کاغذی ڈالر کی قیدی معیشت آخری حصہ
ترقیاتی اخراجات مالی سال 2010-11ء میں 5 کھرب 6 ارب 10 کروڑ 30 لاکھ روپے تھے
لاہور:
ترقیاتی اخراجات مالی سال 2010-11ء میں 5 کھرب 6 ارب 10 کروڑ 30 لاکھ روپے تھے جو ریونیو کا 22.46 فیصد تھا۔ مالی سال 2011-12ء میں ترقیاتی بجٹ7 کھرب 31 ارب 86 کروڑ 80 لاکھ روپے تھا جو ریونیو کا 2011-12ء میں 28.51 فیصد تھا۔ مالی سال 2012-13ء کا ترقیاتی بجٹ7 کھرب 77 ارب 9 کروڑ 60 لاکھ روپے مقرر تھا۔ جو ریونیو 2012-13ء کا 26 فیصد تھا۔(4)۔ دفاعی بجٹ مالی سال 2010-11ء میں ریونیو کا 20 فیصد تھا مالی سال 2011-12 کا دفاعی بجٹ ریونیو کا 19.76 فیصد تھا۔ مالی سال 2012-13ء کا دفاعی بجٹ 5 کھرب 40 ارب 80 لاکھ روپے تھا جو ریونیو کا 18 فیصد تھا۔
(5)۔ ملکی عوامی سرمایہ بڑی تیزی سے سامراجی ملکوں کو منتقل ہو رہا ہے۔ مالی سال 2010-11ء کو غیر ملکی قرض ادائیگی کے لیے 2 کھرب 26 ارب 33 کروڑ 10 لاکھ روپے عوام سے لیے گئے۔ عوام نے بیرونی منڈی سے آنے والی اشیاؤں پر 13 کھرب 34 ارب 43 کروڑ 90 لاکھ روپے (15 ارب 60 کروڑ 40 لاکھ ڈالر) تجارتی خسارے کے ادا کیے، ان اشیاؤں میں پٹرولیم، کھانے کا تیل، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ادویات سازی کے کیمیکلز و دیگر اشیا شامل تھیں۔
اس طرح صرف دو مدوں میں عوام کی قوت خرید پر 15 کھرب 60 ارب 77 کروڑ روپے (18 ارب 25 کروڑ 5 لاکھ 64 ہزار ڈالر) سامراجی بلاک کو منتقل ہو گئے۔ جو مالی سال 2010-11ء کے ریونیو 22 کھرب 52 ارب 85 کروڑ 50 لاکھ روپے کا 69 فیصد ہوتا ہے اگر ملک کا صنعتی کلچر حکمرانوں نے سامراج کے کہنے پر تباہ نہ کیا ہوتا تو آج یہ سرمایہ باہر منتقل نہ ہوتا۔ اگر اس رقم کو ریونیو میں جمع کر دیا جائے تو کل ریونیو 38 کھرب 13 ارب 62 کروڑ 50 لاکھ روپے ہوتا۔
مالی سال 2010-11ء کا اخراجاتی بجٹ 34 کھرب 47 ارب 26 کروڑ 30 لاکھ روپے تھا بلکہ عوام کا بجٹ 3 کھرب 66 ارب 36 کروڑ 20 لاکھ روپے سے سرپلس ہوتا۔ حکمرانوں کی نااہلی سے مالی سال 2010-11ء کا بجٹ 11 کھرب 94 ارب 40 کروڑ 90 لاکھ روپے سے خسارے میں گیا۔ مالی سال 2011-12ء میں غیرملکی قرض ادائیگی کے لیے عوام سے2 کھرب 3 ارب 21 کروڑ 50 لاکھ روپے وصول کیے گئے۔ عوامی تجارتی خسارہ (یاد رہے کہ امپورٹرز اور ایکسپورٹرز اپنا اپنا نفع حاصل کرکے خسارہ عوام کی قوت خرید میں منتقل کر دیتے ہیں۔ یہ مہنگائی کے بڑھنے کی شکل میں ہوتا ہے۔) 18 کھرب 98 ارب 48 کروڑ 80 لاکھ روپے تھا۔
