شمالی وزیرستان آپریشن حالیہ ماضی
پہلے اطہرعباس آپریشن نہ کرنے کی درجنوں وجوہات بیان کیا کرتے تھے جن سب کا تعلق گہرے قومی مفاد سے جڑا ہوا بتلایاجاتاتھا
NEW YORK:
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے سابق سربراہ میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے اپنے بیان کے ذریعے چونکا دینے والا انکشاف نہیں کیا۔ ہم میں سے جو بھی فاٹا کے حالات کو بغور دیکھ رہا تھا وہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کے بنتے اور بگڑتے ہوئے حالات پر پریشان تھا۔ ایک طویل عرصے سے فوجیں اس اہم ایجنسی میں تعینات کرنے کے باوجود یہاں پر حتمی کارروائی کا نہ ہونا فکر اور پریشانی کو بھی جنم دیتا تھا اور حیرت بھی ہوتی تھی۔ اس وقت جنرل اطہر عباس اپنی سرکاری حیثیت میں آپریشن نہ کرنے کی درجنوں وجوہات بیان کیا کرتے تھے جن سب کا تعلق گہرے قومی مفاد سے جڑا ہوا بتلایا جاتا تھا۔ مگر آج وہ وہی بات کر رہے ہیں جس کے خلاف وہ دوران نوکری ذرایع ابلاغ کے نمایندوں کو دلائل دیا کرتے تھے۔
ہمارے یہاں یہ روایت نہ جانے کب دم توڑے گی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہر اچھا کام اپنے نام منسوب کر دیا جاتا ہے اور ہر ناکامی کی ذمے داری دوسروں پر ڈال دی جاتی ہے۔ میں نے اطہر عباس سمیت جتنے ریٹائرڈ افسران سے بات کی ہے اس میں آج تک کسی نے حالات کی خرابی میں اپنی ذمے داری آٹے میں نمک کے برابر بھی تسلیم نہیں کی۔ باوجود اس کے کہ یہ تمام شخصیات اس فیصلہ سازی کے عمل کا کسی نہ کسی درجے میں حصہ رہی تھیں۔ جس کے نتائج ان کو نوکری سے نکلنے کے بعد ملک و قوم کے لیے یک دم خطرناک دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جنرل شاہد عزیز نے ہر دلعزیز ہونے کے لیے جو کتاب تحریر کی وہ اس وقت بھی میرے سامنے پڑی ہے۔
اس میں خود کو صلاح الدین ایوبی کے قریب رتبہ دینے والے ان صاحب نے دوران نوکری جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے ساتھ کیسے بہترین تعلقات رکھے اس کا علم بچے بچے کو ہے۔ مگر اس کے بر عکس ان کے کتابی دعوے دیکھے تو وہ پاکستان کی فوج میں واحد شخص تھے جو ضمیر کے مطابق کام کر رہا تھا۔ یوں لگ رہا ہے جیسے اطہر عباس جنرل شاہد عزیز کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو مجھے ذاتی طور پر دکھ ہو گا۔ وہ کتابوں کے شوقین اور حقیقت میں پڑھے لکھے فوجی جانے جاتے ہیں۔ دھیمے ہیں مگر اپنی بات کو سمجھانے کا فن جانتے ہیں۔ اگر وہ بھی خود کو ہیرو اور دوسروں کو ولن ثابت کرنے پر لگ گئے تو یہ صدمہ کی بات ہو گی۔
ان کی طرف سے اٹھائے گئے نکات بہرحال ہیں اہم۔ وہ کہتے ہیں ''اس آپریشن کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے بہت وقت ضایع کیا اور نقصان اٹھایا ہے۔ اس شش و پنج میں بد قسمتی سے بہت وقت ضایع ہو گیا جس کی بھاری قیمت اس ملک، عوام، حکومت اور فوج کو ادا کرنی پڑی۔ اس تاخیر کی وجہ سے شدت پسندوں کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں۔ ان کی تعداد بڑھ گئی ہے، ان کے وسائل میں اضافہ ہو چکا ہے، ان کے آپس میں رابطے بڑھ چکے ہیں اور وہاں پر معاملات زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں''۔
لیکن اصل بحث شمالی وزیرستان میں ایک طویل عرصے سے کارروائی نہ ہونے کی وجوہات سے متعلق ہے۔ اس میں شخصیات کا کتنا عمل دخل تھا اور حالات اور پالیسی کیا کارفرما تھے اس کا تعین کرنا ضروری ہے۔ اگر فوج کی کمان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتی یا ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہوتی تو نہ سوات کا آپریشن ہوتا نہ باجوڑ میں کارروائی ہوتی۔
