پیسٹیسائڈ مادے مضر ِ صحت ہیں

فصلوں کو کیڑوں اور جڑی بوٹیوں سے محفوظ رکھنے والے کیمیکل انسانوں میں بیماریاں پیدا کر سکتے ہیں


فصلوں کو کیڑوں اور جڑی بوٹیوں سے محفوظ رکھنے والے کیمیکل انسانوں میں بیماریاں پیدا کر سکتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

یہ 1945ء کی بات ہے جب امریکا میں پہلی بار کیمیائی مادوں (کیمیکلز) سے ''پیسٹیسائڈ'' (Pesticide) یا کیڑ ے و جڑی بوٹی مار دوا بنائی گئی۔ پچھلے اسّی سال کے دوران ان مادوں سے بنی ڈھائی سو سے زیادہ ایسی ادویہ مارکیٹ میں آ چکیں۔ ان کے فائدے ہیں۔ مثلاً یہ فصل، پھل اور سبزی کو نقصان پہنچانے والے مختلف کیڑوں اور نباتات سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یوں فصل کی پیداوار بڑھتی ہے۔ اس طرح ممکن ہوا کہ بنی نوع انسان کو وافر غذا سستے داموں مل سکے۔ زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں اور پیسٹیسائڈز کے ذریعے ہی دوسری جنگ عظیم کے بعد زرعی انقلاب برپا ہوا۔

منفی پہلو مگر یہ ہے کہ جدید تحقیق و تجربات سے انکشاف ہوا ہے، یہ کیمیکل انسانی و حیوانی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں ... چاہے خوراک میں ان کی مقدار اتنی ہو جو محفوظ سمجھی جاتی ہے۔ معنی یہ کہ طبّی سائنس داں پہلے یہ سمجھتے تھے، کسی غذا میں فلاں دوا کی اتنی مقدار موجود ہے تو وہ صحت کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ مگر جدید تحقیق سے افشا ہوا کہ تھوڑی مقدار بھی انسان و حیوان کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر سکتی ہے۔اس انکشاف نے زراعت میں پیسٹیسائڈز کے استعمال کو انسانی صحت کے لیے خطرناک بنا دیا ہے۔

اعدادوشمار کی رو سے دنیا میں چالیس سے زائد کمپنیاں یہ ادویہ بناتی ہیں۔ یہ سبھی کمپنیاں یورپی یا امریکی ہیں۔ پیسٹیسائڈز کی مارکیٹ کا حجم ایک سو ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔ اور صرف چار کمپنیاں اس مارکیٹ کا 56 فیصد حصہ کنٹرول کرتی ہیں۔ یہ سبھی کمپنیاں کئی اقسام کے کیمیکل بھی تیار کرتی ہیں۔ انہی کیمیائی مادوں سے پیسٹیسائڈز بنتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا بھر میں ایک ہزار سے زیادہ اقسام کے کیڑے و جڑی بوٹی مارکیمیکل استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں جڑی بوٹیوں کی دوائیں (49 فیصد)، فنگسائڈز اور بیکٹیریسائڈز (27فیصد) اور کیڑے مار (19 فیصد) شامل ہیں۔

بچے اپنی کمزورجسمانی ہئیت، تیز میٹابولک ریٹ اور طرز عمل کی وجہ سے خصوصاً پیسٹیسائڈز کا شکار ہوتے ہیں۔ بچے اکثر زمین کے قریب رہتے ہیں۔ وہ ہاتھ سے منہ کو چھوتے اور سانس لیتے ہیں، اس لیے ان میں بالغوں کی نسبت حادثاتی طور پر پیسٹیسائڈز جسم کے اندر جانے کا خطرہ زیادہ ہے۔ 2014 ء میں فرانس کے بورڈو علاقے میں پرائمری سکول کے بچوں کو انگور کے باغ میں فنگسائڈز چھڑکنے کے بعد متلی، سر درد اور جلد کی جلن کی شکایت ہو گئی تھی۔

