مسئلہ چاند نظر آنے کا
ایوب خان کے دور کا یہ دلچسپ واقعہ ہے جو کسی زبردست لطیفے سے کم نہیں، ہمارا دعویٰ ہے
ایوب خان کے دور کا یہ دلچسپ واقعہ ہے جو کسی زبردست لطیفے سے کم نہیں، ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ کو ہنسی ضرور آئے گی اگر نہ آئے تو بے شک آپ ہمارا بقیہ کالم نہ پڑھیے گا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایوب خان کے دور حکومت تک ملک میں رویت ہلال کمیٹی کا تصور نہ تھا اور چاند دیکھنے سے متعلق اعلانات وزارت مذہبی امور کے حصے میں آتے تھے۔ ان ہی دنوں ایک بات بڑی مشہور ہوگئی کہ اگر ایک ہی دن دو خطبے ہو جائیں یعنی نماز عید کا خطبہ اور نماز جمعہ کا خطبہ، تو یہ دونوں خطبے حکمرانوں پر بھاری پڑتے ہیں اور ان کی حکومت کا دھڑن تختہ بھی ہو سکتا ہے۔
کسی طرح یہ بدشگونی ایوب خان کی حکومت کے لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گئی چنانچہ اس ڈر سے کہ کہیں عید جمعے کی نہ ہو جائے حکومت کی طرف سے ایک دن قبل چاند نظر آنے کا اعلان کر دیا گیا اور سرکاری مولوی کو کہہ دیا گیا کہ وہ پولو گراؤنڈ میں نماز عید پڑھائے۔ پہلے تو مولوی صاحب نے انکار کیا مگر پھر جبر کے تحت حامی بھر لی۔ نماز کے لیے مولوی صاحب سجدے میں گئے تو موقع غنیمت جان کر سجدے سے اٹھ کر باہر نکل گئے، تمام سرکاری افسر اور دیگر نمازی دیر تک سجدے میں پڑے رہے پھر بالآخر تھک کر اٹھے تو معلوم ہوا کہ مولوی صاحب غائب ہیں۔
لیجیے جناب! رمضان اور عید کی آمد کے ساتھ ہی چاند نظر آنے یا نہ آنے کا مسئلہ بھی سامنے آ گیا ہے خدا کرے کہ کالم کی اشاعت تک اس مسئلے پر کوئی اختلاف رائے نہ ہو، مسلمانوں اور پاکستان کی ساکھ کو اگر کوئی مسئلہ ہر سال تواتر کے ساتھ متاثر کر رہا ہے تو وہ یہی مسئلہ ہے۔ اس اہم مسئلے پر حال ہی میں راقم نے ایک سیمینار میں شرکت کی جس میں اسپیس سائنسز، اسپارکو کے ڈائریکٹر غلام مرتضیٰ، جامعۃ الرشید کے مفتی فیصل احمد اور شیخ زائد اسلامک سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر نور احمد شاہتاز نے اظہار خیال کیا۔
ڈاکٹر نور احمد شاہتاز نے اس مسئلے کے بڑا بنانے یا بننے کے مختلف پہلوؤں پر بہت گہرائی سے روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ رویت ہلال کمیٹی سے متعلق عوام میں آگہی نہیں ہے جس کے سبب ایک چھوٹی سی بات بھی بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آ جاتی ہے۔
مثلاً یہ کہ رویت ہلال کمیٹی کا کام صرف چاند دیکھنا نہیں بلکہ شہادتیں وصول کرنا اور ان کو پرکھنا ہے چونکہ بعض اوقات ملک کے دور دراز علاقوں سے دیر میں چاند سے متعلق شہادتیں موصول ہوتی ہیں یا گواہی دینے والے کمیٹی سے دیر سے رابطہ کرتے ہیں چنانچہ پھر ان شہادتوں یا گواہیوں کو پرکھنے کے لیے کمیٹی کی جانب سے دوبارہ متعلقہ افراد سے رابطہ بھی کیا جاتا ہے، یوں ایک اچھا خاصا وقت اس میں درکار ہوتا ہے۔ لہٰذا اس بنا پر کبھی رات دیر سے چاند کے متعلق کمیٹی کوئی اعلان کرے تو لوگ جو اس پس منظر سے واقف نہیں ہوتے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جناب چاند کا اعلان اتنی دیر سے کیوں ہو رہا ہے ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔
مفتی فیصل احمد کا کہنا تھا کہ رویت ہلال میں گواہی ضروری ہے صرف حساب لگا کر فیصلہ دینا درست نہیں۔ انھوں نے ایک اور عمدہ بات کہی کہ چاند نظر آنے پر اختلاف کے مسئلے کے متعلق مخالف فریق کے کلچر، نفسیات اور سیاسی حالات کو بھی سمجھنا ضروری ہے اس سلسلے میں انھوں نے صوبہ پختونخوا کے کلچر کی مثال بھی دی۔ انھوں نے بہت صحیح مشورہ دیا کہ عوام کو بہت زیادہ بحث مباحثے میں نہیں پڑنا چاہیے اس سلسلے میں انھوں نے ایک حدیث کا مفہوم بھی بیان کیا کہ جو شخص خاموش رہا اس نے نجات پائی۔
