آئی پی پیز ملک کی معیشت اور سلامتی
ملک میں بجلی منتقلی Transmissionکی صلاحیت کوئی 22000 میگاواٹ ہے
انڈیپنڈنٹ پاور پروجیکٹس)آئی پی پیز(کو ان کی پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگیاں، اس بات سے قطع نظر کہ وہ اصل میں کتنی بجلی پیدا کر رہی ہیں،کی جا رہی ہیں۔ یہ ادائیگیاں پاکستانی روپے میں نہیں بلکہ امریکی کرنسی ڈالر میں کی جاتی ہیں۔ ایک طرف تو پاکستان کے فارن ریزرو شاید دو مہینے کی درآمدات کے لیے بھی کافی نہیں اور ڈالروں کی کمی کی وجہ سے ایل سیز بہت دیکھ بھال کے بعد کھولنے کی اجازت دی جاتی ہے اور دوسری طرف ہم اتنے سخی ہو رہے ہیں کہ ان انرجی پروجیکٹس کو ڈالروں میں ادائیگیاں کر رہے ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ ہماری معیشت کی ڈولتی ناؤ ان عیاشیوں کی بالکل متحمل نہیں ہو سکتی۔
یہ آئی پی پیز 2014ء سے ملک کا خون نچوڑ رہی ہیں۔ ملک کے کئی علاقے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا شکار رہتے رہتے آہ و بکا کر رہے ہیں اور ادھر ان میں سے کئی بجلی بنانے والے کارخانے بالکل بند پڑے ہونے کے باوجود سو فیصد ادائیگیاں وصول کر رہے ہیں۔ہمارے اس خطے میں جس میں پاکستان واقع ہے پچھلے پانچ ہزار سال کی تاریخ میں کبھی کوئی انقلاب نہیں آیا اس لیے بظاہر عوام کے اُٹھنے اور انقلاب لانے کی کوئی توقع نہیں لیکن ان ادائیگیوں کی وجہ سے عوام کو گلے سے دبا لیا گیا ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ گلے کے اوپر گرفت سخت ہوتی جا رہی ہے۔
اس لیے ہو سکتا ہے کہ دمِ آخر پر مظلوم کسی دن اُٹھ کھڑے ہوں اور اپنی تقدیر بدل دیں۔بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ہمارے حکمران عوام کی مشکلات کو بالکل خاطر میں نہیں لاتے۔ شاید انھیں یقین ہے کہ ان لوگوں کو چاہے کتنا ہی روندا جائے ان کے اندر اٹھنے کی سکت تو کیا،خواہش بھی نہیں ہے،اس لیے حکمران اپنی من مانی کر تے ہوئے آئی پی پیز کو دھڑا دھڑ ادائیگیاں کرنے کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت بڑھا رہے ہیں۔پچھلے ایک مہینے میں چار دفعہ بجلی کا ٹیرف بڑھایا گیا اور اب خبر آ رہی ہے کہ اگلے چند دنوں میں ایک مرتبہ پھر 2روپے 10پیسے فی یونٹ بڑھائے جارہے ہیں۔ ظلم کی پاکستان میں کوئی حد نہیں۔
نیپرا کا ادارہ اپنے فرائض ادا کرنے میں بالکل ناکام رہا ہے۔شاید یہ ادارہ پاکستانی عوام کو ذبح کرنے کے لیے ہے۔اس ادارے کے مقاصد میں تو بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے حقوق کا تحفظ تھا۔ اس ادارے نے اس بات کا خیال رکھنا تھا کہ صارفین کے اوپر کوئی غیر ضروری بوجھ نہ ڈالے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ خبر آتی ہے کہ نیپرا سے فی یونٹ اتنی قیمت بڑھانے کی درخواست کی گئی ہے اور نیپرا فلاں تاریخ کو یہ کیس سنے گا۔ پھر یہ تو پتہ نہیں چلتا کہ کیا Hearing ہوئی بس یہ خبر آ جاتی ہے کہ نیپرا نے بڑھوتی کی درخواست قبول کرتے ہوئے فی یونٹ قیمت بڑھانے کی اجازت دے دی۔ایک دفعہ بھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ نیپرا نے درخواست رد کر دی ہو۔ نیپرا میں بیٹھے ممبران بظاہر پاکستانی ہیں لیکن اصل میں پاکستانی عوام کے حق میں فیصلے نہیں کر رہے ہیں۔