دو فرانسیسی ماحولیاتی تنظیموں کی طرف سے مقدمہ دائر کرنے کے بعد اس معاملے میں ملوث انگور کے دو باغوں پرتیس ہزار یورو کا جرمانہ ہوا۔ جزیرہ ہوائی سے نیوزی لینڈ تک دنیا بھر میں پیسٹی سائڈز کیمیکلز کے استعمال سے بچوں کے بیمار ہونے کے کیس موجود ہیں۔ بھارتی بچوں میںان کا استعمال کئی دہائیوں سے صحت عامہ کا اہم مسئلہ رہا ہے۔ بوڑھے بھی اپنی پتلی جلد کی وجہ سے کمزور ہوتے ہیں۔ یوں جلد کے ذریعے پیسٹیسائڈز جسم میں جذب ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ جیسے جیسے ان کے اعضا کے افعال بگڑتے ہیں، جگر اور گردے زہریلے مادے نکالنے میں زیادہ وقت لے سکتے ہیں۔ یوں بوڑھوں کے جسم میں کیمیکلز جمع ہونے اور جسمانی یا اعصابی نقصان پہنچنے کا خدشہ زیادہ ہے۔

حیوانوں پہ کیے گئے تجربات سے افشا ہوا ہے کہ پیسٹی سائڈز ان کی قوت ِ شامہ کمزور کرتی ہیں۔ نیز ان کے دماغی افعال پہ بھی منفی اثرات ڈالتی ہیں۔ مثلاً انہی کی وجہ سے شہد کی مکھیاں اپنے چھتّوں کا راستہ بھولنے لگی ہیں۔ جب وہ پیسٹیسائڈز سے آلودہ پھولوں کا رس چوسیں تو ان کا دماغی نظام متاثر ہوتا ہے اور وہ اپنی قوت شامہ بھی کھو بیٹھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے، پچھلے دو عشروں سے شہد کی مکھیوں کی تعداد بہت کم ہو چکی۔ اب ان کے چھتّے بھی نظر نہیں آتے جو پہلے درختوں ہی نہیں گھروں تک میں جا بجا دکھائی دیتے تھے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی رپورٹ کہتی ہے کہ پیسٹیسائڈز کے استعمال میں اضافہ جاری ہے۔ 2050 ء تک دنیا کی آبادی ساڑھے نو ارب افراد ہو گی۔ لہذا خوراک کی پیداوار کی شرح میں 60 فیصد اضافے کی ضرورت ہے۔ یہ مانگ پورا کرنے کے لیے کسانوں مزید پیسٹیسائڈز استعمال کریں گے۔ یورپی کاشتکاری کے نظام پر کی گئی ایک تحقیق کے مطابق انھیں یکسر ترک کرنے سے پھلوں کی پیداوار میں 78 فیصد، سبزیوں میں 54 فیصد اور اناج کی پیداوار میں 32 فیصد کمی واقع ہو سکتی ہے۔

جب سپرے ہو تو پیسٹیسائڈز بخارات پیدا کرتی ہیں جو فضائی آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔ امریکی زرعی کارکنوں میں پیسٹیسائڈز سے منسلک بیشتر بیماریاں سپرے کے باعث جنم لیتی ہیں۔ ان کی علامات سر درد اور متلی سے لے کر جلد پر جلن تک ہیں۔ان کے منفی اثرات میں حواس کا بگاڑ بھی شامل ہے۔ قدیم ترین واقعات میں سے ایک 1960ء کی دہائی میں جاپان کے ساکو زرعی علاقے میں پیش آیا۔ علاقے کے رہائشیوں میں آرگن فاسفیٹس کے استعمال کے بعد قوتِ بصارت (دیکھنے کی صلاحیت) میں خرابی کے زیادہ واقعات سامنے آئے۔ ساکو کی بیماری کے اثرات میں بینائی کا دھندلا پن، آنکھوں کی حرکت کی خرابی، مایوپیا اور ضعف ِ بصر شامل ہیں۔