دونوں مدوں کا ٹوٹل 21 کھرب ایک ارب 70 کروڑ 30 لاکھ روپے بنتا ہے۔ مالی سال 2011-12ء کا ریونیو 25 کھرب 66 ارب 51 کروڑ 40 لاکھ روپے ہے۔ بیرونی ملکوں کو منتقل ہونے والا سرمایہ، قرض اور تجارتی خسارے کا ٹوٹل ریونیو کا 82 فیصد ہوتا ہے۔ اگر یہ ٹوٹل ریونیو میں جمع کر دیے جائیں تو یہ ٹوٹل 46 کھرب 68 ارب 21 کروڑ 70 لاکھ روپے ہوتے ہیں اس طرح مالی سال 2011-12ء کا اخراجاتی بجٹ ٹوٹل 39 کھرب 36 ارب 21 کروڑ 80 لاکھ روپے تھا۔ اگر پاکستان معاشی غلام ملک نہ ہوتا اور بیرونی ادائیگیاں نہ ہوتیں تو بجٹ خسارے میں نہ جاتا بلکہ بجٹ 7 کھرب 31 ارب 99 کروڑ 90 لاکھ روپے سے سرپلس ہوتا۔
اس طرح مالی سال 2012-13ء غیرملکی قرض ادائیگی پر 2 کھرب 88 ارب 48 کروڑ 60 لاکھ روپے لیے گئے اور تجارتی خسارہ 19 کھرب 83 ارب 40 کروڑ 20 لاکھ روپے تھا۔ دونوں کا ٹوٹل 22 کھرب 71 ارب 88 کروڑ 80 لاکھ روپے بنتا ہے جو مالی سال 2012-13ء کے ریونیو کا 76 فیصد ہوتا ہے۔ اگر تجارتی خسارہ اور قرض ادائیگی کا بوجھ نہ ہوتا تو ریونیو میں ٹوٹل جمع کر کے کل ریونیو 52 کھرب 54 ارب 32 کروڑ 40 لاکھ روپے ہوتا اور بجٹ 4 کھرب 38 ارب 2 کروڑ 40 لاکھ روپے سے سرپلس ہو جاتا۔ یاد رہے21 جون 2014ء کو فنانس منسٹر اسحاق ڈار کا بیان قومی اسمبلی میں بجٹ کی منظوری کے دوران سامنے آیا کہ روپے کی قیمت بڑھنے سے پاکستان کا سات کھرب روپے کا قرضہ کم ہو گیا۔
جولائی 1955ء کے بعد سے ہر حکومت نے روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں کم کی ہے۔ موجودہ حکومت پر دباؤ بڑھا تو ڈالر کی قیمت کو 99.0 روپے تک لے آئی۔ پاکستان میں ڈالر کی صنعت میں 2014ء میں 2490 رجسٹرڈ کمپنیاں ہیں۔ اور پھر ایکسپورٹرز کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقفے وقفے سے روپے کی قیمت گرتی جائے تا کہ وہ ڈالر ٹریڈنگ سے نفع روپیہ حاصل کرتے ہیں۔ ایک طرف چند کمپنیاں، چند تاجر دوسری طرف کروڑوں عوام کو غربت میں دفن کرنا کیا یہ پاکستانیت ہے؟ آج ملکی معیشت کو سامراجی ایجنڈے پر چل چل کر تباہ کر دیا گیا ہے، ٹرائیکا کا دو سو ارب ڈالر تو سوئس بینکوں میں ہیں۔ اعلیٰ بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کی اکثریت نے عوام کا لوٹا ہوا سرمایہ بیرونی ملکوں میں کھاتوں اور اثاثے بنائے ہیں۔
ان غداروں کو علم نہیں ہے کہ عالمی سطح پر بڑے ملکوں کے درمیان ''کرنسی وار'' چل رہی ہے کیونکہ امریکا نے کئی سو کھربوں کاغذی ڈالر پوری دنیا میں پھیلائے ہوئے ہیں۔ ان ڈالروں کی کوئی ضمانت نہیں کسی وقت بھی امریکا کا عالمی سطح پر ڈیفالٹر ہونے کا اعلان ہو جائے۔ BRICS کی تنظیم نے پہلے ہی عندیہ دیا ہوا ہے کہ عالمی سطح پر عالمی عوامی آئی ایم ایف قائم کیا جائے گا۔ آج سیاستدان انقلاب انقلاب کر رہے ہیں۔ کیا یہ عوام کو لکھ کر دیں گے کہ پاکستان میں مہنگائی کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔ لوڈشیڈنگ ختم کر دی جائے گی بے روزگاری ختم کر دی جائے گی، روپے کو عالمی سطح پر عزت دلوائی جائے گی۔
