گرجتے برستے رہنما
رہنما قوم کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ ان کے رویے عوام کے لیے مثال بنتے ہیں،
رہنما قوم کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ ان کے رویے عوام کے لیے مثال بنتے ہیں، مگر ہمارے ہاں رہنماؤں کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ایک دوسرے پر ذاتی حملے، مخالفین کے لیے غلیظ الفاظ کا استعمال، پگڑی اچھالنا ہماری سیاست میں ''حکمت عملی'' کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔
آپ کسی سیاست داں کے منہ سے اس کے مخالف کی کسی خصوصیت کی تعریف نہیں سنیں گے (البتہ مرحومین کو استثنیٰ حاصل ہے کہ ہمارا معاشرہ مر جانے والوں کی فوری بُرائی برداشت نہیں کرتا) سوال یہ ہے کہ کیا سیاست دان اپنے مخالف میں کوئی خوبی نہیں پاتے؟ کیا کوئی حکومت ایک بھی ایسا کام نہیں کرتی کہ حزب مخالف کے لوگ جس کی ستائش کر سکیں؟ ایسا نہیں، بس بات اتنی ہے کہ ہم مخالف یا تعلق کی ایک خاص شکل بدل جانے پر فریقِ ثانی کی تعریف یا اس کی کسی خوبی کے اعتراف کو اپنی کمزوری اور ذلت تصور کرتے ہیں۔
سماجی تعلقات کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔ آج باہمی اتفاق کا رشتہ کل گہرے اختلاف کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ کاروباری تعلق ٹوٹ کر شراکت کاروں کو تجارت کی دنیا میں حریف بنا سکتا ہے۔ نظریہ اور نقطۂ نظر کا بدل جانا تعلق کا چہرہ کچھ کا کچھ کر سکتا ہے۔ گھریلو ناچاقی میاں بیوی کو ایک خاندان کی اکائی سے نکال کر دو الگ الگ گھرانوں کا فرد بنا سکتی ہے۔ تعلق کی نوعیت کا بدل جانا ہمارے ہاں دشمنی اور انتقام کی نفسیات کو جنم دیتا ہے۔ اس کا کم سے کم نتیجہ بھی نفرت اور الزام تراشی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
تعلق میں دراڑ آنے کے باوجود جس سے ناتا ٹوٹا ہے اس کی برائیاں ہی نہ دیکھی جائیں خوبیوں کو بھی یاد رکھا اور ان کا کُھل کے اعتراف کیا جائے۔
اختلاف اور علیحدگی کا منظر گھر کی چار دیواری میں ابھرے یا سیاست کی راہوں پر گام زن شریکِ سفر راستے الگ کر لیں، الزام اور دشنام کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ الامان والحفیظ۔ یہ کج روی ہمارے سماج میں اس قدر عام ہے کہ کوئی مثال دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ کسی شادی شدہ جوڑے سے اس میں طلاق ہونے کے بعد فریقین سے الگ الگ ملیے، ایک دوسرے کے لیے نفرت کی زبان کے علاوہ آپ کو کچھ سننے کو نہیں ملے گا۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کے دو حصوں میں بٹنے یا کسی رہنما کے اپنی جماعت سے الگ ہونے کے بعد اس فاصلے کے آرپار کھڑے افراد ایک دوسرے کی طرف شعلہ بار نظروں سے دیکھتے اور زبانوں سے ایک دوسرے پر انگارے برساتے نظر آئیں گے۔
یہ رویہ ہماری ذہنی پس ماندگی کی عکاسی کرتا ہے جو سماج کے ہر گوشے اور ملک کے ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔ رشتوں کے حوالے سے ہمارے رویے عجیب و غریب ہیں۔ جس پہ فدا ہوں اس کی ہر بُرائی سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، اس کے گناہ بھی ثواب نظر آتے ہیں، اس پر تنقید کا ایک لفظ سننے کے بھی روادار نہیں ہوتے، مذہب، اخلاق، اقدار کوئی چیز ہمیں اپنے ممدوح کی خامی تو کیا کسی سیاہ کاری کی حمایت سے بھی نہیں روکتی نہ اسے غلط کہنے کی اخلاقی جُرأت دیتی ہے۔
خاص طور پر سیاست کی دنیا میں یہی چلن ہے۔ سیاسی جماعتوں کے بعض نعرے ہی سُن لیجیے اور ان پر غور بھی کیجیے، اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارے سیاسی کارکن اور سیاست دانوں کے حامی کسی بھی نظریے اور قدر سے بے نیاز ہو کر کس طرح اپنے راہ نما سے غیر مشروط تعلق استوار کیے ہوئے ہیں۔ ایسا تعلق عشق کی داستانوں میں تو ملتا ہے مہذب معاشروں کی سیاست میں ناپید ہے۔ دوسری طرف اختلاف کی دراڑ پڑتے ہی جن پر جان فدا کر دینے کی آرزو تھی، ان کی جان لینے کا جذبہ دل میں دہک اٹھتا ہے۔
قربت کے فاصلے میں بدل جانے کے بعد ہمارے نزدیک اس تعلق کی بس ایک ہی صورت رہ جاتی ہے، نفرت اور دشمنی۔ ہم اب تک نہیں جان پائے کہ باہمی احترام کا رشتہ ہر صورت قائم رہتا ہے، یہاں تک کہ میدان ِ جنگ میں بھی یہ رشتہ خود کو منواتا رہا ہے۔
ملک کی موجودہ صورت حال ہمارے اس رویے کی بھرپور عکاسی کر رہی ہے۔ یوں تو کافی دنوں سے ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے ہم نوا سیاست دانوں اور حکومتی شخصیات کے درمیان لفظوں کی گولہ باری جاری تھی، لیکن ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہونے والے دل خراش سانحے کے بعد تو گویا میدان جنگ سج گیا ہے۔ ٹی وی اسکرینوں سے اخبارات کے صفحات تک ہر جگہ ایک طوفانِ بدتمیزی مچا ہوا ہے۔ اشتعال انگیز زبان، غیر مہذب الفاظ، طعنے تشنیع، دھمکیاں اور الزامات کی گھن گھرج میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔
عوام کی نمایندگی اور قیادت کے دعوے دار رہنماؤں میں اتنی سمجھ بوجھ اور خلوص تو ہونا ہی چاہیے کہ وہ جان سکیں جو نفرت کی زبان وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے، لیکن انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز اور منافرت پر مبنی زبان کیا رنگ لاتی ہے، اس کے باعث ان کی پیروی کرنے والے کارکنان باہم متصادم ہو جائیں یا عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے، ان کی بلا سے کہ انھیں تو ملک سے باہر آشیاں بنانے کے مواقع اور پُرسکون ٹھکانے میسر ہیں۔
یہ اختلاف برائے اختلاف کی روش ہی ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن سے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات تک ہم کسی معاملے پر متفق نہیں۔ سیاسی فائدے، ذاتی مفادات، گروہی اور جماعتی اغراض اور اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کی آرزو جیسے عوامل ہمارے رہنماؤں کو کسی معاملے میں اور کسی مسئلے پر متفق نہیں ہونے دیتے اور ان کے اس چلن کا خمیازہ عوام اور صرف عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ آج بھی جب حکمراں اور ان کے مخالفین ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر آگ برسا رہے ہیں، عوام جھلساتی ہوئی گرمی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب سہہ رہے ہیں، منہگائی خوں آشام کی طرح ان کا خون پی رہی ہے اور بد امنی نے ان کا جینا محال کر رکھا ہے، ان مسائل کے گرداب میں پھنسے پاکستانی مدد کے لیے پکار رہے ہیں، لیکن ان کی آوازیں ایک دوسرے پر گرجتے برستے راہ نماؤں کی تندوتیز آوازوں کے شور میں دب کر رہ گئی ہیں۔
آپ کسی سیاست داں کے منہ سے اس کے مخالف کی کسی خصوصیت کی تعریف نہیں سنیں گے (البتہ مرحومین کو استثنیٰ حاصل ہے کہ ہمارا معاشرہ مر جانے والوں کی فوری بُرائی برداشت نہیں کرتا) سوال یہ ہے کہ کیا سیاست دان اپنے مخالف میں کوئی خوبی نہیں پاتے؟ کیا کوئی حکومت ایک بھی ایسا کام نہیں کرتی کہ حزب مخالف کے لوگ جس کی ستائش کر سکیں؟ ایسا نہیں، بس بات اتنی ہے کہ ہم مخالف یا تعلق کی ایک خاص شکل بدل جانے پر فریقِ ثانی کی تعریف یا اس کی کسی خوبی کے اعتراف کو اپنی کمزوری اور ذلت تصور کرتے ہیں۔
سماجی تعلقات کی نوعیت بدلتی رہتی ہے۔ آج باہمی اتفاق کا رشتہ کل گہرے اختلاف کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ کاروباری تعلق ٹوٹ کر شراکت کاروں کو تجارت کی دنیا میں حریف بنا سکتا ہے۔ نظریہ اور نقطۂ نظر کا بدل جانا تعلق کا چہرہ کچھ کا کچھ کر سکتا ہے۔ گھریلو ناچاقی میاں بیوی کو ایک خاندان کی اکائی سے نکال کر دو الگ الگ گھرانوں کا فرد بنا سکتی ہے۔ تعلق کی نوعیت کا بدل جانا ہمارے ہاں دشمنی اور انتقام کی نفسیات کو جنم دیتا ہے۔ اس کا کم سے کم نتیجہ بھی نفرت اور الزام تراشی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
تعلق میں دراڑ آنے کے باوجود جس سے ناتا ٹوٹا ہے اس کی برائیاں ہی نہ دیکھی جائیں خوبیوں کو بھی یاد رکھا اور ان کا کُھل کے اعتراف کیا جائے۔
