ملک کے خراب ہوتے حالات
بلوچستان ، خیبر پختون میں امن وامان کے بدترین حالات اور دہشت گردی کا منظر نامہ زیادہ بالادست نظر آتا ہے
بنگلہ دیش میں حکومت کے خلاف ڈھاکہ اور دیگر شہروں میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں، ان مظاہروں میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ بنگلہ دیش میں پڑھے لکھے نوجوانوں میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے ، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کو زیادتی اور خلاف انصاف سمجھتے ہیں۔یوں بنگلہ دیش میں طلبہ اور بیروزگار نوجوانوں میں کافی مایوسی اور غصہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
بنگلہ دیش میں حکمران اتحاد سیاسی اور معاشی مسائل کا ادراک نہیں کر پا رہا ، سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف حالیہ مظاہروں کو حکومتی طاقت سے قابو پانے کی کوشش کی گئی لیکن معاملہ بگڑتا چلا گیا۔ بنگلہ دیش کے اپوزیشن اتحاد نے نوجوانوں کے ان مظاہروں کا ساتھ دیا ہے۔ بنگلہ دیش حکومت کی سخت گیر حکمت عملی کا بڑا شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
بنگلہ دیش میں اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتیں جن میں بی این پی اور جماعت اسلامی شامل ہیں، وہ حکمران اتحاد پر دھاندلی کی بنیاد پر الیکشن جیتنے کا الزام عائد کرتی ہیں۔ ادھر حسینہ واجد کی سربراہی میں حکمران اتحاد سیاسی مخالفین کو طاقت کی بنیاد پر کچلنے کی پالیسی پر کاربند ہے ۔ سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینا ، انتخابات سے سیاسی مخالفین کو باہر رکھنا ،مخالفین کو جیلوں میں رکھنا ، حکومت مخالف میڈیا اور صحافیوں پر پابندیاں اسی کھیل کا حصہ ہیں ۔
پاکستان کے حالات کو دیکھیں تو یہاں بھی معاشی بدحالی اور سیاسی تنازعات کی وجہ سے عوام میں خاصی مایوسی پھیل رہی ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے، وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عدلیہ کے فیصلوں سے خوش نہیں ہیں ۔ پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی یا ہم خیال جماعتیں جن میں مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی ، محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی پارٹی،ایک مسلکی سیاسی جماعت مجلس وحدت المسلمین، ایک اور مسلکی اتحاد سنی اتحاد کونسل اور جماعت اسلامی شامل ہیں، یہ سب موجودہ حکومت کو عوامی مینڈیٹ سے محروم حکومت قرار دے رہی ہیں۔
اپوزیشن اتحاد وفاقی حکومت ، سندھ حکومت اور پنجاب حکومت کو جعلی،غیرمنتخب اور دھاندلی کی پیداوار قرار دیتا ہے ۔ اپوزیشن فوج کو بھی نشانے پر رکھ کر الزامات عائد کرتی ہے کہ اس نے مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کو جعلی مینڈیٹ دلوایا ہے۔ ادھر اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے اور اس کے بانی پر غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کر رکھا ہے ، یوں ہمارے حالات درست ہونے کے بجائے خراب ہو رہے ہیں۔ لیکن حکومت بضد ہے کہ کچھ نہیں ہو رہا اور ملک سیاسی و معاشی بنیادوں پر درست سمت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