ریاستِ پاکستان کے وجود کو اس وقت ویسے توکئی Threats ہیں لیکن پاکستان کی بدحال معیشت، ٹی ٹی پی اور نا اہل و دولت کی ہوس میں ڈوبی ہوئی اشرافیہ بڑے خطرات ہیں۔آئی پی پیز کی پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگیاں شاید پاکستان کو لے ڈوبیں گی۔ عوام کو اتنا نچوڑا جا چکا ہے کہ ان کے اندر مزید صلاحیت باقی نہیں رہی۔مہنگی بجلی کی وجہ سے کارخانے و صنعتیں بند ہونی شروع ہو گئی ہیں۔پاکستان کے پاس ضرورت کی بجلی موجود ہے لیکن عوام اور صنعتوں کو یہ بجلی تواتر سے مہیا نہیںکی جا رہی ہے۔لوڈ شیڈنگ عام ہے اور اوپر سے بجلی کی فی یونٹ قیمت اتنی زیادہ ہے کہ خدا کی پناہ۔اتنی زیادہ قیمت پر منافع بخش کاروباری ایکٹویٹی ممکن نہیں۔مضبوط معیشت کے بغیرطاقتور ترین ملک بھی کمزور ہوتا ہے۔
1994میں بے نظیر بھٹو نے کراچی سے ایک بیوروکریٹ کے کہنے پر پہلے واپڈا کو کئی پاور کمپنیوں میں تقسیم کرنے اور پھر بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پرائیویٹ سرمایہ کاروں کے 15آئی پی پیز کو متعارف کروایا۔ان کے ساتھ معاہدہ ہوا کہ یہ لوگ بجلی کی پیداوار کے لیے پاور پلانٹس خود یا بیرونی سرمایہ کاروں کولا کر لگائیں گے اور حکومت پابند ہو گی کہ پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی کی قیمت ادا کرے گی چاہے حکومت پوری بجلی خریدے یا نہ خریدے اور یہ کہ یہ ادائیگی ڈالروں میں کی جائے گی۔
1994میں ان شرائط پر 15آئی پی پی ز کی تنصیب ہوئی۔ 2002 میں جنرل مشرف نے مزید 15آئی پی پی ز کو متعارف کروایا۔ شرائط ساری پرائیویٹ سرمایہ کاروں کے حق میں تھیں اس لیے یہ سرمایہ کار قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہوئے،2004میںجنرل مشرف اور شوکت عزیز نے 38 اور آئی پی پی ز کو ڈالر چھاپنے کے لائیسنس بانٹے۔جناب نواز شریف نے اس وقت بے نظیر حکومت پر سخت تنقید کی کہ یہ معاہدے ملکی مفاد میں ہر گز نہیں لیکن 2015میں جناب نواز شریف کی حکومت نے در آمدی کوئلے اور LNG گیس سے چلنے والے سات آئی پی پی ز کگائے۔ 2015 میںلگنے والے یہ پلانٹس سب سے زیادہ عوام کا خون چوس رہے ہیں۔
چینی کمپنیاں بھی خوب ہاتھ صاف کر رہی ہیں۔جناب عمران خان کے دور میں شرائط پر نظر ثانی کی کوشش ہوئی لیکن بے سود۔اب ان آئی پی پی ز کی تعداد101ہو چکی ہے۔گروتھ اور ترقی کے لیے تسلسل سے بجلی کی سستی سپلائی بہت ضروری ہے۔پاکستان میں اس وقت بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 41557 میگاواٹ ہے۔اس میںوہ پرائیویٹ پیداوار بھی شامل ہے جن کے ساتھ انتہائی مہنگے اور صارفین کے لیے تکلیف دہ سودے کیے گئے ہیں۔ملک میں بجلی کی کل ضرورت 31000میگاواٹ ہے۔یہ وہ انتہائی ضرورت ہے جس کے بعد لوڈشیڈنگ بالکل ختم ہو جاتی ہے،گھریلو صارفین اور صنعتوں کو بجلی تسلسل سے مل سکتی ہے۔