مفتی صاحب کا یہ مشورہ قطعی درست ہے، آج کل ہو بھی یہ رہا ہے کہ ٹی وی چینلز پر کسی بھی مسئلے کو سننے دیکھنے کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد کسی ماہر کی طرح اس مسئلے کو لے کر بحث شروع کر دیتی ہے جس سے معاملات مزید پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔
چاند کے مسئلے پر اختلافات کم یا ختم کرنے کے لیے راقم کی تجویز ہے کہ رویت ہلال ان گروہوں سے رابطہ کرے جو ہر سال چاند دیکھنے سے متعلق اپنا الگ ہی اعلان کر دیتے ہیں۔ ان گروہوں سے رابطہ کرنے کے بعد گفت و شنید سے انھیں اس بات پر قائل کیا جائے کہ ان کا کوئی ایک نمایندہ رویت ہلال کمیٹی سے رابطے میں رہے اور چاند سے متعلق شہادتیں میڈیا اور عوام کو نہ دے بلکہ رویت ہلال کمیٹی کو دے اور پھر رویت ہلال کمیٹی اس کو پرکھ کر اعلان کرے۔ ان نمایندوں کے علاوہ کسی بھی گروپ کے کسی بھی شخص کو انفرادی یا اجتماعی طور پر چاند سے متعلق اعلان کرنے کی اجازت نہ ہو۔
راقم کے خیال میں اس طرح اعلان کے متعلق ایک نظم و ضبط ضرور پیدا ہو سکتا ہے اور ملک میں ایک سے زائد عیدیں منانے کے امکانات کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک اور نقطہ نظر علمی معلومات اور شعور و آگہی کے لیے پیش کر دوں۔
راقم کے ایک ریسرچ اسکالر دوست کا کہنا ہے کہ چاند کے معاملے پر ہم اصول سے دور ہٹ گئے ہیں۔ اصول یہ ہے کہ رمضان اور عید دینی تہوار ہیں اور اس کے لیے تمام طریقہ کار بھی سنت کے مطابق ہی ہونا چاہیے۔ دین اسلام قیامت تک کے لیے آیا ہے اس لیے چاند کو آنکھ سے دیکھنے کا اصول بھی قیامت تک کے لیے ہے۔ ہم اپنے دنیا کے معاملات کو بھی دین کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر دن کو کیوں سائنٹیفک میتھڈ پر لائیں؟ جب کہ ہم سائنٹیفک میتھڈ پر اپنی پوری زندگی نہیں گزارتے مثلاً سگریٹ نوشی کے مضر اثرات سب کو پتہ ہیں مگر بعض ڈاکٹر بھی سگریٹ پیتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح پلاسٹک کے برتن اور بوتلیں بھی استعمال کی جاتی ہیں یہاں ہم سائنٹیفک اصول کے تحت اس کو ختم کیوں نہیں کرتے؟ ہمارے ان دوست کا یہ بھی موقف ہے کہ پاکستان میں آج ہم ڈی سینٹرلائز کا نعرہ لگا رہے ہیں۔
وفاق سے صوبوں کو اختیارات دینے اور صوبے کے سربراہ سے سٹی ناظم کو اختیار دینے کی باتیں کرتے ہیں لیکن دین کے معاملے میں چاند کے فیصلے کو سینٹرلائز کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، جب نماز اور روزے رکھنے اور افطار کرنے کے اوقات تمام صوبوں میں الگ الگ ہیں تو عید الگ ہو جانے کے مسئلے پر اس قدر واویلا کیوں؟ اسلام میں گواہی کی اہمیت مسلمہ ہے جب قاضی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف فیصلہ دے سکتا ہے تو چاند کے مسئلے پر گواہی کو اس قدر متنازعہ کیوں بنایا جائے؟ کیا اسلامی تاریخ میں مکہ اور مدینہ میں ایک ساتھ عید منانے کی کوششیں کی گئیں؟
مندرجہ بالا موقف اپنی جگہ وزن رکھتا ہے۔ یہاں پھر عرض کر دوں کے کالم لکھنے کا مقصد فیصلہ دینا نہیں بلکہ غور و فکر کے مثبت دریچے کھولنا ہے، آئیے غور کریں! کس طرح ہم ہٹ دھرمی، ضد اور انا کو ختم کرکے خالصتاً میرٹ پر رائے قائم کر سکتے ہیں تاہم دینی معاملے میں عالم دین ہی کا فیصلہ حتمی تصور کرنا چاہیے۔