تہلکہ خیز امریکی رپورٹ

امریکا میں دو سرکاری اداروں، محکہ زراعت اور یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ اینڈمنسٹریشن سے منسلک طبی سائنس داں ہر سال مقامی و درآمد شدہ غذاؤں کا تجزیہ کرتے ہیں۔ مقصد یہ جاننا ہے کہ ان غذاؤں میں پیسٹیسائڈز کی مقدار کتنی ہے۔ تجزیے سے جو نتائج سامنے آئیں، وہ دونوں ادارے اپنی ویب سائٹ پہ شائع کرتے ہیں۔ امریکا ہی میں ایک غیرسرکاری تنظیم، ای ڈبلیو جی (Environmental Working Group)کے محقق بھی یہ دیکھنے کے لیے مختلف غذاؤں کی جانچ پڑتال کرتے ہیں کہ ان میں کن پیسٹیسائڈز کی کتنی مقدار موجود ہے۔ وہ پھر ہر سال کے آغاز میں ایک رپورٹ''خوراک میں کیڑے مار ادویہ کی موجودگی اور رہنمائے ِ خریداری '' شائع کرتے ہیں۔ اس رپورٹ کی تیاری میں سرکاری اداروں کے نتائج سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔

حالیہ ماہ مارچ کے وسط میں ای ڈبلیو جی نے رواں سال کے لیے اپنی رپورٹ جاری کی۔ اس میں غذاؤں کی تین فہرستیں موجود ہیں۔ پہلی فہرست، ''گندی درجن '' (Dirty Dozen) میں وہ بارہ غذائیں شامل ہیں جن میں سب سے زیادہ پیسٹیسائڈز کی مقدار پائی گئی۔

''گندی درجن ''

یہ غذائیں ''گندی درجن '' فہرست کا حصّہ ہیں: اسٹرابیری، پالک،کیل (Kale)، انگور، آڑو، ناشپاتی، نیکٹرائن (Nectarines)، سیب، سبز ولال مرچیں، چیری، بلیو بیری اور سبز پھلیاں۔ دوسری فہرست میں وہ سبزیاں وپھل شامل ہیں جن میں پیسٹیسائڈز سب سے کم پائی گئیں۔اس فہرست کی غذائیں یہ ہیں: گاجر، شکرقندی، آم، کھمبیاں، تربوز، بند گوبھی، کیوی فروٹ، خربوزہ، اسپارگس، مٹر، پیپتا، پیاز، انناس، مکئی، ایواکادو۔ تیسری فہرست میں وہ غذائیں شامل ہیں جو درج بالا فہرستوں کا حصّہ نہیں۔ ان میں ادویہ کی درست مقدار کا تعین نہیں ہو سکا۔ کسی نمونے میں تو وہ زیادہ پائی گئیں۔ مگر دوسرے نمونوں میں ان کی مقدار کم تھی۔

ماہرین طب کا کہنا ہے کہ جو غذائیں زمین کے قریب اگیں، ان میں عموماً زیادہ پیسٹیسائڈز ہوتی ہیں۔وجہ یہ کہ وہ ان کی زیادہ مقدار اپنے اندر جذب کرتی ہیں۔اور جو غذائیں زمین کے اندر ہوں، ان میں یہ ادویہ زیادہ مقدار میں جذب نہیں ہو پاتیں۔ مذید براں بعض غذاؤں پہ کیڑے اور جڑی بوٹیاں زیادہ آتی ہیں۔ چناںچہ ان پر ادویہ زیادہ چھڑکنا پڑتی ہیں۔اس طرح ان میں بھی ادویہ زیادہ جذب ہوتی ہیں۔