ملک میں بجلی منتقلی Transmissionکی صلاحیت کوئی 22000 میگاواٹ ہے۔اس سے زیادہ ہمارا بجلی کا نظام بجلی منتقل کر ہی نہیں سکتا۔چونکہ بہت سے پرائیویٹ پلانٹس اپنی پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی پیدا نہیں کر رہے جب کہ ان کو ادائیگی سو فی صد ہو رہی ہے،اس لیے ملک میں لوڈ شیڈنگ بھی ہو رہی ہے،یعنی پاکستان کے عوام تو سو فیصد ادائیگی کر رہے ہیں لیکن بجلی پیدا کرنے والے مجرمانہ لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہیں۔بجلی مہنگی ہونے کی ایک وجہ پاکستانی بینک بھی ہیںیہ بینکس باہمی ملی بھگت سے روپے کی قدر گرا کر ڈالر مہنگا کرتے ہیں ،اپنے اور آئی پی پیز کے سرمائے میں کئی گنا اضافہ کرتے ہیں۔
ہمارے ادارے،ہماری حکومتیں،سیاسی پارٹیوں کے رہنماء بھی اس لوٹ کھسوٹ میں برابر کے شریک ہیں۔ ان آٔئی پی پیز کی ملکیت تمام بڑے سرمایہ کاروں، حکومتِ پاکستان اور صوبائی حکومتوں کے پاس بھی ہے۔22سرکاری بجلی کمپنیاں48فیصد کی حصہ دار ہیں۔کئی آئی پی پیز بند پڑی Capacity Charges لے رہی ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنماء ان ادائیگیوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔جب کبھی شور اُٹھتا ہے،احتجاج ہوتا ہے تو یہ سیاسی رہنماء اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔چپ سادھ لیتے ہیں یا عمومی قسم کا ایک بیان داغ کر طوفان گزرنے دیتے ہیں۔ان کو پاکستان کے عوام کے بانجھ ہونے کا پورا یقین ہے۔
ان کو پتہ ہے کہ ان کی حکومت چلی بھی گئی تو بے وقوف عوام دوبارہ دھوکے میں آ جائیں گے۔مجھے لگتا ہے کہ اتنے شور شرابے کے باوجود آئی پی پیز کی لوٹ کھسوٹ جاری رہے گی۔کچھ حاصل نہیں ہوگا۔مجھے ڈر صرف ملک کی سلامتی کا ہے۔ جب تک پاکستان کے عوام دھوکے بازوں،حریص اور مجرم نام نہاد رہنماؤں کے جھانسے سے باہر نہیں آجاتے،جب تک وہ اپنے حقوق پر کڑا پہرہ نہیں دیتے،جب تک اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں جانتے،جب تک اپنے نمائندے صلاحیت، کارکردگی اور کردار کی بنیاد پر منتخب نہیں کرتے،اسی طرح لٹتے رہیںگے،اسی طرح سسکتے، دکھ اور تکلیف سہتے رہیں گے۔خدا ہمارے ملک کو باشعور عوام دے۔
یہ آئی پی پیز 2014ء سے ملک کا خون نچوڑ رہی ہیں۔ ملک کے کئی علاقے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا شکار رہتے رہتے آہ و بکا کر رہے ہیں اور ادھر ان میں سے کئی بجلی بنانے والے کارخانے بالکل بند پڑے ہونے کے باوجود سو فیصد ادائیگیاں وصول کر رہے ہیں۔ہمارے اس خطے میں جس میں پاکستان واقع ہے پچھلے پانچ ہزار سال کی تاریخ میں کبھی کوئی انقلاب نہیں آیا اس لیے بظاہر عوام کے اُٹھنے اور انقلاب لانے کی کوئی توقع نہیں لیکن ان ادائیگیوں کی وجہ سے عوام کو گلے سے دبا لیا گیا ہے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ گلے کے اوپر گرفت سخت ہوتی جا رہی ہے۔
اس لیے ہو سکتا ہے کہ دمِ آخر پر مظلوم کسی دن اُٹھ کھڑے ہوں اور اپنی تقدیر بدل دیں۔بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ہمارے حکمران عوام کی مشکلات کو بالکل خاطر میں نہیں لاتے۔ شاید انھیں یقین ہے کہ ان لوگوں کو چاہے کتنا ہی روندا جائے ان کے اندر اٹھنے کی سکت تو کیا،خواہش بھی نہیں ہے،اس لیے حکمران اپنی من مانی کر تے ہوئے آئی پی پیز کو دھڑا دھڑ ادائیگیاں کرنے کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت بڑھا رہے ہیں۔پچھلے ایک مہینے میں چار دفعہ بجلی کا ٹیرف بڑھایا گیا اور اب خبر آ رہی ہے کہ اگلے چند دنوں میں ایک مرتبہ پھر 2روپے 10پیسے فی یونٹ بڑھائے جارہے ہیں۔ ظلم کی پاکستان میں کوئی حد نہیں۔