مہمند ایجنسی، اورکزئی، جنوبی وزیرستان اور دوسری جگہوں پر درجنوں چھوٹے بڑے معرکے نہ ہوتے۔ یہ کارروائیاں اپنے نتائج اور وسائل کے استعمال میں چھوٹے یا درمیانے درجے کے نہیں بلکہ بڑے پیمانے کی تھیں۔ ان میں ہونے والی شہادتیں اکا دکا نہیں سیکڑوں بلکہ ہزاروں تھیں۔ مارے یا پکڑے جانے والے دہشت گرد بھی درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں اور ہزاروں میں تھے۔ تو ایسا نہیں ہے کہ ان علاقوں میں فوجی کارروائیاں کسی ابہام یا مخمصہ کی وجہ سے محض خانہ پوری تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں کارروائی دوسرے عوامل کے ساتھ تین بڑے مسائل کی وجہ سے نہ کی جا سکی، ایک مسئلہ امریکا کی طرف سے بار بار اصرار تھا جو قیادت اپنے آزادانہ تشخص کو قائم رکھنے کے لیے خود پر ایک بڑی قدغن سمجھتی تھی۔ میرے خیال میں اپنے ملک کے اداروں کو کسی اصرار یا انکار کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے کہ بڑے فیصلے منسوخ یا موخر کر دیں۔ لہذا اس زاویے سے اگر دیکھیں تو امریکا کے اصرار کو بنیاد بنا کر شمالی وزیرستان میں کارروائی کو موخر کرنا اچھی حکمت عملی نہیں تھی۔ مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ امریکا کے دبائو نے فیصلے کی تاخیر میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا۔
ایبٹ آباد کے حملے سے پہلے شمالی وزیرستان کا آپریشن چند ہفتوں میں شروع ہونے والا تھا، تمام اہم فوجی قیادت کو اس کا علم بھی ہے۔ مگر اس حملے نے ایک ایسی فضا بنا دی تھی جس میں شاید یہ کارروائی کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ یہاں پر میں وضاحت کرتا چلوں کہ میری رائے میں تاخیر بھی درست فیصلہ نہیں تھا۔ پاکستان ان علاقوں میں اپنا مکمل کنٹرول پیدا کر کے ایبٹ آباد کے حملے کے اثرات کو کافی حد تک زائل کر سکتا تھا۔ مگر اس وقت فوجی قیادت جس ذہن سے حالات کو دیکھ رہی تھی میں یقینا اس سوچ اور فکر سے آزاد ہو کر یہ رائے قائم کر رہا ہوں ۔
دوسرا بڑا عنصر سیاسی قیادت کی طرف سے متضاد اشارے اور انتخابات کے سال کا آغاز تھا۔ انتخابات سے پہلے تقریبا ہر سیاسی جماعت یہ چہ مگوئیاں کر رہی تھی کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے آغاز کو بنیاد بنا کر جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے گا۔ ان خدشات نے ان قومی اور علاقائی کانفرنسز کی بنیاد رکھی۔ جن میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی سمیت تمام پارٹیوں نے طالبان سے بات چیت کرنے پر اتفاق رائے کیا اور آپریشن کو بعض اوقات دبے الفاظ میں اور کہیں کہیں واضح انداز سے رد کر دیا۔
فوجی کارروائیاں سیاسی معاونت کے بغیر نہیں کی جا سکتیں۔ اور جب ہوتی ہیں تو ان کے نتائج سنبھالنے مشکل ہو جاتے ہیں۔ اب بھی شمالی وزیرستان میں ہونے والے ضرب عضب کی حقیقی کہانی تو یہی ہے کہ موجودہ حکومت آدھے دل سے اس پر راضی ہوئی ہے۔ اگرچہ آج کل مہنگے اشتہارات کی بھرمار سے یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ جیسے سیاسی طور پر پوری یکسوئی کے ساتھ فیصلہ کیا گیا۔ مگر پھر اشتہارات میں تو ایسی ہی باتیں بولی جاتی ہیں، سچ کون بولتا ہے ۔