اختلاف اور علیحدگی کا منظر گھر کی چار دیواری میں ابھرے یا سیاست کی راہوں پر گام زن شریکِ سفر راستے الگ کر لیں، الزام اور دشنام کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے کہ الامان والحفیظ۔ یہ کج روی ہمارے سماج میں اس قدر عام ہے کہ کوئی مثال دینے کی بھی ضرورت نہیں۔ کسی شادی شدہ جوڑے سے اس میں طلاق ہونے کے بعد فریقین سے الگ الگ ملیے، ایک دوسرے کے لیے نفرت کی زبان کے علاوہ آپ کو کچھ سننے کو نہیں ملے گا۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کے دو حصوں میں بٹنے یا کسی رہنما کے اپنی جماعت سے الگ ہونے کے بعد اس فاصلے کے آرپار کھڑے افراد ایک دوسرے کی طرف شعلہ بار نظروں سے دیکھتے اور زبانوں سے ایک دوسرے پر انگارے برساتے نظر آئیں گے۔
یہ رویہ ہماری ذہنی پس ماندگی کی عکاسی کرتا ہے جو سماج کے ہر گوشے اور ملک کے ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔ رشتوں کے حوالے سے ہمارے رویے عجیب و غریب ہیں۔ جس پہ فدا ہوں اس کی ہر بُرائی سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں، اس کے گناہ بھی ثواب نظر آتے ہیں، اس پر تنقید کا ایک لفظ سننے کے بھی روادار نہیں ہوتے، مذہب، اخلاق، اقدار کوئی چیز ہمیں اپنے ممدوح کی خامی تو کیا کسی سیاہ کاری کی حمایت سے بھی نہیں روکتی نہ اسے غلط کہنے کی اخلاقی جُرأت دیتی ہے۔
خاص طور پر سیاست کی دنیا میں یہی چلن ہے۔ سیاسی جماعتوں کے بعض نعرے ہی سُن لیجیے اور ان پر غور بھی کیجیے، اندازہ ہو جائے گا کہ ہمارے سیاسی کارکن اور سیاست دانوں کے حامی کسی بھی نظریے اور قدر سے بے نیاز ہو کر کس طرح اپنے راہ نما سے غیر مشروط تعلق استوار کیے ہوئے ہیں۔ ایسا تعلق عشق کی داستانوں میں تو ملتا ہے مہذب معاشروں کی سیاست میں ناپید ہے۔ دوسری طرف اختلاف کی دراڑ پڑتے ہی جن پر جان فدا کر دینے کی آرزو تھی، ان کی جان لینے کا جذبہ دل میں دہک اٹھتا ہے۔
قربت کے فاصلے میں بدل جانے کے بعد ہمارے نزدیک اس تعلق کی بس ایک ہی صورت رہ جاتی ہے، نفرت اور دشمنی۔ ہم اب تک نہیں جان پائے کہ باہمی احترام کا رشتہ ہر صورت قائم رہتا ہے، یہاں تک کہ میدان ِ جنگ میں بھی یہ رشتہ خود کو منواتا رہا ہے۔
ملک کی موجودہ صورت حال ہمارے اس رویے کی بھرپور عکاسی کر رہی ہے۔ یوں تو کافی دنوں سے ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے ہم نوا سیاست دانوں اور حکومتی شخصیات کے درمیان لفظوں کی گولہ باری جاری تھی، لیکن ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہونے والے دل خراش سانحے کے بعد تو گویا میدان جنگ سج گیا ہے۔ ٹی وی اسکرینوں سے اخبارات کے صفحات تک ہر جگہ ایک طوفانِ بدتمیزی مچا ہوا ہے۔ اشتعال انگیز زبان، غیر مہذب الفاظ، طعنے تشنیع، دھمکیاں اور الزامات کی گھن گھرج میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔
عوام کی نمایندگی اور قیادت کے دعوے دار رہنماؤں میں اتنی سمجھ بوجھ اور خلوص تو ہونا ہی چاہیے کہ وہ جان سکیں جو نفرت کی زبان وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے، لیکن انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز اور منافرت پر مبنی زبان کیا رنگ لاتی ہے، اس کے باعث ان کی پیروی کرنے والے کارکنان باہم متصادم ہو جائیں یا عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے، ان کی بلا سے کہ انھیں تو ملک سے باہر آشیاں بنانے کے مواقع اور پُرسکون ٹھکانے میسر ہیں۔
یہ اختلاف برائے اختلاف کی روش ہی ہے کہ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن سے سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات تک ہم کسی معاملے پر متفق نہیں۔ سیاسی فائدے، ذاتی مفادات، گروہی اور جماعتی اغراض اور اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کی آرزو جیسے عوامل ہمارے رہنماؤں کو کسی معاملے میں اور کسی مسئلے پر متفق نہیں ہونے دیتے اور ان کے اس چلن کا خمیازہ عوام اور صرف عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ آج بھی جب حکمراں اور ان کے مخالفین ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر آگ برسا رہے ہیں، عوام جھلساتی ہوئی گرمی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب سہہ رہے ہیں، منہگائی خوں آشام کی طرح ان کا خون پی رہی ہے اور بد امنی نے ان کا جینا محال کر رکھا ہے، ان مسائل کے گرداب میں پھنسے پاکستانی مدد کے لیے پکار رہے ہیں، لیکن ان کی آوازیں ایک دوسرے پر گرجتے برستے راہ نماؤں کی تندوتیز آوازوں کے شور میں دب کر رہ گئی ہیں۔