نیپرا کا ادارہ اپنے فرائض ادا کرنے میں بالکل ناکام رہا ہے۔شاید یہ ادارہ پاکستانی عوام کو ذبح کرنے کے لیے ہے۔اس ادارے کے مقاصد میں تو بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے حقوق کا تحفظ تھا۔ اس ادارے نے اس بات کا خیال رکھنا تھا کہ صارفین کے اوپر کوئی غیر ضروری بوجھ نہ ڈالے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ خبر آتی ہے کہ نیپرا سے فی یونٹ اتنی قیمت بڑھانے کی درخواست کی گئی ہے اور نیپرا فلاں تاریخ کو یہ کیس سنے گا۔ پھر یہ تو پتہ نہیں چلتا کہ کیا Hearing ہوئی بس یہ خبر آ جاتی ہے کہ نیپرا نے بڑھوتی کی درخواست قبول کرتے ہوئے فی یونٹ قیمت بڑھانے کی اجازت دے دی۔ایک دفعہ بھی یہ سننے میں نہیں آیا کہ نیپرا نے درخواست رد کر دی ہو۔ نیپرا میں بیٹھے ممبران بظاہر پاکستانی ہیں لیکن اصل میں پاکستانی عوام کے حق میں فیصلے نہیں کر رہے ہیں۔
ریاستِ پاکستان کے وجود کو اس وقت ویسے توکئی Threats ہیں لیکن پاکستان کی بدحال معیشت، ٹی ٹی پی اور نا اہل و دولت کی ہوس میں ڈوبی ہوئی اشرافیہ بڑے خطرات ہیں۔آئی پی پیز کی پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگیاں شاید پاکستان کو لے ڈوبیں گی۔ عوام کو اتنا نچوڑا جا چکا ہے کہ ان کے اندر مزید صلاحیت باقی نہیں رہی۔مہنگی بجلی کی وجہ سے کارخانے و صنعتیں بند ہونی شروع ہو گئی ہیں۔پاکستان کے پاس ضرورت کی بجلی موجود ہے لیکن عوام اور صنعتوں کو یہ بجلی تواتر سے مہیا نہیںکی جا رہی ہے۔لوڈ شیڈنگ عام ہے اور اوپر سے بجلی کی فی یونٹ قیمت اتنی زیادہ ہے کہ خدا کی پناہ۔اتنی زیادہ قیمت پر منافع بخش کاروباری ایکٹویٹی ممکن نہیں۔مضبوط معیشت کے بغیرطاقتور ترین ملک بھی کمزور ہوتا ہے۔
1994میں بے نظیر بھٹو نے کراچی سے ایک بیوروکریٹ کے کہنے پر پہلے واپڈا کو کئی پاور کمپنیوں میں تقسیم کرنے اور پھر بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے پرائیویٹ سرمایہ کاروں کے 15آئی پی پیز کو متعارف کروایا۔ان کے ساتھ معاہدہ ہوا کہ یہ لوگ بجلی کی پیداوار کے لیے پاور پلانٹس خود یا بیرونی سرمایہ کاروں کولا کر لگائیں گے اور حکومت پابند ہو گی کہ پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی کی قیمت ادا کرے گی چاہے حکومت پوری بجلی خریدے یا نہ خریدے اور یہ کہ یہ ادائیگی ڈالروں میں کی جائے گی۔
1994میں ان شرائط پر 15آئی پی پی ز کی تنصیب ہوئی۔ 2002 میں جنرل مشرف نے مزید 15آئی پی پی ز کو متعارف کروایا۔ شرائط ساری پرائیویٹ سرمایہ کاروں کے حق میں تھیں اس لیے یہ سرمایہ کار قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہوئے،2004میںجنرل مشرف اور شوکت عزیز نے 38 اور آئی پی پی ز کو ڈالر چھاپنے کے لائیسنس بانٹے۔جناب نواز شریف نے اس وقت بے نظیر حکومت پر سخت تنقید کی کہ یہ معاہدے ملکی مفاد میں ہر گز نہیں لیکن 2015میں جناب نواز شریف کی حکومت نے در آمدی کوئلے اور LNG گیس سے چلنے والے سات آئی پی پی ز کگائے۔ 2015 میںلگنے والے یہ پلانٹس سب سے زیادہ عوام کا خون چوس رہے ہیں۔