مالیات کا جائزہ لینے والی عالمی ریٹنگ ایجنسی فنچ نے بھی سیاسی عدم استحکام ، کمزور معیشت بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ کی موجود گی کا اعتراف کیا ہے، اور خبردار کیا ہے کہ حکومت مالی برس 2024-25 کے معاشی و بجٹ اہداف حاصل نہیں کرسکے گی ۔ اس سے قبل عالمی ادارے موڈیز کی رپورٹ میں خبردار کیاگیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے سماجی تناؤ بڑھنے کے خدشات ہیں۔اسی طرح ان کے بقول کمزور گورننس کا نظام بھی پاکستان کے آگے بڑھنے میں بہت سی رکاوٹوں کو مزید پیدا کرسکتا ہے۔پاکستان میں سیاسی تقسیم اس حد تک گہری ہوگئی ہے کہ یہ عمل محض سیاست تک محدود نہیں رہا بلکہ سماج سمیت ریاست کے اداروں میں بھی تقسیم نظر آتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آئین ، قانون ، جمہوریت اور ریاستی نظام مفلوج ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔
بلوچستان ، خیبر پختون میں امن وامان کے بدترین حالات اور دہشت گردی کا منظر نامہ زیادہ بالادست نظر آتا ہے ۔اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کا حزب اختلاف یا پی ٹی آئی کے ساتھ تعلق میں سردمہری یا غیر سیاسی حکمت عملیوں کا ہونا بھی سیاسی مسائل کو ابھار رہا ہے ۔ اسٹیبلیشمنٹ کو گلہ ہے کہ ایک مخصوص جماعت یعنی پی ٹی آئی ریاست مخالف بیانیہ بنا کر ریاستی مفادات کو چیلنج کررہی اور اس کا بڑا ہتھیار ''ڈیجیٹل دہشت گردی'' ہے ۔اسٹیبلیشمنٹ میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ حکومت میں شامل تمام جماعتیں ریاستی بیانیہ کا ساتھ دینے کی بجائے اپنے گروہی مفادات کے ساتھ کھڑی ہیں۔ان کے بقول جو کچھ ریاستی اداروں کے ساتھ منفی طرز عمل اختیار کیا جارہا ہے۔
اس پر حکومت خاموش یا کمزور ردعمل دیتی نظر آتی ہے ۔حکومتی کمزور بیانیہ نے مسائل کو اور زیادہ گھمبیر بنا دیا ہے ۔لوگوں میں معاشی اور سیاسی سطح پر ایک غیر یقینی کی کیفیت ہے ۔تقریباً 12لاکھ نوجوان ایک برس میں ملک چھوڑ چکے ہیں ۔ لوگوں میں غصہ بھی ہے اور مایوسی کی کیفیت بھی ۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ حکومت اپنے معاملات میں بے بس نظر آتی ہے ۔حکومتی بے بسی یہ ہے کہ اس کے پاس بھی معیشت کو ترقی کے راستے پر ڈالنے کا کوئی واضح روڈ میپ نہیں ہے ،جہاں وہ کوئی سخت گیر فیصلے کرسکے یا کوئی غیر معمولی کارکردگی یا فیصلوںکو یقینی بناسکے ۔مگر جب یہ لاوا پھٹے گا تو پھر کیسے اس بحران سے نمٹا جائے گا یہ خود ایک بڑا سوال ہے۔ مسئلہ محض حکومت کے سیاسی مخالفین کا نہیں ہے اورنہ ہی اس بحران کو ایک جماعت کی بنیاد پر دیکھا جائے بلکہ یہ ایک مجموعی بحران ہے ۔ معاشرے میں موجود تمام طبقات یا اوپر سے لے کر نچلی سطح تک ایک غیر یقینی کیفیت کا ماحول ہے ۔
ان حالات کی بنیاد پر کون باہر سے آکر سرمایہ کاری توکجا ملک کے اندر سے بھی کوئی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ تمام کاروباری طبقات یا صنعت کار جو معیشت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے بقول آئی پی پیز اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔ جو انکشافات سننے کو مل رہے ہیں اور محض کپیسٹی کی بنیاد پر اربوں روپے کی ادائیگیوں نے سب کو ہی حیران کردیا ہے۔کاروباری طبقہ اور حکومت میںشامل وزرا یہ اعتراف کررہے ہیں کہ ان حالات میں پاکستان میںداخلی و خارجی کوئی بھی سرمایہ کاری کا امکان نہیں۔ اس لیے پاکستان کے داخلی حالات کا درست تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
جذباتیت اور خوشنما نعروںکی بنیاد پر خراب حالات کا علاج ممکن نہیں ۔اس لیے موجودہ ریاستی و حکومتی سطح پر پالیسیوں میں نظرثانی کی ضرورت ہے ۔ہم پہلے ہی اپنے لیے کافی مسائل پیدا کرچکے ہیں اور اس کا براہ راست نقصان ملک کو ہورہا ہے ۔مسئلہ کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ تمام فریقین کو سمجھنا ہوگا کہ موجودہ حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنے کا نتیجہ مزید سیاسی اور معاشی بحران کی لکیروںکو گہرا کرے گا۔اس سے پہلے کہ لوگوں میںکوئی بڑا ردعمل پیدا ہو اور ملک کے نظام میں کوئی بڑا انتشار یا ٹکراؤ دیکھنے کو ملے ہمیں اپنی اصلاح کی طرف بڑھنا ہوگا۔پہلے ہی ہمارا داخلی مقدمہ کمزور ہورہا ہے اور اگر ہم نے حالات سے سبق نہ سیکھا تو ہم ملک کو مزید کمزور کرنے کے اسباب پیدا کریں گے۔