شمالی وزیرستان میں کارروائی نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ فوجی قیادت کی افغانستان پالیسی تھی۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ امریکی افغان طالبان کو سیا سی عمل کے ذریعے افغانستان میں جگہ دیدے گا۔ حقانی نیٹ ورک کی مدد کے بغیر شمالی وزیرستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے غیر ملکی تقریبا تنہا ہو جائیں گے۔ جس کے بعد ان سے نپٹنا آسان ہو گا۔ افغانستان میں یہ مثالی صورت حال بھی نہ بن پائی۔ کبھی امریکا چکما دیتا تھا اور کبھی محترم کرزئی۔ کبھی ہم اپنے پتے ٹیڑھے پھینکتے تھے اور کبھی حقانی نیٹ ورک ہتھے سے اکھڑ جاتا تھا۔ فاٹا کی اس ایجنسی میں ہماری فوجیں موجود ہونے کے باوجود اس خاموش افغانستان سفارتکاری کے باعث موخر رہی جس کے بارے میں تمام اہم حلقوں کو معلومات حاصل رہیں۔ آپ اور میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لائحہ عمل بھی درست نہیں تھا۔
ہمارے اس نقطہ نظر کے حق میں بھی دلائل موجود ہیں اور اس کے خلاف بھی۔ مگر ان وجوہات کا ذکر کیے بغیر ہم شمالی وزیرستان میں طویل عرصے سے کارروائی نہ ہونے کے معاملے کو نہیں سمجھ سکے۔ وہ تمام فیصلے جو ہم کو بر وقت کرنے چاہئیں تھے اگر نہیں ہوئے تو یہ اجتماعی ذمے داری بنتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست کے سر کردہ ادارے تمام فیصلے کچھ اسی انداز سے کرتے ہیں۔ یعنی کچھ کرتے ہیں اور کچھ نہیں بھی۔
شمالی وزیرستان کے ساتھ بلوچستان کے حوالے سے بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہاں پر ریاست نے حالات کو سدھارنے کے لیے کسی خاص ذہانت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ شمالی وزیرستان اور بلوچستان سے بھی بڑھ کر اہم ترین معاملہ کراچی کا رہا ہے۔ جہاں پر آپ کو ریاست اور حکومت سر کھجاتی یا ٹامک ٹوئیاں مارتی نظر آتی ہے۔ اطہر عباس نے اپنے تنقیدی تجزیئے میں ان تما م عوامل کا ذکر کرنے کے باوجود ذمے داری ایک شخص پر ڈال دی۔ یہ ریٹائر منٹ کے بعد انقلابی ہونے کی شہادت یا اپنے کیر یئر میں اگلے عہدے پر ترقی نہ پانے کا غم یا پھر موجودہ قیادت کو گزشتہ کمانڈ سے بہتر ثابت کرنے کا طریقہ۔ جو بھی ہے روایت اچھی نہیں ہے۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے سابق سربراہ میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے اپنے بیان کے ذریعے چونکا دینے والا انکشاف نہیں کیا۔ ہم میں سے جو بھی فاٹا کے حالات کو بغور دیکھ رہا تھا وہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کی منصوبہ بندی کے بنتے اور بگڑتے ہوئے حالات پر پریشان تھا۔ ایک طویل عرصے سے فوجیں اس اہم ایجنسی میں تعینات کرنے کے باوجود یہاں پر حتمی کارروائی کا نہ ہونا فکر اور پریشانی کو بھی جنم دیتا تھا اور حیرت بھی ہوتی تھی۔ اس وقت جنرل اطہر عباس اپنی سرکاری حیثیت میں آپریشن نہ کرنے کی درجنوں وجوہات بیان کیا کرتے تھے جن سب کا تعلق گہرے قومی مفاد سے جڑا ہوا بتلایا جاتا تھا۔ مگر آج وہ وہی بات کر رہے ہیں جس کے خلاف وہ دوران نوکری ذرایع ابلاغ کے نمایندوں کو دلائل دیا کرتے تھے۔
ہمارے یہاں یہ روایت نہ جانے کب دم توڑے گی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہر اچھا کام اپنے نام منسوب کر دیا جاتا ہے اور ہر ناکامی کی ذمے داری دوسروں پر ڈال دی جاتی ہے۔ میں نے اطہر عباس سمیت جتنے ریٹائرڈ افسران سے بات کی ہے اس میں آج تک کسی نے حالات کی خرابی میں اپنی ذمے داری آٹے میں نمک کے برابر بھی تسلیم نہیں کی۔ باوجود اس کے کہ یہ تمام شخصیات اس فیصلہ سازی کے عمل کا کسی نہ کسی درجے میں حصہ رہی تھیں۔ جس کے نتائج ان کو نوکری سے نکلنے کے بعد ملک و قوم کے لیے یک دم خطرناک دکھائی دینے لگ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے جنرل شاہد عزیز نے ہر دلعزیز ہونے کے لیے جو کتاب تحریر کی وہ اس وقت بھی میرے سامنے پڑی ہے۔