چینی کمپنیاں بھی خوب ہاتھ صاف کر رہی ہیں۔جناب عمران خان کے دور میں شرائط پر نظر ثانی کی کوشش ہوئی لیکن بے سود۔اب ان آئی پی پی ز کی تعداد101ہو چکی ہے۔گروتھ اور ترقی کے لیے تسلسل سے بجلی کی سستی سپلائی بہت ضروری ہے۔پاکستان میں اس وقت بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت 41557 میگاواٹ ہے۔اس میںوہ پرائیویٹ پیداوار بھی شامل ہے جن کے ساتھ انتہائی مہنگے اور صارفین کے لیے تکلیف دہ سودے کیے گئے ہیں۔ملک میں بجلی کی کل ضرورت 31000میگاواٹ ہے۔یہ وہ انتہائی ضرورت ہے جس کے بعد لوڈشیڈنگ بالکل ختم ہو جاتی ہے،گھریلو صارفین اور صنعتوں کو بجلی تسلسل سے مل سکتی ہے۔
ملک میں بجلی منتقلی Transmissionکی صلاحیت کوئی 22000 میگاواٹ ہے۔اس سے زیادہ ہمارا بجلی کا نظام بجلی منتقل کر ہی نہیں سکتا۔چونکہ بہت سے پرائیویٹ پلانٹس اپنی پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی پیدا نہیں کر رہے جب کہ ان کو ادائیگی سو فی صد ہو رہی ہے،اس لیے ملک میں لوڈ شیڈنگ بھی ہو رہی ہے،یعنی پاکستان کے عوام تو سو فیصد ادائیگی کر رہے ہیں لیکن بجلی پیدا کرنے والے مجرمانہ لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہیں۔بجلی مہنگی ہونے کی ایک وجہ پاکستانی بینک بھی ہیںیہ بینکس باہمی ملی بھگت سے روپے کی قدر گرا کر ڈالر مہنگا کرتے ہیں ،اپنے اور آئی پی پیز کے سرمائے میں کئی گنا اضافہ کرتے ہیں۔
ہمارے ادارے،ہماری حکومتیں،سیاسی پارٹیوں کے رہنماء بھی اس لوٹ کھسوٹ میں برابر کے شریک ہیں۔ ان آٔئی پی پیز کی ملکیت تمام بڑے سرمایہ کاروں، حکومتِ پاکستان اور صوبائی حکومتوں کے پاس بھی ہے۔22سرکاری بجلی کمپنیاں48فیصد کی حصہ دار ہیں۔کئی آئی پی پیز بند پڑی Capacity Charges لے رہی ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنماء ان ادائیگیوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔جب کبھی شور اُٹھتا ہے،احتجاج ہوتا ہے تو یہ سیاسی رہنماء اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔چپ سادھ لیتے ہیں یا عمومی قسم کا ایک بیان داغ کر طوفان گزرنے دیتے ہیں۔ان کو پاکستان کے عوام کے بانجھ ہونے کا پورا یقین ہے۔
ان کو پتہ ہے کہ ان کی حکومت چلی بھی گئی تو بے وقوف عوام دوبارہ دھوکے میں آ جائیں گے۔مجھے لگتا ہے کہ اتنے شور شرابے کے باوجود آئی پی پیز کی لوٹ کھسوٹ جاری رہے گی۔کچھ حاصل نہیں ہوگا۔مجھے ڈر صرف ملک کی سلامتی کا ہے۔ جب تک پاکستان کے عوام دھوکے بازوں،حریص اور مجرم نام نہاد رہنماؤں کے جھانسے سے باہر نہیں آجاتے،جب تک وہ اپنے حقوق پر کڑا پہرہ نہیں دیتے،جب تک اپنے ووٹ کا صحیح استعمال نہیں جانتے،جب تک اپنے نمائندے صلاحیت، کارکردگی اور کردار کی بنیاد پر منتخب نہیں کرتے،اسی طرح لٹتے رہیںگے،اسی طرح سسکتے، دکھ اور تکلیف سہتے رہیں گے۔خدا ہمارے ملک کو باشعور عوام دے۔