بنگلہ دیش میں حکمران اتحاد سیاسی اور معاشی مسائل کا ادراک نہیں کر پا رہا ، سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف حالیہ مظاہروں کو حکومتی طاقت سے قابو پانے کی کوشش کی گئی لیکن معاملہ بگڑتا چلا گیا۔ بنگلہ دیش کے اپوزیشن اتحاد نے نوجوانوں کے ان مظاہروں کا ساتھ دیا ہے۔ بنگلہ دیش حکومت کی سخت گیر حکمت عملی کا بڑا شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
بنگلہ دیش میں اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتیں جن میں بی این پی اور جماعت اسلامی شامل ہیں، وہ حکمران اتحاد پر دھاندلی کی بنیاد پر الیکشن جیتنے کا الزام عائد کرتی ہیں۔ ادھر حسینہ واجد کی سربراہی میں حکمران اتحاد سیاسی مخالفین کو طاقت کی بنیاد پر کچلنے کی پالیسی پر کاربند ہے ۔ سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دینا ، انتخابات سے سیاسی مخالفین کو باہر رکھنا ،مخالفین کو جیلوں میں رکھنا ، حکومت مخالف میڈیا اور صحافیوں پر پابندیاں اسی کھیل کا حصہ ہیں ۔
پاکستان کے حالات کو دیکھیں تو یہاں بھی معاشی بدحالی اور سیاسی تنازعات کی وجہ سے عوام میں خاصی مایوسی پھیل رہی ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے، وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ عدلیہ کے فیصلوں سے خوش نہیں ہیں ۔ پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی یا ہم خیال جماعتیں جن میں مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی ، محمود خان اچکزئی کی پختونخوا ملی پارٹی،ایک مسلکی سیاسی جماعت مجلس وحدت المسلمین، ایک اور مسلکی اتحاد سنی اتحاد کونسل اور جماعت اسلامی شامل ہیں، یہ سب موجودہ حکومت کو عوامی مینڈیٹ سے محروم حکومت قرار دے رہی ہیں۔
اپوزیشن اتحاد وفاقی حکومت ، سندھ حکومت اور پنجاب حکومت کو جعلی،غیرمنتخب اور دھاندلی کی پیداوار قرار دیتا ہے ۔ اپوزیشن فوج کو بھی نشانے پر رکھ کر الزامات عائد کرتی ہے کہ اس نے مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کو جعلی مینڈیٹ دلوایا ہے۔ ادھر اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی عائد کرنے اور اس کے بانی پر غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان کر رکھا ہے ، یوں ہمارے حالات درست ہونے کے بجائے خراب ہو رہے ہیں۔ لیکن حکومت بضد ہے کہ کچھ نہیں ہو رہا اور ملک سیاسی و معاشی بنیادوں پر درست سمت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
مالیات کا جائزہ لینے والی عالمی ریٹنگ ایجنسی فنچ نے بھی سیاسی عدم استحکام ، کمزور معیشت بیرونی ادائیگیوں کے دباؤ کی موجود گی کا اعتراف کیا ہے، اور خبردار کیا ہے کہ حکومت مالی برس 2024-25 کے معاشی و بجٹ اہداف حاصل نہیں کرسکے گی ۔ اس سے قبل عالمی ادارے موڈیز کی رپورٹ میں خبردار کیاگیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی میں مسلسل اضافے کی وجہ سے سماجی تناؤ بڑھنے کے خدشات ہیں۔اسی طرح ان کے بقول کمزور گورننس کا نظام بھی پاکستان کے آگے بڑھنے میں بہت سی رکاوٹوں کو مزید پیدا کرسکتا ہے۔پاکستان میں سیاسی تقسیم اس حد تک گہری ہوگئی ہے کہ یہ عمل محض سیاست تک محدود نہیں رہا بلکہ سماج سمیت ریاست کے اداروں میں بھی تقسیم نظر آتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آئین ، قانون ، جمہوریت اور ریاستی نظام مفلوج ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔
بلوچستان ، خیبر پختون میں امن وامان کے بدترین حالات اور دہشت گردی کا منظر نامہ زیادہ بالادست نظر آتا ہے ۔اسٹیبلیشمنٹ اور حکومت کا حزب اختلاف یا پی ٹی آئی کے ساتھ تعلق میں سردمہری یا غیر سیاسی حکمت عملیوں کا ہونا بھی سیاسی مسائل کو ابھار رہا ہے ۔ اسٹیبلیشمنٹ کو گلہ ہے کہ ایک مخصوص جماعت یعنی پی ٹی آئی ریاست مخالف بیانیہ بنا کر ریاستی مفادات کو چیلنج کررہی اور اس کا بڑا ہتھیار ''ڈیجیٹل دہشت گردی'' ہے ۔اسٹیبلیشمنٹ میں یہ سوچ بھی موجود ہے کہ حکومت میں شامل تمام جماعتیں ریاستی بیانیہ کا ساتھ دینے کی بجائے اپنے گروہی مفادات کے ساتھ کھڑی ہیں۔ان کے بقول جو کچھ ریاستی اداروں کے ساتھ منفی طرز عمل اختیار کیا جارہا ہے۔
اس پر حکومت خاموش یا کمزور ردعمل دیتی نظر آتی ہے ۔حکومتی کمزور بیانیہ نے مسائل کو اور زیادہ گھمبیر بنا دیا ہے ۔لوگوں میں معاشی اور سیاسی سطح پر ایک غیر یقینی کی کیفیت ہے ۔تقریباً 12لاکھ نوجوان ایک برس میں ملک چھوڑ چکے ہیں ۔ لوگوں میں غصہ بھی ہے اور مایوسی کی کیفیت بھی ۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ حکومت اپنے معاملات میں بے بس نظر آتی ہے ۔حکومتی بے بسی یہ ہے کہ اس کے پاس بھی معیشت کو ترقی کے راستے پر ڈالنے کا کوئی واضح روڈ میپ نہیں ہے ،جہاں وہ کوئی سخت گیر فیصلے کرسکے یا کوئی غیر معمولی کارکردگی یا فیصلوںکو یقینی بناسکے ۔مگر جب یہ لاوا پھٹے گا تو پھر کیسے اس بحران سے نمٹا جائے گا یہ خود ایک بڑا سوال ہے۔ مسئلہ محض حکومت کے سیاسی مخالفین کا نہیں ہے اورنہ ہی اس بحران کو ایک جماعت کی بنیاد پر دیکھا جائے بلکہ یہ ایک مجموعی بحران ہے ۔ معاشرے میں موجود تمام طبقات یا اوپر سے لے کر نچلی سطح تک ایک غیر یقینی کیفیت کا ماحول ہے ۔
ان حالات کی بنیاد پر کون باہر سے آکر سرمایہ کاری توکجا ملک کے اندر سے بھی کوئی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ تمام کاروباری طبقات یا صنعت کار جو معیشت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کے بقول آئی پی پیز اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے ۔ جو انکشافات سننے کو مل رہے ہیں اور محض کپیسٹی کی بنیاد پر اربوں روپے کی ادائیگیوں نے سب کو ہی حیران کردیا ہے۔کاروباری طبقہ اور حکومت میںشامل وزرا یہ اعتراف کررہے ہیں کہ ان حالات میں پاکستان میںداخلی و خارجی کوئی بھی سرمایہ کاری کا امکان نہیں۔ اس لیے پاکستان کے داخلی حالات کا درست تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
جذباتیت اور خوشنما نعروںکی بنیاد پر خراب حالات کا علاج ممکن نہیں ۔اس لیے موجودہ ریاستی و حکومتی سطح پر پالیسیوں میں نظرثانی کی ضرورت ہے ۔ہم پہلے ہی اپنے لیے کافی مسائل پیدا کرچکے ہیں اور اس کا براہ راست نقصان ملک کو ہورہا ہے ۔مسئلہ کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ تمام فریقین کو سمجھنا ہوگا کہ موجودہ حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنے کا نتیجہ مزید سیاسی اور معاشی بحران کی لکیروںکو گہرا کرے گا۔اس سے پہلے کہ لوگوں میںکوئی بڑا ردعمل پیدا ہو اور ملک کے نظام میں کوئی بڑا انتشار یا ٹکراؤ دیکھنے کو ملے ہمیں اپنی اصلاح کی طرف بڑھنا ہوگا۔پہلے ہی ہمارا داخلی مقدمہ کمزور ہورہا ہے اور اگر ہم نے حالات سے سبق نہ سیکھا تو ہم ملک کو مزید کمزور کرنے کے اسباب پیدا کریں گے۔