اس وقت چین، انڈیا اور دیگر 126 ممالک کی کرنسیاں ڈالر کے سامنے اچھوت ہیں کیونکہ امریکا عالمی سطح پر اب بھی کرنسیوں کا جوڑ توڑ کرنے والا یعنی Manipulator ملک ہے اور ملکوں کے غدار حکمرانوں نے ڈالروں کے ذخیرے کیے ہیں۔ اس لیے امریکا ان غداروں کی وجہ سے بچا ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب مالیاتی غیر ملکی مداخلت بڑھتی ہے تو اسی نسبت سے متاثرہ ملک کمزور ہوتا جاتا ہے۔ مالی سال 2010-11ء عوام سے وصول کیے ریونیو کے متوازی رقم69 فیصد بیرونی ملکوں کو منتقل ہوئی۔
مالی سال 2011-12ء میں ریونیو کے متوازی رقم 82 فیصد رقم باہر منتقل ہوئی اور 2012-13ء میں ریونیو کے متوازی رقم 76 فیصد باہر منتقل ہوئی۔ حکمران زرمبادلہ Workers Remittance کو ترقی کا حصہ کہتے ہیں۔ لیکن اصل حقیقت یہ مالی سال 2010-11ء کو بیرونی ملکوں سے 11 ارب 20 کروڑ 9 لاکھ 70 ہزار ڈالر آئے۔ 2011-12ء کو 13 ارب 18 کروڑ 66 لاکھ 20 لاکھ ڈالر آئے۔ 2012-13ء کو 13 ارب 92 کروڑ 18 لاکھ60 ہزار ڈالر آئے۔ حکمرانوں نے یہ ڈالر مارکیٹ میں ڈالر ریٹ پر خرید لیے۔ اس طرح یہ زرمبادلہ کی رقوم ان کے مالکوں تک پہنچ گئیں۔ ان لوگوں نے ان رقوم کو پاکستان میں خرچ کر دیا اور حکمرانوں نے جو روپے ان ڈالروں کے عوض ادا کیے اسی نسبت سے ملکی پیداوار نہیں بڑھائی گئی۔ اس کا بھی منفی اثر معاشی زندگی پر پڑا۔
اور حکمرانوں نے یہ ڈالر اور مزید ڈالر قرض لے کر اپنے اوپر خرچ کیے۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے۔ جوں جوں غیرملکی مالیاتی مداخلت بڑھتی جائے گی توں توں حکومتی ریونیو کم ہوتا جائے گا توں توں ملک میں انتشار بڑھتا جائے گا۔ حکومتی رٹ اس کے ساتھ ختم ہوتی جائے گی مندرجہ بالا اعداد و شمار میں وہ مالیاتی اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔ جو ملٹی نیشنل کمپنیاں معاشی غلام پاکستان سے لوٹ کر اپنے اپنے ملکوں کو منتقل کر رہی ہیں۔ موجودہ حکمران بڑی تیزی سے ملکی اداروں کی نجکاری کر رہے ہیں اور اسی تیزی سے ملکی معیشت تباہ ہوتی جا رہی ہے۔
اگر حکومتی ادارے صرف GST جنرل سیل ٹیکس پر ہی چلانے ہیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ملک کو مکمل سامراجی ٹھیکیداری میں دینے کا تہیہ کر چکی ہے ملک کے باشعور شہریوں، دانشوروں پر اس وقت بھاری ذمے داری آن پڑی ہے کہ وہ ملک کو تباہی اور ذلت آمیزی سے بچانے کے لیے اپنی اپنی جگہ متحرک ہو جائیں، جو سیاستدان پاکستان کی معاشی آزادی کی جنگ کی بات نہیں کرتا وہ سیاستدان مکمل سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کر رہا ہے۔ جس طرح موجودہ اور سابقہ تمام حکمرانوں نے 16 اکتوبر1951ء کے بعد سامراجی ایجنڈے پر عمل کرنا شروع کیا تھا۔ وطن کی معاشی آزادی کے بغیر عوام کی خوشحالی ناممکن ہے۔ ہمیں جھوٹے خوابوں سے نکلنا ہو گا۔