امریکی کسان اپنے اداروں کی درج بالا تحقیقات پسند نہیں کرتے کیونکہ صارفین وہ غذائیں خریدنا چھوڑ دیتے ہیں جو ''بارہ گندی'' فہرست میں شامل ہوں۔ صارفین پھر وہ غذائیں استعمال کرتے ہیں جن کی کاشت میں پیسٹیسائڈز نہیں برتی جاتیں۔ یا کیڑے ، پھپوندی وغیرہ مارنے کے لیے نامیاتی (آرگینک) اشیا استعمال ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے، امریکا میں نامیاتی مارکیٹ کا حجم پچھلے دس سال میں ساٹھ ارب ڈالر تک پہنچ چکا اور اس میں ہر سال وسعت آتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ ذاتی فائدے کے لیے نوع انسان کی صحت کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا۔ تحقیقی نتائج مسلسل اشارہ کر رہے ہیں کہ پیسٹیسائڈز کی غذاوں میں مقدار بے شک کم ہو، وہ صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اور خدانخواستہ انسان متواتر ایسی غذائیں کھاتا رہے جن میں ان ادویہ کی زیادتی ہو تو وہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار بھی بن سکتا ہے۔ اسی لیے امریکا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جہاں تعلیم وشعور زیادہ ہے، یہ مہم چل پڑی ہے کہ ایسی غذائیں کھائی جائیں جن پہ کیڑے مار کیمیکل استعمال نہ ہوں۔ مغرب میں لوگ بڑی تعداد میں نامیاتی خوراک کی سمت متوجہ ہو رہے ہیں۔یہ غذائیں مہنگی ہیں مگر انسان کو تندرست و توانا رکھتی ہیں۔ اس کو بیماریوں کا نشانہ نہیں بناتیں۔

طبی نقصانات

تحقیق و تجربات سے پیسٹیسائڈز کے درج ذیل طبی نقصانات منظرعام پہ آ چکے:

٭...حاملہ خواتین میں بچے قبل از وقت پیدا ہونا۔ یوں ان کے بچنے کا امکان گھٹ جاتا ہے۔

٭... ماں کے شکم میں پلتے بڑھتے بچے کا مختلف جینیاتی مسائل میں مبتلا ہونا۔ مثلاً کسی عضو کا نشوونما نہ پانا اور چھوٹا رہ جانا۔

٭...اسقاط حمل ہو نا۔

٭...دل کی بیماریوں کا نشانہ بننا۔

٭...مرد کی تولیدی قوت میں کمی۔

٭... الزائمر بیماری جس میں انسان باتیں بھول جاتا ہے۔

نتائج سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ پیسٹیسائڈز سب سے زیادہ کسانوں کو نشانہ بناتی ہیں کیونکہ وہی ان کے ساتھ زیادہ عرصہ گذارتے ہیں۔ وہ ان کی وجہ سے مختلف امراض میں گرفتار ہو سکتے ہیں، خصوصاً جب ادویہ کو استعمال کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر نہ برتی جائیں جیسا کہ پاکستان میں اکثر ہوتا ہے۔ اسی طرح تحقیق سے یہ بھی افشا ہوا کہ جو بچے پیسٹیسائڈز کے آس پاس رہیں، ان کی نشوونما قدرتی انداز میں نہیں ہو پاتی اور وہ کسی نہ کسی جینیاتی بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

احتیاطی تدابیر

بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بعض کسان تو اپنی پیدوار پہ پیسٹیسائڈز کم استعمال کرتے ہیں۔ بقیہ کسان شعور نہ ہونے یا لالچ میں یہ ادویہ زیادہ استعمال کر سکتے ہیں۔ نیز غیر معیاری بھی برت سکتے ہیں۔ یہی عمل ان کو انسانی صحت کے لیے خطرناک بناتے ہیں۔ اسی لیے ڈاکٹروں نے پچھلے چند برس کے دوران ایسی احتیاطی تدابیر وضع کی ہیں جن کی مدد سے غذاوں میں پیسٹیسائڈز کیمیکل کے مضر ِ صحت اثرات کم کرنا ممکن ہے۔ تدابیر درج ذیل ہیں:

٭...خوراک کو اچھی طرح دھوئیے۔ پانی کا بہنا ضروری ہے۔ ٹھہرے پانی میں غذا نہ رکھیے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

٭...دھونے کے بعد غذا کو خشک ہونے دیجیے۔ اس کے بعد استعمال کیجیے۔

٭...ممکن ہو تو پھل یا سبزی کی بیرونی تہہ ہٹا دیجیے۔

٭...چکن، گوشت اور مچھلی کی چربی پھینک دیجیے۔حیوان کے جسم میں سب سے زیادہ پیسٹیسائڈز چربی میں جمع ہوتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں