" کی پہلی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں جید علماء کرام کے علاوہ کثیر تعداد میں اصلاح معاشرہ کے لیے فکر مند افراد شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں علماء سر جوڑ کر بیٹھے اور اصلاح معاشرہ کے لیے مختلف تجاویز پر غورو فکر کیا۔ طویل مشاورت اور غوروفکر کے بعد چند نکات پر اتفاق پایا گیا جو درج ذیل ہیں۔
1۔ معاشرے کے اندر خلاف شریعت رسم و رواج اور دیگر سماجی برائیوں کی نشاندہی اور ان کے مقابلے میں شریعت کے مطابق متبادل لائحہ عمل پیش کرنے کے لیے علم فقہ پر خصوصی عبور رکھنے والے علماء کرام کا ایک فورم تشکیل دیا جائے گا۔
2۔ سرکاری اداروں میں علمائے کرام کے مسائل اور مشکلات حل کرنے اور علمائے کرام کی دیکھ بھال اور تحفظ کے لیے ایک گرینڈ جرگہ تشکیل دیا جائے گا۔
3۔ اسکول کالج اور یونیورسٹی کے اندر پڑھانے والے اساتذہ کرام پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو کہ مختلف اوقات میں اسکول کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کو فری ٹیوشن پڑھائیں گے ان ٹیوشن سینٹرز کا انعقاد دینی مدارس کے اندر کیا جائے گا تاکہ اسکول کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ اور دینی مدارس کے طلباء اور علماء کرام کے درمیان پیدا شدہ خلیج اور دوریوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔
4۔ اکابر علماء کرام کی دینی اور قومی خدمات کے حوالے سے مختلف اجتماعات اور کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے گا تاکہ نوجوان نسل اور عوام کو ان کی قربانیوں سے روشناس کرایا جا سکے۔
5۔ حضرت ڈاگئی بابا جی ؒ کے شاگرد رشید حضرت مولانا جہانزیب مظہری صاحب کو "انجمن علماء رزڑ" کا متفقہ طور پر سرپرست اور اشتیاق سعدی صاحب کو انجمن کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔
6۔ "انجمن علمائے رزڑ" ایک غیر متنازع، غیر سیاسی اصلاحی تنظیم ہوگی۔
7۔ "انجمن علمائے رزڑ" علماء کرام کی سرپرستی میں محب وطن اور پرامن شہریوں کی تنظیم ہے جو کہ ملکی قوانین کے اندر رہتے ہوئے اصلاح معاشرہ کے مقدس مشن میں مصروف عمل ہوگی۔
بیشک رزڑ (صوابی) کے علماء کرام نے سرجوڑ کر جو متفقہ لائحہ عمل اپنایا ہے وہ اصلاح معاشرہ کے لیے کارگر نسخہ ثابت ہوگا۔ علمائے رزڑ (صوابی ) نے مسلمانوں اور بالخصوص نوجوانوں کو دردِ دل کے ساتھ راہ راست پر لانے کا مشن شروع کیا ہے، اس کار خیر کو پاکستان میں بسنے والے ہر عالم دین کو اپنا مشن بنانا چاہیے۔ مجھے لگتا ہے کہ ابتداء میں نبی کریمﷺ کا جو ارشاد گرامی نقل کیا ہے اس کی روشنی میں مسلمان اتنی پستی میں کبھی نہ گرا تھا جتنا آج گر چکا ہے۔
گناہوں پر نادم ہونے اور توبہ کرنے والے کو معافی ملتی ہے، برائیوں پر فخر کرنے اور گناہوں پر اکڑنے والے کو خدا بھی معاف نہیں کرتا۔ اس کے خطا کی بخشش ہے لیکن بغاوت کی نہیں۔ علمائے رزڑ (صوابی) نے اصلاح معاشرہ کے لیے اجتماعی جدوجہد کا آغاز کردیا ہے، تمام علماء کرام کو اس قابل تعریف و قابل تقلید مشن کے لیے اٹھ جانا چاہیے۔