شدت اختیار کرتا سیاسی بحران

عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹائون پر تمام سیاسی جماعتوں کو


قادر خان July 02, 2014
[email protected]

لاہور: عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹائون پر تمام سیاسی جماعتوں کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی تھی تاہم پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے شرکت سے معذرت کر لی جب کہ قادری صاحب کے گھر میں مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری برادران نے، ڈاکٹر طاہر القادری کی بلائی گئی اے پی سی میں یقینی شرکت پر کمر کس لی جب کہ توقع کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ شرکت پر آمادہ ہوئی تو با لاآخر تحریک انصاف نے بھی انقلاب ٹرین میں سیٹ ریزرو کرانے کے لیے رضامندی ظاہر کر دی۔

بظاہر اے پی سی کا واحد ایجنڈا ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے باہر تجاوزات ہٹانے کی غرض سے پولیس اور تحریک منہاج القرآن کے درمیان جھڑپوں میں 12 افراد کی ہلاکت اور80 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کا تھا لیکن پس پردہ جمہوریت کی ٹرین کو پٹری سے اتار کر رائے ونڈ سے ماڈل ٹائون لانے کا منصوبہ ہے۔

اس موقعے پر قابل تحسین پی پی پی (پاکستان پیپلز پارٹی) اور اے این پی (عوامی نیشنل پارٹی) کا جمہوری فیصلہ ہے کہ انھوں نے طاہری اے پی سی میں شرکت سے انکار کر کے صائب فیصلہ کیا اور طاہری ایجنڈے سے گریز کی راہ اختیار کی۔ طاہر القادری کی جنونی کیفیت کی بنا ء پر عوام میں سخت بے یقینی پائی جاتی ہے کیونکہ پاکستان میں ایک طرف شدت پسندی بڑھتی جا رہی ہے جس کے خلاف پاک فوج حالت جنگ میں ہے تو دوسری جانب روز بہ روز سیاسی بحران بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

لاکھوں آئی پی ڈیز کی بحالی سنگین انسانی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اس سے تمام سیاسی حلقوں اور عوام میں بے چینی پیدا ہو چکی ہے کہ جمہوریت کی گاڑی میں سوار ہونے والوں کو کسی نہ کسی صورت روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور پرواز میں سوار ہونے والے ایسے مسافر بورڈنگ ٹکٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں، جو قومی دولت لوٹنے اور اربوں روپے قرضے معاف کرانے سمیت متنازعہ ملکی معاملات میں ملکی ساکھ کو متاثر کر چکے ہیں۔ اب جیسے جیسے طاہری جوش خروش کے بیانات آ رہے ہیں مسترد لیڈران کی توجہ خصوصی طور پر ایسی پروازوں پر مرکوز ہو چکی ہیں جو انھیں ہر صورت اسمبلیوں اور پھر ایوان اقتدار تک پہنچا سکے۔

عوام اپنی حالت تبدیل کرنے کے لیے کچھ کر سکیں گے یا نہیں اس بارے میں تو کوئی بات وثوق سے نہیں کی جا سکتی کیونکہ جس طرح سیاسی جماعتوں میں کھمبوں پر چڑھنے اور مسلسل جمہوریت کے خلاف احتجاج کے واقعات منظر عام پر آ رہے ہیں، جو ایسی سیاسی جماعتوں کے منشور پر سوالیہ نشان ہیں۔ بظاہر عدم برداشت والی ان نام نہاد سیاسی جماعتوں کو اپنے مطالبات منوانے کا اس سے سنہرا موقع نہ جانے پانچ سال بعد ملے گا یا نہیں ملے گا۔

لیکن چند ہفتوں میں ایسی دودھ کی دُھلی سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے ضرور موجود ہیں ، جو جاگیرداری ، وڈیرانہ نظام، سرمایہ داری اور خوانین کے زعم میں اپنے ''غلاموں'' سے خود کو منتخب کرانے کی کوشش میں کامیاب ہوتے رہے ہیں، اگر عوام کو صحیح معنوں میں ایسے لوگوں کو سیاسی کلچر کے منظر نامے اور اپنی تقدیر کے فیصلے سے دور رکھنا مقصود ہے تو پھر انھیں ہر صورت مسترد کرنا ہو گا۔ یقینی طور پر سب فرشتے نہیں ہونگے، لیکن سب شیطان بھی نہیں ہونگے۔

اسلاف پرستی اور شخصیت کے سحر کو توڑ کر ایسی شخصیت پر اعتماد کرنا ہوگا، جس کا ووٹ آپ کے حلقے میں ہو، گزشتہ دور حکومت میں آپ کے مصائب و تکالیف کو دیکھنے اور پوچھنے کے لیے، آپ کے پاس اسی طرح آیا ہو جس طرح بھکاریوں کی طرح ہمیشہ ووٹ مانگنے کے بعد غائب ہو جاتے ہیں۔ عوام کو ان لوگوں پر اعتماد کرنا ہو گا جن سے ملنے جب آپ ان کی دفتر ، حجرے، ڈیرے پہنچتے تھے تو انھوں نے آپ کو دھتکارا نہ ہو، گھنٹوں انتظار نہ کرایا ہو۔

یقینی طور پر ہم سب کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حکومتی معاملات ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دینے کا حق ہم خود مہیا کرتے ہیں، ایسے احسان فراموشوں کی پشت پناہی کر کے ہم اپنے پیروں پر کلہاڑی خود مارتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کی سرگر میوں کو مناسب قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ملکی معاملات میں قوت فیصلہ کی حامل شخصیات کا انتخاب ہمارے ہاتھ میں ہے۔ روز بہ روز بڑھتی دہشت گردی، معاشی اور سیاسی بحرانی کیفیت کے ذمے دار ہم خود ہیں۔ کیونکہ ہم اپنی ذمے داری انفرادی حیثیت میں بھی پورا نہیں کرتے۔