اس میں خود کو صلاح الدین ایوبی کے قریب رتبہ دینے والے ان صاحب نے دوران نوکری جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے ساتھ کیسے بہترین تعلقات رکھے اس کا علم بچے بچے کو ہے۔ مگر اس کے بر عکس ان کے کتابی دعوے دیکھے تو وہ پاکستان کی فوج میں واحد شخص تھے جو ضمیر کے مطابق کام کر رہا تھا۔ یوں لگ رہا ہے جیسے اطہر عباس جنرل شاہد عزیز کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو مجھے ذاتی طور پر دکھ ہو گا۔ وہ کتابوں کے شوقین اور حقیقت میں پڑھے لکھے فوجی جانے جاتے ہیں۔ دھیمے ہیں مگر اپنی بات کو سمجھانے کا فن جانتے ہیں۔ اگر وہ بھی خود کو ہیرو اور دوسروں کو ولن ثابت کرنے پر لگ گئے تو یہ صدمہ کی بات ہو گی۔
ان کی طرف سے اٹھائے گئے نکات بہرحال ہیں اہم۔ وہ کہتے ہیں ''اس آپریشن کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے بہت وقت ضایع کیا اور نقصان اٹھایا ہے۔ اس شش و پنج میں بد قسمتی سے بہت وقت ضایع ہو گیا جس کی بھاری قیمت اس ملک، عوام، حکومت اور فوج کو ادا کرنی پڑی۔ اس تاخیر کی وجہ سے شدت پسندوں کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں۔ ان کی تعداد بڑھ گئی ہے، ان کے وسائل میں اضافہ ہو چکا ہے، ان کے آپس میں رابطے بڑھ چکے ہیں اور وہاں پر معاملات زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں''۔
لیکن اصل بحث شمالی وزیرستان میں ایک طویل عرصے سے کارروائی نہ ہونے کی وجوہات سے متعلق ہے۔ اس میں شخصیات کا کتنا عمل دخل تھا اور حالات اور پالیسی کیا کارفرما تھے اس کا تعین کرنا ضروری ہے۔ اگر فوج کی کمان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوتی یا ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہوتی تو نہ سوات کا آپریشن ہوتا نہ باجوڑ میں کارروائی ہوتی۔
مہمند ایجنسی، اورکزئی، جنوبی وزیرستان اور دوسری جگہوں پر درجنوں چھوٹے بڑے معرکے نہ ہوتے۔ یہ کارروائیاں اپنے نتائج اور وسائل کے استعمال میں چھوٹے یا درمیانے درجے کے نہیں بلکہ بڑے پیمانے کی تھیں۔ ان میں ہونے والی شہادتیں اکا دکا نہیں سیکڑوں بلکہ ہزاروں تھیں۔ مارے یا پکڑے جانے والے دہشت گرد بھی درجنوں نہیں بلکہ سیکڑوں اور ہزاروں میں تھے۔ تو ایسا نہیں ہے کہ ان علاقوں میں فوجی کارروائیاں کسی ابہام یا مخمصہ کی وجہ سے محض خانہ پوری تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں کارروائی دوسرے عوامل کے ساتھ تین بڑے مسائل کی وجہ سے نہ کی جا سکی، ایک مسئلہ امریکا کی طرف سے بار بار اصرار تھا جو قیادت اپنے آزادانہ تشخص کو قائم رکھنے کے لیے خود پر ایک بڑی قدغن سمجھتی تھی۔ میرے خیال میں اپنے ملک کے اداروں کو کسی اصرار یا انکار کو اتنی اہمیت نہیں دینی چاہیے کہ بڑے فیصلے منسوخ یا موخر کر دیں۔ لہذا اس زاویے سے اگر دیکھیں تو امریکا کے اصرار کو بنیاد بنا کر شمالی وزیرستان میں کارروائی کو موخر کرنا اچھی حکمت عملی نہیں تھی۔ مگر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ امریکا کے دبائو نے فیصلے کی تاخیر میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا۔
ایبٹ آباد کے حملے سے پہلے شمالی وزیرستان کا آپریشن چند ہفتوں میں شروع ہونے والا تھا، تمام اہم فوجی قیادت کو اس کا علم بھی ہے۔ مگر اس حملے نے ایک ایسی فضا بنا دی تھی جس میں شاید یہ کارروائی کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ یہاں پر میں وضاحت کرتا چلوں کہ میری رائے میں تاخیر بھی درست فیصلہ نہیں تھا۔ پاکستان ان علاقوں میں اپنا مکمل کنٹرول پیدا کر کے ایبٹ آباد کے حملے کے اثرات کو کافی حد تک زائل کر سکتا تھا۔ مگر اس وقت فوجی قیادت جس ذہن سے حالات کو دیکھ رہی تھی میں یقینا اس سوچ اور فکر سے آزاد ہو کر یہ رائے قائم کر رہا ہوں ۔
دوسرا بڑا عنصر سیاسی قیادت کی طرف سے متضاد اشارے اور انتخابات کے سال کا آغاز تھا۔ انتخابات سے پہلے تقریبا ہر سیاسی جماعت یہ چہ مگوئیاں کر رہی تھی کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے آغاز کو بنیاد بنا کر جمہوریت کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے گا۔ ان خدشات نے ان قومی اور علاقائی کانفرنسز کی بنیاد رکھی۔ جن میں عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی سمیت تمام پارٹیوں نے طالبان سے بات چیت کرنے پر اتفاق رائے کیا اور آپریشن کو بعض اوقات دبے الفاظ میں اور کہیں کہیں واضح انداز سے رد کر دیا۔
فوجی کارروائیاں سیاسی معاونت کے بغیر نہیں کی جا سکتیں۔ اور جب ہوتی ہیں تو ان کے نتائج سنبھالنے مشکل ہو جاتے ہیں۔ اب بھی شمالی وزیرستان میں ہونے والے ضرب عضب کی حقیقی کہانی تو یہی ہے کہ موجودہ حکومت آدھے دل سے اس پر راضی ہوئی ہے۔ اگرچہ آج کل مہنگے اشتہارات کی بھرمار سے یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ جیسے سیاسی طور پر پوری یکسوئی کے ساتھ فیصلہ کیا گیا۔ مگر پھر اشتہارات میں تو ایسی ہی باتیں بولی جاتی ہیں، سچ کون بولتا ہے ۔
شمالی وزیرستان میں کارروائی نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ فوجی قیادت کی افغانستان پالیسی تھی۔ خیال کیا جا رہا تھا کہ امریکی افغان طالبان کو سیا سی عمل کے ذریعے افغانستان میں جگہ دیدے گا۔ حقانی نیٹ ورک کی مدد کے بغیر شمالی وزیرستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان اور دوسرے غیر ملکی تقریبا تنہا ہو جائیں گے۔ جس کے بعد ان سے نپٹنا آسان ہو گا۔ افغانستان میں یہ مثالی صورت حال بھی نہ بن پائی۔ کبھی امریکا چکما دیتا تھا اور کبھی محترم کرزئی۔ کبھی ہم اپنے پتے ٹیڑھے پھینکتے تھے اور کبھی حقانی نیٹ ورک ہتھے سے اکھڑ جاتا تھا۔ فاٹا کی اس ایجنسی میں ہماری فوجیں موجود ہونے کے باوجود اس خاموش افغانستان سفارتکاری کے باعث موخر رہی جس کے بارے میں تمام اہم حلقوں کو معلومات حاصل رہیں۔ آپ اور میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لائحہ عمل بھی درست نہیں تھا۔
ہمارے اس نقطہ نظر کے حق میں بھی دلائل موجود ہیں اور اس کے خلاف بھی۔ مگر ان وجوہات کا ذکر کیے بغیر ہم شمالی وزیرستان میں طویل عرصے سے کارروائی نہ ہونے کے معاملے کو نہیں سمجھ سکے۔ وہ تمام فیصلے جو ہم کو بر وقت کرنے چاہئیں تھے اگر نہیں ہوئے تو یہ اجتماعی ذمے داری بنتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کی ریاست کے سر کردہ ادارے تمام فیصلے کچھ اسی انداز سے کرتے ہیں۔ یعنی کچھ کرتے ہیں اور کچھ نہیں بھی۔
شمالی وزیرستان کے ساتھ بلوچستان کے حوالے سے بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہاں پر ریاست نے حالات کو سدھارنے کے لیے کسی خاص ذہانت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ شمالی وزیرستان اور بلوچستان سے بھی بڑھ کر اہم ترین معاملہ کراچی کا رہا ہے۔ جہاں پر آپ کو ریاست اور حکومت سر کھجاتی یا ٹامک ٹوئیاں مارتی نظر آتی ہے۔ اطہر عباس نے اپنے تنقیدی تجزیئے میں ان تما م عوامل کا ذکر کرنے کے باوجود ذمے داری ایک شخص پر ڈال دی۔ یہ ریٹائر منٹ کے بعد انقلابی ہونے کی شہادت یا اپنے کیر یئر میں اگلے عہدے پر ترقی نہ پانے کا غم یا پھر موجودہ قیادت کو گزشتہ کمانڈ سے بہتر ثابت کرنے کا طریقہ۔ جو بھی ہے روایت اچھی نہیں ہے۔