اس حقیقت کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ملکی حالات کو اس نہج تک پہنچانے کی کچھ نہ کچھ ذمے داری سیاسی قوتوں، سیاسی افراد، غیر جمہوری اداروں اور عوام پر مشترکہ عائد ہوتی ہے۔ سیاسی وابستگیوں اور من پسند جماعتوں کی مخالفت میں اس قدر حد سے گزرا جاتا ہے کہ نہ صرف اپنا مستقبل دائو پر لگا دیتے ہیں بلکہ ملک کو بھی آمریت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھٹکا دیا جاتا ہے۔

بڑی سیاسی جماعتیں ملک میں جاری عوامی مسائل پر سالوں سال خاموش رہتی ہیں لیکن جب الیکشن قریب آ جاتے ہیں تو اقتدار کے لیے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ان کے مفادات یکجا ہو جاتے ہیں، ایک دوسرے کو معاف کرتے ہوئے، ایک دوسرے کے سر پر ٹوپی رکھ کر، گلے شکوے دور کر لیتے ہیں لیکن غریب عوام کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔ جب ان کی مرضی ہوتی ہے ملک کو دہشت گردی، اور معاشی بحالی کے دلدل میں چھوڑ کر خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لیتے ہیں اور جب ان کی مرضی ہوتی ہے، ایئر پورٹ پر ڈھول تماشوں کے ساتھ اپنا استقبال کرانے کے لیے تماش بین اکھٹا کر لیتے ہیں۔

اب جب کہ کسی نہ کسی صورت ملک میں جمہوری طریقے سے انتقال اقتدار ممکن ہوا تھا تو پانچ سال برداشت کی سیاست کیوں نہیں اپنائی جا رہی۔ ہمیں یہ سوچ لینا چاہیے کہ عالمی برادری ہماری جمہوریت کش روش پر ہماری کوئی مدد نہیں کرے گی۔ ملک کو داخلی طور پر انتشار و سیاسی بحران سے نکالنے کے لیے ہمیں از خود کردار ادا کرنا ہو گا۔ ہمیں ایسے لوگوں کو یکسر مسترد کر کے حکومت کو عدم استحکام کی جانب کرنے کی تمام سازشوں کو مسترد کرنا ہوگا۔

روایتی سیاست کو خیر باد کہنا ہو گا کیونکہ اس سے ملک کبھی پروان نہیں چڑھ سکتا۔ مملکت جس طرح معاشی اور بے امنی کا شکار ہے اس کی ہلکی جھلک عدم برداشت کی حامل سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے رویوں میں دیکھ رہے ہیں۔ عوام آخر کب تک اپنی جانوں کی قربانی اُن لوگوں کے لیے دیتے رہیں گے، جن کے نزدیک عوام کے مسائل کا حل نہیں بلکہ ان کے ''اپنے مسائل اور ان کا حل '' ہے۔

پشاور، کوئٹہ، کراچی سے لے کر ملک کے کونے کونے میں، انتہا پسندی کی آگ بھڑک رہی ہے جس پر موروثی سیاست کرنے والے سیاسی خاندان پٹرول ڈال کر، اپنے لیے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ موجودہ بحران، سیاسی ہو عدالتی ہو یا پھر شدت پسندی کا، شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

ہمیں اس شدت کو کم کرنے کے لیے ازخود ایک ایسا لا ئحہ عمل بنانا ہو گا کہ حکومت میں غریب ووٹر کے قریب المرگ وجود پر پیر رکھ کر ایئرکنڈیشنڈ ایوانوں میں جا کر عوام کو بھول جانے والوں کا احتساب کرنے میں دشواری نہ ہو۔ یقینی طور پر عوامی رٹ کو چیلنج کرنے والے، نہتے عوام سے زیادہ مضبوط ہونگے، لیکن عوام اتنے کمزور بھی نہیں ہیں۔ ان کا اصل امتحان شروع ہو چکا ہے۔ اب دیکھنا تو یہ ہے کہ پاکستانی قوم بھی کہیں روایتی، موروثی سیاست دانوں کی طرح بے حس و بے ضمیر ہے یا پھر واقعی شدت اختیار کرتے ہوئے اس بحران کو ختم کرنے کے لیے اپنے ضمیر کا درست استعمال کرے گی؟

ڈاکٹر طاہر القادری کی اے پی سی صرف ایک پھٹا ڈھول ہے، جو شخص اپنے گھر آئے مہمانوں کی عزت کا پاس نہیں رکھ سکتا وہ کل کچھ بھی کر سکتا ہے۔ کیا اے پی سی میں شرکت کرنے والی کوئی بھی سیاسی جماعت اس بات کی ضمانت دے سکتی ہے کہ طاہر القادری کا ایسا دشنام خیز رویہ ان کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ یقینی طور پر کوئی بھی سیاسی جماعت اس بات کی ضمانت نہیں دے گی بلکہ میرے نزدیک انھیں تو اس بات کا ڈر ہو گا کہ کہیں اے پی سی میں یا لائیو پریس بریفنگ میں اس بار اُن کا نمبر نہ آ جائے، اس لیے عدم برداشت کی سیاست کرنے والے طاہر القادری سے کچھ بعید نہیں کہ ان کا پل میں تولہ، پل میں ماشہ رویہ کیا رنگ لائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں